رواں صدی میں موسمیاتی تبدیلی کے خطے کو لاحق خطرات نے
انسانی تاریخ تبدیل کردی ہے ۔ خدشات کے باوجود ابھی تک متاثرممالک کی جانب
سے کو ئی جامع حکمت عملی طے نہیں ہوسکی ۔موسمیاتی تبدیلی سے لاکھوں انسان
کی زندگیاں کو خطر ے میں ہیں ۔ اس حوالے سے عالمی اداروں کی جانب سے جاری
رپورٹس میں بتایا جارہاہے کہ ۔عالمی موسمیاتی ادارے ورلڈ میٹرو لوجیکل
آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او)نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وبا کے باعث لاک ڈان
کے باوجود موسمیاتی تغیر کا عمل نہیں رکا بلکہ کم و بیش اسی تیزی سے جاری
ہے۔ اسٹیٹ آف گلوبل کلائمیٹ 2020 ء کی عبوری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011
ء سے 2020 ء کے درمیان آنے والے 10 سال تک ریکارڈ کیے جانے والے درجہ حرارت
کے اعداد و شمار کے مطابق یہ سب سے زیادہ گرم رہنے والی دہائی ہے اس دہائی
کے بھی سب سے زیادہ گرم ترین سال 2015 ء سے 2020 ء کے درمیان ہی ثابت ہوئے
ہیں۔سائنس دانوں کے مطابق اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2016ء ، سال
2019 ء اور پھر رواں سال درجہ حرارت ریکارڈ رکھنے کی 170 سالہ عالمی تاریخ
کے تین گرم ترین سال ثابت ہوئے ہیں گلوبل کلائمیٹ رسک کی فہرست میں پاکستان
کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے پہلے پانچ ممالک میں شامل کیا گیا
ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تباہی کے
علاوہ خوارک کا بحران بھی پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اس سے قبل
پاکستان اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر تھا۔ماہرین کے مطابق اس صورتِ حال میں
ملک کی معیشت کا زیادہ انحصار زراعت پر ہونے کی وجہ سے اسے شدید معاشی
بحران سے بھی دو چار ہونا پڑ سکتا ہے پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر
ممالک میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے ہائیڈرو لوجیکل سائیکل متاثر ہونے سے
بارشیں کم ہو رہی ہیں اور پانی کی کمی سر اٹھا رہی ہے جبکہ دوسری جانب گرمی
بڑھنے کی وجہ سے یا تو فصلیں وقت سے پہلے تیار ہو رہی ہیں یا پھر گرمی سے
وہ تباہ ہو رہی ہیں۔اس صورتحال میں جلدی تیار ہونے والی فصلوں پر حشرات کے
حملوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور حال ہی میں ٹڈی دل جنوبی ایشیا کے مختلف
ممالک میں فصلوں پر حملہ آور ہو چکا ہے اس کے علاوہ بے وقت بارشوں سے بھی
فصلوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور غیر معمولی بارشیں بھی فصلوں کی
تباہی کا موجب بن رہی ہیں چاول اور گنے کی فصلیں جن میں پانی کی بے تحاشا
ضرورت ہوتی ہے یہ فصلیں پانی کی کمی کی صورت میں کیسے بہتر اگ سکیں گی؟یہی
وجہ ہے کہ ملک میں خوارک اور اجناس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا
ہے۔ادھر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سورج کی روشنی پڑنے سے سمندر میں جذب
ہونے والی توانائی اور حدت میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے اور کرہ ارض
پر پائے جانے والے سمندروں کے 80 فیصد حصے نے رواں سال میرین ہیٹ ویو کا
سامنا کیا ہے اس ہیٹ ویو سے آبی حیات اور آبی ماحولیات پر انتہائی منفی
اثرات مرتب ہوئے ہیں جو پانی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب ہونے کے باعث
پہلے ہی بہت زیادہ تیزابیت کا شکار ہے کئی عالمی تنظیموں اور ماہرین کی
جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ کے مطابق شدید گرمی کی لہر، جنگلوں میں لگنے
والی آگ، سیلاب اور بحر اوقیانوس میں سمندری طوفانوں نے نہ صرف لاکھوں
لوگوں کو متاثر کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ انسانی صحت، تحفظ اور پھر کورونا
وبا سے معاشی استحکام کو بھی شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق
کورونا وبا کے پیش نظر لاک ڈؤان کے باوجود ماحول میں گرین ہاس گیسز کے
اخراج میں اضافے کا رحجان برقرار رہا جس سے آنے والی نسلوں کے لیے زمین
زیادہ گرم ہونے کا سلسلہ جاری ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ گرین ہاس گیسز جو
ماحولیاتی درجہ حرارت بڑھانے اور شدید موسمی تبدیلیوں کی اصل وجہ قرار دی
جاتی ہیں ان کا اخراج کورونا وبا کے دوران صنعتی پہیہ سست ہونے کے باوجود
کوئی خاص کم نہیں ہوا۔ان حقائق کی بنیاد پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنعتی
ترقی کے دور سے قبل یعنی 1850 ء سے 1900 ء کے دوران ریکارڈ کیے گئے درجہ
حرارت کے مقابلے میں 2020 ء میں اوسط عالمی درجہ حرارت 1.2 سینٹی گریڈ بڑھا
ہے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ 2024 ء تک یہ درجہ
حرارت اس معیار سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ جائے گا۔سائنس دان اس ریکارڈ
گرمی کے سال کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سال بحر اوقیانوس
اور اس کے اردگر آباد ممالک میں شدید درجہ حرارت نوٹ کیے گئے اسی طرح
سائبیریا سے لے کر آسٹریلیا اور پھر امریکہ کے مغربی ساحل اور جنوبی امریکہ
کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے دھوئیں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے
رکھا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کے لئے
ہرذمہ دار شہری کو ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے کردارادا کرنا ہوگا ۔
|