سپریم کورٹ میں سدرشن چینل کے پروگرام ”یو پی ایس سی
جہاد“ کے خلاف سماعت کے دوران جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس ایم کے جوزف اور
جسٹس اندو ملہوترہ کی بنچ نے میڈیا کے بارے میں تشویش کاا ظہار کرتے ہوئے
کہا کہ میڈیا کو تفتیشی صحافت کے نام پر کسی ایک فرقے کو بدنام کرنے کی
آزادی نہیں ہے ۔عدالت عظمیٰ کو اس قدر سخت تبصرہ کرنے کی ضرورت اس لیے پیش
آئی کہ مرکزی حکومت نےاس کے نوٹس کاجواب دیتے ہوئے لکھ دیا تھا الیکٹرانک
میڈیا کو نظم و ضبط کا پابند بنانے لیے اصول و ضوابط موجود ہیں اور وہ خود
کو نظم و ضبط کا پابند بناتا بھی ہے لیکن سوشل میڈیاکو کنٹرول کرنا ضروری
ہے۔اس تجویز کے حق میں یہ دلیل پیش کی گئی کہ واٹس ایپ، ٹوئٹر اور فیس بک
وغیرہ کے ذریعہ اطلاعات تیزی سے پھیلتی یا وائرل ہو جاتی ہیں۔ حکومتکے اس
موقف پر بائیں بازو کے دانشوروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ۔ ان بیچاروں کو
نہیں پتہ تھا کہ بہت جلد ملک کی واحد مارکسی حکومت کیا گل کھلانے والی ہے۔
سچ تو یہ ہے کیرالا حکومت کے حالیہ آرڈننس کو دیکھ کر یہی کہنا پڑے گا کہ
خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔
زعفرانیوں اور سرخوں ان دونوں میں فرق صرف سرمایہ داری کے پیلے پن کا ہے
ورنہ ا ن کی فطرت میں بلا کی یکسا نیت ہےکیونکہ زعفرانی میں سے پیلا رنگ
اگر الگ کردیا جائے تو سرخ رہ جاتا ہے۔ ویسے چینی اشتراکیت نے تو اس فرق کو
مٹا دیا خیر وہ دوسری بحث ہے۔مرکزی حکومت نےگودی میڈیا کو تو بس میں کرلیا
مگرچونکہ سماجی رابطے کے ذرائع ابلاغ پرقابو نہیں کرپارہی ہے اس نے ایک
حکمنامہ جاری کرکے آن لائن نیوز پورٹلز اور تفریحی مواد فراہم کرنے والی
سوشل سائٹس جیسے نیٹ فلکس ، ایمیزون پرائم ویڈیو اور ہاٹ اسٹارکو وزارت
اطلاعات و نشریات کے تحت لا نے کی غرض سے صدر رام ناتھ کووند کا دستخط شدہ
اعلامیہ جاری کردیا ۔ اس حکومتی ضابطے کے دائرے میں فیس بک ، ٹویٹر اور
انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بھی شامل کیا گیا ۔ اب آن لائن
پلیٹ فارمز پر نشر ہونے والی فلمیں ، خبریں اور حالاتِ حاضرہ پر تبصرے
وزارت کے دائرہ کار میں آئیں گے۔
اس سے پہلے کی صورتحال یہ تھی کہ جہاں پریس کونسل آف انڈیا پرنٹ میڈیا کی
اور نیوز براڈکاسٹرس ایسوسی ایشن نیوز چینلز کی نگرانی کرتا تھا
ایڈورٹائزنگ اسٹینڈرز کونسل آف انڈیا اشتہارات و سینٹرل بورڈ فلم
سرٹیفیکیشن فلموں کی توثیق کرتالیکن قبل ڈیجیٹل میڈیا کو خود مختار سمجھا
جاتاتھا۔اب اس پر بھی نکیل کسنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔وزارت اطلاعات و
نشریات کےتحت قواعدوضابطے1961 کے شیڈول میں نو بڑے زمرے ہیں جن میں نشریاتی
پالیسی اور انتظامیہ، کیبل ٹیلی ویژن پالیسی، ریڈیو، دوردرشن، فلمیں،اشتہار
اور ویڈیو اشتہار، پریس،اشاعت، اورریسرچ وریفرنس شامل ہیں۔ سوشیل میڈیا کو
