پاکستان کی سیاست پر اہم تحقیق:۔۔۔۔۔ظفر اللہ خان جمالی مسلم لیگ (ق) کی طرف سے 23ِ نومبر2002 ءمیںوزارت اعظمیٰ کا منصب سنبھالنے والے۔۔۔۔۔ صدر پرویز مشرف اور وزیر خزانہ شوکت عزیز بہتر سمجھتے تھے جبکہ وزیر اعظم کی طرف سے پاکستانی عوام کیلئے کوئی انقلابی نوعیت کا فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ بلکہ بحیثیت جمہو ری وزیر اعظم ان کو حزب اختلاف کی طرف سے بھی بجٹ تجا ویز دی گئیں لیکن17 ِ جون 2003ءکو ان کو مسترد ہوتے دیکھ کر سینٹ میں حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ بعض حکومتی ارکان نے بھی احتجاج کیا ۔ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کے پاس شاید اتنے اختیارات ہی نہ تھا ۔۔۔۔۔۔۔ |
|
|
سابق وزیر ِاعظم پاکستان میر ظفر اللہ خان جمالی(1944 ءتا 2020ء) |
|
سابق وزیر ِاعظم پاکستان میر ظفر اللہ خان جمالی(1944 ءتا 2020ء) تحقیق وتحریر :عارف جمیل پاکستان کی سیاست پر اہم تحقیق: پاکستان کے 15 ویں وزیر اعظم اوربزرگ سئاست دان ظفر اللہ خان جمالی مسلم لیگ (ق) کی طرف سے 23ِ نومبر2002 ءمیںوزارت اعظمیٰ کا منصب سنبھالنے والے ظفر اللہ خان جمالی 1 سال 7 ماہ سے زائد عرصہ تک اس عہدے پر براجمان رہے۔وہ پاکستان کے 15 ویں وزیر اعظم تھے۔ میر ظفراللہ خان جمالی یکم جنوری 1944ءکو ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کا آغاز تو اپنے آبائی گاﺅں روجھان نصیر آباد سے ہوا جو کہ ڈیرہ اللہ یار سے تقریباً6 کلومیٹر دُور واقع ہے۔ ڈیرہ اللہ یار بلوچستان اور سندھ کی سرحد کا آخری شہر ہے۔ جیکب آباد سے یہ 16 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور دُنیا کا گرم ترین علاقہ ہے۔ کچھ مدت بعد اُنھیں گرائمر سکول کوئٹہ میں داخل کروا دیا گیا ۔ جہاں سے اُنھوں نے جونیئر کیمبرج کیا۔ جس کے بعد گھر والوں نے اُنکو مزید اعلیٰ درس گاہ میں بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ لارنس کالج، گھوڑا گلی، مری کا ایک بڑا نام تھا لہذا میر طفراللہ جمالی کو وہاں داخلہ مِل گیا۔ اُنھوں نے وہاں سے او۔لیول کا امتحان پاس کیا اور پھر اے۔لیول لاہور کے ایچی سن کالج سے پاس کیا۔ اُس دور میں جبکہ پاکستان میں اس نوعیت امتحان پاس کرنا کوئی آسان کام نہ تھا بلکہ اِس وجہ سے طلبہ کا رحجان ہی اِن امتحانات میں کم تھا۔لیکن ظفراللہ جمالی نے اپنی ذہنی صلاحیت اور قابلیت سے ایسا کر دِکھایا۔ اسکے بعد اُنھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے 1963ءمیں نمایاں پوزیسن بمعہ رول آف آنر کے ساتھ گریجویشن کی اور 1965ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم۔اے کا امتحان پاس کیا۔ میر ظفر اللہ جمالی کو تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف کھیل کھیلنے کا بھی شوق تھا ۔ اُنکی حیثیت ایک آل راﺅنڈر کھلاڑی کی سی تھی۔ یعنی ہاکی ، ٹینس اور فُٹ بال کھیلنے میں دِلچسپی رکھتے تھے لیکن پسندیدہ کھیل ہاکی ہی تھا اور اس لیئے 1961-65ءہاکی میں پنجاب یونیورسٹی کے بلیو ہولڈر رہے اور ہاکی ٹیم کے کپتان بھی۔ اُنھوں نے بحیثیت ہاکی کے کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی نمائندگی کی۔ اسطرح اُنکا طالب ِعلمی کا نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کا دور انتہائی شاندار اور ملک کے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں گزارا جس سے اُنکے خاندان والوں کو بھی اُنکا مستقبل روشن نظر آیا۔ جمالی قبیلہ ضلع نصیر آباد اور ضلع جعفر آباد کے علاقے میں آباد ہے اور میر ظفراللہ خان جمالی کا تعلق اس ہی قبیلے کے ایک جاگیر دار اور سیاسی گھرانے سے تھا۔ اُنکے والد کا نام حاجی شاہ نواز خان جمالی تھا اور اُنکا خاندان تقریباً چار سو سال سے بلوچستان کے اسی علاقے کے گرد و نواح میں آباد ہے جہاں میر ظفر اللہ جمالی کی پیدائش ہوئی ۔ اس خاندان کو زیادہ سیاسی شہرت میر جعفر خان جمالی اور میر مراد خان جمالی سے ملی۔پہلے اِن کا جھکاﺅکانگرس کی طرف تھا لیکن پھر جب میر جعفر خان جمالی نے تحریک ِپاکستان کیلئے بلوچستان سے اہم کردار ادا کیا تو وہ محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے ۔ اُنھوں نے اُس وقت کے شاہی جرگہ کے سردار نواب محمد خان جوگزئی کے ساتھ مِل کر اس معاملہ میں اہم فیصلہ کیا کہ وہاں کا جرگہ پاکستان میں شامِل ہو۔ میر مراد خان جمالی نے ایوب حکومت کے خلاف جمہوریت کی بحالی کیلئے اہم خدمات انجام دیں۔ اُنھیں محترمہ فاطمہ جناح نے اپنا بھائی کہتی تھیں۔ لہذا جب 1964ءمیں فیلڈ مارشل صدر ایوب خان نے صدارتی الیکشن کروانے اور پھر اُس میں خود حصہ بھی لینے کا اعلان کیا تو اُس وقت حزب ِ اختلاف میں کوئی ایسی شخصیت نہیں تھی جس کو پورے ملک میں صدر ایوب خان کے مقابلے میں عوام کی حمایت حاصل ہو۔ اس پر فیصلہ ہو ا کہ محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی اُمیدوار کی حیثیت سے ایوب خان کے مقابلے میں کھڑا کیا جائے لیکن وہ سیاست میں آنے کیلئے تیار نہیں تھیں۔ آخر میں میر مراد خان جمالی ان کے پاس گئے اور محترمہ فاطمہ جناح کو الیکشن لڑنے کیلئے تیار کیا۔ الیکشن میں تو اُنھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن اسکے نتیجے میں جمالی خاندان کو بھی اپنی کافی زرعی زمینوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ پھر جب7 ِ اپریل 1967ءکو میر مراد خان جمالی کا انتقال ہوا تو محترمہ فاطمہ جناح نے کہا کہ میرا دوسرا بھائی بھی میرا ساتھ چھوڑ گیا ۔ یکم اپریل 1970ءکو صدرجنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے مغربی پاکستان کے ون یونٹ کے حُکم کو ختم کرتے ہوئے اُس کے چار صوبے قائم کرنے کا اعلان کر دیا اور بلوچستان کو بھی صوبے کا درجہ دے دیا ۔ لسبیلہ اور نصیر آباد سب ڈوثرن کو بلوچستان میں شامِل کر لیا گیا۔ میر ظفر اللہ جمالی طالب ِعلمی کے زمانے میں ہی محترمہ فاطمہ جناح کے صدارتی انتخاب میں صدر فیلڈ مارشل ایوب خان مخالف مہم میں حصہ لے چکے تھے اور 1970ءتک اُن میں سیاسی پختگی بھی آ چکی تھی لہذا نیا صوبہ قائم ہونے کے بعد اُنھوں نے دسمبر 1970ءکے صوبائی انتخاب میں حصہ بھی لیا پر ہار گئے۔ اُنھوں نے ہمت نہ ہاری اور اگلے چند سالوں میں سیاست میں باقاعدہ حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس سلسلے میں اُنھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ مارچ 1977ءکے صوبائی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر میر ظفر اللہ جمالی بلوچستان اسمبلی کے رُکن منتخب ہو گئے اور اُنکو خوراک، شعبہءِاطلاعات اور پارلیمانی امور کا وزیر مقرر کیا گیا۔ صدر جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے زمانے میں اُن سے بہتر تعلقات کی وجہ سے 1979ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی الگ ہو گئے اور اسکے بعد 1980ءتا 1984ءمرکزی کابینہ میں پہلے وزیر ِمملکت برائے خوراک و زراعت اور کوآپریٹیو رہے اور پھر وزیر ِ بلدیات و دیہی ترقی رہے۔ اس دوران اُنھوں نے 1980ءمیں اقوام ِمتحدہ کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی ۔ 1981ءمیں اقوام ِ متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگر یکلچر آرگنائزیشن کی کانفرنس منعقد روم میں پاکستان کے وفد کی قیادت کیا۔ اُنھوں نے دو اور مواقع پر پاکستان کے وفود کی قیادت کی : ایک انقرہ ترکی میں اسلامک ایگر یکلچر کانفرنس میں اور دوسرا مجلس ِ شوریٰ کے21 ارکان کے ساتھ امریکہ میں 1982ءمیں۔ 1984ءمیں میر ظفر اللہ جمالی لاس اینجلس اولمپک گیمز کیلئے اُس پاکستان اولمپک گروپ کے چیف ۔ڈی۔میشن تھے جس میں سے پاکستان کی ہاکی ٹیم نے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ ضیاءحکومت کی طرف سے مارچ 1985ء میں منعقد ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں میر ظفر اللہ خان جمالی اپنے حلقے جعفرآباد صوبہ بلوچستان سے بِلامقابلہ قومی اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے۔ اُنھیں صدر جنرل ضیاءالحق کی طرف سے ملک کا وزیر ِاعظم نامزد ہونے کی باز گشت سُنائی دی لیکن چونکہ اُنکے مقابلے میں سندھ سے الہی بخش سومرو اور محمد خان جونیجو بھی اُمیدوار تھے لہذا قُرعہ محمد خان جونیجو کے نام نِکلا اور اُنھیں ضیاءحکومت نے وزیر ِاعظم نامزد کیا جنہوں نے مرکز میں حکومت بنائی اور میر ظفر اللہ خان جمالی کو اپنی کابینہ میںوزیر بنایا۔ 29ِمئی 1988ءکو جب صدرجنرل ضیاءالحق نے 1973ءکے آئین میں آٹھویںترمیم کے بعد آرٹیکل 58 ۔ بی (2) کے تحت وزیرِا عظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کرتے ہوئے وفاقی کابینہ ، قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا تو اُس کے بعد مرکز اور صوبوں میں آئندہ انتخابات تک نگران حکومتیں قائم کر دی گئیں۔ اس کیلئے صوبہ بلوچستان میں24 ِجون 1988ءکو میر ظفراللہ خان جمالی کو نگران وزیر ِاعلیٰ بنایا گیا۔ 17 ِ اگست 1988ءکو صدر جنرل ضیاءالحق کا ہوائی حادثہ میں انتقال ہو گیا جس کے بعد نومبر 1988ءکو ملک میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے اور مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنماءمحترمہ بے نظیر بھٹو نے حکومت بنائی جبکہ بلوچستان اسمبلی میں کسی پارٹی کو بھی ایسی واضح اکثریت حاصل نہ ہو سکی کہ وہ صوبے میں حکومت بنا سکے۔ ظفر اللہ خان جمالی اُن انتخابات میں آئی۔جے ۔آئی کی ٹکٹ پر قومی و صوبائی دونوں نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے اور تازہ ترین صورت ِحال میں قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ کر وزارت ِاعلیٰ حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہو گئے ۔ بلوچستان میںمخلوط وزارت بنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ۔ لیکن اُس میں بھی کون کس ساتھ دے والی پوزیشن تھی۔ جمعیت العمائے ِ اسلام کے مولانا درخواستی نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ حکومت بنانے میں نواب اکبر بگٹی کا ساتھ نہیں دیں گے ۔اس دوران مخلوط وزارت کیلئے دو گروپ سامنے آگئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے محمد خان باروزائی کو سپکر بھی منتخب کر لیا گیا۔ جس کے بعد جب وزارت ِ اعلیٰ کے عہدے کیلئے رائے شماری کروائی گئی تو دونوں نے گروپس کو 21 ، 21 ووٹ ملے۔ مولانا درخواستی نے رائے شماری میں حصہ نہ لیا تو اِس پر سپکر نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہوئے ظفراللہ خان جمالی کو کامیاب کروا دیا۔ اسطرح ایک مخلوط وزارت بن تو گئی اور وزیر ِ اعلیٰ کا عہدہ میر ظفراللہ خان جمالی کے پاس ہی رہا ۔ لیکن پھر صرف چند روز بعد ہی 15ِدسمبر 1988 ءکو صوبہِ بلوچستان کے گورنر جنرل موسیٰ خان نے بلوچستان کی مخلوط وزارت اور صوبائی اسمبلی کو اسمبلی کے ارکان کی نا اتفاقی کے باعث توڑ دیا ۔ بعدازاں ہائی کورٹ کے عدالتی فیصلے پر بلوچستان کی صوبائی اسمبلی بحال ہو نے پر نئی مخلوط وزارت نواب اکبر بگٹی نے بنائی تو پاکستان مسلم لیگ کے صدر محمد خان جونیجو نے اُنھیں پارٹی سے الگ کر دیا۔ لیکن اُنھوں نے اسکے بعد میاں نواز شریف کے دامن میں پناہ لی۔ اکتوبر 1990ءکے عام انتخابات میں میر ظفراللہ خان جمالی نے ایک دفعہ پھر آئی۔جے۔آئی اور نواب اکبر بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی کے مشترکہ اُمیدوار کے طور پر جعفر آباد کے حلقے سے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا لیکن پی ۔ڈی۔ اے کے اُمیدوار میر نبی بخش کھوسو سے شکست کھا گئے۔ دِلچسپ بات یہ سامنے آئی کے ظفراللہ خان جمالی نے اس شکست کا الزام نواب اکبر بگٹی اور ضلعی انتظامیہ پر لگایا۔ بہر حال اُنکا حکومت ِ وقت سے تعاون رہا اور اس لیئے اُنھوں نے ایک دفعہ پھر 1991ءمیں اقوام ِمتحدہ کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی ۔ بعدازاں محمد خان جونیجو کی وفات کے بعد جب میاں نواز شریف پاکستان مسلم لیگ کے صدر بنے تو پہلے تو اُنکو ٹیلی وثرن پر انٹرویو کے ذریعے خراج ِ تحسین پیش کیا لیکن بعد میں میاں نواز شریف کو پارٹی صدارت سنبھالنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ 1993ءکے سیاسی بحرا ن میں اُنھوں مسلم لیگ ( جونیجو) کی طرف سے میاں نواز شریف کے اقتدار کو ختم کرنے کیلئے اُس لابی کا بھر پور ساتھ دیا جو نواز حکومت ختم کرنے کیلئے کوشاں تھی۔ اسکے بعد جب اکتوبر 1993ءمیں ملک میں ایک دفعہ پھر عام انتخابات منعقد ہوئے تو اُنھوں نے ایک اکیلے آزاد اُمیدوار کی حیثیت سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑکرکامیابی حاصل کی جبکہ اُس وقت اُنکے پاس پاکستان مسلم لیگ ( جونیجو) کے سینئر نائب صدر کا عہدہ تھا۔ اگست 1990ءاور جولائی1993 میں بالترتیب محترمہ بے نظیر بھٹو اور میا ںنواز شریف کی حکومتیں ختم ہونے کے بعد اکتوبر 1993ءمیں ایک دفعہ پھر پاکستان پیپلز پارٹی اور اُسکی حلیف جماعتوں کی طرف سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہی مرکز میں حکومت بنائی اور نومبر 1993ءکے صدارتی انتخاب میں اپنے نامزد اُمیدوار سردار فاروق احمد خان لغاری کو بھی صدارتی عہدے کیلئے کامیاب کروا لیا۔ ظفراللہ جمالی اور صدرِ پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری کی بہت دوستی تھی لہذا زیادہ تر اخبارات میں یہی خبر آتی کہ دونوں چھٹی والے دِ ن شکار اور سیر و سیاحت اکٹھے ہی کرتے ہیں اور ایک دو اور حکومتی ارکان و دوست بھی ساتھ ہوتے ہیں۔ لیکن اس دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت پر بدعنوانی کے کچھ ایسے الزامات لگے کہ اُنکے اپنے منتخب صدر سردار فاروق احمد خان لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو 1973ءکے آئین کے آرٹیکل 58۔ بی۔ٹو کے تحت برطرف کر کے قومی اسمبلی توڑ دی اور نگران وزیر ِاعظم ملک معراج خالد کو مقرر کر کے ملک میں نئے انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔ صوبہ بلوچستان میں9 ِ نومبر 1997 ءکو ظفر اللہ خان جمالی کو نگران وزیر ِاعلیٰ بنایا گیا جو اُس عہدے پر 22 ِ فروری 1997ءتک رہے اور پھر مارچ 1997ءمیں سینٹر منتخب ہو گئے۔ فروری 1997ءکے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد جو میاںنواز شریف نے مرکز میں حکومت بنائی چیف آف دی اَرمی سٹاف جنرل پرویزمشرف نے 11 ِ اکتوبر 1999ءکو اُس حکومت کا تختہ اُلٹ کر خود ملک کی باگ دوڑ سنبھال لی اور پھر تین سال بعد بحیثیت صدر ِ پاکستان ملک میں10 ِ اکتوبر 2002ءمیں عام انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔ اِ ن انتخابات میں ملک کی تقریباً تما م سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا اور سیاسی اتحاد بھی بنے۔ ان انتخابات میں ایک سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ(ق) کے نام سے بھی حصہ لے رہی تھی جسکے سیکرٹری جنرل میرظفر اللہ خان جمالی تھے اور عوام کی نظر میں اس جماعت کو ایوانِ صدر کی آشیرباد بھی تھی۔ میر ظفر اللہ جمالی نے اُن انتخابات میں حصہ نہیں لینا تھا لیکن جب اُنکے بیٹے فرید جمالی کے کاغذات مسترد ہو گئے تو چونکہ احتیاطً اُنھوں نے بھی کاغذات جمع کروائے ہوئے تھے لہذا اُنھیں انتخاب لڑنا پڑا اور نصیر آباد بلوچستان کے حلقے سے قومی اسمبلی کے رُکن بھی منتخب ہو گئے۔ انتخابات کے نتائج کے لحاظ سے تو کوئی بھی جماعت مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی لیکن پاکستان مسلم لیگ(ق) قومی اسمبلی میں نشستیں زیادہ ہونے کی وجہ سے مخلوط حکومت تشکیل دینے کی کوشش کر سکتی تھی اور پھر ایسا کیا بھی۔ جبکہ دوسری جماعتیں بھی اپنے طور پر مرکز میں کسی بھی اتحاد کی شکل میں مخلوط حکومت بنانے کیلئے کوشاں تھیں۔ کافی روز تک سیاسی جماعتوں کے آپس میں مذاکرات ہوتے رہے لیکن اس دوران نہ تو کوئی حکومت بننے کی صورت نظر آتی اور نہ ہی کوئی ایسا اُمیدوار کُھل کے سامنے آتا جو آئندہ وزارت ِ اعظم کا منصب سنبھالتا۔ پھر کچھ مدت بعد پاکستان مسلم لیگ ( ق) کو ہی حکومت بنانے کا موقع نظر آیا تو جماعت کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے تجویز دے دی کہ وزیر ِ اعظم چھوٹے صوبے سے لیا جائے گا حالانکہ سب کا خیال تھا کہ وہ خود یہ عہدہ سنبھالیں گے۔ اب جو نام سامنے آئے اُن میں صوبہ ِ بلوچستان سے زبیدہ جلال، سردار یار محمد رند ، پیر عبدالقادر گیلانی اور چوتھا نام میرظفر اللہ خان جمالی کا تھا۔ میرظفر اللہ خان جمالی جو کہ صوبہ ِ بلوچستان کے دو دفعہ نگران وزیر اعلیٰ اور ایک دفعہ وزیرِ اعلیٰ رہ چکے تھے ۔ اُس کے علاوہ مرکز میں بھی وزیر کے طور پر ملک کیلئے خدمات انجام دے چکے تھے اور اُن کے بارے میں مشہور تھاکہ جو وہ ایک دفعہ ٹھان لیتے تھے وہی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اپنے موقف میں لچک کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اپنے صوبے کے معاملات کو وفاق سے منوانے میں اہم کردار تھا۔ جسکی ایک مثال 1991ءکے قومی مالیاتی کمیشن کے ایوارڈ کی ہے جس میں اُنکی تجویز اور دباﺅ پر پہلی بار قومی مسائل کی تقسیم رقبے کی بنیاد پر کرنے کا ایشو سامنے آیا۔ اعصاب کی مضبوطی کی وجہ سے اُنھیں "پہاڑ" کا لقب بھی دیا گیا ہے۔ کھیل کے میدان میں مدافعت کی بجائے جارحیت کے قائل رہے تھے اور اُنکا یہی وصف اُنکی سیاسی زندگی میں کام آ تا رہا۔ اسکے علاوہ اُنکی نجی زندگی بہترین خاندانی تعلقات پر مبنی رہی۔ اُنکی شادی خاندان ہی میں ہوئی تھی اور اُنکی بیگم کا نام۔۔۔۔۔۔ ہے اور اولاد میں چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ میر ظفراللہ جمالی کو تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوج میں جانے کا بہت شوق تھا لیکن خود تو اُنھیں اس کا موقع نہ مِلا لیکن اُنکے دو بیٹے پاکستانی فوج میں ہیں۔ ان سب کے علاوہ تمام دینی و سیاسی نظریات رکھنے والی جماعتوں سے ذاتی طور پر اچھے تعلقات ہیں اور اُن میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ خاندان کے اپنے ہم عمر ساتھی میر تاج محمد جمالی اور جان محمد جمالی صوبہ ِ بلوچستان کے وزیرِاعلیٰ رہ چکے ہیں اور اسکے علاوہ اور بھی اِان کے خاندان کے افراد پاکستان کی سیاست میں حصہ لیتے رہتے ہیں ۔ اسطرح اِن کا خاندان جہاں پاکستان کی سیاست میں سرگرم رہا وہاں مختلف ادوار میں مرکز و صوبائی وزارتیں حاصل کر کے حکومتی سطح پر بھی کام کرتا رہا ہے۔ بلکہ پاکستان کا یہ واحد خاندان ہے جسکے پاس اب تک سب سے زیادہ دفعہ مختلف وزارتیں آئی ہیں۔ نئے انتخابات کے نتائج اور ملکی حالات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ق) میں اُنکی شخصیت ہی ایسی تھی کہ وزارت ِ عظمیٰ کے عہدے کیلئے نام لیا جائے اور اس ہی لیئے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے اُنھیں اس عہدے کیلئے نامزد کر دیا اور بعد میں اُنکی جماعت کے باقی ساتھیوں نے بھی حمایت کر دی۔ اقتدار ملٹری گورنمنٹ سے سول گورنمنٹ کو منتقل کیا جانا تھا لہذا صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی مہربانی فرمائی۔ کیونکہ اُس وقت تک بلوچستان کو کوئی بڑا عہدہ نہیں مِلا تھا اور یہ وہاں کیلئے محرومی کا عنصر تھا۔ اس لیئے آخر کار21 ِ نومبر 2002ءکو وزارت ِ عظمیٰ کے عہدے کیلئے پاکستان مسلم لیگ ( ق) کے میر ظفر اللہ خان جمالی، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے شاہ محمود قریشی اور متحدہ مجلسِ عمل کے مولانا فضل الرحمن کے درمیان مقابلہ ہوا جس میں پاکستان مسلم لیگ ( ق) کے میر ظفر اللہ خان جمالی نے 329 ووٹوں میں سے 172 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی اور صوبہ بلوچستان سے ملک کے پہلے وزیر ِ اعظم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اُن سے شکست کھانے والے اُمید واروں نے بھی اُنکو مبارک دی اور خواہش ظاہر کی ملک اُنکی صلاحیتوں اور تجربے سے ایک دفعہ پھر جمہوریت کی راہ پر گامزن ہو گا ۔ اُنھوں نے بھی قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ میں با اختیار وزیر ِ اعظم ہوں نہ ہوتا تو یہ منصب قبول نہ کرتا۔ وزیر ِاعظم ظفر اللہ خان جمالی کی یہ ایک مخلوط حکومت تھی جس میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے وہ دس ارکان بھی شامِل تھے جنہوں پاکستان پیپلز پارٹی پٹریاٹ کے نام سے ایک الگ گروپ بنا کر ظفر اللہ جمالی کو وزیر ِاعظم کے منصب تک پہچانے میں اہم کردار ادا کیاتھا۔ اس لیئے ایوانِ صدر اور حلیف جماعتوں سب کا خیال رکھنا ضروری تھا اور سب سے پہلا مرحلہ وزارتوں کا تھا جن میں سے کچھ تو ایوان ِ صدر سے پہلے ہی نامزد تھے اور باقی اُنکی جماعت کے رہنماﺅں نے خود ہی بخوبی نامزد کر دیئے اور پھر اُن 21 وزیروں نے پہلے حلف اُٹھا لیا جن پر حزبِ اقتدار کے تمام اراکین کو اعتماد تھا۔ اسکے ساتھ ہی وزیر ِ اعظم ظفراللہ خان جمالی نے اپنی جماعت کا جنرل سیکرٹری کا عہدہ بھی چھوڑ دیا کیونکہ ایک نئے قانون کے تحت حکومتی عہدے دار اپنی جماعت کا کوئی عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا۔ آئین 1973 ءکے آئین کے مطابق وزیر اعظم پاکستان کو حلف اٹھانے کے بعد اگلے 60 دنوں میں قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ بھی لینا ہوتا ہے اور اس کو حاصل کرنے پر ہی وہ مستقبل میں اپنے وزارت عظمیٰ کے عہدے کی ذمہ داریاں پور ی کرنے کا مجاز ہوتا ہے ۔ لہٰذا میر ظفر اللہ جمالی بھی 30 ِدسمبر 2002ءمیں 188 ارکان قوِمی اسمبلی سے اعتما د کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو گئے اور سیاسی و عوامی حلقوں میں یہ سوچ تو ضرور پیدا ہوئی کہ ان جیسی تجربہ کار سیاسی شخصیت سے عوامی امور کو حل کرنے میں کافی مد د ملے گی کیونکہ ان کو وزارت اعلیٰ پر بھی کام کرنے کا تجربہ ہے اور اس وجہ سے انہیں عوامی مسائل کا علم ہے لیکن اصل میں صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا دائرہ کچھ اس انداز میں تشکیل پا چکا تھا کہ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی اور ان کی کابینہ کے وزراءبھی اس میں ہی پھنس کر رہ گئے اور کسی بھی داخلی و خارجی معاملہ میں صدر پرویز مشرف کی فوجی حکومت سے جی حضوری کا سرٹیفکیٹ لئے بغیر آگے نہ بڑھ پاتے۔اُن کی وزارت عظمی کے دور کا آغاز بھی کچھ اسی طرح ہوا جس میں سے ایک داخلی معاملہ ایل ایف او (لیگل فریم ورک آرڈر ) کو پارلیمنٹ سے قبول کروانا اور دوسرا خارجی معاملہ امریکہ سے بہترین تعلقات۔ ایل ایف او کو پارلیمنٹ سے پاس کروانے کیلئے سب سے پہلے مسلم لیگ (ق) کو مضبوط کرنا ضروری تھا اور مسلم لیگ (ق) کے صدر میاں محمد اظہر اکتوبر 2002ءکے انتخابات میں شکست سے دوچار ہو چکے تھے۔ اس لئے انہوں نے 26 ِدسمبر 2002 ءکو جماعت کے صدارتی عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور قومی اسمبلی کے رکن چوہدری شجاعت حسین کو مسلم لیگ (ق) کا نیا صدر منتخب کر لیا گیا ۔ بعد ازاں فروری 2002ءمیں جب سینٹ کے انتخابات منعقد ہوئے تو اس میں بھی مسلم لیگ (ق) کو سب سے زیادہ نشستیں ملیں۔ اس طرح پارلیمنٹ، حکومتی سیاسی جماعت و حکومت کے اتحادیوں کی طرف سے تو ایل ایف او کو آئین کا حصہ بنانے میں کوئی رکاوٹ نہ رہی ا ور وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے بھی اس کو اپنے لئے خوش آئند سمجھا۔ جبکہ پارلیمنٹ کے دو بڑے اتحادوں ایم ایم اے اور اے آر ڈی نے ایل ایف او کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ بلکہ صدر جنرل پرویز مشرف کو وردی اتارنے کیلئے بھی کہہ دیا۔ اس طرح جمالی حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایک زبردست تماشے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کبھی مذاکرات کیلئے کوشش کی جاتی اور کبھی احتجاجی مہم کی دھمکی۔ 29 ِاپریل 2003ءکو اس مسئلہ پر حکومت اور حزب اختلاف کے ارکان پر مبنی کمیٹی کا اعلان کیا گیا لیکن پھر کوئی کامیابی نہ حاصل ہو سکی۔ 12 ِجون 2003ءمیں حزب اختلاف نے پارلیمنٹ سے واک آو¿ٹ اور جیل بھرو تحریک شروع کرنے کی دھمکی دے دی۔ 14 ِ ِجون 2003ءکو حزب اختلاف کی عد م موجودگی میں قومی اسمبلی نے بجٹ منظور کر لیا اور اسی روز سپیکر قومی اسمبلی امیر حسین نے ایل ایف او کو آئین کا حصہ بنانے کے بارے میں ایک رولنگ دے دی۔ جس پر بعد ازاں حزب اختلاف نے الزام لگایا کہ اب سپیکر کا عہدہ جانبداری پر مبنی ہو گیا ہے ۔ لہٰذا امیر حسین کو اس عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں اور20 ِجون 2003ءکو سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع بھی کروا دی گئی۔ بعد ازاں ایک ہفتے کے تحریک عدم اعتماد تو مسترد ہو گئی لیکن مسئلہ میں شدت بڑھتی رہی۔ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی اور ان کی حکومت کے پاس لگتا تھا کہ کوئی اور کام نہیں۔ یعنی عوام کو مسائل سے نجات دینے کی بجائے صدر جنرل پرویز مشرف کے حکم اور وردی کو بچانا اہم ہو گیا تھا۔ پھر وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے اپنی جماعت کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ مل کر اپنی سیاسی بصیرت سے ایم ایم اے کو ایل ایف او کے معاملہ میں ڈھیر کر ہی لیا۔ ایل ایف او میں چند تبدیلیوں کے بعد اور وردی کا مسئلہ 31 ِ دسمبر 2004ءتک حل کر نے پر ایم ایم اے نے بھی 26 ِ دسمبر 2003ءمیں جمالی حکومت کو ایل ایف او کے تحت 17 ویں ترمیم پارلیمنٹ میں پیش کرنے کیلئے سبز سگنل دے دیا۔ سنہء2003ءمیں ایل ایف او پاکستان کی سیاست میں حاوی رہا اور حزب اختلاف نے بھی صدر پرویز مشرف اور ظفر اللہ جمالی کے خلاف پارلیمنٹ میں ہی زیادہ احتجاج جاری رکھا۔ ایم ایم اے کے قومی اسمبلی کے رکن کو الیکشن کمیشن نے نا اہل قرار دے دیا اور دوسرا قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے رکن جاوید ہاشمی کو بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ 19 ِدسمبر 2003ءکو حزب اختلاف کے زور ڈالنے کے باوجود وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے اعتماد کا ووٹ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی کو جب حکومت ملی تو اس وقت تک پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکہ کی جھولی میں تھی۔ افغانستان کی جنگ میں کامیابی کے بعد اب امریکہ کا رُخ عراق کی طرف تھا اور پاکستان سے تعاون کیلئے کہہ دیا گیا تھا۔ لیکن اس دفعہ جمہو ری حکومت کی وجہ سے صدر پرویز مشرف نے عراق کی بجائے دہشت گردی میں ہی امریکہ کا ساتھ دینے کو ترجیح دی اور وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کو عراق کے مسئلے میں آگے کر دیا۔ 24ِ جنور ی 2003ءکو صدر پرویز مشرف اور وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے عراق پر یکطرفہ امریکی حملے کی مخالفت کا فیصلہ کیا اور 26 ِ جنوری کو وزیر اعظم جمالی نے کہا کہ عراق امریکہ جنگ ٹالنے کیلئے مسلمان ممالک کا اتفاق ان کی اولین خواہش ہے۔ مارچ 2003ءکے وسط میں امریکہ نے عراق پر حملہ کر ہی دیا۔ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے اس کو مشرق وسطی کیلئے اچھا نہ سمجھا اور اس جنگ کے دوران ہی امریکہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے مختلف ا وقات میں آ کر پاکستان کی حکومت سے مذاکرات بھی کئے۔ فی الوقت تو امریکہ کو عراق کے صدر صدام کو ان کے عہدے سے ہٹانے میں کامیابی حاصل ہو گئی لیکن عراق کی عوام کا رد عمل امریکن فوج اور امریکن نوازوں کے خلاف ایک سخت مخالف کی صورت اختیار کر گیا جس کی وجہ سے وہاں سول وار کا ماحول بن چکا گیا۔ 28 ِستمبر 2003ءکو وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے بحیثیت وزیر ِاعظم جب اپنا پہلا امریکہ کا سرکاری دورہ کیا تو ان کا موقف تھا کہ صدر بش سے بھارتی اسلحہ کے متعلق بات چیت کرو ں گا۔ اس سے پہلےس8 ِستمبر 2003ءکو بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کے سلسلے میں جب اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کا بھارت کا دورہ سامنے آیا تو اس پر بھی پاکستان کی حکومت نے اس گٹھ جوڑ کو اُمت مسلمہ کیلئے سنگین خطرہ قرار دیا تھا اور بعد ازاں24 ِستمبر 2003ءکو وزیر اعظم جمالی نے کھل کر کہا تھا کہ دنیا بھا رت کو اسلحہ دینا بند کرے ۔ لہٰذا یکم اکتوبر 2003ءکو واشنگٹن میں صدر بش اور وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی میں ملاقات ہوئی اور امریکہ کی طرف سے اعلان ہوا کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن برقرار رکھیں گے۔ جس کے بعد8 ِ اکتوبر 2003ءکووزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے ایک بڑا دلچسپ بیان دیا کہ صدر بش اور ان کے خیالات پاکستان کو اعتدال پسند ملک بنانے کے بارے میں ایک جیسے ہیں۔ جس سے اگلے ہی روز وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کو امریکہ بھارت مشترکہ فوجی مشقیں ہونے پر کہنا پڑا کہ یہ پاکستان کیلئے باعث تشویش ہیں۔ یعنی کہاں بھارت کو دنیا کی طرف سے ملنے والے اسلحہ کے متعلق شکایات اور کہاں امریکہ خود ہی بھار ت کے ساتھ فوجی مشقیں کر رہا تھا اور وہ بھی امریکہ کے دورے کے چند روز بعد ہی۔ اس سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا تعین امریکہ کی طرفداری میں بڑا دلچسپ انداز میں ہوتا ہے۔ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے اپنے دورے حکومت میں مسئلہ کشمیر کو ویسے ہی اہمیت دی جیسے ایک پاکستان کو اس کے حق میں دینی چاہے اور پاکستان کے اصولی موقف کو ہی دنیا بھر میں اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں ایک پیش رفت تو دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا آغاز تھا بلکہ31 ِجنوری 2003ءکو جمالی حکومت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے ایک مطالبے میں کہا کہ پاکستان، بھارت اور اسرائیل کو ایٹمی طاقت تسلیم کر کے ایٹمی کلب میں شامل کیا جائے۔ بعد ازاں18 ماہ بعد11 ِجولائی 2003 ءکو پاک بھارت دوستی بس سروس کا آغاز کرایا گیا۔ پھر 12 ویں سارک کانفرنس منعقد پاکستان میں بھارت کے وزیر اعظم واجپائی کو آنے کی دعوت دی۔ اُنھوں نے پہلے تو کہا کہ اگر وہ پاکستان آئے تو شاید صدر پرویز مشرف سے ملاقات نہ کریں لیکن پھر جب4 ِجنوری 2004ءکو اسلام آباد میں سارک کانفرنس منعقد ہوئی تو ایک طرف تو دونوں وزرائے اعظم کے درمیان مذاکرات خوشگوار موڈ میں ہوئے اور دوسرا وزیر اعظم واجپائی نے ایوان صدر جا کر صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی جس کو وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کی ایک اچھی کوشش سمجھا گیا اور خطہ میں پُر امن حالات قائم کرنے کے متعلق ایک راہ ہموار کرنے میں قدم بڑھانے کے مترادف سمجھا گیا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر صدر جنرل پرویز مشرف کو مکمل کنٹرول تھا ۔ اس لئے وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی ان کی رہنمائی میں خارجہ تعلقات کو بہتر انداز میں تشکیل دینے کیلئے دوسرے ممالک کے سربراہوں و نمائندوں کے ساتھ خوشگوار اور مثبت انداز میں مذاکرات کو اہمیت دیتے۔ افغانستان کے صدر حا مد کر زئی پاکستان آئے تو ملاقات کے د وران انہوں نے افغانستان میں ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ 23 ِدسمبر 2002ءکو ایرانی صدر خاتمی نے پاکستان کا دورہ کیا تو اگلے روز ایک بیان میں ایرانی صدر نے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تنقید کو غیر منصفانہ قرار دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ 5 ِدسمبر 2003ءمیں انڈونیشیا کی صدر میگاوتی سوئیکارنوپتری بھی پاکستان آئیں۔ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے جنوری 2003ءمیں مشرق وسطیٰ کی خراب صورتحال کے باعث چین کا دورہ ملتو ری کر دیا تھا لہٰذا ایک سال بعد میں مارچ 2004ءمیں اُنھوں نے چین، ویتنام اور اپریل 2004ءمیں تھائی لینڈ کا دورہ کیا اور اقتصادی، دفاعی اور علاقائی صورتحال پر مذاکرات کئے۔ ا ن کے دور حکومت میں یکم مئی 2003ءمیں پاکستان نے سلامتی کونسل کے صدر کا عہدہ سنبھالا۔12 ِ مارچ 2004ءکو وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے کہا کہ این پی ٹی پر دستخط کرنے کیلئے پاکستان پر کوئی دباو¿ نہیں۔ ان سب کے علاوہ سعودی عرب کا دورہ اور وہاں کی قیادت سے مسلم اُمہ اور پاکستان کے بارے میں مذاکرات وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے ترجیحی بنیادوں پر کئے۔ بہر حا ل ان کے دور حکومت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ایٹمی پروگرام پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنا اہم ا یشو ر ہے جبکہ ڈاکٹر عبد القدیر خان پر ایٹمی راز د وسرے ممالک کو فراہم کرنے کا الزام بھی ان کے دور حکومت میں ہی لگا۔ وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی کی کابینہ میں وزارت خزانہ کا قلمدان سنیٹر شوکت عزیز کے پاس تھا جو صدر جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے آغاز سے ہی ان کے ساتھ تھے اور ان ہی کی رہنمائی میں اقتصادی و مالی پالیسیاں ترتیب دے رہے تھے گو کہ انہوں نے جما لی حکومت کے 2 سالہ بجٹ 2003-04 ءاور 2004-05ءپیش کئے لیکن ان میں صرف و ہی ترقیاتی پروگرام ترتیب دینے کی کوشش کی گئی جس کو صدر پرویز مشرف اور وزیر خزانہ شوکت عزیز بہتر سمجھتے تھے جبکہ وزیر اعظم کی طرف سے پاکستانی عوام کیلئے کوئی انقلابی نوعیت کا فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ بلکہ بحیثیت جمہو ری وزیر اعظم ان کو حزب اختلاف کی طرف سے بھی بجٹ تجا ویز دی گئیں لیکن17 ِ جون 2003ءکو ان کو مسترد ہوتے دیکھ کر سینٹ میں حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ بعض حکومتی ارکان نے بھی احتجاج کیا ۔ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کے پاس شاید اتنے اختیارات ہی نہ تھا اور ا گر کوئی اختیار ملا بھی تو وہ یہ کہ15 ِجنوری 2003ءکو سرکاری ملازمین کی برطرفی کا اختیار ایک آرڈیننس کے ذریعے چیف ایگزیکٹو سے وزیر اعظم کو منتقل کر دیا گیا۔ یعنی عوام کو کوئی فلاحی پروجیکٹ دینے کی بجائے وزیر اعظم کو سرکاری ملازم برطرف کرنے کا پروجیکٹ دے دیا گیا۔ 2003ءکی گرمیوں میں ایک رات وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کو لاہور میں اپنے ایک دوست کے گھر رہنے کا موقع ملا تو اس رات اس علاقے کی بجلی بند ہو گئی۔ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے چند لمحے انتظار کر نے کے بعد جب واپڈا کے محکمے میں فون کر کے بذات خود اپنا تعارف کرواتے ہوئے شدید گرمی میں بجلی نہ ہونے کی شکایت کر وائی تو اس کے باوجود واپڈا نے کوئی ہنگامی اقدام نہ کر کے فوراً بجلی بحال نہ کی۔ بلکہ مزید کافی دیر عام لوگوں کی طرح انتظار ہی کرنا پڑا۔ منکسر المزاج، شریف النفس او ر ملنسار ظفراللہ جمالی کو بحیثیت وزیر اعظم جس پلیٹ فارم پر بھی بُلا کر تقریر کرنے کیلئے کہا گیا اُنھوں نے اپنی ذہانت اور اپنی وسیع النظری سے وہاں پر موضوع کے مطابق فی البدی تقریر بھی کر ڈالی۔ اس دوران یہ محسوس ہوتا تھا کہ ان کو اس ادارے یا شعبے کے بارے میں اس طرح معلومات رکھتے ہیں جیسے اس میں کام کرتے ر ہے ہوں لیکن بات تقریروں کے خیالات اور فیصلوں تک محدو د نہیں ہوتی عوام ملک کے سربر اہ سے اس کا عملی نمونہ دیکھنے کی بھی خواہشمند ہوتی ہے لیکن اس میں فقدان کا عنصر ہی نظر آیا۔ مثلاً وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے رہائشی ضروریات کیلئے ملک میں ”سستی بستیاں“ کے منصوبے کا اعلان کیا جس کی تفصیلات بھی سامنے نہ آ سکیں۔ بیت المال میں سیاسی بنیادوں پر تقرریاں کر کے اس افادیت کو پامال کر دیا گیا ۔ غریبوں کیلئے اگر کسی امداد کا اعلان ہوا تو غریب دیکھتے ہی ر ہ گئے۔ چاروں صوبوں کی آپس میں نہ بن سکی نہ پانی کا مسئلہ حل ہوا نہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ پر اتفاق ہو سکا جس کیلئے یکم اپریل 2004ءکو وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے خود زور دیا۔ پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت مضبوط تھی اور اپنے فیصلے ایسے کر رہے تھے جیسے مرکزی کابینہ ملک کے۔ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت تھی اور اُنھوں نے تو صوبے میں شریعت بل کا نفاذ بھی کر لیا ہو ا تھا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ علی محمد مہر چند اندرونی اختلافات کی وجہ سے اپنے عہدے سے الگ ہو گئے تھے اور ان کی جگہ ارباب غلام رحیم نے لے لی تھی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کو اپنے صوبے سے کوئی طرفداری ملتی نظر نہیں آرہی تھی۔ حکومت تو صوبہ میں مسلم لیگ (ق) نے ہی بنائی ہوئی تھی لیکن وہاں کے قبائل وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کو اپنا نما ئندہ نہیں سمجھتے تھے۔ 26 ِجنوری 2003ءکو ڈیرہ بگٹی میں گیس پائپ لائن وہاں کی بلوچستان لیبریشن آرمی کے نوجوانوں نے میزائل مار کر تباہ کر دی ا ور پھر یہ سلسلہ و قتا فوقتا جا ری رہنے لگا۔ پھر کبھی بلوچستان میں دہشت گردی اور کبھی سر عام قتل و غارت کا بازار لگا۔ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے اپنا صوبہ ہونے کے باعث بہت کوشش کی کہ وہاں کے معاملات تو ان کے قابو میں رہیں لیکن نہیں۔ پھر کراچی کے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کا پروپیگنڈا اس کے علاوہ 11 ِجون 2004ءکو کور کمانڈر کراچی پر قاتلانہ حملہ، 6 ِاکتوبر 2003 ءکو اسلام میں مو لانا اعظم طارق کا قتل جو کہ قومی اسمبلی کے رُکن تھے جیسے بہت سے واقعات کسی بھی طرح وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کی حکومت کیلئے خوش آئندہ ثابت نہیں ہو رہے تھے۔ بلکہ ایسا لگ ر ہا تھا کہ نہ تو صدر جنرل پرویز مشرف نے ان کے بس میں کچھ رہنے دیا ہے اور نہ ہی عوام ان کے بس میں کچھ رہنے دے گی۔ عام طور پر یہ خبر زیادہ نظر آ تی کہ صدر پرویز مشرف سے وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کی ملاقات قومی امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ لیکن ضرور کہیں اختلاف بھی ہونا شر وع ہو گیا۔ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے اپنی برملا رائے ظاہر کرتے ہوئے کہہ دیا ہوا تھا کہ صدر جنرل پرویز مشرف کو 31 ِدسمبر 2004ءسے پہلے اپنی وردی اُتار دینی چا ہیے۔ جمہوری نظام میں سیاسی شخصیت سے عوام ایسی ہی رائے کی توقع رکھتی ہے لیکن صدر پرویز شرف ایسا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ کچھ حد تک قومی سلامتی کونسل کے بارے میں کچھ اختلافات۔ پھر قو می سلامتی کونسل کے رکن طارق عزیز اور وفاقی وزیر تجارت ہمایوں اختر کے کرداروں نے ایک نیا سیاسی ڈرامہ رچانے کا پروگرام بھی بنا لیا۔ وہ دونوں یہ فضاءبنانے میں کامیاب ہو گئے کہ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نہ تو حکومت چلا سکتے ہیں اور نہ ہی قومی اسمبلی میں ایل ایف او پر بہتر حکمت عملی اختیار کر سکتے ہیں۔ وزیر اعطم جمالی پر بعض احباب نے بدعنوانی کے الزامات بھی عائد کر دیئے۔ حالانکہ اُنھوں نے ذاتی طور پر خلوص اور دیانتداری سے ملکی امور چلانے کی کوشش کی تھی او ر انہیں اس بات سے بھی انکار نہیں تھا کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں صدر پرویز مشرف کا بڑا ہاتھ ہے اور ا ُنھوں نے جمہوریت کو کامیاب بنانے کیلئے 5 ِ مارچ 2003ءکو پاکستان سے ایمر جنسی کا خاتمہ بھی کر دیا تھا۔ لیکن پھر جب وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی پارٹی سازشوں کا شکار ہونے لگے تو اس وقت بھی اُنھوں نے اس بات کو ہی ترجیح دی کہ اپنی جما عت اور اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا ہی پاکستان میں جمہوریت کی بقا ءکیلئے اور فوجی اقتدار سے غیر فوجی اقتدار تک کے کٹھن سفر کیلئے دانشمندری سے کام لینا ہی ضروری ہے ۔ اُن کے مطابق معاملات کچھ عرصہ تک بالکل صحیح چلتے رہے، لیکن پھر بھی جس سازش کا آغاز ہو چکا تھا اس کی کامیابی کیلئے بھی کام جاری رہا۔ وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی جن فائل پر دستخط کر کے احکامات جاری کرتے ان کو ایک دن میں آگے جانے کی بجائے پانچ یا اس سے زیادہ دن لگنے شروع ہو گئے۔ اس تاخیر کا مقصد انہیں کوئی پیغام دینا تھا۔ تیزی سے تبدیل ہونے والے حالات میں اُنھوں نے مسلم لیگ (ق) کے صدرچوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی اور اصل صورتحال معلوم کرنے کے بارے میں پوچھا ۔ اس پر چوہدری شجاعت نے انہیں کہا کہ صدر جنرل پرویز مشرف سے ملیں۔ اس پر اُنھوں نے پھر پوچھا کہ کیا صدر پرویز مشرف کو ان سے کوئی شکایت ہے تو چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے اور آپ کے امور میں ایوان صد ر سے کوئی مداخلت نہیں ہو رہی ہے۔ نہ ہی صدر پرویز مشرف آپ کے مستعفی ہو نے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی جانتے تھے کہ صدر پرویز مشرف کی حمایت کے بغیر وزارت عظمیٰ کے عہدے پر رہنا ممکن نہیں اور صدر پرویز مشرف ان کے، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کے اکٹھے مل کر کام کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ بعد ازاں حالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی جس پر وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے ایک دفعہ پھر چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات کی تا کہ حالات کنٹرول کئے جا سکیں لیکن انہیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اُن کے مطابق اگلے کئی روز اس کشمکش میں گزارنے پڑے کہ آیا اُنھیں اس عہد ے پر کام کرنے کا موقع ملے گا یا کوئی دوسرا فیصلہ ہی کرنا پڑے گا۔ جبکہ پریس اور میڈیا میں کئی ہفتوں سے یہ خبر گرم ہو چکی تھی کہ وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کو اُنکے عہدے سے فارغ کر دیا جائے گا لیکن جب اُن سے اور چوہدری شجاعت سے پوچھا جا تاتو دونوں یہی کہتے کے تمام معاملات ٹھیک ٹھاک چل رہے ہیں۔ بہر حال 26 ِجون 2004 ءو ہ تاریخ ثابت ہوئی جب پاکستان کا ایک اور وزیر اعظم جو کہ ذمہ داری سے اپنے عہدے پر کام کرنے کو ترجیح دے رہا تھا محلاتی و جماعتی سازشوں کی نظر ہو گیا۔ یعنی پاکستان کے15ویں وزیر اعطم ظفر اللہ خان جمالی نے اپنے عہدے سے اتفاق رائے کی بنیاد پر استعفیٰ دے دیا۔ لیکن اس سے پہلے انہوں نے بحیثیت سیاسی شخصیت ایک ضد تو ضرور کی کہ اُن کی جگہ ہمایوں اختر نہیں لیں گے۔ اس کیلئے ان کے ساتھ چند دوسرے سیاسی ساتھی بھی مل گئے جن میں شیخ رشید اور اعجاز الحق اہم تھے۔ اس طرح اقتدار کی کرسی ہمایوں اختر کے بہت قریب پہنچ کر دور چلی گئی۔ وہ جو شاعر نے کہا کہ دو چار ہاتھ جب کہ لب ِبام رہ گیا۔ نیا مسئلہ ضرور سامنے آیا کہ اب وزیر اعظم کا عہدہ کون سنبھالے گا؟ ظاہر سی بات تھی کہ ا س سارے سیاسی عمل کے پیچھے صدر جنرل پرویز مشرف بھی موجود تھے لہٰذا اُن کے ذہن میں وہ ایک نام تو تھا ہی جس کے متعلق وہ گذشتہ تین سال سے سوچ رہے تھے یعنی وزیر خزانہ شوکت عزیز۔ لیکن چونکہ وہ قومی اسمبلی کے ر کن نہیں تھے لہٰذا وزارت عظمیٰ کے عہدے پر ان کی نامزدگی ممکن نہیں تھی۔ جس پر فیصلہ کیا گیا کہ پہلے مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین وزرت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالیں گے پھر ساتھ ہی اگلے وزیر اعظم کا نام بھی پریس اور میڈیا کے سامنے پیش کر کے عوام کو مطلع کر دیا جائے گا اور وہ نام شوکت عزیز کا ہو گا جن کو بعد میں قومی اسمبلی کا رکن بذریعہ انتخاب کامیاب کروایا جائے گا۔ بس اس طرح وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرنے کے ساتھ چوہدری شجاعت حسین کو پاکستان کا نیا وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ سابق وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی کے استعفیٰ سے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ جمہوریت کیلئے اچھا نہیں حا لانکہ عوام جانتی تھی کہ جو جمہوریت کیلئے اچھا نہیں وہ کیا ہے۔ لہٰذا ان کے متعلق تو عوام میں یہی احساس تھا کہ پاکستان میں ایک وزیر اعظم کے نام کا اضافہ ہوا تھا۔ دوسرا بحیثیت وزیر اعظم اُنھوں نے اپنا کوئی سیاسی حلقہ احباب بھی قائم نہ کیا تھا اور نہ ہی ان کی جڑیں عوام میں موجود پائی گئی تھیں۔ حزب اختلاف کے مطابق بھی اُنھیں ایک غیر موثر وزیر اعظم کی حیثیت حاصل تھی لہٰذا کسی نے ان کے استعفیٰ پر احتجاج نہ کیا بلکہ سوائے پریس و میڈیا کو اس بات کو جاننے اور کہانی بنا کر عوام تک پیش کرنے سے زیادہ کوئی دلچسپی نہ تھی کہ اس سارے سیاسی کھیل میں اندر کی بات کیا تھی اور کون اس کا کرتا دھرتا تھا؟ سابق وز یر اعظم ظفر اللہ جمالی سے جب کچھ سو الات ہوئے تو بعض کے جوابات مختلف اوقات میں سامنے آتے رہے۔ مثلاً ان کے پاس تین راستے تھے کہ پارلیمنٹ توڑنے کا مشورہ دوں، اعتماد کا ووٹ لوں یا با عزت طریقے سے مستعفی ہو جاو¿ں لہٰذا تیسرا طریقہ بہتر سمجھا۔ چوہدری پرویز الٰہی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی دوڑ میں شریک نہیں تھے۔ جمہوریت بچانا اور مسلم لیگ کو یکجا کرنا اولین مقصد تھا۔ صدر جنرل پرویز مشرف کی وردی کا مسئلہ جنرل صاحب کے اپنے اختیار میں تھا۔ میرظفر اللہ جمالی3 ِجولائی 2004ءکو اپنی فیملی کے ہمراہ بذریعہ کوئٹہ ایکسپریس ٹرین راولپنڈی سے کوئٹہ جانے کیلئے روانہ ہوئے تو واپس آنے کا ارمان لئے گوہر افشانی کرتے گئے کہ شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں، وزیر اعظم بنتے رہیںگے اور تبدیل ہوتے رہیں گے، دُعا کریں پاکستان قائم و دائم رہے۔ مسلم لیگی ہوں اور قوم کی خدمت کسی نہ کسی صورت میں کرتا رہوں گا۔ فی الحال دال روٹی کی بھی فکر کرنا ہے۔ راولپنڈی اسٹیشن پر الوداع کہنے کم لوگ اس لئے آئے ہیں کہ یہ دُنیا کی ریت ہے۔ جب ٹرین لاہور اسٹیشن پر آدھ گھنٹہ رُکی توسیاسی شخصیت خوا جہ احمد طارق رحیم کے سوا کوئی اُنھیں ملنے نہ آیا۔ میر ظفر اللہ خان جمالی کی روجھان جمالی میں رہائش گاہ تقریباً تین ایکڑ رقبہ پر قائم تین چا ر حویلی نما مکانوں پر مشتمل ہے جہاں ان کا خاندان بسا ہوا ہے۔ ایک بڑے جاگیردار ہونے کے باوجود ان کا رویہ ہر گز جاگیردارانہ نہیں تھا ۔ اس لئے وہاں کے لوگ اپنے مسئلے مسائل ان کے پاس لے کر آتے رہتے ۔ جب اُنھیں وزیر اعظم مقر ر کیا گیا تھا تو ان کی رہائش گاہ والی عمارت کو وہاں کے لوگوں نے ”پرائم منسٹر ہاو¿س“ کا نام دے دیا تھا جو اُن کے عہدے پر نہ رہنے کے باوجود ایک مدت تک پرائم منسٹر ہاو¿س ہی کہلاتا رہا۔ میر ظفر اللہ خان جمالی اپنے عہدے سے الگ ہونے کے چند ماہ بعد جب روجھان جمالی میں اپنے ذاتی کاموں میں مصروف تھے تو چند پریس کے لوگ اُن سے ملنے گئے۔ وہاں اُن سے پہلے مقامی لوگ بھی اُن کے پاس موجود تھے۔ ایک نوجوان نے اپنی درخواست اُنھیں پیش کر کے کہا کہ آپکی سفارش کی ضرورت ہے ۔ جس پر ظفر اللہ خان جمالی نے اُس نوجوان سے ہنستے ہوئے کہا کہ" بھائی اب تو میری اپنی نوکری نہیں رہی، تمہیں کہاں سے نوکری دوں" ۔ ایک بوڑھے کا بھی کچھ سرکاری دفاتر میں ایسا مسئلہ تھا کہ وہ چکر لگا لگا کر تنگ آ چکا تھا اور اب خواہش رکھتا تھا کہ ظفر اللہ خان جمالی اُس کا جائز کا م کروا دیں۔ جس پر ظفر اللہ خان جمالی نے ایک تو کہا کہ" کام تو جائز ہے لیکن کیا کیا جائے کہ لوگ اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے "۔ اُنھوںنے سب کو اپنا ایک واقعہ سنایا کہ ایک شخص محکمہ زراعت کے متعلق جائز کام لے کر میرے پاس آیا۔ میں اس سے لے کر ڈائریکٹر کے پاس گیا۔ اس نے مسئلہ سنا ا ور کہا کام تو جائز ہے لیکن اس سے گورنمنٹ کرے گی۔ میں نے کہا کہ گورنمنٹ کو ن ہے ؟ اس نے کہا کہ سیکرٹری صاحب۔ سیکرٹری صاحب کے پاس گئے تو اس نے بھی پہلے افسر جیسا ہی جواب دیا ۔ پوچھا کہ اب گورنمنٹ کون ہے تو اس نے کہا کہ وزیر صاحب۔ اُن کے پاس گئے تو اُنھوںنے وزیر اعلیٰ کو گورنمنٹ کا درجہ دے دیا۔ جب ا ن کے پاس گئے تو اُنھوںنے بھی یہی کہا کہ کام جائز ہے لیکن یہ کام گورنمنٹ کرے گی۔ اس پر میں سٹپٹا کر اُن سے پوچھا یہ گورنمنٹ کم بخت ہے کون؟ جو کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ ظفراللہ خان جمالی 2004ءسے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر تھے لیکن جب 2008 ءکے اولمپکس میں پاکستان ہاکی ٹیم کو ناکامی کا سامنا کر نا پڑا تو صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس دوران وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہونے کے بعد سیاست سے بھی آہستہ آہستہ کنارہ کشی اختیار کرنی شروع کر دی۔بس معمولی سیاسی سرگرمیاںمیں حصہ لیتے رہے اور اپنی نشست کی اہمیت کو قائم رکھنے کیلئے 2013 ءکے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی طرف سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ مئی2018 ءمیں میر ظفر اللہ خان جمالی قومی اسمبلی کی رُکنیت سے مستعفی ہوگئے اور اُنھوں نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو دیوار کے ساتھ نہ لگایا جائے۔ اس ایوان میں جو فیصلے کئے گئے انہیں نبھایا جائے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگر پرویز مشرف دور میں وہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو سپریم کورٹ نہ پہنچاتے تو پتہ نہیں ان کا کیا حشر ہونا تھا۔ نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ اسمبلی میں غلط بیانی کی گئی۔ جن جن لوگوں نے آئین توڑا سب کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے مگر مجھے معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔ اس کے بعد وہ مسلم لیگ(ن) سے الگ ہو کر عمران خان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے اور ساتھ ہی ایک دفعہ پھر سیاست کے میدان س دُور نظر آئے۔ 29ِ نومبر 2020ءاچانک خبر آئی کہ سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی دل کا دورہ پڑنے پر اے ایف آئی سی ہسپتال راولپنڈی منتقل کر دیا گیا ہے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق ظفر اللہ خان جمالی کی ہسپتال منتقلی کے وقت حالت تشویشناک تھی اور اُنکو وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا تھا۔ یکم دسمبر کو اچانک خبر آئی کہ اُنکا انتقال ہو گیا ہے لیکن پھر تردید آگئی کہ خبر غلط ہے۔ لیکن2ِدسمبر 2020ءکو میر ظفر اللہ جمالی آخر کا ر اِس دُنیا سے 76سال کی عمر میں کوچ کر گئے ۔ وہ کڈنی اور عارضہ قلب کا شکار تھے۔ اس سے پہلے اُنھیں مئی 2020 ءمیں کورونا بھی ہوا تھا۔ اُنکی میت اگلے دِن کی صبح سی ون تھرٹی طیارے پر راولپنڈی سے جیک آباد لائی گئی جہاں سے بذریعہ سڑک ایمبولینس پر جعفرآبادمیں آبائی گاﺅں روجھان جمالی کے آبائی قبرستان میں پولیس کے دستے کی سلامی کے بعد سُپرد ِخاک کر دی گئی۔
م |