لفظ، زبان اور ادب‘تصنیف اکرم کُنجاہی
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
لفظ، زبان اور ادب‘تصنیف اکرم کُنجاہی ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی لفظ،زبان اور ادب، اکرم کُنجاہی صاحب کی تحقیق و تنقید کی تصنیف ہے۔آپ نے یہ تصنیف کوئی تین ماہ قبل بذریعہ ڈاک ارسال کی تھی بلکہ اس کے ساتھ ایک اور تصنیف’نسائی ادب اور تانیثیت“ بھی تھی۔ نسائی ادب اور تانیثیت پر میں اظہار خیال کرچکا ہوں، اس سے بھی قبل ان کے شعری مجموعے ”دامن صدچاک“ اور”راغب مُراد آبادی (چند جہتیں) پر بھی بساط بھر اظہار خیال کیا تھا۔ لفظ،زبان اور ادب جب مجھے موصول ہوئی تو، الٹ پلٹ کر ظاہری حسن سے لطف لے ہی رہا تھااُسی لمحہ کتاب کے سرورق کے بعد جب کتاب کے بیک پر نظر پڑی تو اکرم کُنجاہی صاحب کی تصویر کے نیچے ایک مختصر پیراگراف درج دیکھا، سوچا مختصر ہے ابھی پڑھ لیتا ہوں۔ جیسے جیسے پڑتا جارہا تھا وہ تحریر مجھے اپنے حصار میں لیتی محسوس ہوئی چند سطر یں ہی پڑھیں محسوس ہوا کہ یہ تو کچھ کچھ میرے الفاظ ہیں، دفعتاً نیچے نظر گئی تو واقعی یہ پیرا گراف میرا ہی لکھا ہوا تھا۔ اکرم کنجاہی صاحب کی محبت، چاہت اور احترام کہ انہوں نے میرے ایک مضمون سے یہ اقتباس اس کتاب کے بیک ٹائیٹل پر لگادیا۔ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ یہ پیراگراف میں نے اکرم کنجاہی صاحب سے پہلی ملاقات، ان کی فل بدی تقریر سننے کے بعد جو تاثر میرے ذہن میں ابھراتھا، جو کچھ میں نے ان کے بارے میں محسوس کیا،ان کی کتاب ’دامن صدچاک‘پر اپنی رائے بیان کی تھی۔ یہ چند جملے خالصتاً اکرم کُنجاہی صاحب کی شخصیت کے حوالے سے تھے۔ تو آئیے پہلے کرم کُنجاہی کے بارے میں میری رائے سماعت دیکھئے۔ پھر پیش نظر تصنیف پر گفتگو کو آگے بڑھائیں گے۔ ”اکرم کُنجاہی کراچی میں تیزو تند ہوا کے جھونکے کی مانند آئے اور یہاں کے علمی، ادبی حلقوں میں ایسے گھل مل گئے جیسے وہ برسوں کے ادبی دوست ہوں۔ ملنسار و ہمدر، خوش اخلاق و خوش گفتار، مجازاً متمدن، خلیق و شفیق، خوش بیان و شیریں سخن انسان ہیں۔ اکرم کُنجاہی صاحب سے میری پہلی ملاقات ایک ادبی تقریب میں ہوئی جسے بہت عرصہ نہیں ہوا۔ یہ تقریب تھی معروف ناول نگار و کالم نگار محترمہ نسیم انجم اور معروف کہانی کار، خاکہ نگار، سید محمد ناصر علی کی کتابوں کی تقریب اجراء جو 2مئی2019ء کو کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام پریس کلب میں منعقد ہوئی تھی، تقریب کی صدارت اکرم کُنجاہی صاحب نے کی تھی جب کہ مجھ ناچیز کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے کتاب پر کچھ کہنا تھا۔ یہاں میں نے انہیں پہلی مرتبہ کسی بھی علمی موضوع پر گرجتے،برستے اور شعلہ بیانی کرتے دیکھا، خوب بولتے ہیں، اچھا بولتے ہیں، تسلسل اور ربط کے ساتھ بولتے ہیں، موضوع کو مکمل گرفت میں رکھتے ہوئے بولتے ہیں، محسوس ہوتا ہے کہ موضوع پر مستعدی اور سج دھج کے ساتھ بولتے ہیں، ان کا حافظہ ماشاء اللہ غضب کا ہے“۔