ائے طائرلا ہوتی،اُس رزق سے موت اچھی

ائے طائرلا ہوتی،اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ھو پرواز میں کوتاہی
:اقبال محمد ڈاکٹرعلامہ
سرمحمد اقبال کوعلامہ اقبال (1877–1938) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، 20 ویں صدی کے عظیم ایک مسلمان فلسفی ، شاعر اور سیاست دان تھے۔ وہ خاص طور پر ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور نیپال میں اسلام کے بارے میں اپنی اردو فلسفیانہ شاعری اور اسلامی معاشرے کی ثقافتی اور فکری تعمیر نو کی ضرورت کے لئے مشہور ہیں۔ انہیں برطانوی ہندوستان میں تحریک پاکستان کی تحریک کے لئے "پاکستان کے روحانی باپ" بھی سمجھا جاتا ہے۔ انجمنِ ہمت اسلامیہ ، لاہور ، کے سالانہ اجلاس میں جب انہوں نے نالے یتیم کی تلاوت کی تو 1899 سے ہی اقبال کی شہرت ہوگئ۔ انہوں نے جو نظمیں سن 1905 تک تحریر کیں ، ان میں حب الوطنی کا جذبہ لیا جس میں تراناrana ہند (مشہور طور پر سارے جہاں سی اچچا کے نام سے جانا جاتا ہے) بھی شامل ہے۔ بنگ-دارا (1924) اردو شاعری کا ایک مجموعہ ہے جس میں اقبال کی زندگی کے تین مختلف مراحل میں لکھا گیا ہے ، ابتدائی کام میں انہوں نے ہندوستان کی مشہور شخصیات جیسے رام رامتھرت ، گرو نانک اور رام پر بھی لکھا ہے

یہ علامہ اقبال ہی تھے جنہوں نے پہلی بار ہندوستانی مسلمانوں کے لئے الگ ہوم لینڈ (پاکستان) کا نظریہ پیش کیا۔ وہ دو ممالک کے نظریہ کا ماجد تھا۔ وہ نہ صرف شاعر اور عظیم مفکر تھے بلکہ ایک عظیم اخلاق ، اصلاح پسند اور ماہر تعلیم بھی تھے۔

اقبال کی شعری تخلیقات اردو کے بجائے بنیادی طور پر فارسی میں لکھی گئی ہیں۔ شاعری کی ان کی 12،000 آیات میں سے تقریبا 7 7000 آیات فارسی میں ہیں۔ 1915 میں ، اس نے اپنا پہلا شعری اشعار ، اسرارِ خودی اسرارِ خودی (خود سے راز) فارسی میں شائع کیا۔ نظموں میں مذہبی نقطہ نظر سے روح اور نفس پر زور دیا گیا ہے۔ بہت سارے نقادوں نے اس اقبال کے بہترین شاعرانہ کام کو قرار دیا ہے۔ اسرارِ خودی میں ، اقبال اپنے فلسفہ "خودی" ، یا "خود" کی وضاحت کرتے ہیں۔ اقبال کے لفظ "خودی" کا استعمال قرآن پاک میں الہامی چنگاری کے لئے استعمال ہونے والے "روح" کے مترادف ہے جو ہر انسان میں موجود ہے ، اور اقبال کے ذریعہ آدم میں موجود ہونے کا کہا گیا تھا ، جس کے لئے خدا نے سب کو حکم دیا فرشتے آدم کے سامنے سجدہ کرنے کے لئے۔ اقبال خود تباہی کی مذمت کرتے ہیں۔ اس کے لئے ، زندگی کا مقصد خود شناسی اور خود شناسی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "خود" کے آخر کار تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ان مراحل کو چارٹ کرتے ہیں جن سے "خود" کو جاننے والا خدا کا نائب صدر بننے کے قابل ہوتا ہے۔

