احوال وآثار: شیخ جلال الدین تبریزی

اس کتاب کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ ۸۰۰؍ سال کے طویل عرصے کےبعد پہلی بار شیخ جلال الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کے احوال واثار پر یہ ضخیم اور تحقیقی کتاب منظر عام پر آرہی ہے، اس کتاب کی تالیف کے لیے مولف نے ۶۰؍ سے زائد کتب اور مراجع ومصادر کو کھنگالا ہےاور دوسال کی کڑی محنت ومشقت کے بعد یہ اہم کتاب معرض وجود میں آئی ہے۔
مولف نے شیخ جلا الدین تبریزی کی سوانح نگاری کےساتھ ضمنا متعدد سلاسل تصوف اور شیخ کے معاصر صوفیہ ٔ کرام کے احوال بھی قلم بند فر مائے ہیں ، یہ ضمنی تذکرے محض بیان حکایت کے لیے نھیں ہیں ،بلکہ ان تذکروں کی روشنی میں شیخ کی شخصیت اور خدمات کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

کتاب : احوال وآثار: شیخ جلال الدین تبریزی
مؤ لف : مفتی عبد الخبیراشرفی مصباحی
صفحات : ۳۰۴
سن اشاعت: ۱۴۴۱ھ؍۲۰۲۰ء
ناشر : اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن حیدرآباد
ہدیہ : ۲۰۰؍روپے
مبصر : محمد ساجدرضامصباحی

خطۂ بنگال میں اسلام کی شمع فروزاں کر نے اور توحید ورسالت کا پیغام عام کرنے کے لیے صوفیۂ عظام کے جو مقدس قافلے وارد ہو ئےان میں امام الصوفیہ ،حضرت شیخ جلال الدین تبریزی سہروردی علیہ الرحمہ کو اولیت حاصل ہے ۔آپ پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے بنگال میں سہروردی سلسلۂ تصوف کو فروغ دیا۔دراصل غیر منقسم ہندوستان میں سلسلۂ سہرودریہ کے جو اہم مراکز تھے ، ان میں ملتان اور بنگال کو خاص اہمیت حاصل تھی ،ملتان میں شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کی خانقاہ اہل تصوف ومعرفت کا مرکزبنی ہوئی تھی، ادھر بنگال میں شیخ جلال الدین تبریزی نے رشد وہدایت اور تصوف وروحانیت کی بزم آراستہ کررکھی تھی۔
شیخ جلال الدین تبریری [متوفی:۶۴۲ھ/۱۲۴۴ء] اپنے عہد کے جید عالم ، متبحر فقیہ ،بلند پایہ محدث اوربےمثال فلسفی ومعقولی تھے،دوسری جانب معرفت وروحانیت اور طریقت ومشیخیت کے بھی اعلیٰ مقام پر فائز تھے،ریا ضت ومجاہدہ،زہد وتقویٰ میں بے نظیر تھے،مستجاب الدعوات تھے ، جو کہہ دیتے ہو جا تا ، جو چاہ لیتے کر گزرتے، آپ راجا لکھمن سین کے زمانے میں بنگال تشریف لائے ، لکھنوتی [پنڈوہ شریف] اور دیو تلا میں خانقاہیں قائم کیں ،پنڈتوں اور جوگیوں سے مناظرے کیے ، بنگال کے جادوگروں اورساحروں سے مقابلہ کیا، ہزاروں افراد آپ کے دست حق پر مشرف بہ اسلام ہو ئے ، راجا اور اس کے درباری بھی آپ کےگرویدہ ہو گئے ، اس طرح بنگال میں اسلام کا جھنڈا لہرانے والوں میں آپ کو اولیت حاصل ہوئی ۔