یہ میری عمومی رائے تھی اور ہے اکرم کُنجاہی صاحب کے بارے میں، یہ تحریر میرے اس تبصرہ میں بھی شامل ہے جو میں نے ان کے شعری مجموعے ”دامن صدچاک“ پر تحریر کی تھی۔ پیش نظر تصنیف ”لفظ، زبان اور ادب“ چار حصوں پر مشتمل ہے، ہر حصہ مختلف موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ پہلا’فکریات‘10مضامین پر مشتمل ہے، دوسرا خصوصی مطالعات کے عنوان سے ہے جس میں صرف دو مضامین کلیات شاعر صدیقی اور منیر صابری کے فکری زاویے کی تفصیل ہے، تیسرا شعریات ہے جس میں چار شعرا ء شاعر رومان (اختر شیرانی)، فکری و الوبیاتی تنوع کا شاعر(گلام محمد قاصر)، کہانی میری رودادِ جہاں (شکیب جلالی) اور وجدان سے تجربات کا سفر (رئیس فروغ)۔ چوتھا حصہ نثریات پر مشتمل ہے جو 10مضامین کا احاطہ کرتا ہے اس میں زیب اذکار حسین کا افسانوی تجربہ، جاذب قریشی، ڈاکٹر محسن مگھیانہ، محمد اسلام کی توٹرن کریسی، اشفاق ایاز کی افسانوی مزاج نگاری، اصغر خان کی ڈائری اور ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ بطور انشائیے کی مزاج آشنا شامل ہیں۔ تنقید کے حوالے اکرم کُنجاہی کا مضمون ”تیقن کی حقیقت یا گمان کا سراب“ تحقیق میں ڈوب کر لکھا گیا ہے۔ اس میں ان کی اس بات سے اتفاق کروں گا کہ ”ایک تخلیقی اور تحقیقی ذہن کے بغیر کوئی شخص اچھا تنقید نگار نہیں بن سکتا“۔ اس تحریر کے اختتام پر مولانا ظفر علی خان کا ایک خوبصورت شعر نقل کیا ہے۔ جب خدا بھی نہ لوگوں کی زباں ہی سے بچا ہم ہیں پھر کون کہ ہم پر کوئی الزام نہ ہو پیش نظر تصنیف کے دوسرے مضمون کا عنوان ہے ”نسائیت، تانیثیت اور فیمنزم“ یہ موضوع بہت وسیع اور اہم ہے۔اکرم کُنجاہی صاحب اس موضوع پر ایک مکمل کتاب بھی قلم بند کرچکے ہیں اور راقم نے اس پر صلاحیت بھر اظہار خیال بھی کیا تھا۔ اس حوالے سے اقبال کا شعر ہی کافی ہے جو اکرم کُنجاہی نے بھی اپنی تحریر میں لکھا ہے۔ ہند کے شاعر و صورت گرو و افسانہ نویس آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار ’لفظ، زبان اور لغت‘ کے عنوان سے مضمون میں بولی، زبان، لفظ، لغت کے بارے میں مختصر معلومات ملتی ہیں جیسے لغت کے اجزائے ترکیبی، لغت کی اہم اقسام کی مختصر تعریف درج کی گئی ہے۔ اسی جگہ ’تخیل، جذبہ و احساس اور شعری معیارات“ کو خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے۔ نثری نظم کے صنفی مباحت کے تحت نثری نظم پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ نثری نظم کے حوالے سے جو بات سب سے زیادہ زیر بحث آتی ہے وہ اس کے نام کے اعتبار سے ترکیب لفظی ومعنوی ہے۔ مختلف ناقدین نے اسے ’نثر لطیف‘، نثری شاعری‘، شاعرانہ نثر‘، منشائیہ‘، نثر پارے‘، جدید نثر‘، نثرِ جدید‘، نظمِ منشور‘، منشور نظم‘ کہا ہے۔ افسانہ اور جدید رجحانات‘ مصنف کا افسانہ کے حوالے سے معلوماتی تحریر ہے۔