پرائس مجستریٹس کا کام ان کے علاقے میں بڑھتی ہوئی
مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے ہر انتظامی آفیسر پرائس مجستریٹ نہیں ہوتا
ہے بلکہ حکومت کی طرف سے ان کو اس حوالے سے سپیشل اختیارات سونپے جاتے ہیں
جنہیں وہ استعمال میں لاتے ہوئے ناجائز منافع خوروں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف
کاروائیاں کرتے ہوئے ان کو جرمانے و سزائیں سناتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان
انتظامی افسران کے کچھ دائرہ کار بھی طے کیئے جاتے ہیں ان کی کچھ حدود بھی
مقرر کی جاتی ہیں جس کے اندر رہتے ہوئے وہ اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے
ہوئے اپنی اپنی مقرر کر دہ حدود میں کاروائی کرنے کے پابند ہوتے ہیں پرائس
مجستریٹ صاحبان کی قانونی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان کی کچھ اخلاقی ذمہ د
اریاں بھی ہوتی ہیں وہ جہاں بھی جائیں سب سے پہلے دکاندار حضرات کو اپنا
تعارف کروائیں کہ ہمیں گورنمنٹ کی طرف سے یہ اختیارات سونپے گئے ہیں ہمارا
کام آپ کو چیک کرنا ہے وہ دکانداروں کیلیئے خوف کی علامت نہ بنیں بلکہ یہ
جرمانے آرام اور اخلاقی دائرہ کار میں رہتے ہوئے بھی کیئے جا سکتے ہیں بعض
انتظامی آفیسرز اس قدر دھڑلے دار طریقے سے دکانداروں پر چڑھائی کر دیتے ہیں
جس سے وہ خوف کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ بعض جگہوں پر تو یہ بھی دیکھنے میں
آیا ہے کہ اکثر پرائس مجستریٹس اپنی گاڑیوں سے نیچے ہی نہیں اترتے ہیں وہاں
سے ایک پولیس والے کو بھیجتے ہیں جو سیدھی جرمانے کی چٹ کاٹ کر ان کے ہاتھ
میں تھما دیتا ہے اور دکاندار بے چارہ منہ دیکھتا رہ جاتا ہے کہ اس کے ساتھ
ہوا کیا ہے متعلقہ مجستریٹ کی یہ قانونی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بذات خود
دکاندار کے پاس جائیں اور اسے اس پر لگائے جانے والے الزام سے متعلق آگاہ
کریں ان کو ان کی غلطی بتائیں اور ثابت کریں کہ واقع ہی وہ اشیاء مقرر کر
دہ قیمت سے زائد میں فروخت کر رہے ہیں ان کو نہ صرف جرمانے کریں بلکہ ان کو
ان کی غلطی پر شرمندہ کریں اور ان کی غلطی کا احساس دلائیں دوسری طرف ہمارے
ہاں یہ رواج ہی نہیں ہے کہ کوئی بھی دکاندار اتنی جرات کرے کہ وہ کسی پرائس
مجستریٹ سے اتنا پوچھ ہی لیں کہ آپ کون ہیں اپنے اتھارٹی چیک کروائیں کہ آپ
واقع ہی پرائس مجستریٹ ہیں دکانداروں کو بھی اخلاقی جرآت کا مظاہرہ کرنا
چاہیئے کیوں کہ وہ کاروبار کر رہے ہیں کوئی چور نہیں ہیں کہ جو بھی آئے وہ
اس کے سامنے سر خم کر دیں ان کا اپنی غلطی بارے استفار کرنا ان کا قانونی و
اخلاقی حق بنتا ہے کیوں کہ وہ ٹیکس ادا کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ دکانداروں
کی یہ بھی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھی اس دوران اخلاقیات کو ہاتھ سے
نہ جانے دیں اپرائس مجستریٹ صاحبان کے ساتھ کوئی بھی غیر اخلاقی یا بدتمیزی
اور بدکلامی سے گریز کریں اگر ان کی غلطی بنتی ہے تو وہ اس کو تسلیم کریں
مجستریٹ بساحبان اور دکاندار حضرات کے درمیان تعارف نہ کرنے اور نہ کروانے
کی وجہ سے بعض اوقات جعلی پرائس مجستریٹ بھی جعلی جرمانے ڈال کر اپنی دیہا
ڑی لگا کر غائب ہو جاتے ہیں اور دکانداروں کو بہت بعد میں پتہ چلتا ہے کہ
ان کے ساتھ تو ہاتھ ہوگیا ہے اگر دونوں فریق صحیح طریقے سے اپنی اپنی
قانونی و اخلاقی ذمہ داریوں کا عملی مظا ہرہ کرنے کا رواج بنا لیں تو جعلی
لوگوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے اکثر اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے جب
پرائس مجستریٹ صاحبان دکانداروں پر اپنا رعب جمانے کی خاطر غیر اخلاقی
باتوں کا سہارا لیتے ہیں تو اس دوران لڑائی جھگڑے کی نوبت آ جاتی ہے اور
مجستریٹ اصلی ہونے کے باوجود اپنی عزت بچانے کی خاطر وہاں سے بھاگنے کو
ترجیح دیتے ہیں اور دفاتر مین پہنچ کر دکاندار پر کار سرکار میں مداخلت کا
مقدمہ درج کروا دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ شہر کے دکاندار
ہڑتال کر دیتے ہیں اور مجستریٹ کو مجبوری وہ کیس واپس لینا پڑ جاتا ہے اگر
تمام فریق اپنی قانونی ذمہ داریوں پر عمل پیرا رہیں تو اس طرح کے واقعات کی
نوبت ہی نہ پیش آئے جن کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ پیش آئے حکومت کو بھی
اس بارے قوانین میں تبدیلی لانا ہو گی کہ پرائس مجستریٹ صاحبان کو موقع پر
جرمانے وصول کرنے کا اختیار ہی ختم کر دیں بلکہ دکاندار جرمانے بینکوں کے
زریعے حکومت خزانے میں جمع اکروائیں کلرسیداں میں اس وقت 4پرائس مجستریٹ
موجود ہیں جن میں اسسٹنٹ کمشنر رمشا جاوید ، تحصیلدار محمود احمد بھٹی نائب
تحصیلدار مسعود احمد اور ٹی ایم اے کے سی ای او عمران اختر شامل ہیں ان کے
علاوہ ایک اور بھی اسپیشل پرائس مجستریٹ اسسٹنٹ ڈائریکٹر زراعت ( توسیع)
بشارت محمود اعوان بھی ہیں ان کے علاوہ کلرسیداں میں حکومت کی طرف سے اور
کوئی بھی پرائس مجستریٹ مقرر نہیں کیاگیا ہے امید کی جاتی ہے کہ مقر کردہ
پانچوں پرائس مجستریٹ عوام اور دکانداروں سے مکمل تعاون کریں گئے
|