’’احوال وآثار: شیخ جلال الدین تبریزی‘‘خطۂ بنگال کے اسی اولین داعی ومبلغ کی حیات وخدمات پر مشتمل گراں قدر علمی ، تحقیقی اور دستاویزی کتاب ہے ، جس کے مؤلف علم وتحقیق کی دنیا میں امتیازی شناخت کے حامل عالم ومحقق حضرت مولانا مفتی عبد الخبیر اشرفی مصباحی ہیں،اتر دیناج پور بنگال آپ کا آبائی وطن ہے،ان دنوں اتر پردیش کی ایک اہم دینی درس گاہ دارالعلوم عر بیہ اہل سنت منظر اسلام ،التفات گنج ، امبیڈکر نگر کے عہدۂ صدارت پر فائز ہیں ،ایک اہم ادارے میں درس وتدریس اورصدارت وقیادت کی منصبی ذمے داریوں کو بحسن وخوبی نبھانےکے ساتھ تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ صوفیہ ٔبنگال آپ کی تحقیق وجستجو اور تصنیف وتالیف کا خاص محور ہیں،ادھر چند سالوں کے اندر آپ نے اس موضوع پر جس انداز میں کام کیا ہےوہ یقینا تحقیق وریسرچ سے دل چسپی رکھنے والے علما ومحققین کے لیے مشعل راہ ہے، اس حوالے سےآپ کی تصانیف ’’حیات مخدوم العالم،آئینۂ ہندوستان اخی سراج الدین عثمان : احوال وآثار، ارشادات مخدوم العالم شیخ علاء الحق پنڈوی، شیخ نور قطب عالم حیات وخدمات اہل علم وادب کے مابین مقبول ہیں،آپ ڈیڑھ در جن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں ،آپ کا اسلوب نگارش بڑادل پذیر ہے،برجستگی اور روانی آپ کی تحریر کے خاص عنصر ہیں ، آپ جتنا اچھا لکھتے ہیں اتناہی اچھا بولتے بھی ہیں ،تدریس ، تحریر اور تقریر پر یکساں عبوریقینا آپ پراللہ جل شانہ کا خاص فضل ہے ، جو کم ہی لوگوں کا حصہ ہوا کرتا ہے۔

معروف ادیب وشاعر ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی کے یہ کلمات یقینا صداقت پر مبنی ہیں کہ :
’’ مفتی عبد الخبیر اشرفی صاحب میدان قرطاس وقلم کے شہ سوار اور ترجمہ نگاری کے دُرّشہوار ہیں،آپ ایک بہترین عالم، فاضل اور منجھے ہو ئے قلم کار ہیں ،عربی زبان میں لکھی گئی اہم کتب کو اردو کے قالب میں ڈھالنا آپ کے اہم ترین مشاغل میں سے ایک ہے۔[احوال وآثار: شیخ جلال الدین تبریزی،ص:۲۶]
’’احوال وآثار: شیخ جلال الدین تبریزی‘‘ میں کل ۱۰؍ابواب ہیں،ابتدائی صفحات میں خاک ہند کی بڑی قدآور شخصیتوں کے گراں قدر تاثرات اور تجزیے شامل ہیں ، یہ تاثرات روایتی انداز میں صرف کتاب اور صاحب کتاب کی تعریف وتوصیف پر مشتمل نہیں ہیں ، بلکہ ان عبقری شخصیتوں کے مبارک کلمات سے شیخ جلال الدین تبریزی پر ایک تحقیقی دستاویز منظر عام پر لانے اور ان کے حوالے سے منتشر اور الجھے ہو ئے مواد کو تحقیق کی کسوٹی میں پرکھ کر قارئین تک پہنچانے کی دشواریوں کا بھی انداز ہ ہو تا ہے۔
ڈاکٹر سید علیم اشرف جائسی صدر شعبۂ عربی مولانا آزاد نیشنل یونی ورسٹی حیدر آباداپنے تاثراتی کلمات میں لکھتے ہیں :
’’حضرت شیخ جلال الدین تبریزی کے بیشتر احوال پردۂ خفا میں ہیں ، اور اس کا شکوہ ان کے ہر سوانح نگار نے کیا ہے ، اور جو حالات دستیاب ہیں ، وہ سخت اضطراب وانتشار کا شکار ہیں ، ایسے میں کسی بھی مصنف بالخصوص ایسے مصنف کی دشواری کا اندازہ لگایا جاسکتاہے جو ایک تحقیقی علمی اور منہجی کتاب زیب قرطاس کرنا چاہتا ہے۔‘‘[احوال وآثار: شیخ جلال الدین تبریزی،ص:۱۷]

اور بقول ڈاکٹر سید شمیم الدین منعمی :
’’ انھوں نے ماخذات پر توجہ صرف کی ہے اور اس کے نتائج اخذ کر نے میں جرح اور تنقید کے صحت مند اصولوں کو پیش نظر رکھا ہے ۔‘‘[احوال وآثار: شیخ جلال الدین تبریزی،ص:۱۵]

