پوری دنیا کا راج دلارا بن جانے والا کاون ہمارے مرغی زار
میں جس حالت زار سے دوچار تھا تو کسی بھی وقت اللہ کو پیارا ہو سکتا تھا ۔
اس کے بارے میں معلوم ہؤا کہ وہ اٹھائیس برسوں سے آہنی زنجیروں میں جکڑ کر
رکھا گیا تھا تو ذہن میں یہی خیال آیا کہ اگر کاون کسی کو قتل کر دیتا تو
چودہ سال بعد جیل کی سلاخوں سے باہر آ جاتا ۔ تو اس کا ایسا کیا جرم تھا کہ
وہ اس سے دگنی مدت بعد بھی پابجولاں تھا ۔ پھر اس سلسلے کی وڈیوز کو وزٹ
کرتے ہوئے ایک جگہ سے معلوم ہؤا کہ چار سال پہلے اس نے ایک ملازم سے
بدسلوکی سے تنگ آ کر اسے مار ڈالا تھا ۔ پھر مقدمہ تو کاون پر بنتا تھا ۔
قید تنہائی تو وہ ویسے بھی بھگت ہی رہا تھا اگر اسے سزائے موت عطا کر دی
جاتی تو اپنی اتنی اذیتناک زندگی کی قید سے بھی آزاد ہو جاتا ۔ مگر پھر وہی
بات ہے کہ ہمارے ہاں تو دن دیہاڑے بھری سڑکوں پر بیوہ ماؤں کی گود اجاڑ
دینے والے اور اپنے گھر کے واحد کفیل کے اوپر کلوز سرکٹ کیمروں کے سامنے
گاڑی چڑھا دینے والے سفاک قاتلوں تک کو تو پھانسی چڑھایا نہیں جاتا وہ تک
تو ہماری کرپٹ عدلیہ اور نظام کے جھول کے طفیل آزاد دندناتے پھرتے ہیں تو
پھر یہ تو ایک بےزبان مظلوم جانور تھا ۔ اگر بچ بھی گیا تو اس میں عجب کیا؟
کاون جیسے کھڑوس و نامراد ہاتھی کو اندر خانے ہی ٹھکانے لگا دیا جانا کوئی
ایسی بڑی بات نہیں تھی مگر اسے برداشت کیے جانے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے
کہ اس کے لیے مختص فنڈز سے اس کے رکھوالے بھی مستفید ہوتے تھے ۔ اس کے لیے
لائی جانے والی شراب میں تک خرد برد ہوتی تھی ۔ بھئی وہ کمبخت کون سا
مسلمان تھا ایک کافر ہاتھی ہی تھا نا؟ مگر اس کی دیکھ بھال پر مامور اہلکار
تو مسلمان تھے نا یا نہیں؟ دیس کو پوری دنیا میں بدنام کرنے میں انہوں نے
بھی اپنا حصہ ڈالا یا نہیں؟ کیا کسی نے سوچا کہ ان کے کرتوتوں کے کارن اور
ادارے کی بےحسی و نا اہلی کے نتیجے میں وہ نوبت آئی کہ کاون کی مظلومیت اور
بےکسی پورے جہان پر عیاں ہو گئی ۔ اور سارے کافر و مشرک اسے انصاف دلانے کے
لیے متحرک ہو گئے ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس کے لیے سب سے پہلے آواز بھی ایک
مسلمان ڈاکٹر لڑکی نے اٹھائی اور پھر اس کا علاج اور ضروری تربیت بھی ایک
مسلمان ڈاکٹر نے ہی کی ۔ مگر اس کی بیرون ملک منتقلی کے لیے خطیر رقم کی
فراہمی اور سب سے زیادہ فعال کردار ایک غیر مسلم گانے بجانے والی عورت نے
کیا ۔ دفتری و انتظامی معاملات کی ساری بھاگ دوڑ اور تگ و دو کا سہرا ایک
مغربی تنظیم کے سر بندھا ۔ لیکن ہم کس منہ سے ان سے یہ توقع رکھیں کہ وہ
کسی انسان کو اس جانور کے ہی برابر سمجھ لیں اس کے بھی حقوق اور بازیابی کے
لیے آواز اٹھائیں ۔ ہم خود کس مرض کی دوا ہیں؟ ہم مسلمانوں کو تو اپنی
عیاشیوں اور من مستیوں سے ہی فرصت نہیں ہے بس ایکدوسرے کی کمر میں خنجر
گھونپنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہم پر تو یہ وقت ہی اپنے کرتوتوں کے سبب آیا ہے
کہ آج ہم کسی لائق نہیں ہیں ۔ قاتلوں غداروں اور ضمیر فروشوں کو اپنا ہیرو
بنا لینے والی قوم اپنے پیروں پر تو کھڑی ہو جائے تاکہ غیروں کو اس پر ہاتھ
ڈالنے سے پہلے سو سو بار سوچنا پڑے ۔
(رعنا تبسم پاشا)
|