علم و تعلیم اور مراکزِ علم و تعلیم!

اللہ کریم سلامت فرماۓ اختر کاشمیری صاحب کو کیا تاریخی ؤ علمی وضاحت دی ہے.

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یُونس ، اٰیت 83 تا 89 علم و تعلیم اور مراکزِ علم و تعلیم !! ازقلم..... اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
فما
اٰمن لموسٰی
الا ذریة من قومہ
علٰی خوف من فرعون
وملائھم ان یفتنھم وان فرعون
لعال فی الارض وانہ لمن المسرفین
83 وقال موسٰی یٰقوم ان کنتم اٰمنتم
باللہ فعلیہ توکلواان کنتم مسلمین 84 فقالوا
علی اللہ توکلنا ربنا لاتجعل فتنة للقوم الظٰلمین 85 و
نجینا برحمتک من القوم الکٰفرین 86 واوحینا الٰی موسٰی و
اخیہ ان تبواٰ لقومکما بمصر بیوتا وجعلوابیوتکم قبلة واقیموا الصلٰوة
وبشرالمؤمنین 87 وقال موسٰی ربنا انک اٰتیت فرعون وملائہ زینة واموالا فی
الحیٰوة الدنیا ربنا لیضلواعن سبیلک ربنااطمس علٰی اموالھم واشددعلٰی قلوبھم حتٰی
یرواالعذاب الالیم 88 قال قد اجیبت دعوتکما فاستقیما ولا تتبعٰٓن سبیل الذین لا یعلمون 89
فرعون زمین پر بہت اُونچی اُڑان بَھرنے اور سزائیں دینے میں حَد سے گزرنے والا ایک سَنگ دل انسان تھا اِس لیۓ اُس کے اور اُس کے سفاک سرداروں کے خوف کے باعث علمِ مُوسٰی اور تعلیمِ موسٰی کی ایک قابلِ لحاظ جد و جُھد کے بعد بھی بہت کم لوگ مُوسٰی پر ایمان لاۓ تھے اور جو لوگ مُوسٰی پر ایمان لاۓ تھے اُن کو مُوسٰی نے ھدایت کی تھی کہ اللہ پر ایمان لانے اور دل کا اطمینان پانے کے بعد تُم اپنی سلامتی کے بارے میں اللہ پر بھروسا رکھو اور اُن ایمان دار لوگو نے جواب دیا تھا کہ ھم اللہ کی ذات پر بھروسا کیۓ ہوۓ ہیں اور اللہ سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ اپنی رحمت و مہربانی سے ہمیں اِس ناانصاف قوم سے آزادی اور اِس مُنکرِ حق قوم سے نجات دے دے ، قومِ مُوسٰی کے اُن ایمان دار لوگوں کی دُعا کے بعد ھم نےمُوسٰی و ھارون کی حرکت و عمل کو مضبوط اور مربُوط بنانے کے لیۓ یہ حُکم دیا تھا کہ وہ فوری طور پر اپنے گھروں کو اپنی تحریکِ آزادی کا مرکز بنالیں اور آزادی کے اسی مرکز سے اپنی قوم کے نام حوصلے اور تسلّی کے پیغام و اَحکام جاری کیا کریں ، مُوسٰی و ھارون نے اللہ کا یہ حُکم پاتے ہی اپنے گھر کو قومِ مُوسٰی کی تحریکِ آزادی کا مرکز بنا دیا تھا لیکن فرعون اور اس کے ہر کارے اِس مرکز پر مُسلسل نظر رکھے رہتے تھے جس کی وجہ سے مُوسٰی کی تحریکِ آزادی عملا ایک چار دیواری تک محدُود ہو کر رہ گئ تھی اور مُوسٰی و ھارون نے اِس صورتِ حال سے مُضطرب ہو کر اللہ سے دُعا کی تھی کہ اے ھمارے رَب ! تُونے فرعون اور اُس کے سرداروں کو جو مال و اَسباب دیا ھے وہ اِس لیۓ تو نہیں دیا ھے کہ وہ تیرا دیا کھائیں اور تیرے دُشمنوں کے گُن گائیں ، سو اے ھمارے رَب ! اَب تو اِن سخت دِل لوگوں کے دل مزید سخت کردے اور اِن پر ھدایت کے تمام دروازے اُس وقت تک بند کر دے جب تک یہ اپنے سر پر آنے والے عذاب کو اپنے سر پر آیا ہوا نہ دیکھ لیں ، اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ھم نے تُمہاری دُعا قبول کر لی ھے ، اَب تُم دل کی کامل لَگن کے ساتھ اپنی تحریک جاری رکھو لیکن یہ بات بھی یاد رکھو کہ تا حُکمِ ثانی تُم نے اَجنبی لوگوں کو اپنے قریب نہیں آنے دینا اور خود بھی اُن کے قریب نہیں جانا !

مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
دُنیا میں جب بھی اللہ کا کوئ رسول یا نبی آیا ھے تو وہ اپنے ساتھ دلیل اور علم کی دو روشنیاں لے کر آیا ھے ، علم سکھانا چونکہ ایک تدریجی عمل ھے اِس لیۓ اللہ کا ہر رسول اور ہر نبی جب تک زمین پر رہا ھے علم سکھاتا رہا ھے لیکن جہاں تک دلیل کا تعلق ھے تو اللہ کے ہر ایک رسول اور ہر ایک نبی نے اہلِ دُنیا کو ہمیشہ ہی اپنے اُس علم کی تعلیم سے پہلے اُس علم کے علمِ حق ہونے کی ایک قابلِ فہم دلیل دی ھے ، پھر جس انسان کو اُس رسول اور اُس نبی کی وہ دلیل سمجھ آگئ ھے تو وہ اُن پر ایمان لے آیا ھے اور جس انسان کو اُن کی وہ دلیل سمجھ نہیں آئ تو اُس نے اپنی جہالت کے باعث اُن کا اِنکار کر دیا ھے ، گزشتہ اٰیات کے مضمون میں ھم نے مُوسٰی کے مقابلے میں آنے والے جن جُہلاۓ مصر کا ذکر کیا تھا وہ سلطنتِ مصر کے وہ جادُو گر تھے جن کا مَبلغِ علم جادُو تھا اور وہ اپنے عھدِ کے جس رسول کا مقابلہ کرنے کے لیۓ آۓ تھے اُس رسول کے پاس وحی کا علم اور وحی کی دلیل تھی اور فرعون کے در بار میں اُس کو علم سے پہلے اُسی دلیل کی ضرورت تھی جس کو ماننے والا صاحبِ ایمان ہو جاتا ھے اور جس کا اِنکار کرنے والا کافر کا کافر ہی رہ جاتا ھے اور مُوسٰی علیہ السلام نے اپنے علمِ نبوت سے پہلے فرعون اور اُس کے جادُوگروں کے سامنے جو دلیل پیش کی تھی اُس دلیل کا نام عصاۓ مُوسٰی تھا اور اِس دلیلِ عصاء کے بارے میں زبان و لُغت کے حوالے سے ھم سُورةُالاَعراف کی اٰیت کی اٰیت 103 کے تحت اپنی یہ معروضات تحریر کر چکے ہیں کہ عصا کا ایک معنٰی لاٹھی سے کسی کو مارنا ہوتا ھے اِس لیۓ اہلِ عرب جب " عصاالرجل " کہتے ہیں تو اِس سے مُراد کسی کو لاٹھی سے مارنا ہوتا ھے ، عصا کا دُوسرا معنٰی کسی زخمی انسان یا حیوان کے زخم کو باندھنا ہوتا ھے اور اہلِ کلام جب " عصاالجرح " کہتے ہیں تو اُس کا مقصد زخم کو باندھنے کی کسی چیز سے زخم کو باندھنا ہوتا ھے ، عصا کا تیسرا معنٰی مُنتشر اَشیاء و اَفراد کو جمع کر کے ایک جماعت بنانا ہوتا ھے اور عرب جب " عصاالقوم " کہتے ہیں تو اُن کا مَنشا قوم کے بکھرے ہوۓ اَفراد کو جمع کرنا ھوتا ھے ، عصا کا چوتھا معنٰی پُھوٹ ڈالنا ہو تا ھے اور عرب جب " انشقت عصام القوم " کہتے ہیں تو اُس کا مقصد مخالف قوم میں پُھوٹ ڈالنا یا اپنی قوم میں پُھوٹ پیدا ہونے کی نشان دہی کرنا ہوتا ھے ، عصا کا