قرآن، اہل بیتؑ اور سائنس۔۔۔۔۔۔۔ امتِ مسلمہ کا نوحہ یا نئے دورکی نوید

تحقیق وتحریر:محمدعلی سید تبصرہ: سیدمزمل حسین
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورۂ فرقان کی آیت نمبر ۳۰ میں ایک درد ناک ٍرویہ کی جانب توجہ دلائی ہے۔ (وقال الرسول یاربِ انَّ قومی اتخذوا ھذاالقرآن مھجوراً)مختلف زمانوں میں قدیم اورجدید مفسرین نے اس آیت میں استعمال کیے گئے ایک لفظ مھجوراً کے معنی مختلف اندازمیں کیے ہیں۔ مثلاً مولاناابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس سے مراد قرآن کو تضحیک کا نشانہ بنانا جبکہ مولانااحمدرضاخان بریلویؒ نے اس سے مراد قرآن کو چھوڑنالیاہے۔

یہی موضوع زیرنظرکتاب ‘‘قرآن، اہلِ بیتؑ اورسائنس’’ میں نہایت تفصیل کے ساتھ زیربحث آیاہے۔ یہ کتاب ملک کے نامورمصنّف محمدعلی سید کی تحقیق اورتحریر کا مرقع ہے۔ اس سے پہلے محمدعلی سید صاحب ‘‘جسم کے عجائبات، پانی کے عجائبات’’ اوردیگرموضوعات پر سائنسی اندازمیں کتابیں لکھ کر دادوتحسین حاصل کرچکے ہیں۔ محمد علی سید کوئی روایتی مصنف نہیں ہیں بلکہ وہ قرآن، رسولِ اکرمﷺ اورسائنس کے مابین فطری تعلق کے شارح ہیں۔ محمدعلی سید نے اپنی دیگرکتابوں میں بھی یہ بات بیان کی ہے کہ قرآن اوررسولِ اکرمﷺ کی تعلیمات میں اورسائنس کی دنیامیں کوئی تضادنہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں بیان کیے گئے سائنسی حقائق اوررسول اکرمﷺ اوران کے اہلِ بیت ِ اطہار کی تفاسیر اورتشریحات میں گہری مطابقت موجود ہے۔ محمدعلی سید اس کے بعد شاکی ہوجاتے ہیں کہ امتِ مسلمہ نے قرآن اوررسولِ اکرمﷺ کی تعلیمات کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ یہ بات کرتے ہوئے اشک بار ہوجاتے ہیں کہ قرآن اوررسولِ اکرمﷺ کی تعلیمات کو غیرمسلموں نے مسلمانوں سے زیادہ سمجھا اوراسی وجہ سے آج وہ دنیا کی قیادت اورسیادت کے مالک ہیں۔

زیرِنظرکتاب کاانتساب انہوں نے یوں کیاہے:‘‘علمائے قرآن، علمائے اسلام، علمائے سائسن، اوران تمام اساتذہ کرام کے نام جنہوں نے اپنی زندگی کے شب وروز علم کو عام کرنے میں صرف کیے اورکررہے ہیں، علم مطلب ‘‘ترسیل معلومات’’ ہرگزنہیں، علم سے مراد ، آثارِاسرارکائنات کے ذریعے عقل انسانی کی بیداری ہےکہ ایک عبداپنے گردپھیلے وہم وگمان سے نکل کر پورے شعور کے ساتھ اپنے معبود حقیق کی جانب متوجہ ہوسکے۔ ’’

موجودہ کتاب کے بارے میں عالمی شہرت یافتہ سائنس دان دانشور، ادیب اورشاعر پروفیسرڈاکٹرنویدامام نے لکھتے ہوئے اسے قرآن کی سائنسی تفسیرسے تعبیرکیاہے۔ ان کا کہناہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو معراجِ رسولِ اکرمﷺ کی صورت میں نِت نئی دنیاؤں سے شناسا کرچکے ہیں۔ اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ معراجِ مصطفیٰﷺ سے کیانتیجہ اخذکرتاہے۔

