روشنی کی کرن ضروری ہے زندگی کے لیے!

دل سے جو بات کہی جائے ‘ وہ اثر رکھتی ہے اوراپنی بات کہنے کے حوالے میں معاشرے میں ایسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے جو اپنی بات کہنا اور دوسروں کی بات سننا جانتے ہیں‘کیونکہ یہی جذبات واحساسات معاشرے میں بہتری لاتے ہیں۔ایسے اوصاف کے حامل لوگ معاشرہ کا سرمایہ شمار ہوتے ہیں۔انہی لوگوں میں سے ایک کا نام ہے: حافظ محمد زاہد بھائی کا!

حافظ محمد زاہد بھائی سے میرا رابطہ فیس بک کے ذریعہ سے ہوا۔ پہلے پہل میں نہیں جانتی تھی کہ حافظ زاہد کون ہیں؟ لیکن جب میں نے ان کی تحریریں پڑھیں تو میں حیران رہ گئی کہ یہ شخص تو ایک ہیرے کی مانند ہے جو اپنے قلم سے لوگوں کو صحیح راستے پر لانے کی بھر پور کوشش کررہا ہے۔ خود تو ہیرا ہے ہی ساتھ ساتھ باقی لوگوں کو بھی اپنے علم سے ہیرا بنانے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش میں لگا ہوا ہے۔چنانچہ سب سے پہلے اس ربّ باری تعالیٰ کا شکریہ اداکرتی ہوں جس نے مجھے زاہد بھائی جیسا عظیم‘بااخلاق بڑا بھائی دیا۔
شکر جتنا ہو سکے روشنی تُو کر خدا کا
تجھے زاہد کی شکل میں بڑا بھائی مل گیا

پھرایک حافظ بھائی کی نئی آنے والی کتاب’’روشنی کی کرن‘‘ کے بارے میں پڑھا اور اس کے حوالے سے بعض تبصرے پڑھے تو میں نے دل میں دعا کی کہ کاش بھائی کی یہ کتاب مجھے مل جائے اور میں اس کا مطالعہ کرکے اپنے علم میں مزید اضافہ کر سکوں۔ شاید وہ وقت اور گھڑی قبولیت کی تھی کہ زاہد بھائی نے خود مجھے اپنی کتاب تحفے میں بھیج دی اور جب کتاب مجھے تحفے میں آئی تو بھائی نے اتنے خوبصورت الفاظ لکھ کر مجھے بھیجے کہ مجھے یوں لگا کہ یہ الفاظ میرے لیے ایک ’’اعزاز‘‘ ہیں۔
میرے لیے بھائی آپ کے یہ الفاظ ہیں اعزاز
روشنی کے پاس جا کر روشن ہوگئی میری کتاب

جب میں نے اس خوبصورت کتاب کا مطالعہ کیا تو مجھے یوں لگا کہ میں کتاب نہیں بلکہ کوئی گوہر نایاب اور قیمتی موتیوں سے بنی کوئی تخیلات پڑھ رہی ہوں۔ اتنے پرکشش‘ پراثر اور دل میں اتر جانے والے الفاظ سے معطر تخیلات اس خوبصورت کتاب میں موجود ہیں۔ اس کتاب میں ہر جگہ کوئی نا کوئی سبق دیا گیا ہے اور یہ ہر لحاظ سے بہترین کتاب ہے کیونکہ اس میں قرآن پاک، اسلام، رشتے‘ رویے اور سماج کے بارے میں کافی کچھ بتایا گیا ہے۔ کتابیں تو کافی لوگ لکھتے ہیں لیکن وہ کتاب سب سے بہترین ہوتی ہے جس میں کوئی سبق موجود ہو اور’’روشنی کی کرن‘‘ انہی کتابوں میں سے ایک ہے جس میں ہر کسی کے لیے کوئی نا کوئی سبق موجود ہے۔

اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے زاہد بھائی کی زندگی کے بارے میں بھی کچھ معلوم چل سکا اور مجھے اس بات کی بہت خوشی ہوئی کہ زاہد بھائی بچپن سے ہی محنتی اور پڑھنے کے شوقین تھے۔ اپنے والد صاحب سے مار کھانے کے باوجود بھی انہوں نے اپنا یہ شوق جاری رکھا اور کتابوں، ناولوں اور کہانیوں کا مطالعہ کرنا نہ چھوڑا۔ اسی شوق کی وجہ سے آج وہ اتنی ترقیاں حاصل کر چکے ہیں اور ماشائاﷲ سے چھ کتب بھی لکھ چکے ہیں اور ان کے علاوہ کئی کتابیں اور بھی لکھ رہے ہیں۔ حافظ بھائی خود تو ایک بہترین لکھاری ہیں ہی اور ساتھ ہی ساتھ ان کی شریک حیات یعنی ثمرین آپی بھی بہت اچھی لکھاری ہیں۔ ثمرین آپی ایک بہترین لکھاری اور باہمت خاتون ہیں بلکہ لوگوں کے لیے ایک مثال ہیں جنہوں نے والدہ کی وفات کے بعد بچپن سے ہی گھر کے سارے کام سنبھالنے شروع کردیے اور ساتھ ہی ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی اور انتھک محنت کے بعد کامیابیاں حاصل ہوئیں۔سب کو آپی کی طرح محنت کرنی چاہیے۔

اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ایک طرف بہت سے سینئر لکھنے والوں کے ’’نثری تبصرے‘‘موجود ہیں تو دوسری طرف اس کتاب میں ’’ شاعرانہ اور منظومانہ تبصرے‘‘بھی موجود ہیں۔گویا حافظ زاہد بھائی کی کتاب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ’’شاعرانہ تبصروں‘‘کی ابتدا اسی کتاب سے ہورہی ہے۔شاعرانہ تبصروں میں پوری پوری غزلیں بھی ہیں‘ آزاد نظم بھی‘قطعات بھی اور ایک ایک شعر بھی۔یہ سب کے سب پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ان میں میرے پیارے بھائی ’’حذیفہ اشرف عاصمی‘‘کی ایک غزل بھی اس میں موجود ہے۔
میرے سامنے ایک کتاب
پڑھ کر دیکھا ہے اسکا ہر باب
روشنی اس میں سے جو پھوٹے
ہرکوئی پڑھنے کو ہے بے تاب
زاہد نے کیا تحفہ بھیجا
واسطے اپنے ہے زرناب
پائی حذیفہ نے تعبیر
دیکھے تھے جو روشن خواب

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میرے بڑے بھائی حافظ محمد زاہد کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے (آمین)۔اور اﷲ پاک اپنے حبیب کے صدقے سے ان کو اور ان کے گھر والوں کو سلامت رکھے اور ہر خوشی سے نوازے اور نظر بد سے بچائے۔آمین‘ ثم آمین!!

 

Amna Roshni
About the Author: Amna Roshni Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.