پانچواں معنٰی دلیل کے ساتھ کسی کی مُخالفت کرنا اور دلیل کے ساتھ اُس پر غالب آنا مُراد لیا جاتا ھے ، چناچہ جب اہلِ عرب " شق العصا " کہتے ہیں تو دلیل کے ساتھ کسی کی مُخالفت کرنا اور دلیل کے ساتھ اُس پر غالب آنا مُراد لیا جا تا ھے ، عصا کا چَھٹا معنٰی کسی کو کسی بات سے خبردار اور مُتنبہ کرنا ہوتا ھے اور اہلِ عرب جب " قرع لہ العصا " بولتے ہیں تو کسی کو کسی بات سے خبردار کرنا یا مُتنبہ کرنا ہوتا ھے ، عصا کا ساتواں معنٰی کسی کو کسی بات پر حَد سے زیادہ ملامت کرنا بھی ہوتا ھے اور اَفرادِ عرب جب کسی کو حَد سے زیادہ ملامت کرتے یا ملامت ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو وہ " قرع العصاالملامة " کے اَلفاظ استعمال کرتے ہیں ، عصا کا آٹھواں معنٰی کسی کا روحانی یا جسمانی طور پر منزلِ مُراد تک پُہنچنا ہو تا ھے اور زعماۓ عرب جب کسی کو جسمانی یا رُوحانی طور پر کامیاب و کامران ہوتا دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں " اقصی المسافر العصا " یعنی مسافر اپنی منزلِ مُراد پر پُہنچ گیا ھے ، عصا کا نواں معنٰی سہارا لینا اور سہارا دینا بھی ہوتا ھے ، چاھے وہ کسی جاندار چیز کے جسم کا سہارا ہو یا ایک بے جان دیوار یا کسی علمی دلیل کا سہارا ہو ، عصا کا دسواں معنٰی مُخالف فرد یا جماعت کی مُخالفت کرنا ہوتا ھے اور اہلِ عرب جب " شق العصا " کہتے ہیں تو اِس سے اُن کی مُراد کسی کی علمی دلیل کے ساتھ مُخالفت کرنا ہوتا ھے ، اَب اگر کوئ چاھے تو لفظِ "عصا " کے معنی پر صرف ایک بار نہیں بلکہ ایک ہزار بار بھی غور کر لے تو اِس کو قُرآن میں عصا کا معنی مُجرد لاٹھی کہیں بھی نہیں ملے گا اور کبھی بھی نہیں ملے گا کیونکہ عصا کا ایک معنٰی لاٹھی ضرور ھے لیکن صرف مُوسٰی کے ہاتھ کی لاٹھی یا چَھڑی نہیں ھے بلکہ مُوسٰی کے علم و تکلّم کی وہ بے مثال دلیل بھی ھے جس نے پہلے ہی مرحلے میں فرعونی سلطنت کے سارے علماۓ سحر کار کو ایک مُشتِ غبار بنا کر اُڑا دیا تھا اور موجُودہ اٰیات میں اللہ تعالٰی نے جب مُوسٰی و ھارون کو اُن ہی نو مُسلم اور بے سہارا لوگوں کو ایک مرکز پر لانے اور ایک مر کز پر رکھنے کا حکم دیا اور اُنہوں نے اِس حُکم پر عمل کر لیا تو مُوسٰی کی تحریکِ آزادی کے دُشمن گھر کی چاردیواری میں گھرے ہوۓ اِس مرکز کو بھی برداشت نہ کر سکے یہاں تک مُوسٰی و ھارون نے اِن کے خلاف اپنی وہ مُشترکہ بد