ہارون الرشید کا ایک بیٹا تھا،
وہ ابتدائے جوانی سے ہی بڑا نیکوکار اور پرہیزگار تھا۔ اس کے دل میں آخرت
کی تیاری کا غم لگ گیا تھا۔ وہ محل میں رہتے ہوئے بھی سادہ زندگی گزار رہا
تھا۔ وہ سادہ کپڑے پہنتا اور دسترخوان پر خشک روٹی بھگو کر کھا لیتا تھا۔
اس کو دنیا کی رنگینیوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ گویا وہ ایک درویش آدمی
تھا ،لوگ باتیں بناتے کہ یہ پاگل ہو گیا ہے۔
ایک دن بادشاہ کو کچھ لوگوں نے بہت ہی زیادہ غصہ دلایا کہ آپ اُس کا خیال
نہیں کرتے اور اس کو سمجھاتے نہیں لہٰذا آپ اس پر سختی کریں یہ سیدھا
ہوجائے گا۔ بادشاہ نے بچے کو بلا کر کہا تمہاری وجہ سے مجھے اپنے دوستوں
میں ذلت اٹھانی پڑتی ہے، اُس نے کہا، ابا جان! اگر میری وجہ سے آپ کو ذلت
اٹھانی پڑتی ہے تو میں علم حاصل کرنے کیلئے پہلے بھی کہیں جانا ہی چاہ رہا
تھا اگر آپ اجازت دے دیں تو میں وہاں چلا جاتا ہوں۔ بادشاہ نے غصے میں آکر
کہہ دیا کہ چلے جاﺅ، چنانچہ اس نے تیاری کرلی۔
اب بادشاہ نے اپنی بیوی کوبتایا لیکن اس وقت پانی سر سے گزر چکا تھا چنانچہ
بچے نے کہا کہ ابا جان میں نیت کر چکا ہوں لہٰذا اب نہیں رکوں گا۔ جب اس کی
والدہ نے اس کا پختہ ارادہ دیکھا تو اُس نے اُسے ایک قرآن مجید دے دیا اور
ایک انگوٹھی دے دی اور کہا بیٹا! یہ دو چیزیں اپنے پاس رکھنا، قرآن مجید کی
تلاوت کرنا اور اگر تمہیں ضرورت پڑے تو انگوٹھی کو استعمال میں لے آنا۔ بچے
نے وہ دونوں چیزیں اپنی والدہ سے لے لیں اور رخصت ہوگیا۔
وہ نوجوان اتنا خوبصورت تھا کہ لوگ اُس کے چہرے کو دیکھا کرتے تھے۔ اس کے
سامنے دنیا کی سب نعمتیں موجود تھیں، اگر وہ چاہتا تو عیاشی میں اپنا وقت
گزارتا، اگر وہ چاہتا تو محلات کی سہولت بھری زندگی گزارتا مگر نہیں، اُس
کے دل میں اللہ رب العزت کی محبت تھی، اُس کے دل میں آخرت کا خوف تھا، اُس
کے دل میں طلب علم کا شوق تھا۔
اس نے کہا، مجھے اس دنیاوی زندگی کی لذتیں نہیں لینی، مجھے تو دائمی لذتیں
حاصل کرنی ہیں لہٰذا وہ اپنے محل کو چھوڑ کر چل پڑا۔ یوں وقت کے شہزادے نے
علم طلب کرنے کیلئے محلات کی زندگی کو بھی لات ماردی۔ آج کے طلباءمیں سے
کوئی کسی امیر باپ کا بیٹا ہو تو وہ اس بات پرمان نہ کرے کہ میں اتنے بڑے
گھر کو چھوڑ کر آیا ہوں۔ ارے! اِس راستے پر تو وقت کے شہزادے بھی چٹائیوں
پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔
منت منہ کہ خدمت سلطان ہمی کنی
منت شناس ازاوکہ بخدمت گزاشت
”اے دوست! تو بادشاہ پر احسان نہ جتلا کہ تو اس کی خدمت کرتا ہے، اس کی
خدمت کرنے والے لاکھوں ہیں، یہ بادشاہ کا تجھ پر احسان ہے کہ اس نے تجھے
خدمت کرنے کیلئے قبول کرلیا“۔
وہ شاہزادہ محلات کو چھوڑ کر دور ایک بستی میں پہنچا جہاں علماء رہتے تھے۔
اس نے نیت یہ کی کہ میں مسجد میں اعتکاف کی نیت سے وقت گزاروں گا۔ صرف
پڑھنے کی نیت سے استاد کی خدمت میں جاﺅں گا اور ان پر بوجھ نہیں بنوں گا۔
اس نے گزر اوقات کیلئے یہ ترتیب بنائی کہ میں ہفتے میں ایک دن مزدوری کروں
گا اور اس کے بدلے میں اتنے پیسے لوں گا جن سے چھ روٹیاں مل سکیں۔ میں
روزانہ ایک روٹی پانی سے چبا لیا کروں گا اور یوں میرے چوبیس گھنٹے گزر
جائیں گے، چھ دن کے بعد میں ساتویں دن پھر مزدوری کروں گا، چنانچہ وہ چھ دن