‘‘تفہیم وتفسیرحیات کی نئی کہکشائیں ’’ کے زیرعنوان نامورمحقق، ادیب اورشاعر ڈاکٹرہلال نقوی نے یوں گلہ کیا ہے:
مایوسِ شفاکو آسرادیتے ہیں
آیات کوتعویزبنادیتے ہیں
ہوشیارتولیتے نہیں قرآں سے سبق
بے ہوش کو قرآں کی ہوادیتے ہیں

ڈاکٹرہلال نقوی مزیدلکھتے ہیں: ‘‘محمدعلی سید عصرحاضر کی علمی تحقیق، رصدگاہوں، مصنوعی سیارچوں اورخلاء میں تیرتی دوربینوں کوایک زندہ حوالہ بناکہ آگے بڑھتے ہیں اورآج کے ناظر،آج کے قاری اورآج کے سامع کہ یہ بتاتے ہیں کہ آیات وارشادات الٰہی اس سانسی ارتقاکے دورمیں کس طرح اپنادامن خیال وسیع کرتی جارہی ہیں۔’’ وہ مزیدلکھتے ہیں: محمدعلی سیدکی یہ کتاب ‘‘قرآن، اہلِ بیتؑ اورسائنس’’ کسی ایک فرقے کسی ایک گروہ، یاکسی ایک مذہب کے ماننے والوں کے لیے ہی استفادے کی راہیں نہیں کھولتی، یہ کتاب ایک ایسی سبیل ہے جوپوری انسانیت کے لیے سیرابی کا سرچشمہ ہے۔’’
امریکہ میں مقیم ماہرِمعاشیات عمران رضا نے کہاہے کہ محمدعلی سید صاحب نے سائنس کی مددسے قرآن کی حقانیت کو ثابت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ اس کے برعکس کام کیاہے اوراس کتاب میں اُن سائنسی حقائق کو بیان کیا جوساتویں صدی عیسوی سے قرآن میں موجود ہیں۔ محمدعلی سید کی اس کتاب پر جن دیگر علمی شخصیات نے اظہارِ خیال کیا ان میں پروفیسرڈاکٹرنیّرعزیز مسعودی، سابق پرنسپل جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل کالج، کراچی، پروفیسرڈاکٹراقبال اخترخان، ہمدرد یونیورسٹی کراچی اورپروفیسرعبدالمبین خان اسلامیہ کالج کراچی شامل ہیں۔

محمدعلی سید کی 372صفحات پر مشتمل یہ کتاب جن موضوعات پر مشتمل ہے ان میں الحمدللہ رب العالمین، عالمین کیاہے؟، انسان کی تخلیق اورعلق، آگ کا درخت، چھے دن کیاہیں؟، مچھلی کہاں سے آئی، پھیلنے والی زمین، کشش ثقل، محفوظ چھت، فضاء کا وزن، ستاروں کے مقامات، سائے۔۔اگرٹھہرجائیں، پھیلتی ہوئی کائنات، پتھروں کی آندھی، سورج کی موت، چاردن کا مطلب،کوزے میں سمندر، پانی سے توانائی، ہواکی تحریر، مچھرکی مثال، نطرنہ آنے والی چیزیں، حضرت عیسٰی ؑ کی ولادت، ہواکہاں سے آئی؟، مٹی کا انسان، تاریک ستارے، آسمان کے راستے، نورانی ستون، زندگی کا مزہ، پھٹنے والی زمین، سردسیارہ، ستارے اورفاصلے، سات آسمان، فرعون کی لاش، جانوروں کی زندگی، عذاب کے بادل، انسان کی تخلیق، پہاڑکب پیداہوئے، شہدکی مکھی، چیونٹیاں۔۔ خداکی نشانیاں اورفطری انتخاب کا نظریہ شامل ہیں۔
محمدعلی سید موجودہ میڈیاکے چکاچوند اورقدیم زمانے کی جہالتوں اورفلسفیوں کے مباحث کی گتھیوں کے سلجھانے کے عمل میں الجھے ہوئے انسان کی انگلی پکڑ کر اُسے قرآن اوررسولِ اکرمﷺ کے سامنے سرنگوں کرواتے نظرآتے ہیں۔ وہ انسان کو ان حقائق سے آگاہ کرتے ہیں جو ساتویں صدی عیسوی سے قرآن کریم میں موجود توہیں لیکن انہیں محض ڈرانے اورانسان کو خوفزدہ کرنے اورزیادہ سے زیادہ مُردے سلانے اوربخشوانے کے لیے استعمال کیاجارہاہے۔

