عدل و انصاف کا وہ معیار جو اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ نے مقرر فرمایا ہے اس
سے ہم بہت دور ہو چکے ہیں,
عدل و انصاف فقط حشر پر نہیں موقوف،
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
حکومت کی اساس اس کا قانون ہو تا ہے اور قانون کی اساس انصاف کی یکسانیت ہے
جس ملک کا قانون تقسیم طبقات اور امتیازات سے بالا ہو گا یقینا اس کی حکومت
مہذب اور اس کا نظم و نسق انصاف کا آئینہ دار ہو گا
جس ملک کے قانون میں بلند و پست ، امیر و غریب اور شاہ و گدا میں امتیاز
ہوگا تو اس کی حکومت عدل و انصاف سے عاری ، جنگل کے قانون کی حامل اور
تہذیب و اخلاق سے محروم ہو گی
زیر دستوں اور غریبوں کو ان کی لغزشوں پر سزا اور امراء کے جرائم سے چشم
پوشی قانون نہیں ظلم ہے ، اللہ اپنی مخلوق پر ظلم برداشت نہیں کرتا
اسلام کا عطا کردہ ضابطہ اخلاق اور نظام عدل و انصاف کسی خاص طبقے کے لیے
نہیں بلکہ پوری انسانیت اور تمام زمانوں کے لیے ہے ، اسلام آفاقی دین ہے
اور اس کا نظام عدل بھی آفاقی ہے ، اس میں صرف اللہ کے قانون کی بالا دستی
ہے ، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ، مخلوق میں خالق کا نظام نافذ ہو گا
تو دنیا میں امن قائم ہو جائے گا
(امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری رحمةاللہ علیہ
خلافت کانفرنس دہلی میں وکلا کے سیشن سے خطاب
( انٹیلی جینس رپورٹ سے ماخوذ )
اب آتا ہوں پاکستان کے ایک فیصلے کی طرف جس سے ایک عورت کی زندگی برباد ہو
گئ, ایک نسل پروان چڑھنے سے پہلے ہی دفن ہو گئ, ایک ماں, بہن, بیٹی کا مقام
زلت کے اس قبرستان میں دفن ہوا جسکا پہرا قانون نے دیا,
زندگی کی رہائی کی قیمت صرف 400 سو روپیہ جو ادا نہ ہو تو جرمانے میں نعمت
شدہ زندگی کے 15 سال گزارنے پڑتے ہیں.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا .
کل کم راع وکل کم مَسْئُولٌ عن رعيته
”آگاہ ہو جاؤ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے
بارے میں سوال کیا جائے گا۔
پس امام ( امیرالمؤمنین ) لوگوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے
بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی
رعایا کے بارے میں سوال ہو گا اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کے
بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہو گا اور کسی شخص کا
غلام اپنے سردار کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔
آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے
بارے میں پرسش ہو گی۔“ (بخاری#7138)
بے شک ضروری نہیں آپکی زندگی میں بے چینی یا خالی پن کسی شخص کے جانے،کسی
خواہش کے پورا نہ ہو سکنے یا کسی چیز کے نہ ملنے کی وجہ سے ہو,جب جب ہماری
روح پر چھوٹے چھوٹے گناہوں کا بوجھ بڑھ جاتا ھے۔ وہ ڈائریکشن مانگتی ھے۔
سکون مانگتی ھے۔سجدے مانگتی ہے, عدل ؤ انصاف مانگتی ہے, مساوات, حقوق
مانگتی ہے اور ہم بھول جاتے ہیں کہ جیسے پانی دیکھنے سےنہیں بلکہ پانی پینے
سے پیاس بجھتی ہے اسی طرح قرآن محض الماری میں رکھنے سے نہیں بلکہ سمجھ کر
