اُردو کا زریں دور میرو سودا‎

اُردو کی تاریخ میں میرو سودا کا دور بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اسےمیروسوداکادوراس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کا دور تقریباً متفقہ ہے اور اردو ادب کی تاریخ کا زریں دور بھی کہلاتا ہے۔میر،سودا اور درد یہ تینوں سادہ گوئی کی تحریک کے روح رواں ہیں۔سودانےقصیدوہجومیں درد نے تصوف میں اور میر نے غزل میں اپنا مقام بنایا۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس دور میں اُردو زبان کو بے عمیق وسعت نصیب ہوئی اور لسانی اہمیت میں قابل قدر اضافہ ہوا۔میروسودا کے عہد میں ہی شاعری کی حقیقی اصلاح پذیری ہوئی۔ہندی کے ثقیل الفاظ خارج از زبان ہوئے۔استعاروں کا استعمال ترک ہونے سے زبان میں سلاست اور روانی پیدا ہوئی۔اگرچہ مثنوی اور قصیدہ میں اس سے پہلے طبع آزمائی ہو چکی تھی،مگرسودا،میر اور میر حسن نے اس کی بلندی میں گراں قدر اضافہ کیا۔سودا نے تو ہزل گوئی کا بھی آغاز کیا،البتہ ان کی ہزلیات کہیں کہیں ابتذال کی حد کو پہنچ گئیں۔

سودا اور میر اپنے اپنے انداز کے استاد ہونے کے باوجود حریف سمجھے جاتے تھے۔حالاں کہ میر کا کلام آہ اور سودا کا کلام واہ تھا۔کیونکہ میر دل کی دنیا میں ڈوبے ہوئےتھے اور سودا کی نظر بیرونی دنیا پر تھی۔سودا اپنی تنک مزاجی میں بھی مشہور تھے۔ذرہ سی بات پر بھی بگڑ جاتے تو سامنے والے کی شخصیت کے پرخچے اڑا دیتے۔سوداکی شیریں زبانی اور تحریری لطافت نے زبان کی بڑی خدمت کی ہے۔انھوں نے فارسی الفاظ میں بھی نزاکت اور خوبصورتی پیدا کرکے اردو زبان کے قابل بنایا۔

امام اثر کے مطابق سودا اُردو کے شکسپیئر ہیں۔سر الفر ڈائل کے نزدیک وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔
سوداکانمونہ کلام:
سودا تیری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
آئی ہے سحر ہونے کو ظالم کہیں مر بھی
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

سودا کے برعکس میر کی طبیعت میں لٹک اور تصوف کی جھلک تھی۔شاعری کی ایک صنف واسوخت کو خاص طور پر میر نے ایجاد کیا۔میر غزل کے بادشاہ تسلیم کیے گئے ہیں۔ان کی استادی کے معترف بھی بہت سے لوگ تھے۔

غالب کے مطابق:
ریختہ کے تمہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

سودا کہتے ہیں:
سودا تو اس زمین میں غزل دغزل کہ
ہونے ہے تجھ کو میر کے استاد کی طرف

ناسخ فرماتے ہیں:
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
میر نے اپنی شاعری میں حقیقت کے رنگ بھر کے اردو زبان کو چار چاند لگا دیے۔
میر نے اپنے دل کی آواز کو اس قدر موہوم اور سہل بنا کر شعر میں پرویا کہ وہ عوام کی زبان بن گئی۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

میر کا نمونہ کلام ملاحظہ:
نازکی اس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
ایس۔کے۔نیازی،پپلاں

 

Surat Khan
About the Author: Surat Khan Read More Articles by Surat Khan: 13 Articles with 26678 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.