اصطلاحات سازی اور خوش فکری بھی ایک مضمون ہے جس میں اصطلاحات کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مختلف شاعروں کے خوش فکر ی کی مناسبت سے چند اشعار بھی مصنف نے شامل کیے ہیں جیسے غالب کا یہ شعر دیکھئے ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق نوحہ ئ غم ہی سہی نغمہ ئ شادی نہ سہی اقبال کا شعر ودائے غنچہ میں ہے راز آفرینشِ گُل عدم عدم ہے کہ‘ئینہ دارِ ہستی ہے ادب اور ادیب کے حوالے سے ایک مضمون ”ادب اور ادیب کے لیے لمحہ ئ فکر یہ“ میں ادب کے بارے میں لکھا ہے کہ ”ہمارے ہاں ادب کی کیفیت پھٹے غبارے سے زیادہ نہیں رہی“ بعد میں اس کی نت نئے وجوحات بھی بیان کی ہیں۔ ادب کے بازار میں مندی کا رجحان، ادب بھی بے سمتی کا شکاراور یہ بھی کہا کہ ہمارا ادیب بھی بڑے بے رحم دَور میں سانس لے رہا ہے“۔ اپنے مضمون ”بے ادبی کا فروغ“ میں فیس بُک کے فوائد اور نقصانات کی بات کی گئی ہے۔ ادبی سرگرمیوں اور ادیبوں کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے“خصوصی مطالعات میں ”شاعر صدیقی، منیرؔ صابری کے فکری زاویے کے عنوان سے منیر صابری کی شاعری پر تفصیلی مواد فراہم کیا ہے۔ تیسرے حصے شعریات میں ”شاعرِ رومان (اختر شیرانی)، فکری و اُسلوبیاتی تنوع کا شاعر (غلام محمد قاصر)،شکیب جلالی اوررئیس فروغ پر شاعری کے نقطہ نظر سے تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ تصنیف کا آخری حصہ نثریات کے عنوان سے ہے جس میں مختلف نثر نگاروں کی نثر کے حوالے سے بات کی ہے جیسے آغا گُل کا”دوستیں وڈھ“(فکشن)، افسانوی تجرید اور زیب اذکار حسین، وجدانی محسوسات کا افسانوی روپ، جاذب قریشی، ڈاکٹر محسن مگھیانہ کی شگفتہ بیانیا(فکا ہیات)، محمد اسلام کی یوٹرن کریسی، اشفاق ایاز کی افسانوی مزاح نگاری، اصغر خان کی ڈائری (فکاہیات) م،انشائیے کی مزاج آشنا ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ (فکاہیات) اور کراچی کاآشوب اور اُردو افسانہ جسے مضامین نے کتاب کی اہمیت و افادیت کو مالا مال کردیا ہے۔ کتب کی تدوین و اشاعت کے حوالے سے اکرم کنجاہی کی رفتارکو دیکھتے ہوئے یقین سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ بہت جلد اردو ادب کو بہترین ادب فراہم کرنے والے چند ادیبوں میں اپنے آپ کو شامل کر لیں گے۔ جو ایک خوش آئید بات ہے۔ اکرم کُنجاہی خوش نصیب ہیں کہ انہیں رنگ ادب پبلی کیشنز کے جناب شاعر علی شاعرجیسے کتاب دوست کی قربت حاصل ہوئی، ادبی موضوعات پر تصانیف کی اشاعت قابل ذکر کارنامہ ہے۔ ادب کے اہم موضوع پر ”لفظ، زبان اور ادب“ (تحقیق و تنقید) جیسی تصنیف جو اپنے موضوع پر مکمل اور وسیع معلومات فراہم کرتی ہے، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے،ادب کے قاری کے لیے، ادب کے محققین کے لیے ایک عمدہ تخلیق ہے اسے پاکستان کے ہر کتب خانے کی ذینت ہونا چاہیے۔ (7دسمبر2020ء)
|