اس کے تحت لانے والے مرکزی حکومت کے حکمنامہ کا نہایت دلچسپ پہلو یہ ہے کہ
آن لائن پلیٹ فارمز پرمواد فراہم کرنے والوں کو ‘پریس’کے بجائے ‘فلم’کے
ذیلی زمرہ میں رکھا گیا ہے۔
اس میں شک نہیں ٹیلی ویژن چینلس کی خبریں اور مباحثے ً آج کل خالص تفریح
کا ذریعہ بن گئے ہیں لیکن سوشیل میڈیا کا معاملہ مختلف ہے ۔ اس پر بہت سارا
مواد نہایت سنجیدہ اور غیر جانبدارانہ خبررسانی پر مشتمل ہوتا ہے اس لیے
اسے ‘فلم‘ کے زمرے میں ڈال دینا سراسرزیادتی ہے۔آن لائن میڈیا کو ریگولیٹ
کرنے کا آغاز ڈھائی سال قبل مارچ 2018 میں سابق وزیراطلاعات ونشریات سمرتی
ایرانی نے کیا تھا۔ ان کےزمانے میں ایک سرکولر جاری کرکے یہ دھمکی دی گئی
تھی کہ پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں فرضی خبروں کو روکنے کے لیے شکایت ملنے
پران کی منظوری فوراًرد کر دی جائےگی۔ بدنامِ زمانہ آئی ٹی سیل کے ذریعہ
ہر روز ایک نئی جعلی خبر پھیلانے والوں کے منہ سے یہ باتیں مضحکہ خیزلگتی
تھیں خیر وزیراعظم کے دفتر کی دخل اندازی نے اسے ٹھنڈےبستے میں ڈال دیا ۔
دہلی کی نیشنل لاء یونیورسٹی میں سینٹر فار کمیونی کیشن گورننس(سی سی جی)
نے اس موضوع پر تحقیق کرکے تین سال پہلے یہ انکشاف کیا تھا کہ آن لائن پلیٹ
فارم پرپہلے سے ہی بہت زیادہ نظم و ضبط کے پابندیاں موجود ہیں۔آن لائن
پورٹل کو آئی ٹی ایکٹ، 2000 کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا ہے۔آئی ٹی ایکٹ کی
دفعہ69 اے کے تحت آن لائن مواد پوری طرح سے ہٹائے جا سکتے ہیں۔ حالانکہ، اس
دفعہ کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تو اس کے کچھ اجزاء کو غیر آئینی قرار
دیا گیا اس کے باوجود حکومت کے پاس فی الحال آن لائن مواد کوروکنے،چھانٹنے
اور ہٹانے بلکہ انٹرنیٹ کی رسائی تک سے محروم کرنے کا اختیار موجودہے۔ اس
کا بدترین مظاہرہ وادی کشمیر می طویل عرصے تک دیکھنے کو ملا ۔ سی سی جی
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھاکہ آن لائن میڈیا کےمواد قابو میں کرنے والا
قانون یو پی اے سرکار نے بنایا تھا جسے این ڈی اے حکومت پہلے تو آگے
بڑھایا اب سخت کررہی ہے۔
مرکزی حکومت کے حالیہ فیصلے مخالفت سب سے پہلے مارکسی کمیونسٹ پارٹی (سی پی
آئی۔ ایم) نے کی۔ مذکورہ اعلامیہ کی مخالفت کرتے ہوئے اس نےکہا کہ حکومت اب
اس میڈیا پر بھی قبضہ کرنا چاہتی ہے ۔پارٹی پولٹ بیورو کے مطابق حکومت کی
جانب سے تمام ڈیجیٹل اورآن لائن میڈیا اور دیگر ذرائع کو وزارت اطلاعات و
نشریات کے تحت لانے کے لئے جو اعلامیہ جاری کیا ہے اس سے اس کی یہ نیت
ظاہرہوتی ہے ۔اس نے پہلے ہی بڑی حد تک پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو قبضے
میں لے رکھا ہے اورابپورے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے ۔پارٹی نے
اس سرکاری اقدام کی مخالفت کا عندیہ بھی دیا۔10 نومبر کو صدر مملکت نے
