تجزیاتی مطالعہ: ڈاکٹر غلام شبیر رانا
اٹھارہویں صدی میں اردو شاعری میں شہر آشوب کی روایت کو پیشِ نظر ر کھتے
ہوئے مولانا الطاف حسین حالی ؔ نے مسدس کی ہئیت میں نظم’’ مد و جزر اسلام
‘‘ لکھی ۔یہ نظم سب سے پہلے علی گڑھ تحریک کے ترجمان ادبی مجلہ تہذیب
الاخلاق میں سال 1879ء میں شائع ہوئی ۔ موضوع اور مواد کے اعتبار سے قارئین
کی روح اور قلب کی گہرائی میں اُتر جانے والی اس نظم کی مقبولیت کو پیشِ
نظر رکھتے ہوئے جلد ہی اِسے کتابی صور ت میں شائع کیا گیا۔ وہ قوم جس کے
آبا نے قیصر و کسریٰ جیسے جابر شہنشاہوں کے محلات کی اینٹ سے اینٹ بجا د ی
، دارا کے تاج کو اپنے پیروں کے نیچے کُچل ڈالا اور بحر ظلمات میں گھوڑے د
وڑا دئیے بر صغیر میں نو آبادیاتی دور میں اپنی بے عملی اور بے حسی کے
نتیجے میں ہاتھ ہر ہاتھ دھرے منتظر فردا تھی ۔ علی گڑھ تحریک کے ترجمان
مجلہ ’’ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ‘‘میں سال 1878ء میں جنوری کے شمارے میں
شائع ہونے والے سر سید احمد خان نے اپنے ایک اہم مضمون میں مولانا الطاف
حسین حالی ؔ کی معرکہ آرانظم ’’ مسدس مد و جزر اسلام ‘‘کے بارے میں کئی چشم
کشاصداقتوں اور وسیع تر ادبی اور تا ریخی تناظر کی جانب قارئین کی توجہ
مبذول کرائی ہے ۔اپنے اِس تحقیقی مضمون میں سر سید احمد خان نے اِس امر کی
صراحت کی ہے کہ مولانا الطاف حسین حالی ؔکی ابد آشنا تصنیف ’’ مسدس مد و
جزر اِسلام ‘‘ میں جنوبی لائبیریا کے شہر روندا سے تعلق رکھنے والے اپنے
عہد کے مشہور فلسفی اور عربی زبان کے ممتاز شاعر ابولبقا الروندی (
1204-1285)کے افکار کی باز گشت سنائی دیتی ہے اور یہ اخذ و استفادہ کی ایک
مفید صورت دکھائی دیتی ہے ۔ عربی زبان کے ممتاز شاعر ابولبقا الروندی نے
اپنے قصیدہ نونیا ( جس کاہر مصرع ’’ ن ‘‘ پر ختم ہو ) ’’ رثا ء الاندلس‘‘ (
تخلیق : 1267ء ) میں اندلس کی تباہی پر اپنے گہرے رنج اور کرب کا اظہار کیا
تھا۔ عربی زبان کے ممتاز شاعر ابولبقا الروندی کی نظم کا انگریزی ترجمہ ’’
Lament for the fall of Seville ‘‘ کے عنوان سے ہو چکاہے ۔اس موضوع پر
حوالہ درج ذیل ہے :
EVE TIGNOL A Note on the Origins of Hali's Musaddas-e Madd-o Jazr-e
Islam. Journal of the
Royal Asiatic Society, Available on CJO 2016
doi:10.1017/S1356186316000080
لکھنو کے قصبے کاکوری سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز نعت گو شاعر
محسن کاکوروی( 1837-1905) کا نعتیہ قصیدہ لامیہ بہت مشہور ہوا۔ یہ قصیدہ بر
صغیر کی جامعات کے نصاب میں شامل ہے ۔
سمت ِ کاشی سے چلا جانبِ متھر ا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جَل
جنوبی لائبیریا کے شہر روندا( Ronda) سے تعلق رکھنے والے فلسفی اور عربی
زبان کے ممتاز شاعر ابولبقا الروندی ( 1204-1285: Abu al-Baqa al-Rundi )
کے عربی زبان میں لکھے گئے قصیدہ میں حُسن اور کار ِ جہاں کے ہیچ ہونے کے
بارے میں جو کیفیت جلوہ گر ہے وہ قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرتی ہے ۔
عربی زبان کے ممتاز شاعر ابولبقا الروندی نے اپنے قصیدہ نونیا ( جس کاہر
مصرع ’’ ن ‘‘ پر ختم ہو ) ’’ رثا ء الاندلس‘‘ ( تخلیق : 1267ء ) میں اندلس
کی تباہی پر اپنے گہرے رنج اور کرب کا اظہار کیا تھا۔
لِکُلِ شَیٗ اِذا ماتم نُقصانُ
فلا یُغیُّر بِطیبِ العیش انسانُ
ھی الامور کما شاھتھا دُول
من سرہ زمن ساعتہ اُزمان
و ھٰذِ ۃِ الدارُ لا تبقی علی احدٍ
ولایدُومُ عَلی حَال ٍ لَھا شان ’
ذیل میں اس کے چند اشعار کا انگریزی ترجمہ پیش کیا جاتاہے ـ:
In all that exists,there is imperfection...therefore ,let no human be
deceivedby the beauty of life.
