حکمت کی ضرورت اور اہمیت

ارشادِ ربانی ہے ’’محمد (ﷺ) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ (ﷺ) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔‘‘۔ ایک فرد کا بیک وقت سخت اور نرم ہونا بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے۔ عام سمجھ تو یہ ہے کوئی نرم مزاج کا حامل تو کوئیسخت مزاج ہوتا ہے۔ خلیج کی گرمی میں میں نے اپنے ایک عربی دوست سے تاخیر کی شکایت کرتے ہوئے کہا یار آج کل تو نلکے کا پانی بھی ایسا آتا ہے اگر اس میں چائے کی پتی پڑے تو چائے بن جائے ۔ اس نے کہا ہمارے دفتر میں تو خیر ایسا نہیں ہے مگر میں جس عمارت میں رہتا ہوں وہاں صبح دس بجے کے بعد یہی کیفیت ہوجاتی ہے۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ عمارت پرانی ہے اور اس زمانے میں نہ جانے کیوں ان لوگوں نے لوہے کی ٹنکی لگادی تھی جو اب تک لگی ہوئی ہے اور شمسی توانائی براہِ راست جذب کرلیتی ہے۔ میرے پوچھنے پر کہ آپ لوگ دن میں نہاتے کیسے ہیں اس نے کہا گیزر ہے تو کیا مسئلہ ہے؟ اس جواب نے مجھے چونکا دیا۔

میں نے پھر پوچھا اس گرمی میں گیزر؟ میں تو اس موسم اسے چلاتا ہی نہیں ۔ وہ قہقہہ لگا کر بولا ہم بھی نہیں چلاتے ۔ یہ مزید دلچسپ جواب تھا۔ میں نے سوال کیا تب پھر اس کا کیا فائدہ ؟ اس نے کہا اگر کوئی بغیر خرچ کے فائدہ پہنچائے تو کیا نہیں لینا چاہیے ؟ میں بولا کیوں نہیں لیکن بغیر چلائے گیزر کس کام کا؟ اس نے بتایا دیکھو گیزر گھر کے اندر غسل خانے میں ہوتا اور ائیرکنڈیشن کی وجہ گھر کے ساتھ غسل خانہ اور اس میں لگا گیزر بھی سرد ہوتا ہے۔ اس کے اندر موجود پانی پر سورج اپنا قہر نہیں برساتا اس لیے اس کا پانی گرم نہیں ہوتا ۔ بات سمجھ میں آگئی۔ گیزر ہر دو موسم میں باعثِ رحمت ہے لیکن سردیوں میں اس کو مفید بنانے کے لیے بجلی کی مدد سے گرمی دینی پڑتی ہے ۔ گرمیوں میں وہ بغیر بجلی کے ازخود رحمت بن جاتا ہے۔ یعنی گھر میں لگی گیزر نما پانی کی ٹنکی حسبِ ضرورت گرم اور ٹھنڈا پانی دے سکتی ہے اور دونوں صورتوں میں مفید ہوسکتی ہے تو انسان کیوں نہیں؟ انسان اگر اپنے مزاج کے ایک ہی پہلو سے واقف ہو اور دوسرے نابلد ہو تو اسمیں اس کا اپنا ہی قصور ہے اور اس طرح کی افادیت بھی محدود ہوجاتی ہے۔

نبی پاک ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت وعداوت رکھی ،اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے دیا اور اس کی خاطر روکا(نہ دیا ، اس نے اپنے ایمان کی تکمیل کرلی‘‘ ۔ تکمیل ایمان کی خاطر محبت کے ساتھ عداوت اور دینے کے ساتھ روکنا جیسامتضاد رویہ اختیار کرنے کی شرط بظاہر بہت مشکل معلوم ہوتی ہیں ۔ ایک مرتبہ سردیوں کے زمانے میں دہلی جانے کا اتفاق ہوا تو ہوٹل کے استقبالیہ نے پوچھا صاحب اے سی کمرہ دوں یا نان اے سی ؟ ہم نے کہا یار اس سردی میں اے سی کی کیا ضرورت ؟ وہ ہنس کر بولا صاحب میں کولر کے بارے میں نہیں اے سی کے بارے میں پوچھ رہا تھا ۔ میں نے کہا ہاں ہاں کیا فرق پڑتا ہے؟ وہ بولا کیوں نہیں پڑتا؟ کولر ہوا کو ٹھنڈا کرتا ہے لیکن اے سی حسبِ ضرورت ٹھنڈا اور گرم دونوں کردیتا ہے۔

ہم نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے؟ جواب ملا آپ جو درجۂ طے کردیں وہ ہوا کو پھینکنے سے قبل اس کو گرم یا سر د کرکے مقررہ درجہ حرارت پر لے آئے گا ۔ اسی کے ساتھ نہ صرف یہ سمجھ آگیا کہ اگر اے سی مشین حسبِ ضرورت اپنا رویہ بدل سکتی ہے تو ہم کیوں نہیں ؟ لیکن ایسا کرتے وقت موسم یعنی حالات کا درست اندازہ لگا کر منا سب درجۂ حرارت کا تعین ضروری ہے۔ اسی کا نام حکمت ہے جس کے بارے میں فرمانِ قرآنی ہے ’’وہ جس کو بھی چاہتا ہے حکمت عطا کردیتا ہے اور جسے حکمت عطا کردی جائے اسے گویاخیرکثیر عطا کردیا گیا اور اس بات کوصاحبانِ عقل کے علاوہ کوئی نہیں سمجھتا ہے‘‘۔ اہل دانش کا یہی تو کام ہے کہ حالات اندازہ لگا درست حکمت عملی طے کریں اور لوگ حسبِضرورت اپنی ذمہ داری ادا کرتےر ہیں یعنی ؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہوتو فولاد ہتے مومن
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448620 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.