اس سے پہلی ملاقات تقریباً دس سال پہلے ایک چائے والے
ڈھابے پر ہوئ, سر کی ٹوپی, ریشم سی سیاہ مخمل ریش اور کندھے پر بچھا سرخ و
سفید دھاری دار رومال, اس کی بیس بائیس سالہ عمر کے قصے میں اچھی خاصی
مبالغہ آرائی کا باعث بن رہا تھا۔ ہم روزانہ یہیں رات گئے تک مرُورِ زمانہ
کی تلخیوں اور چیرہ دستیوں کو گرم چائے سے اٹھنے والی بھاپ میں تحلیل کرتے
رہتے۔ وہ سامنے محلے کی مسجد میں امام تھا۔ شہر کے ایک گوشے میں یہ غیر
مصروف سا کاروباری علاقہ رات دس بجے کے بعد سنساہٹ کا شکار ہونے لگتا۔ ایسے
میں واحد یہ چائے والا ڈھابہ ہی تھا جو بےگھونسلہ پنچھیوں کی طرح اڑتے ہوئے
پردیسیوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ کر دن بھر کی تکان اور ماندگی کو زائل کرنے
کا موقع فراہم کرتا۔
وہ قرآن کا حافظ اور قاری بھی تھا۔ اس کی شخصیت میں شرافت اور نفاست جیسے
کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ سفید باریش چہرہ اندھیرے میں چاند کی طرح دمک
رہا ہوتا, شروع شروع میں جب ہماری اس سے سلام دعا ابھی نہیں ہوئی تھی تو وہ
چائے کا کپ اٹھائے علیحدگی میں گم سم سا بیٹھا رہتا, پھر ایک دن میرے
باتونی دوست نے اس سے راہ و رسم نکال لی, روزانہ کی علیک سلیک کے بعد قربت
ایسی بڑھی کہ اب وہ سیدھا ہماری میز پر ہی آ بیٹھتا اور ہم چند گھنٹوں کے
لیے ہمنوالہ و ہم پیالہ ہو جاتے۔
ایک ایسے وقت میں جب نوخیز اٹھتی جوانیاں کسی حسنِ نشاط انگیز کی خاطر
ٹھنڈی آہیں بھر رہی ہوتی ہیں, اور جب ان کی رگیں ہجر و وصال کے تذکروں کے
سوا کسی شے سے تر نہیں ہو سکتیں, ایسے میں مسجد کی چاردیواری میں مقید یہ
نوجوان ملاّں زندگی کی رنگینیوں, رعنائیوں اور اٹکھیلیوں کے تذکرے پر جھینپ
سا جاتا, اور ہر بار بات کا رخ کسی اور جانب موڑ دیتا۔ عمر کے ایسے توانا
موڑ پر جب تخیل کا پیڑ گل و بلبل, لب و رخسار اور کسی ماٹی کے محبوب کے
عشوہ و ناز جیسے موضوعات سے سرسبز و شاداب ہوتا ہے, وہ مست شباب مولوی
جنسیت کے گرد و غبار سے خود کو آلودہ کرنے کے بجائے اپنے تصور و ادراک کے
نہاں خانوں میں حسن لافانی اور حقیقی صنم ساز کی شبیہ اور خط و خال سجائے
دکھائی دیتا۔ اس کے لبوں سے خیر بھلائی اچھائی اور سلامتی کی گل افشانی کے
علاوہ کبھی کچھ نکلتے نہ دیکھا, میرا دوست کچھ زیادہ ہی شوخ و طرار تھا, وہ
جان بوجھ کر ایسے رنگین و دلنشین موضوع چھیڑ کر اسے ہمیشہ چھیڑنے کی کوشش
میں رہتا اور اس کے مولویانہ پن پر تاک تاک کر نشانے لگاتا, بدلے میں اس کی
شرماہٹ و لجاجت سے ہم خوب لطف انداز ہوتے۔
وہ دور دراز کے کسی شہر کا رہنے والا تھا, اور ہماری طرح اسے بھی وبال معاش
نے یہاں لا پھینکا تھا۔ اس کی صاف گوئی, کسرنفسی اور اخلاق و کردار نے اسے
اپنے حلقہ احباب میں ایک منفرد مقام عطا کر رکھا تھا۔ وقت یونہی گزرتا رہا,
اور پھر ہم فضائے بے کنار میں اڑتے پرندوں کی طرح دانے دنکے کی تلاش میں
ادھر ادھر بکھر کر رہ گئے۔
کچھ دن پہلے ایک عرصہ بعد وہ سر راہ مجھے اسی شہر میں مل گیا۔ وہ ایک مسجد