حضرت اقبال کی شاعری میں جن تصورات نے علامتوں کا لباس اختیار کیا ہے ان میں شاہین کا تصور ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ بیسویں صدی کا آغاز تھا کہ اقبال کی پہلی نظم” ہمالہ“ منظر عا م پر آئی ۔پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور اس کے بعد پانچ چھ بر س تک متواتر ان کی ایسی نظمیں سامنے آتی رہیں ، جو ان کی حب وطن، ذوق حسن اور ہم آہنگی فطرت کی آئینہ دار تھیں۔ اس دورانیے انہیں یورپ کا سفر درپیش آیا اور وہ ایک عرصے تک کیمبرج اور اس کے بعد ہائڈل برگ ( جرمنی) میں مقیم رہے۔ جرمنی میں قیام کے دوران میں انہوں نے جن فکری اثرات کو قبول کیا ، ان میں نطشے کا فلسفہ قوت و زندگی خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔

نظریاتی حلقوں سے باہر کی فضاءبھی ایک ہنگامہ عمل سے معمور تھی اور جرمنی قیصر ولیم کی قیادت میں تسخیر عالم کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ جرمن قوم کی فعالیت اور بلند نظری اور جرمن فرد کی خود شناسی اور خود اعتمادی نے اقبال کے نظام فکر پر ایک گہرا اثرا ڈالا ہے اور اس اثر کی ایک یادگار اُن کی فضائے سخن میں اس پرند کی آواز ہے جسے شاہین کہتے ہیں اور جو قیصر کے جنگی خود اور اس کی کوہ شکن سپاہ کے پھریروں اور اس کے جہازوں کے مستولوں پر دنیا کے گوشے گوشے میں متواتر پانچ بر س تک مائل رہا ۔ اقبال کے شعر میں شہباز کا پہلا اظہار ہمیں انکے دور اوّل کی ایک نظم ” مرغ ہوا“ میں ملتا ہے جو پہلی جنگ عظیم کے قریب لکھی گئی۔
اک مرغ سِرا نے یہ کہا مرغ ہوا سے
پردار اگر تو ہے تو کیا میں نہیں پردار
گر تو ہے ہوا گیر تو ہوں میں بھی ہوا گیر
آزاد اگر تو ہے ، نہیں میں بھی گرفتار

یہ بات شک و شبہہ سے بالا تر ہے کہ یورپ کی سب سے باعمل قوم کا تصور ِ شاہین قوت ، تیزی ، وسعت نظر دور بینی اور بلند پروازی کی خصوصیات پر محیط تھا اور اس کے مادی نظریہ حیات کا صحیح ترجمان ، لیکن جب اقبال نے اُسے اپنایا تو اس کی مشرقی روحانیت اس کی تخلیق پر غالب آگئی اور اس نے اپنے شاہین کو خصوصیات ِ مذکورہ کے علاوہ درویشی ، قلندری اورخوداری و بے نیازی کی اعلیٰ صفات سے بھی مزین کیا اور اپنی قوم کے نوجوان کے سامنے اسے زندگی کا بہترین نمونہ بنا کر پیش کیا۔
شاہین ِ اقبال کی سیرت کی ایک جھلک ”بال جبریل“ کی مشہور نظم ” شاہین “ میں جو اقبال کے دور خرد پروری کی یادگار ہے ، یوں نظر آتی ہے۔

کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ

اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین کو ایک خاص علامت کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ یہ ان کا محبوب پرندہ ہے۔ اقبال کے ہاں اس کی وہی اہمیت ہے جو کیٹس کے لئے بلبل اور شیلے کے لئے سکائی لارک کی تھی، بلکہ ایک لحاظ سے شاہین کی حیثیت ان سے زیادہ بلند ہے کیونکہ شاہین میں بعض ایسی صفات جمع ہوگئی ہیں۔ جو اقبال کی بنیادی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں یوں تو اقبال کے کلام میں جگنو ، پروانہ ، طاوس ، بلبل ، کبوتر ، ہرن وغیر ہ کا ذکر آیا ہے۔ لیکن ان سب پر شاہین کو وہ ترجیح دیتے ہیں۔ اقبال نے تشبیہات و استعارات میں بلبل و قمری کے بجائے باز اور شاہین کو ترجیح دی ہے۔کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ
” اقبال کے وجدان اور جذبات شعری کو جو چیز سب سے زیادہ متحرک کرتی ہے۔ وہ مظہر ”قوت“ ہے یہی وجہ ہے کہ وہ بلبل اور قمری کی تشبیہوں کی بجائے باز اور شاہین کو ترجیح دیتا ہے۔“

