مضمحل ہوتا تعلیمی نظام

بدون تعلیم اقبال مندی کا خواب دیکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ پٹرول کے بغیر گاڑی چلانا۔ فیروز مندی کے مدارج طے کرنا تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ۔ گو یا یہ ”شاہ ِ کلید “ہے پرسکون اوربا عزت زندگی گزارنے کا ۔ یہی وجہ ہے کہ حصولِ تعلیم پر جہاں اسلام نے بہت زوردیا ہے وہیں دوسرے قوموں نے بھی اس کے حصول کو نا گزیر قرار دیا ہے ۔ عالم انسانیت اس پر متفق ہے کہ عروج کے منازل طے کرنے کا تعلیم ہی سب سے بڑا ہتھیا ر ہے ۔ چنا نچہ تعلیم کے فروغ کے لئے نت نئے طریقے اختیا ر کئے جاتے ہیں ۔ا س کے فروغ پر غور و خوض کرنے والوں کا عوام کی نگاہ میں منفرد مقام ہو تاہے ۔ کیوں کہ بتوسط تعلیم ان سے ملک وقوم کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ۔ اگر فروغِ تعلیم کے مید ان کے شہ سوار ڈھلمل یقین ہو جائیں ، بد عنوانیوں کے شکار ہو جائیں تو یہ یقینا ملک و قوم کی بد قسمتی ہوگی ۔ ذیل کے واقعات سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتاہے کہ تعلیمی نظام کی کمزوری اور بد عنوانی ملک کے لئے باعث ننگ و عار ہے ۔

کسی بھی بورڈ کے ہا ئی اسکول کی بہت اہمیت ہوتی ہے ۔ عموماً اس کے رزلٹ پر ہی طلباءاپنی زندگی کی ترقی کی بنیاد ڈالتے ہیں ۔ یوپی بورڈ ہا ئی اسکول کی کاپیوں کے تعلق سے ایک خبر روشنی میں آئی ہے کہ ڈی آئی او ایس کی اسٹینو کے گھر پر 336کا پیاں ملیں ۔ ڈی آئی او ایس راکیش کمار کا کہنا ہے کہ گورکھپور کے ہنوما ن پر ساد پودار انٹر کالج کی ہائی اسکول آرٹ گروپ کی کاپیاں جانچ کرنے آئی تھی ،ان پر پڑے کوڈ کے مطابق سرسوتی ودیالیہ انٹرکالج میں بنائے گئے مرکز کے تحت ان کی چانچ ہو نی چاہئے تھیں ، مگر یہاں کیسے آئیں ، کون یہاں یہ کاپیاں لایا ، کسی کو کچھ پتہ نہیں ؟اس حقیقت کے روشنی میں آنے کے بعد اسٹینوکے شوہر نے جو خود ٹیچر ہے ،یہ کا پیاں ڈی آئی او ایس کو سونپ دیں۔ فی الحال سنٹر انچارج سندیپ ، اسٹینوآبھا بھارتی اور اسٹورکیپر آنند کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے ۔

امتحانات سے قبل بورڈ کے بہت سے لمبے لمبے دعوے تھے ۔ شفاف امتحانات کروانے اور صحیح وقت پر نتائج کے اعلان کا وعدہ بھی تھا ۔ مگر تما م دعوے اب کھوکھلے ہی نظر آرہے ہیں ، کوئی بھی وعدہ سچائی میں تبدیل نہ ہو سکا ۔ سی بی ایس سی بورڈ کے طریقہ کار اپنائے جانے کے بھی دعوے تھے ۔مگر امتحانات میں اساتذہ کی کمی ، امتحان مراکز پر امیدوار کے بیٹھنے کی بدنظمی اور سوال نامے کے تاخیر سے پہونچنا ، اس کے طرح کے نہ جانے اور کتنی پریشانیان تھیں، جو بورڈ کی فعالیت اور تما تر دعووں پر سوالیہ نشا ن ہیں۔ چنانچہ یہی کہنا مناسب ہوگا کہ جمع زبانی خرچ کرنے کی بجائے ادائے فرض منصبی میںصد ق دل سے سر گر م ہونا ہی طلبا ءکے حق میں مفید ہوگااور بو رڈ کے حق میں بھی ۔