مرکزی حکومت کے حکمنامہ پر دستخط کیے اور 22 نومبر کو کیرلا کے گورنر عارف
محمدخان نے لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ کی سرکار کے اسی طرح کے متنازع بل کو
منظوری دے دی۔ اس کے تحت کیرلا پولیس ایکٹ میں ترمیم کرکے کسی بھی‘توہین
آمیز’سوشل میڈیا یا سائبر پوسٹ کے لیے صارف کو جیل بھیجنے کا اہتمام کردیا
گیا ۔
کیرلا پولیس ایکٹ میں نئی دفعہ118(اے)کا اضافہ کرنےکے بعد کسی بھی شخص کو
توہین کرنے یا دھمکی دینے کے ارادے سے کئے گئے پوسٹ پر تین سال کی قیدیا
10000 روپے کا جرمانہ یا دونوں کی سزا ہو سکتی ہے۔ کیرالا حکومت کا یہ
حکمنامہ تو مرکز کے فیصلے سے بھی دو قدم آگے ہے۔ اس قانون سے اظہار رائے
کی آزادی کو سنگین خطرات لاحق ہونے کا شدید اندیشہ ہے کیونکہ یہ پولیس کو
میڈیا کی آزادی کم کرنے کے اختیارات فراہم کرتا ہے ۔مرکزی حکومت کی نقل
کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنرائی وجین نے بھی اسے سوشل میڈیا پر بڑھتے توہین
آمیز پوسٹ کے پیش نظر کیا جانے والا فیصلہ بتایا دیا۔کیرالا کے وزیر اعلیٰ
اس بات کو بھول گئے کہ پانچ سال قبل کیرلا پولیس ایکٹ کی دفعہ118(ڈی) کے
خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا گیا تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ نے اسے ااظہار
رائے کی آزادی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی قرار دے کر خارج کر دیا تھا۔
اس قانون کی پیش بندی کے طور پر گزشتہ ماہ کیرلا سرکار نے ہائی کورٹ کے
ذریعہ سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت پھیلانے والے لوگوں کے خلاف ریاستی پولیس
کو قدم اٹھانے کی ہدایت کا جواز پیش کیا اور اس کی آڑ میں اپنے گھناونے
مقاصد کی تکمیل کا انتظام کرلیا ۔ ویسے سال 2015 میں دفعہ118(ڈی)کے خلاف
سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرنے والے وکیل انوپ کمارن ، اس بل کے خلاف بھی
ہائی کورٹ میں عرضی دائر کر نے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ انوپ کمارن کے مطابق
سرکار کا دعویٰ تو یہ ہے کہ دفعہ118(اے) عوام الناس اور خواتین کو سوشل
میڈیا کے غلط استعمال سے بچانے کے لیے ہے، لیکن حکومت اس نئے قانون کا
استعمال اپنے ناقدین اور مخالفین کے خلاف کرے گی ۔ اس معاملے میں پولٹ
بیورو کا رویہ منافقانہ ہے کیونکہ اگرایک کام مرکزی حکومت کرے تو اس کی
مخالفت اوروہی اپنی ریاستی سرکار کرے خاموشی کیا معنیٰ؟ گورنر سے دستخط
کروا لینے کے بعد جب بہت دباو آیا تو وزیر اعلیٰ نے اس پر عمل در آمد کو
رکوا دیا اور ایوان اسمبلی میں تفصیلی گفتگو کے بعد آگے بڑھنے کا اعلان
کیا۔ کاش کے کہ پنرائی وجین فیصلہ کرنے سے قبل اپنی پارٹی میں مشورہ کرتے
تو اس رسوائی سے بچ جاتے لیکن جو ذلت مقدر میں لکھی ہو اس سے بھلا کیسے بچا
جاسکتا ہے؟
|