میں جمعہ پڑھانے یہاں تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر کا سفر کر کے آتا تھا۔ رات
آٹھ بجے کا وقت تھا اور وہ جلدی میں پیدل تیز قدم اٹھائے چلا جا رہا تھا کہ
میری اس پر نظر پڑ گئی۔ ڈھیلے ڈھالے لباس میں وہی شیریں اور کھنکتی آواز,
چال ڈھال میں وہی شرافت اور نجابت, تندرست و توانا سڈول جسم, اگرچہ گزشتہ
عشرے میں دو تین بار ملاقات ضرور ہو چکی تھی, لیکن اس بار کچھ زیادہ ہی
گرمجوشی سے ملا۔ حال احوال پوچھنے پر وہ ادھر ادھر دیکھ کر میرے قریب ہوتے
ہوئے آہستگی سے بولا؛ " ایک جگہ بات پکی ہو گئی ہے, اگلے ماہ تک نکاح کا
بھی امکان ہے, آپ نے ضرور آنا ہے"۔ میں نے حیرانگی اور استعجاب کے عالم میں
اس سے پوچھا " آپ نے پچھلی بار بھی یہی بات کی تھی, اور ہم انتظار ہی کرتے
رہے" اس نے ایک سرد آہ بھری اور نرم مخملی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا؛
" بھائی سچ کہا, اب آپ تو جانتے ہی ہیں, مساجد کے اماموں کی روٹیاں محلے کے
کچے پکے گھروں سے آتی ہیں, اور کپڑے جوتے عیدوں اور شب راتوں پر ہی ملتے
ہیں۔ اب کون ہے جو خوشی سے اپنی بیٹی کو محلے کے چوھدریوں راجوں اور
مہاراجوں کے منہ کا اگال کھلانے کے لیے ہم جیسوں کو سونپ دے۔ اس سے پہلے
کئی جگہوں پر بات طے ہوئی, لیکن پیشہ تجارت نہ ہونے کے سبب انکار کی ہزیمت
اٹھانا پڑی, اب کی بار بھی دعا کریں یہ لوگ بھی اپنی بات پر قائم رہیں"۔
خیر وہ تو چلا گیا, لیکن میں کافی دیر تک مبہوت وہیں کھڑا سوچتا رہا کہ یہ
جو آج کل مغربیت سے مرعوب یا احساس کمتری کا شکار, روشن خیالی کے اسیر, لٹھ
اٹھائے ہر وقت مولوی کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں, اور کسی ایک گلے سڑے سیب کو
اٹھا کر ساری پیٹی کو خراب اور عیب دار بنانے کی سعی لاحاصل میں جتے رہتے
ہیں, آخر کیوں نہیں سمجھ سکتے کہ جنسیت کی غلاظت سے پاک, ضبط و انضباط اور
لطافت و نفاست کے پیکر یہ لاکھوں اجسام بھی تو سراہے جانے کے لائق ہیں, جو
ہمیشہ اس بیمار ناپاک خواہشات نفسانی سے متعّفن اور آلودہ طرز معاشرت سے
اپنے دامن کو بچائے رکھتے ہیں؟ جہاں لاکھوں میں ایک کسی داڑھی دار جنسی
درندے کا الزام سارے مولویوں کے سر تھونپا جاتا ہے وہاں ایسے صاف شفاف اور
پاکیزہ کردار و اطوار کے حاملین کا کریڈٹ مولوی کو کیوں نہیں دیا جاتا کہ
یہ پہلو بھی تو مولوی ازم کا ہی حصہ ہے؟
مادیت اور شہوانیت کے جوار بھاٹے میں پھیلی بدبودار نفسانیت سے بچ کر عجز و
انکسار, قناعت و خودداری اور کسر نفسی کے خوشبودار آنچل اوڑھے یہ بے ضرر سے
لوگ بھی تو مساجد اور مدارس کے آنگنوں کے ہی پروردہ ہیں, جسم کے تمام شفاف
اور اجلے پن کو چھوڑ کر کسی معمولی حصے پر موجود ایک آدھ پھوڑا پھنسی دیکھ
کر سارے وجود کو داغ دار کہنا کا انصاف ہے؟ اور آخر میں آج یہ عقدہ بھی وا
ہو چکا تھا کہ یہ بہتر 72 حوروں والا انعام کہ جس پر یہ جنس کے سوداگر اکثر
آوازے کستے ہیں, ایسے ہی سیدھے سادھے بھلے مانسوں کے لیے ہے, اور بلاشبہ یہ
اجلی اور شفاف روحیں ہی اس کی مستحق ہیں۔
|