ڈاکٹر سجاد عالم رضوی مصباحی ،اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ تاریخ پریسڈینسی یونی ورسٹی ، کولکاتا کے مطابق :
اس کتاب کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ موصوف نے تحقیق وتجزیہ کے ساتھ ’’ تطبیق‘‘ کو بھی پیش نظر رکھا ہےــــــــــ ہر روایت کے لیے وہ دستیاب حوالہ جات کو پیش کرتے ہیں اور اگر ان میں اختلافات ہوں تو ان کی وضاحت کرتے ہیں اور پھر علمی تجزیہ کے بعد ان میں تطبیق کی کوشش بھی کرتے ہیں ،اس طرح سے یہ کتاب علم وتحقیق کے علمیاتی اورمنہاجاتی معیاروں پر لکھی گئی ہے ۔‘‘ [احوال وآثار: شیخ جلال الدین تبریزی،ص:۲۰]

ان کے علاوہ قائد ملت حضرت سید محمو د میاں قبلہ ، ڈاکٹر سید فضل الرحمن کاظمی،مولانا عبد الخالق اشرفی وغیرہ کے قیمتی کلمات وتاثرات بھی کتاب کی اہمیت کو دوبالاکرتے ہیں ۔

’’احوال وآثار: شیخ جلال الدین تبریزی‘‘ میں درج ذیل دس ابواب ہیں :
!باب اول :سلسلہ ٔ سہروردیہ اور بانیان سلسلۂ سہروردیہ 4باب دوم: ولادت ،تعلیم وتر بیت ، خاندانی پس منظر ، مرشدان طریقت 5باب سوم : شیخ تبریزی اور مشائخ سلسلہ ٔ سہروردیہ تعلقات وروابط 6 باب چہارم :شیخ جلال الدین تبریزی اور مشائخ سلسلۂ چشتیہ روابط وتعلقات7باب پنجم : قیام دہلی 8باب ششم : قیام دہلی 9باب ہفتم : قیام بنگال سے وفات تک:باب ہشتم:عکس شخصیت;باب نہم : کشف وکرامات <باب دہم : شیخ شبھو دیا ۔ ایک تعارف مع خلاصہ ۔

ان تمام ابواب میں مصنف نے بڑی مہارت کے ساتھ شیخ جلال الدین تبریزی کے حوالے سے دستیاب مواد کو چھان پھٹک کر اور کڑیوں سے کڑیاں ملاکر قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ، جن جن مقامات پر مولف کو تردد ہوا، یا راویوں میں اختلاف نظر آیا ، انھوں نے مکمل تحقیق وجستجو کے بعد اپنا موقف بیان کیا ہےاور دیگر اقوال پر عدم اعتماد کی وجہ بھی بیان فر مائی ہے، خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے ثانوی حوالوں پر اعتماد نھیں کیا ہے بلکہ حتی الامکان اصل اور بنیادی ماخذ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے،ایک تحقیقی اور دستاویزی سوانح کی یہ سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے ، جو اس کتاب میں جا بجا نظر آتی ہے۔
مولف نے شیخ جلا ل الدین تبریزی کے حوالے سے انٹر نیٹ پر دستیاب مواد کوبھی کھنگالا ہے اور ان پر بھر پور نقد فرمایا ہے ، نیزان کی سوانح پر انگریزی ،بنگلہ، فارسی اور اردو زبانوں میں لکھی گئی کتب، مقالات اور مضامین کا بھی مطالعہ کر کے ان میں درج غیر معتمد اقوال اور بے بنیاد باتوں کوواشگاف فرمایا ہے ۔
قدیم مآخذ میں شیخ جلال الدین تبریزی کے حالات منتشر ہیں ، شیخ کا تذکرہ سب سے زیادہ ملفوظات مشائخ چشت میں ملتا ہے ، بقول مولف قدیم معتبر کتابوں میں آپ کے حالات سب سے زیادہ سیر العارفین میں ملتے ہیں ،مؤ لف نےاپنے مقدمے میں نے شیخ کے حالات پر تین غیر معتبر مراجع کا ذکر فرمایاہے،’’ سفر نامہ شیخ جلا الدین جہانیاں جہاں گشت‘‘،اس کتاب میں متعدد ایسی باتیں ہیں ، جنھیں قبول کر نے سے ذہن انکار کرتاہے،اہل تحقیق کے نزدیک یہ کتاب غیر معتبر ہے۔’’ سفر نامہ ابن بطوطہ‘‘،اس کتاب میں ابن بطوطہ نے شیخ جلال الدین تبریزی سے ملاقات کا ذکر کیا ہے، جب کہ محققین کی ایک جماعت نے اس ملاقات کا انکار کیا ہے۔’’ شیخ شبھودیا ‘‘ اس کتاب کا مصنف ہلا یودھا مشرا، وزیر راجا لکشمن سین کو بتایا جاتا ہے ، جس میں شیخ کی متعدد کرامتوں کا ذکر ہے ، محققین نےاس کتاب کو جعلی قرار دیا ہے۔[ مقدمہ از مولف ملخصا]
کتاب کے معیار اور منہج تحقیق کو سمجھنے کے لیے مولف کی یہ وضاحت کافی ہے:
’’ شیخ جلال الدین تبریزی علیہ الرحمہ کے احوال وآثار لکھتے وقت ہم نے اس بات کا خیال رکھاہے کہ جہاں کہیں بھی مذکورہ کمزور اور مشکوک مراجع سے کوئی بات نقل کی گئی ہے ، اس کی نشان دہی کر دی گئی ہے، اگر وہ بات دیگر معتبر اور اہم مراجع کے خلاف معلوم ہوئی تو اس کی تردید کر دی گئی ہے ، خصوصا شیخ شبھو دیا کی کوئی بات ہم نے درج نہیں کی ہے ۔‘‘ [مقدمۂ کتاب ، ص: ۳۴]