استادوں کے پاس جا کر سبق پڑھتا تھا، ساتویں دن چھٹی ہوتی تھی وہ اس دن
مزدوری کرکے اپنے چھ دن کے کھانے کا انتظام کرلیتا تھا۔
ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے گھر بنانا تھا، میں مزدوروں کو لینے کیلئے
مزدوروں کی جگہ پر پہنچا۔ میں نے وہاں ایک خوبصورت نوجوان بیٹھے دیکھا، وہ
قرآن پاک کی تلاوت کررہا تھا۔ جب میں نے اس کے چہرے کو دیکھا تو دل میں کہا
”یہ کوئی آدمی نہیں یہ تو کوئی فرشتہ ہے “ وہ مزدور نہیں نظر آتا تھا بلکہ
وہ دیکھنے سے اشراف کا بیٹا معلوم ہوتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا، اے
نوجوان! کیا آپ بھی یہاں مزدوری کرنے کیلئے آئے ہیں؟ اس نے جواب میں کہا
،چچا جان! ہم تو دنیا میں پیدا ہی مزدوری کیلئے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا
،مزدوری کرو گے؟ وہ کہنے لگا جی کروں گا مگر میری دو شرائط ہوں گی۔ میں نے
پوچھا کون سی؟ وہ کہنے لگا ،چچا جان! میں آپ سے پورے دن کی اتنی مزدوری لوں
گا نہ اس سے زیادہ لوں گا اور نہ اس سے کم لوں گا، یہ وہ مقدار تھی جس سے
چھ روٹیاں آ جاتی تھیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، اب دوسری شرط بتائیے، وہ کہنے
لگا،چچا جان! جب بھی نماز کا وقت ہوگا تو آپ مجھے کچھ نہیں کہیں گے میں
تسلی سے نماز پڑھوں گا۔ وہ میرے مالک سے ملاقات کا وقت ہے، میں اس وقت
مداخلت برداشت نہیں کرتا۔ اگر یہ شرطیں آپ کو منظور ہیں تو میں مزدوری
کیلئے حاضر ہوں۔
میں اسے لے آیا، شام کو دیکھا تو اس نے اکیلے کئی آدمیوں کے برابر کام کیا
تھا۔ میں بڑا حیران ہوا، میں نے اس کا کام دیکھ کر اس کو زیادہ مزدوری دینا
چاہی مگر اس نے کہا چچا جان! میں نے آپ سے کہا نہیں تھا کہ میں زیادہ بھی
نہیں لوں گا اور کم بھی نہیں لوں گا۔ چنانچہ اس نے طے شدہ مزدوری لی اور
چلا گیا، میں نے نیت کرلی کہ اگلے دن اسی کو لاﺅں گا۔جب میں اگلے دن پہنچا
تو وہ وہاں نہیں تھا۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ وہ تلاوت کرنے والا مزدور
کہاں ہے؟ انہوں نے کہا ،جناب! وہ طالب علم ہے ، وہ قرآن وحدیث پڑھتا ہے،
ہفتے میں ایک دن اساتذہ چھٹی کرتے ہیں، اُس دن وہ مزدوری کرتا ہے کیونکہ وہ
مسجد میں اعتکاف کی نیت سے رہتا ہے، وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔میں
نے کہا اچھا! میں ایک ہفتہ انتظار کرلیتا ہوں۔
جب میں اگلے ہفتے اسی دن پہنچا تو میں نے دیکھا کہ وہ نوجوان پھر بیٹھا ہوا
تھا، میں اسے اپنے گھر لے آیا مگر میں نے نیت کی کہ میں دیکھوں گا کہ اس
نوجوان کے پاس کیا ہنر ہے کہ جس کی وجہ سے یہ تھوڑے وقت میں زیادہ آدمیوں
کے برابر کام کرلیتا ہے چنانچہ میں نے چھپ کر دیکھا تو ایک عجیب منظر تھا۔
لوگوں کو تو ایک ایک اینٹ رکھنے میں وقت لگتا ہے، اینٹ رکھو، پھر سیدھا کرو
اور پھر جماﺅ، لیکن میں نے اس کو دیکھا کہ وہ گارا ڈال کر اینٹ رکھتا جاتا
ہے اور وہ بالکل سیدھی چڑھ جاتی تھی، میں نے کہا کہ اس بندے کے ساتھ واقعی
اللہ تعالیٰ کی مدد ہے لہٰذا اب میں اپنا مکان اسی سے بنواﺅں گا، فرماتے
ہیں کہ جب اگلے ہفتے میں اسے لینے گیا تو اس کو موجود نہ پایا، میں نے
مزدوروں سے پوچھا، بھئی! وہ مزدور کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا، جناب! وہ
بیمار ہے اور مسجد میں لیٹا ہوا ہے، میں مسجد چلا گیا، میں نے دیکھا کہ وہ