اقبال کے ہاں شاہین مسلمان نوجوان کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔اقبال کو جمال سے زیادہ جلال پسند ہے اقبال کو ایسے پرندوں سے کوئی دلچسپی نہیں جن کی اہمیت صرف جمالیاتی ہے یا جو حرکت کے بجائے سکون کے پیامبر ہیں،

کر بلبل و طاوس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے، طاوس فقط رنگ

اقبال کو شاہین کی علامت کیوں پسند ہے اس سلسلے میں خود ہی ظفر احمد صدیقی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔
” شاہین کی تشبیہ محض شاعرانہ تشبیہ نہیں ہے اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خوصیات پائی جاتی ہیں۔ خود دار اور غیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہو شکار نہیں کھاتا ۔ بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا ۔ بلند پرواز ہے۔ خلوت نشین ہے۔ تیز نگاہ ہے" ۔

اقبال کے نذدیک یہی صفات مردِ مومن کی بھی ہیں وہ نوجوانوں میں بھی یہی صفات دیکھنا چاہتا ہے ۔ شاہین کے علاوہ کوئی اور پرندہ ایسا نہیں جو نوجوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ بن سکے ۔اُردو کے کسی شاعر نے شاہین کو اس پہلو سے نہیں دیکھا” بال جبریل“ کی نظم ”شاہین“میں اقبال نے شاہین کو یوں پیش کیا ہے۔
خیابانیوں سے ، ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا ، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب ، یہ پچھم ، چکوروں کی دنیا
میرا نےلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ؟

اقبال نے شاہین کی جن خوبیوں کا خود ذکر کیا ہے اور جن کے باعث وہ ان کا پسندیدہ جانور بنا ہے ان کا کلام ِ اقبال کی روشنی میں ذرا تفصیلی جائزہ لے لیا جائے تو اقبال کے تصورِ شاہین کو سمجھنے میں مزید مدد مل جاتی ہے وہ صفات مندرجہ زیل ہیں

غیرت و خوداری درویش کی سب سے بڑی صفت ہے اور یہی حال شاہین کا بھی ہے اس لئے وہ مرغ سرا کے ساتھ دانہ نہیں چگتا جو دوسروں کے احسان کے باعث ملتا ہے اور نہ گرگس کی طرح مردہ شکار کھاتا ہے درویش اور فلسفی میں یہی فرق ہے کہ گدھ اونچا تو اُڑ سکتا ہے لیکن شکار ِزندہ یعنی حقیقت اس کے نصیب میں نہیں ہوتی۔
بلند بال تھا لیکن نہ جسور و غیور
حکیم ِ سر ِمحبت سے بے نصیب رہا
پھرا فضائوں میں گرگس اگر چہ شاہیں وار
شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
فقر بھی اقبال کے نزدیک مرد درویش کی بڑی خصوصیت ہے جس طرح شاہین چکور کی غلامی نہیں کر سکتا اُسی طرح درویش شاہوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اقبال کہتے ہیں کہ شاہین کو چکور و گرگس کی صحبت سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ زاغ و گرگس کی صحبت میں شاہین کی زندہ شکار حاصل کرنے کی صلاحیت مردہ ہو جائے گی اور وہ انہی کی طرح لالچی بن کر فقر سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ اس طرح شاہین کی صفات پیدا کرکے فقیر بھی کسی چڑیا ، کبوتر یا فاختہ کا شکار نہیں کھیلے گا بلکہ وہ فطرت و کائنات کی تسخیرکرے گا یا باطل کی قوتوں کا مقابلہ کرے گا۔
اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شان ِ بے نیازی
کنجشک و حمام کے لئے موت
ہے اس کا مقام شہباز

اقبال کو شاہین کی یہ ادا بھی پسند ہے کہ وہ آشیانہ نہیں بناتا ، آشیانہ بنانا اس کے فقر کی تذلیل ہے۔

گذر اوقات کر لیتا ہے یہ کوہ بیاباں میں
کہ شاہیں کے لئے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی

شاہین کی طرح درویش بھی سرمایہ جمع کرنے کو درویشی کے خلاف سمجھتا ہے۔ اقبال شاہین کو قصر سلطانی کی گنبد پر نہیں بلکہ پہاڑوں کی چٹانوں میں بسیرا کرنے کے لئے کہتے ہیں
ان کے خیال میں جب نوجوانوں میں عقابی روح پیدا ہوتی ہے تو انہیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں ترا نشیمن قصرِ سلطانی کی گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

اقبال کے شاہین کی ایک خوبی اُس کی بلند پروازی ہے اقبال کو شاہین کی بلند پروازی اس لئے پسند ہے کہ یہ اس کے عزائم کو نئے نئے امکانات سے روشناس کرتی ہے اقبال شاہین کے اس وصف کو اپنے مرد مومن میں بھی دیکھنا چاہتا ہے۔

قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

اقبال کا شاہین خلوت پسند ہے وہ کبوتر ، چکور یا زاغ کی صحبت سے پرہیز کرتا ہے۔ اقبال کو ایسا شاہین پسند نہیں جو گرگسوں میں پلا بڑھا ہو کیونکہ وہ رسم شاہبازی سے بیگانہ ہو جاتا ہے اقبال فرماتے ہیں کہ گرگس اور شاہین ایک فضا میں پرواز کرنے کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلندی پرواز
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صحبت ِ زاغ

وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو گرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسم ِ شاہبازی

پرواز ہے دونوں کا اسی ایک فضا میں
گرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

اقبال کو شاہین کی تیز نگاہی اور دوربینی بھی پسند ہے یہی خصوصیت اس کے خیال میں مردِ مومن میں بھی ہونی چاہیے شاہین کی پرواز اس کی نگاہوں کو وسعت بخشتی ہے اقبال کہتا ہے کہ دوسرے پرندوں کو بھلا ان مقامات کا کیا پتہ جو فضائے نیلگوں کے پیچ و خم میں چھپے ہوئے ہیں انہیں صرف شہباز کی تیز نگاہی دیکھ سکتی ہے۔

لیکن اے شہباز ، یہ مرغانِ صحرا کے اچھوت
ہیں فضائے نیلگوں کے پیچ و خم سے بے خبر
ان کو کیا معلوم اس طائر کے احوال و مقام
روح ہے جس کی دم پرواز سرتا پا نظر

اقبال جدوجہد او ر سخت کوشی کے مبلغ ہیں یہ صفت بھی شاہین میں ملتی ہے اقبال مسلم نوجوانوں میں شاہین کی یہ صفات پیدا کرکے انہیں مجسمہ عمل و حرکت بنانا چاہتے ہیں یہ سبق اقبال نے ایک بوڑھے عقاب کی زبانی اپنے بچوں کو نصیحت کرتے ہوئے دیا کہ سخت کوشی اور محنت کی بدولت زندگی کو خوشگوار بنایا جا سکتا ہے
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ ِ زندگانی انگبیں

سخت کوشی دراصل لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ ہے۔

جھپٹنا پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گر م رکھنے کا ہے اک بہانہ

چیونٹی اور عقاب کے عنوان سے اقبال نے دو شعر لکھے ہیں ان میں چیونٹی عقاب سے پوچھتی ہے۔