مندرجہ بالاموضوعات کے مطالعہ کے بعد محمدعلی سید کے قرآن سے تمسک اور رسولِ اکرمﷺ اوران کے اہلِ بیت اطہارسے ان کے تعلق کا برملا اظہارہوتاہے۔

قارئین کے لیے محمدعلی سید کی اس کتاب کے صرف ایک عنوان ‘‘پھیلتی ہوئی کائنات’’ میں سے ایک پیراگراف۔

‘‘کیایہ کائنات ہمیشہ سے موجود ہے، اورہمیشہ سے ایسی ہی ہے جیسی آج ہمیں دکھائی دے رہی ہے؟ یہ سورج، چاند،ستارے اورکہکشائیں جولامحدودکائنات کا حصہ ہیں، کیایہ ہمیشہ سے اسی طرح موجود تھے یاکبھی یہ موجود نہیں تھے اورکسی نے انہیں اپنے دستِ قدرت سے بنایاہے؟۔’’

حضرت رسولِ اکرمﷺ نے امیرالمؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہٗ کو ایک دعا سکھائی تھی جس کے چندجملے محمدعلی سید نے اپنی اس کتاب میں شامل کیےہیں۔ ‘‘کوئی معبودنہیں سوائے تیرے۔ توموجودتھا کہ ابھی آسمان بلندنہیں کیاگیاتھا اورنہ زمین بچھائی گئی تھی اورنہ سورج چمکایاگیاتھا۔ نہ تاریک رات اورروشن دن پیداہواتھا۔ نہ سمندرموجزن تھا، نہ کوئی اونچاپہاڑ۔ نہ کوئی چلتاستارہ تھااور نہ چمکتاچاند۔ نہ چلتی ہواتھی، نہ برستے والابادل، نہ چمکتی بجلی تھی اورنہ کڑکتے بادل، نہ سانس لینے والی روح تھی اورنہ اڑنے والاپرندہ، نہ بہتاپانی تھا، نہ جلتی ہوئی آگ۔’’
محمدعلی سید نے شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کے شعر
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
کوبھی قرآن اوراس میں بیان کردہ سائنسی حقائق کی تفسیر کی جانب ایک اشارہ قراردیاہے۔ لازم ہے کہ یہ کتاب وسیع پیمانے پر پڑھی جائےاسے محض سائنسی علوم کی کتاب سمجھ کر لائبریریوں تک محدودنہ کردیاجائے اورنہ ہی اسے محمدعلی سید کے نام کی وجہ سے کسی ایک خاص مکتبِ فکر کی ملکیت سمجھاجائے۔ علم ایک متاع گم گشتہ ہے اسے حاصل کرنے میں عار محسوس نہیں کی جانی چاہیے۔ یہ کتاب قرآن اینڈ سائنس ریسرچ فاؤنڈیشن پاکستان اورزہرا اکادمی کراچی نے مشترکہ طورپر شائع کی ہے۔
اس کتاب میں ہرموضوع پر قرآن کی ایک ایک آیت عربی رسم الخط میں دے دی گئی ہے البتہ مزید حوالہ جات میں صرف قرآنی آیات کے اردوترجمہ پر اکتفاکیاگیاہےجوکہ محلِ نظر ہے۔ قرآنی آیات کے ترجمہ سے پہلے عربی رسم الخط میں آیت کا تحریر کیاجانا لازمی ہوتاہے۔ کتاب میں مختلف مقامات پر پروف کی اغلاط بھی قاری کی توجہ میں خلل ڈالتی ہیں۔ اسی طرح ہر حوالہ فٹ نوٹ کے طورپر موجود ہے لیکن کتاب کے آخرمیں کتابیات نہیں ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ اشاعت میں اس کمی کو دورکردیاجائے گا۔

سیدمزمل حسین، سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر
اقبال انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فارریسرچ اینڈ ڈائیلاگ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد۔
0301-5030533
 

Syed Muzamil Hussain
About the Author: Syed Muzamil Hussain Read More Articles by Syed Muzamil Hussain: 41 Articles with 68563 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.