تحریر: شیبہ اعجاز ، کراچی
کائنات کتنی بڑی ہے اس کا اندازہ صرف رب کائنات کو ہے لیکن جب کوئی ماں ایک
بچے کو جنم دیتی ہے تو وہ اس کے لیے کائنات سے بڑھ کر ہی ہوتا ہے اور وہ
اپنی زندگی اپنی خوشی اپنا وقت سب کچھ اس پہ نچھاور کر دیتی ہے۔ 9 ماہ اپنے
ساتھ لگے اس وجود کو اس دنیا میں لانے اور اس کے بعد اس کو دنیا میں رہنے
کے گر سکھانے کے لیے کافی تگ ودو کرتی ہے۔ بہت کم مائیں ہیں جو بچے کی
نشوونما اور اس تربیت کے حوالے سے مکمل معلومات رکھتی ہوں۔ زیادہ تر مائیں
بزرگوں کے تجربات سے استفادہ کرتی ہیں اور آج کل کچھ مائیں انٹرنیٹ کی
سہولت سے مستفید ہوتی ہیں ۔
بچے کی نشوونما ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہوجاتی ہے اور اسی وقت سے ماں کی سوچ
اور اس کی غذا بچے کی صحت اور اس کے کردار پہ اثرانداز ہونا شروع ہو جاتی
ہے۔ ہر ماں کو اپنے بچے کی صحت کے ساتھ اس کی تربیت کا بھی خیال ہوتا ہے
لیکن ہمارے معاشرے کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ یہاں ہر چیز کی تربیت ہوتی
ہے ورکشاپ ہوتی ہیں لیکن واحد ماں کی تربیت ہے جس کا کوئی انتظام نہیں ہوتا
بچے کی تربیت اور اچھی نشونما کے لیے یہ ضروری ہے کہ ماں خود صحت مند ہوں
اور اس کو بچے کی تربیت کا پورا پورا موقع ملے، چند بنیادی باتیں جن پر عمل
کرنا ضروری ہے۔
بچے کی صحت کے حساب سے سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ مائیں بچوں کو اپنا
دودھ پلائیں، تین سے چار ماہ کے بعد آہستہ آہستہ اس کو ہلکی پھلکی غذا دینا
شروع کریں۔ باہر کی بنی ہوئی چیزوں کے بجائے گھر کی بنی ہوئی غذا استعمال
کریں۔ پروسیس فوڈ یا فریز کی ہوئی چیزیں نہ ہی کھلائیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔
جو بھی چیز گھر میں بن رہی ہوں وہی بچے کو کھلانے کی عادت ڈالیں تاکہ بچپن
سے ہی اس کو ہر چیز کا ذائقہ محسوس ہو اور بڑے ہونے کے بعد وہ کسی بھی چیز
کو کھانے سے منع نہ کر سکے۔ آج کل کی ماؤں کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ وہ
وہ بچوں سے کھانے کے متعلق پوچھتی ہیں اور خود جو پسند ہوتا ہے عموما وہی
بچوں کو کھلاتی ہیں اور جو چیز خود پسند نہیں ہوتی یا کسی چیز کو بنانے میں
انہیں مشکل پیش آتی ہے وہ بچے کو بھی نہیں کھلاتیں۔ ہوسکتا ہے کہ شروع میں
مشکل ہو لیکن یہ تھوڑے دنوں کی مشکل مستقبل میں نہ صرف بچے کے لیے بلکہ خود
ماؤں کے لیے بھی آسانی اور فایدہ مند ہی ہوگی۔
جہاں تک بچے کی صحت کا تعلق ہے تو مائیں اور گھر کی دوسری خواتین اس پر بہت
زیادہ توجہ دیتی ہیں لیکن حسن کردار یا تربیت کے متعلق ان کے ذہن میں یہی
بات ہوتی ہے کہ جب بچہ تھوڑا بڑا ہوجائے گا تو اس کو طور طریقے سکھائیں گے
اور یہی کسی بھی ماں کی سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے_ ماہر نفسیات کے مطابق بچے
نہ صرف ماں کے پیٹ سے ہی ماں کے مزاج سے اثر انداز ہو تے بلکہ دنیا میں آنے
کے بعد شروع کے تین سالوں کے ثمرات ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتے
ہیں
ایک مقولہ ہے کہ ''childre are not listing, they are watching'' یعنی بچہ
سنتا نہیں بلکہ دیکھتا ہے۔ لہٰذا اپنی اولاد کی اچھی تربیت کے لیے سب سے
پہلے اسے خود اچھا بننا ہوگا۔ اپنے اچھے اخلاق اور اپنی متوازن شخصیت کے
ساتھ ہی وہ اپنے بچے کی بہترین تربیت کر سکے گی۔ مائیں اپنی اولاد کی صحت
سے متعلق بہت زیادہ خیال کرتی ہیں اور ان کو موسم کے سرد و گرم سے بچاتی
ہیں اسی طرح ان کو زمانے کی اونچ نیچ کا فرق بھی شروع سے محسوس کروانا
چاہیے۔
صحت کے ساتھ اس کی نفسیات کو سمجھنا بھی ایک ماں کے لیے بہت ضروری ہے
کیونکہ ہر بچہ اپنا ایک خاص مزاج رکھتا ہے اور اسے اسی مزاج کے مطابق تربیت
کی ضرورت ہوتی ہے کچھ بچے بہت زیادہ شرارتی یا ہیپر (hyper) ہوتے ہیں اور
وہ سب کچھ کرنا چاہتا ہے تو اس کو زیادہ روک ٹوک نہ کریں اور اس کو ایسا
ماحول فراہم کریں کہ وہ حدود میں رہتے ہوئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے زیادہ
روک ٹوک سے وہ چڑچڑا ہوجائے گا اسی طرح اگر کوئی بچہ شرمیلا یا کم گو ہے تو
صرف اپنی خواہش کے لیے اس کو زبردستی بولنے کے لیے یا بہت زیادہ کھیلنے کے
لیے نہ کہیں، بہت زیادہ اصول ضوابط نہ بنائیں اور نہ ہی محبت سے مجبور ہو
کر کھلی چھٹی دیدیں، اس دنیا کی سب سے قیمتی چیز وقت ہے اس لیے اپنی اولاد
کو بہترین وقت دیں اس کو سنیں اس کو سمجھیں۔ صرف چند چیزوں کا خیال رکھ کر
ماں اپنے بچے کی صحت اور اپنے بچے کی تربیت کو بہترین بنا سکتی ہے۔
|