اس کتاب کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ ۸۰۰؍ سال کے طویل عرصے کےبعد پہلی بار شیخ جلال الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کے احوال واثار پر یہ ضخیم اور تحقیقی کتاب منظر عام پر آرہی ہے، اس کتاب کی تالیف کے لیے مولف نے ۶۰؍ سے زائد کتب اور مراجع ومصادر کو کھنگالا ہےاور دوسال کی کڑی محنت ومشقت کے بعد یہ اہم کتاب معرض وجود میں آئی ہے۔

مولف نے شیخ جلا الدین تبریزی کی سوانح نگاری کےساتھ ضمنا متعدد سلاسل تصوف اور شیخ کے معاصر صوفیہ ٔ کرام کے احوال بھی قلم بند فر مائے ہیں ، یہ ضمنی تذکرے محض بیان حکایت کے لیے نھیں ہیں ،بلکہ ان تذکروں کی روشنی میں شیخ کی شخصیت اور خدمات کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

باب اول میں سلسلہ ٔ سہروردیہ ، بانی سلسلۂ سہروردیہ ، شیوخ سلسلۂ سہروردیہ ، بھارت میں سلسلہ سہروردیہ کا ابتدائی دور اور اس کے اہم مراکز پر روشنی ڈالی گئی ہے ،باب دوم میں شیخ جلال الدین تبریزی کی ولات اورتعلیم وتر بیت کے تذکرے کے ضمن میں اس عہد کے حالات کا ایک خاکہ ذہن نشیں ہو جاتا ہے ، تذکرۂ مرشدان ِ طریقت کے ضمن میں شیخ ابو سعید تبریزی ، شیخ شہاب الدین تبریزی کی عظمتوں اور رفعتوں سے آشنائی ہو جاتی ہے ۔باب سوم میں شیخ جلال الدین تبریزی کے سفرہند کی تفصیلات کے ساتھ شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی ،شیخ حمید الدین ناگوری کی جلوہ سامانیوں سے بھی بہرہ ور ہو نے کا موقع ملتا ہے ۔باب چہارم میں شیخ جلا الدین تبریزی اور مشائخ سلسلۂ چشتیہ کے تعلقات وروابط کے جھروکوں سے اس عہد کے روحانی مراکز اور مقبولان بارگاہِ الہی خصوصا سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی ، شیخ فریدالدین گنج شکر، شیخ قطب الدین بختیار کاکی اوشی کی بارگاہوں میں بھی حاضری ہو جاتی ہے، باب پنجم میں دہلی کے اندرشیخ جلالدین تبریزی کے قیام کے ضمن میں وہاں کی ہنگامہ آرائیوں اور نشیب وفرازکے عبرت آموز حالات کا بھی مشاہدہ ہو جاتاہے ،باب ششم میں قیام بدایوں کے بہانے بدایوں کے سیاسی وروحانی تعارف سے بھی آگاہی ہو جاتی ہے، باب ہفتم میں قیام بنگال سے وفات تک کے حالات کی اطلاع ملتی ہے ،اسی سفر میں بنگال میں اسلام کی اشاعت ،اس عہد کے بنگال کے سیاسی وتہذیبی حالات ، ابن بطوطہ سے ملاقات پر مصنف کی راے اور شیخ کی حیات وخدمات سے جڑے بہت اہم واقعات سے بھی ذہن ودماغ میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ باب ہشتم میں شیخ جلال الدین تبریزی کا شخص وعکس موضوع سخن ہے ، اس باب میں آپ کے علمی آثار ، انقلاب آفریں تعلیمات ، عبادات ومجاہدات اور اخلاق وکردار کے جلوے پوری آب وتاب کے ساتھ نظر آتے ہیں ، باب نہم میں کشف وکرامات کو جگہ دی گئی ہے، جن سے شیخ جلال الدین تبریزی کی روشن ضمیری اور روحانی مقام ومرتبے کا اندازہ ہو تا ہے۔