سر کے نیچے اینٹ رکھ کر چٹائی کے اوپر لیٹا ہوا ہے۔ میں نے دیکھا بخار کی
وجہ سے اُس کا جسم سرخ اور گرم ہوگیا ہے۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا اور میں
نے محبت سے اس کا سر اینٹ سے اٹھا کر اپنی گود میں رکھ دیا اس کے بعد میں
نے اس سے کہا، اے نوجوان! تو مجھے پیغام بھیج دیتا، میں تیرے لئے دوائی کا
بندوبست کردیتا۔ تو اس نے جواب دیا، چچاجان! جس طبیب نے شفا دینی تھی اس نے
مجھے بیمار کیا ہے، میں اس کا یہ جواب سن کر حیران ہوا۔ پھر میں نے کہا، ہم
آپ کیلئے اچھے ٹھکانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ اس نے کہا نہیں، میں وہ مسافر
ہوں کہ جس کی منزل قریب ہے مگر میرے پاس توشہ تھوڑا ہے۔ میں نے اس سے
پوچھا، آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ کہنے لگا ،چچا جان! مجھے لگتا ہے کہ میرا
وقت تھوڑا رہ گیا ہے، اب میں آپ سے ایک درخواست کرتا ہوں کہ میرے پاس ایک
امانت ہے وہ آپ میرے بعد پہنچا دیجئے گا۔ میں نے پوچھا، کون سی؟ کہنے لگا
،یہ قرآن مجید ہے اور یہ انگوٹھی ہے۔ یہ وقت کے بادشاہ کو دے دینا۔ اس کے
بعد اللہ تعالیٰ سے مناجات کرنی شروع کردی۔ وہ مناجات میں کہنے لگا:”اے
مالک تو جانتا ہے کہ میں نے محلات کے عیش وآرام کی زندگی پر لات ماری اور
میں تیری طلب میں اس جگہ پر حاضر ہوا، میں نے تیری خاطر یہ مشقتیں برداشت
کیں، اب تیرے دربار میں میری حاضری کا وقت ہے، میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ
کہیں تو مجھے رد نہ کردے، تیرے در کے سوا میرے لئے تو کوئی دوسرا در نہیں،
اے مالک! میرے اوپر رحم فرمانا، میں وہ مسافر ہوں جس کا سفر لمبا ہے اور اس
کے پاس توشہ تھوڑا ہے“۔
اس نے ایسی ایسی باتیں کہیں کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اسی دوران اس نے
کلمہ پڑھا اور اس نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ اس کو نہلا کفنا کر
دفن کردیا اور پھر میں ہارون الرشید کے پاس گیا۔ اس وقت اس کی سواری گزر
رہی تھی میں نے اسے کہا، اے امیرالمومنین! آپ کو نبی کریمﷺ سے قرابت داری
کا واسطہ آپ میری بات سن لیجئے، اس نے سواری روکی تو میں نے اسے قرآن مجید
اور انگوٹھی دکھا دی۔ دیکھتے ہی اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا، وہ کہنے
گا، اے اجنبی! مجھے لگتا ہے کہ تو میرے لئے کوئی غم کی خبر لایا ہے، بتا
میرے بیٹے کے ساتھ کیا ہوا؟ میں نے اسے پورا واقعہ تفصیل سے سنا دیا۔ہارون
الرشید نے یہ باتیں سنیں تو اس کی آنکھوں سے آنسو آگئے اور وہ کہنے گا
،میرے بیٹے! تو عمر میں چھوٹا تھا لیکن تو نے وہ بات سمجھ لی جو تیرے بوڑھے
باپ کو سمجھ نہ آسکی۔
یہی وہ لوگ ہیں جن کو قیامت کے دن اس کتاب کو مضبوطی سے تھامنے والا کہہ کر
اٹھایا جائے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی زندگی گواہی دیتی تھی کہ واقعی ان کے
دل میں سچی طلب تھی.... درحقیقت طالب علم وہی ہوتے ہیں جو دلوں میں یہ عہد
کرچکے ہوتے ہیں کہ اب ہم نے اپنی زندگی قال اللہ و قال الرسول کیلئے وقف
کردی ہے۔ ان کو اس سے کیا غرض کہ ہمیں کھانے کو کیا ملتا ہے، رہنے کی جگہ
کہاں ملتی ہے بلکہ ان کے نزدیک اصل چیز علم حاصل کرنا ہے۔ یہ حضرات دن رات
چوبیس گھنٹے مستعد اور تیار ہوتے ہیں۔ |