یوٹی سی کے پس پردہ بھی تعلیمی مافیا گل کھلارہے ہیں ۔ آل انڈیا تعلیمی گھر نے 1979میں یوٹی سی کا یک سالہ کورس شروع کیا تھا ۔ جب یہ بات سامنے آئی کہ اسسٹنٹ ٹیچر بننے کے لئے بی ٹی سی یا بی ایڈ دوسالہ ہے تو یو ٹی سی کو 1985-86میں دوسالہ کردیا گیا ۔ مگر ریاستی حکومت نے اسے اسسٹنٹ ٹیچر کی اہلیت کے لئے منظور ی نہیں دی ۔ باوجود اس کے تعلیمی مافیا یوٹی سی کے پس پردہ نوجوانوں کو ورغلارہے ہیں ، انہیں سنہرے خواب دکھاکر اسسٹنٹ ٹیچر بنوانے کا ڈھنڈھورہ پیٹ رہے ہیں ۔ان کے دام فریب میں پھنس کر حصول ِ ملازمت کی غرض سے ہزار وں افراد ہزاروں روپئے صرف کر کے اس کے سر ٹیفکٹ حا صل کررہے ہیں۔ مگر حصول ملازمت کا خوا ب شرمندہ تعبیر نہیں ہورہاہے ۔

یہ بات انتہائی توجہ طلب ہے کہ کوئی چار دہائی قبل یوٹی سی کا قیا م عمل میں آیا ہے اورپہلے دن سے اس کے مراکز ریاست کے مختلف اضلاع میں قائم ہورہے ہیں ، بہت سے طلباءان کے دام فریب میں پھنس کر ہزاروں روپئے بربا دکر رہے ہیں ، مگر کبھی بھی ان مراکز پر کسی نے انگلی نہیں اٹھائی، کسی نے یہ حقیقت سامنے لانے کی کوشش نہیں کی ، آخر کیاوجہ تھی ؟ کیا محکمہ تعلیم سے یو ٹی سی (اردوٹیچر ٹریننگ )کے کارکنان کی سانٹھ گانٹھ تھی ؟ الہ آباد ، دریاباد ، کریلی ، لکھنو ، بنارس ، کانپور ، بریلی ، مراد آباد ، مرزاپور اور اعظم گڑھ سمیت ریاست کے مختلف اضلاع میں سیکڑوں سینٹر س قائم ہیںمگر کسی نے ا س کی حقیقت جاننے کی کو شش نہیں کی، اس سے اندازہ لگائیے کہ محکمہ تعلیم اور تعلیم کو فروغ دینے والے دیگر ادارے تعلیم کے تعلق سے کس قدر لا پر وا ہیں ؟۔

جہاں چھوٹے چھوٹے اداروں میں تعلیمی نظام کا جنازہ نکل رہاہے وہیں قابل ذکر یو نیورسٹیوں میںبھی حالات دگر گوں ہیں ، طلباءکی زندگی سے کھلواڑ ہورہاہے ۔ چھتر پتی شاہوجی مہاراج یو نیورسٹی کانپور بھی اس فہرست میں ہے ، جس کے متعلق یہ خبر ہے کہ 2002سے 2010تک مختلف مضامین سے پی ایچ ڈی کرنے والے طلبا ءکے مقالات (Thesis)ردی کے ڈھیر سے برآمد ہوئے ہیں ۔ جب بھی طلباءاپنے مقالات کے متعلق انتظامیہ سے دریا فت کرتے تو ٹکا سا جواب دے دیا جاتا تھا کہ جانچنے کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ ان دنوں طلباءکے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا تھا کہ انہوں نے عاجز آکر وائس چانسلر ہرش سنگھ سے اپنی کہا نی سنائی تو چھان بین کا سلسلہ چلا ، اسی تفتیشی عمل کے دوران یہ بات واضح ہوئی کہ جنہیں یہ مقالات چیک کرنے تھے انہیں اس کی اطلاع بھی نہیں ۔ طرہ یہ کہ جن جن حضرات کے ذمہ ا سے جانچ کرنا تھی ان میں سے 15ٹیچر س دارفانی سے کوچ کرچکے ہیں اور سبکدوش بھی ہوچکے ہیں ۔ یہ بھی واضح ہوکہ ان میںسے بیشتر طلباءکا رجسٹریشن بھی ختم ہو چکا ہے ،انہیں اب پی ایچ ڈی کے لئے دوبا رہ رجسٹریشن کرواناہوگا ۔