These are the matters ,as rising and falling empires have seen them
:whomsoever a moment has satisfied ,many moments have agonized.
And this home does not remain for anyone,nor does things stay the same
,in any meaningful way.
مولانا الطاف حسین حالیؔ ( 1837-1914) کا شمار علی گڑھ تحریک کے فعال رکن
اورنو آبادیاتی دور میں بر صغیر کی ملت اسلامیہ کی فلاح اور قومی بیداری کے
لیے کام کرنے والے حریت فکر کے مجاہدوں میں ہوتاہے ۔ ہیہات کہ ملت اسلامیہ
کا اتنابڑا محسن اور ناصح جس کی ہر بات میں اِک نئی بات ہوتی تھی اب کہیں
موجود نہیں ۔ شاعر ،سوانح نگار ،نقاد ،مصلح اور خادمِ خلق کی حیثیت سے
مولانا الطاف حسین حالی نے جو مِلّی شاعری لکھی اس کے مطالعہ سے یہ تاثر
قوی ہو جاتاہے کہ یہ ایک پاکیزہ کردار ،نیک سیرت ،وسیع النظر اور مصلح ادیب
کی طرزِ فغاں ہے ۔ایک مخلص ملی رہنما نے اپنی شاعر ی میں ایک نکتہ داں
،نکتہ شناس،نکتہ سنج اور معاملہ فہم مدبر کی حیثیت سے نو آبادیاتی دور کے
مسائل پر بھر پور توجہ دی۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ کی شاعری کا ایک ایک
لفظ لوحِ دِل پر نقش ہو جاتاتھا۔ مولانا الطاف حسین حالی ؔ کے اسلوب کے
بارے میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان نے لکھا ہے :
’’ اُنھوں نے ( مولانا الطاف حسین حالیؔ ) مسلمانوں کے زوال و ادبار ،غدر
کے کُشت و خون پھر مشتبہ لوگوں کے ساتھ انگریزوں کا بہیمانہ برتاؤ وغیرہ سب
کچھ اپنے دِل کی آ نکھوں سے دیکھا تھااور بصیرت کی نگاہوں سے جانا پہچانا
تھا۔‘‘( ۲)
اسلامی اقدار اور مذہب سے محبت مولانا الطاف حسین حالیؔ کی خاندانی میراث
تھی ۔ابتدائی عمر میں قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد مولانا الطاف حسین حالی ؔ
نے بر صغیر کی ملت اسلامیہ کی فلاح میں گہری دلچسپی لی۔انھوں نے سیّد جعفر
علی سے فارسی اور مولوی ابراہیم حسین انصاری سے عربی کی تعلیم حاصل کی
۔اپنی شاعری کو فکر و فلسفہ سے مزین کرنے میں مولانا الطاف حسین حالیؔ نے
بہت محنت کی ۔انھوں نے بر صغیر کی ملت ِ اسلامیہ کو جہد للبقا کے تقاضوں کے
مطابق اپنی حالت بدلنے پر مائل کیا ۔اُن خیال تھا کہ نو آبادیاتی دور میں
بر صغیر کی ملت اسلامیہ کی تعلیم کے بغیر اُن کی حالت بدلنے کی مساعی ثمر
بار نہیں ہو سکتیں ۔ نو آبادیاتی دور میں بر صغیر کی ملت اسلامیہ کی زبوں
حالی پر مولانا الطاف حسین حالی ؔ کے در د انگیزنالے عہد آفریں نظم ’’ مسدس
مد و جزر اسلام ‘‘ کی صورت میں سامنے آئے ۔
سَلَف کی دیکھ رکھّو راستی اور راست اخلاقی
کہ اُن کے دیکھنے والے ابھی کچھ لوگ ہیں باقی ( حالیؔ)
واضح اندازِ فکر ،حق گوئی ،بے باکی ،روانی اور سہل ممتنع کے اعجاز سے اِس
نظم نے فصاحت ،بلاغت اور حسن کا ارفع معیار پیش کیا۔ اس رجحان سازادبی
تخلیق سے اردو شاعری میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس کے معجز نما اثر سے
فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی ۔تاریخ ِ اسلام کے عہد ِزریں کے حوالے سے مسد س
نے بر صغیر کی ملت اسلامیہ کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے میں اہم کردارادا
کیا ۔ یہ ایک ایسا آ ئینہ ہے جس میں نو آبادیاتی دور میں بر صغیر کی ملت
اسلامیہ پر ٹوٹنے والے کوہ ِستم کا لرزہ خیز اور اعصاب شکن منظر دیکھا جا
سکتاہے ۔ تہذیب الاخلاق میں سال 1879 ء میں کتابی صورت میں شائع ہونے والی
نظم ’’ مسد س مد و جز ر اسلام ‘‘ مواد اور متن کے اعتبار سے اپنی مثال آپ
ہے ۔ بر صغیر میں نو آبادیاتی دور میں ملت اسلامیہ کے زوال کا یہ نوحہ اردو
شاعری میں اٹھارہویں صدی میں شہر آشوب کی روایت کا ایک تسلسل ہے ۔ نو
آبادیاتی دور میں بر صغیر کی ملت اسلامیہ کے انہدام کی روداد سے متعلق
مولانا الطاف حسین حالی ؔ کے یہ شعر پڑھ کر قار ی کی آ نکھیں بھیگ بھیگ
جاتی ہیں ۔
کسی نے یہ بقراط سے جا کے پُوچھا
مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کیاکیا ( صنعت ِ تکرار ) ، تلمیح : بقراط ( Hippocrates)یونانی طب کا موجد
کہا’’ دُکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جِس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جِس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اُس کو ہذیان سمجھیں
سبب یا علامت گر اُن کو سُجھائیں
تو تشخیص میں سو نکالیں خطائیں ( محاورہ : خطا نکالنا = خامی تلاش کرنا )
دوا اور پر ہیز سے جی چُرائیں
یوں ہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں ( محاورہ : جی چُرانا= بچنے کی کوشش کرنا،
رفتہ رفتہ: صنعت تکرار )
طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس ہوں وہ
یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ ‘‘
یہی حال دُنیا میں اُس قوم کا ہے
بھنور میں جہا ز آکے جِس کا گِھراہے !
کِنارہ ہے دُور اور طوفاں بپا ہے!
گُماں ہے یہ ہر دَم کہ اَب ڈُوبتاہے !
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
گھٹا سر پہ اَدبار کی چھا رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دِکھلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے ( پس و پیش : مرکب عطفی )
چپ و راست سے یہ صداآ رہی ہے ( چپ و راست : مرکب عطفی )
کہ کل کون تھے آج کیا ہو گئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم
پر اُس قوم غافل کی غفلت وہی ہے ( قوم ِ غافل : مرکب اضافی )
تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
مِلے خاک میں پر رعونت وہی ہے (محاورہ : خاک میں مِلنا =بر باد ہو نا)
ہوئی صبح اور خواب ِ راحت وہی ہے (مرکب ِ اضافی : خواب ِ راحت )
نہ افسوس اُنھیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ ( ۱)
مآخذ
( ۱) الطاف حسین حالی : مسدس حالی ، خدا بخش اورینٹل لائبریری ،پٹنہ ، سال
اشاعت ۔۱۹۹۵ء، صفحہ ۱۳۔
(۲)غلام مصطفی خان ڈاکٹر : حالی کا ذہنی ارتقا ،اعلیٰ کتب خانہ ،ناظم آباد
،کراچی ،سال اشاعت ،۱۹۵۶ء ،صفحہ ،۷۔
|