دُعا کرنے پر مجبور ہوگۓ جو فورا ہی منظور ہوگئ ، اٰیاتِ بالا کے سلسلہِ کلام کی اٰیت 87 میں مُوسٰی و ھارون کو اپنی قوم کے لیۓ جو قبلہ مقرر کرنے کا حُکم دیا ھے اُس سے اُن کا یہی علمی و فکری اور نظریاتی مرکز مُراد تھا جو آزادی کی ہر تحریک کی طرح اِس تحریک کی عملی تربیت کے لیۓ بھی لازم تھا اور ابراھیم علیہ السلام نے مکے میں جو قبلہ قائم کیا تھا وہ بھی اہلِ علم سے اللہ کے اَحکام لینے اور اہلِ علم کو اللہ کے اَحکام دینے کا ایسا ہی ایک علمی اور نظریاتی مرکز تھا اور اِس مرکز سے جو علمی و فکری اَحکام دیۓ اور لیۓ جانے مطلوب ہیں اُن کی اسی فکری اساس کا نام قبلہ ھے لیکن اُس عمارت کا نام قبلہ نہیں ھے جس سے وہ انسان کو وہ علمی و عملی نظریہ حیات ملتا ھے اور اہلِ حیات اُس نظریہِ حیات کی اتباع کرتے ہیں ، قبلہ اور تحویلِ قبلہ کی مُفصل بحث ھم نے سُورةُ البقرة کی اٰیت 142 تا اٰیت 150 میں کردی ھے اور قُرآن کی اُن اٰیات میں قبلہِ اَوّل و قبلہِ دوم کی کوئ بحث موجُود نہیں ھے کیونکہ اہلِ اسلام کا نظریاتی قبلہ دینِ اسلام ھے اور علمی مرکز کعبہِ مکہ ھے اور اہل روایت کی جُملہ روایات کے مطابق ہجرت نبوی سے پہلے بھی دین کا پہلا علمی مرکز یہی مقامِ مکہ رہا ھے اور ہجرت نبوی کے بعد دین کا آخری علمی مرکز بھی یہی مقامِ مکہ رہا ھے اور اِس بات کا کسی کے پاس کوئ ثبوت نہیں ھے کہ سیدنا محمد علیہ السلام نے ہجرت کے بعد 17 ماہ تک اللہ کے کسی حُکمِ نازلہ کے بغیر ابراھیم کے قبلے کو چھوڑ کر یہود کے قبلے کو اپنا قبلہ بنالیا تھا اور جو لوگ ایسا سمجھتے اور کہتے ہیں وہ دَر حقیقت اللہ کے رسول پر یہُود اور قبلہِ یہُود کی اتباع کا ناپاک الزام لگاتے ہیں اور طرفہ تماشا یہ ھے کہ یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ سیدنا محمد علیہ السلام نے 17 ماہ بعد یہُود کا قبلہ چھوڑ دیا تھا لیکن سوال یہ ھے کہ آپ کا جو خیالی قبلہِ یہُود اللہ کے نبی نے چھوڑ دیا تھا تو آپ کیوں آج تک اپنی پُوری ذہنی بے شرمی کے ساتھ اُس سے چمٹے ہوۓ ہیں اور چمٹے ہوۓ رہنا چاہتے ہیں ، کیا یہ بھی آپ کے جاہلانہ عشقِ رسول کی کوئ عالمانہ رُوحانی منزل ھے کہ جس چیز کو اللہ کا رسول چھوڑ دے آپ اُس چیز سے قیامت چمٹے رہنے پر اصرار فرمائیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 455240 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More