الٰہ آباد یونیورسٹی بھی اپنی حالیہ ناقص کا رکردگی کی وجہ سے سرخی میں ہے ۔ بات در اصل یہ ہے کہ وہاں کے فارغین اسناد کے تعلق سے کافی پریشان ہیں ۔ اعلٰی تعلیم و ملازمت کے انٹر ویو کے لئے اسناد درکار ہیں ، مگر نئے وی سی ڈگریوں پر دستخط کرنے پر آمادہ نہیں۔ سبھی اعلٰی ذمہ داران بھی اس کی حرکت پر خاموش ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ضرورت مند طلباءڈویژنل ڈگریا ں 100روپئے دے کر لے رہے ہیں۔

ان واقعات پر ذرا بھی غور کریں گے تو بہ ظاہر سستی او رلاپر وائی کا عمل دخل سامنے آئے گا ، سستی کی ہی دین ہے کہ برسوں یونیورسٹی اس خام خیالی میں مبتلاءرہی کہ مقالات جانچ ہونے گئے ہیں ،مگر ان کے ہی یہاںردی کے ڈھیرمیں مقالات پڑے تھے ۔ ان کی سستی ولاپر وائی سے کتنا نقصان ہوا وہ سامنے ہی ہے کہ بہت سے طلباءکے رجسٹریشن کی مدت ختم ہوگئی ۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے حالات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ ذرا سی نو ک جھونک پر یو نیورسٹی خالی کروائے جانے کا اعلان ہوجاتاہے ۔انتظامیہ کی سستی یا بد انتظامی کی وجہ سے طلباءکا ناقابل تلافی نقصان ہوتاہے ۔ تعلیمی نظام کوبہتر بنانے کے لئے انتظامیہ سے لے کر محکمہ تعلیم تک کو بیدار ہوناپڑے گا ، ورنہ تو یوں ہی بے شمارطلباءنت نئی پریشانیوں کا سامنا کرتے رہیں گے ۔

ان دنوں تعلیمی میدان کے جتنے مافیاہیں ان میںسے ایک گروہ کو ”مشفق دلا ل “کا لقب دیا جا سکتاہے ۔ ان تعلیمی مافیاؤں یعنی مشفق دلا ل کا سکہ اہل ثروت کے پا س خوب چلتاہے، یہ خصوصاً کو چنگ سینٹر اور کمپوٹر انسٹی ٹیوٹ کے تعلق سے ان کو رائے دیتے ہیں کہ فلاں سینٹر کا معیا ر بلندہے ،فلاں جگہ یہ یہ سہولتیں ہیں ، حالانکہ یہ افراد حقیقی صورتحال سے خوب آگاہ ہوتے ہیں ۔ دراصل انسٹی ٹیوٹ کے ذمہ داران سے ان کی سانٹھ گانٹھ ہو تی ہے ۔ یہ مشفق دلا ل بن کر بے شما ر ذہین طلباءکے والدین کوورغلاکر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں،اس طرح اچھے طلباءبھی بے راہ روی کے شکار ہونے لگے ہیں۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92477 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More