پوری کتاب کا مطالعہ کر نے کے بعد جہاں شیخ جلا الدین تبریزی کے احوال وآثار سے واقفیت ہوتی ہے ، وہیں ان کی عظمتوں کے دیے بھی دل میں روشن ہو جاتے ہیں ، اور اس عہد کی علمی وروحانی تاریخ بھی ذہن وودماغ کے پردوں پر نقش ہو جاتی ہے۔ مولف کا سدا بہار اسلوب بیان قاری کی دل چسپی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کراتا ہے ،مولف کا صاحب تذکرہ سے جذباتی تعلق ضرورہے ، لیکن حقائق کے بیان میں کہیں بھی ان کے جذبات غالب نہیں ہو ئے ہیں ۔

چند سال قبل اہل علم وادب کےمابین ایک محترم نام متعارف ہوا،ان کے کاموں نے ہندوستان کے اہل علم خصوصا نئی نسل کے علماومحققین کو ان کی جانب متوجہ کیا ، یہ مبارک نام محترم بشارت علی صدیقی کا ہے ، اشرفیہ اسلامک فاؤنڈیشن حیدر آباد کے ڈائریکٹر ہیں ، جدہ شریف میں قیام ہے، انھوں نے مختصر سے عرصے میں سوسے زائد کتابیں نئی تحقیق ، ترجمہ اور تحشیہ کے ساتھ شائع کیا ہے ، اور کمال یہ ہے کہ انھوں نے زیادہ تر کام نوجوان اہل علم سے کرایا ہے ، گویا انھوں نے بہت سے نئے فارغین مدارس اور نوجوان مصنفین ومولفین کو اپنی صلاحیتوں کے بہتر استعمال کا ایک اہم پلیٹ فارم دیا ہے ، ان کی کاوشیں یقینا لائق مبارک باد ہیں ، زیر تبصرہ کتاب کی کی ترتیب واشاعت میں بھی انھوں نے اہم کردار اداکیا ہے،مولف نے اپنے مقدمے میں اس کابڑ ےاہتمام کے ساتھ تذکرہ فرمایا ہے ، کتاب کے آخری باب میں بشارت صاحب نے’’ شیخ شبھو دیا‘‘ نامی کتاب[ جو شیخ جلال الدین تبری کی کرامات اور کہانیوں پر مشتمل ہے] کا خلاصہ تحریر فرمایاہے ،سنسکرت میں لکھی گئی اس کتاب کا انگریزی ترجمہ سامنے رکھ کر انہوں چند صفحات میں اس کی عمدہ تلخیص پیش فر مائی ہے ۔

کتاب کا گیٹ اپ عمدہ ،سرورق دل آویز اورطباعت معیاری ہے ، امید ہے کہ یہ کتاب بھی مولف کی دیگر تالیفات کی طرح مقبول عام وخاص ہو گی ۔

محمد ساجد رضا مصباحی
About the Author: محمد ساجد رضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجد رضا مصباحی: 56 Articles with 106198 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.