میں پائمال و خوار و پریشاں و دردمند
تیرا مقام کیوں ہے ستاروں سے بھی بلند

عقاب جواب دیتا ہے۔

تورزق اپنا ڈھونڈتی ہے خاک ِ راہ میں
میں نہ سہپر کو نہیں لاتا نگاہ میں
اقبال کو شاہین اسی لئے پسند ہے کہ وہ طاقتور ہے قوت اور توانائی کے تمام مظاہر اقبال کو بہت مرغو ب ہیں ۔ اقبال کو طائوس ، قمری اور بلبل اسی لئے پسند نہیں کہ محض جمال ِ بے قوت کی علامت ہے اس طرح تیتر اور کبوتر جیسے پرندے محض اپنی کمزوری کی وجہ سے شکار ہو جاتے ہیں ۔اس بات کو اقبال نے اپنی ایک نظم میں بڑی خوبصورتی سے واضح کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ،
ابو لعلاءمعری کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ کبھی گوشت نہیں کھاتا تھا۔ ایک دوست نے ترغیب دینے کے لئے ایک بھُنا ہوا تیتر اسے بھیجا، بجائے اس کے کہ معری اس لذیز خوان کو دیکھ کر تیتر کی تعریف کرتا، اس نے اپنا فلسفہ چھانٹنا شروع کر دیا۔ تیتر سے مخاطب کرکے کہا کہ تجھے معلوم ہے کہ تو گرفتار ہو کر اس حالت کو کیوں پہنچا اور وہ کون سا گناہ ہے جس کی سزا تجھے موت کی شکل میں ملی ہے؟ سن!

افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

اقبال کو حریت اور آزادی کی قدر بہت پسند ہے یہ قدر بھی شاہین کی ذات میں انہیں نظر آتی ہے ۔ اقبال کا شاہین میر و سلطاں کا پالا ہوا باز ہر گز نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے آزادی ضروری ہے۔ اقبال جب ہندوستان کے مسلمانوں کی غلامانہ ذہنیت کو دیکھتے ہیں تو بے ساختہ پکار اُٹھتے ہیں کہ،
وہ فریب خورہ شاہیں کہ پلا ہو گرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسمِ شاہبازی

اقبال کے نزدیک آزادی کے عالم میں ہی شاہین کے لئے تجسس ممکن ہے ورنہ غلامانہ ذہنیت تو اس بزدل اور کمزور بنا دیتی ہے وہ پر تجسس نگاہ کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنی چیتے کے جگر کو ان کے خیال میں یورپی علوم ہمارے لئے اتنے ضروری نہیں جتنا تجسس کا ذوق ضروری کیونکہ اسکے بغیر ہم تخلیقی صلاحیتوں سے محروم رہیں گے۔

چیتے کا جگر چاہئیے شاہیں کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشنی دانش افرنگ

یہ تجسس حصول علم کے لئے بھی ضروری ہے اور حصول ِ قوت کے لئے بھی مرد مومن کو شاہین کی طرح دوربین اور پر تجسّس ہونا چاہیے کہ اسی ذریعہ سے حیات کائنات کے اسرار تک رسائی ہوتی ہے۔اقبال ملک کے نوجوانوںکو شاہیں بچے قرار دیتے ہیں جو اگرچہ شاہین کی صفات رکھتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ان کو مناسب تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی ۔ وہ اربابِ تعلیم کے خلاف خدا سے شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

شکایت ہے مجھے یا رب خداونداں مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

1933 میں ، اسپین اور افغانستان کے سفر سے واپس آنے کے بعد ، اقبال گلے کی پراسرار بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ انہوں نے اپنے آخری سال چوہدری نیاز علی خان کو پٹھان کوٹ کے قریب جمال پور اسٹیٹ میں دارالاسلام ٹرسٹ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے میں مدد کرتے ہوئے گزارے ، جہاں کلاسیکی اسلام اور معاصر معاشرتی علوم میں تعلیم کو سبسڈی دینے کے منصوبے تھے۔ انہوں نے ایک آزاد مسلم ریاست کی بھی وکالت کی۔ اقبال نے 1934 میں قانون پر عمل کرنا چھوڑ دیا اور اسے بھوپال کے نواب نے پنشن دی۔ اپنے آخری سالوں میں ، وہ روحانی رہنمائی کے لئے اکثر لاہور میں مشہور صوفی علی ہجویری کی درگاہ تشریف لائے۔ اپنی بیماری سے کئی مہینوں تک مصائب کے بعد ، اقبال کا انتقال 21 اپریل 1938 کو لاہور میں ہوا۔ اس کی قبر ہزارہ باغ میں واقع ہے ، یہ بادشاہی مسجد اور لاہور قلعہ کے داخلی دروازوں کے درمیان منسلک باغ ہے ، اور سرکاری گارڈز حکومت پاکستان کے ذریعہ مہیا کیے جاتے ہیں۔ .

 
Sumaira Maroof
About the Author: Sumaira Maroof Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.