پڑھنے سے ہدایت ملتی ہے اور قرآن کریم سے ہی تعلیمات عدل, انصاف, مساوات,
احساس انسانیت کا درس ملتا ہے,
انسان اس فانی زندگی کے رنگ اس وقت خوبصورت لگتے ہیں جب اسے خوبصورت بنانے
والا کوئی انسان موجود ہو اور زندگی کے سب سے خوبصورت رنگ تو بس رشتے ہوتے
ہیں انہیں محبت وفاداری ساتھ نبھاتے جاؤ زندگی اپنے آپ خوبصورت ہوجائیگی__
یہ بھی حقیقت ہے کہ زخم انسان کے اندر کو روشن کرتے ہیں تاکہ انسان حقیقت
کو دیکھ سکے کیونکہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ آنکھوں دیکھے پر یقین
کرتا ہے۔ ورنہ بھرم میں جینا اُسکی ازل سے عادت رہی ہے__
انصاف اب قانون کے مفاد پرستوں کے ہاتھ یرغمال ہے۔ عدالتوں میں میز کے
دونوں اطراف درس انسانیت دور مخلوق بیٹھی ہوئی ہیں جن کے لیے اس غلیظ دھندے
میں سب کچھ جائز ہے۔انصاف کو رب تعالیٰ کی سنت کہا جاتا تھا اور یہ کن لا
علموں کے ہاتھ چڑھ گیا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی کا قول ہے کہ قوم ظلم کے ساتھ زندہ رہ سکتی ہے
لیکن عدل کے بغیر ناممکن ہے,
اس جج کے لیے لمحہ فکریہ جس نے اسکو ضمانت کے پیسے نہ ھونے پر انسانیت کے
نام پر نہی چھوڑا اور اگلا افسوس لفظ" باعزت " بڑی کرنے پر !
ان وکیلوں کے لیے لمحہ فکریہ جنہوں نے اس بہن کا مستقبل تباہ وبرباد کر دیا
کوئی بات نہی اللہ پاک کے گھر دیر ھے اندھیر نہی ھے,
ہم نے اکثر پڑھا اور سنا ہے کہ قانون اندھا ,بہرا اور بے حس ھے لیکن یہ
کتابی باتیں ہیں ,یہاں قانون دولت کی چمک دیکھتا ھے ,طاقت ور کی آواز سنتا
ھے, امیروں کا احساس کرتا ھے, غریب کمزور, لاوارث پہ سارا زور آزماتا ھے یہ
پاکستانی عوام ہے ,پاکستانی حکمران کا بنایا ہوا قانون ہے, ادھر سب ممکن
ہے تین سال سے اسلام آباد کچہری میں خلہ کے لیے دھکے کھانے والی ایک غریب
بیٹی کے فیصلے ریڈر خود ہی کرتا رہا دوسری پارٹی سے مل کر.....
اس فیصلے کے ذمہ داروں پر بڑی سی رقم کا sue کرنا چاہئیے اور مقدمے کو
دوسروں کو سبق دینے کے لئیے زیادہ سے زیادہ نشر کیا جائے تاکہ ان “ انصاف
کے جعلی ٹھیکیداروں کو کچھ تو عبرت حاصل ہو۔
یہ میرے لئے 2020 کی سب سے بری خبر ہے۔
18 سال بیگناہ جیل میں رکھا گیا، اس کا بدل کون دے گا؟
کیا پیسے اس کا نعم البدل ہیں؟ کیا پاکستان میں انصاف نا کی کوئی چیز ہے؟
ظالمو!! 18 سال!!
ایک جانب اس امیر کی بیٹی کو ملک لوٹنے پر 18 ماہ جیل میں نا رکھ سکے! اور
اس بیگناہ کو 18 سال !!
1) اس طرح کی خبریں گاہے بگاہے آتی رہتی ہیں. انسانی حقوق کا کمشن،
انصار برنی، وزارت انسانی حقوق، جیل ڈیپارٹمنٹ اور سب سے بڑھ کر عدالتیں.
قیدیوں کی rehabilitation تو دور کی بات ہے انکی inventory بھی ترجیح نہیں.
بہت سے بے گناہ قید ہیں. کچھ فیصلے کے منتظر ہیں اور قید کاٹ رہے ہیں
2) کچھ جرم سے زیادہ قید کاٹ چکے ہیں مگر رہا نہیں کئے گئے.
جیلیں overcrowded ہیں.
65 سال سے زیادہ عمر کے قیدی رہا کردیئے جائیں.
معمولی جرموں میں ملوث افراد رہا کردیئے جائیں.
جنکی سزا 6 ماہ رہ گئی ہے رہا کر دیئے جائیں.
قیدیوں کی inventory لازمی کروائی جائے.
کاش حکمران وقت اس طرف بھی توجہ دے.
|