راجہ گدھ، جو کہ بانو آپا کا ایک بہترین ناول ہے۔ اس میں
حرام مال کے بارے میں بہت ہی عمدہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ رزق حرام
انسان کے اندر ایک منفی چارج چھوڑتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان کے اندر Gene
Mutation پیدا ہو جاتی ہے۔ رزق حرام کے متعلق قرآن پاک میں بھی سخت تائید
کی گئی ہے۔ حرام کھانے والا خود بھی راجہ گدھ بن جاتا ہے اور رزق حرام کی
وجہ سے اس کے اندر حرام سوچیں جنم لیتی ہیں جو گناہ کی طرف گامزن کرتی ہیں۔
اللہ پاک نے انسان کو پیدا فرمایا ہے اور اسی رب الکائنات نے سب انسانوں کا
رزق بھی لکھ دیا ہے۔ اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف بھی
عطا کیا ہے۔ پھر بھی انسان بہت بے صبرا اور سست ہے۔ رزق حلال کی تلاش کی
بجائے حرام رزق کو ترجیح دیتا ہے۔ محنت کو شعار نہیں بناتا۔
پاکستان میں معاشرے کا بڑا حصہ حرام مال پہ پل رہا ہے۔ سرکاری دفتروں میں
رشوت کا بازار لگا ہوا ہے اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ دولت کی اس غیر
مساوی تقسیم سے معاشرے کا نظام خراب ہوا پڑا ہے۔ دولت صرف چند ہاتھوں میں
گردش کر رہی ہے۔ میری نظر میں وہ مزدور اس افسر شاہی سے کئی گناہ بہتر ہے
جو کہ اپنے بیوی بچوں کو حلال رزق کھلاتا ہے۔ افسر شاہی ہو یا کوئی اور
سرکاری ادارہ لوگ غریب کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ حالیہ رپورٹ کے
مطابق پاکستان کا سب سے کرپٹ ترین ادارہ Judiciary ہے جہاں یہ سمجھا جاتا
ہے کہ لوگوں کو انصاف ملتا ہے۔ عدالتوں میں پیشہ ور گواہان بھرے پڑے ہیں جو
کہ جھوٹی گواہی دیتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس دولت و طاقت ہے تو چاہے آپ نے قتل
کیا ہو آپ اس ملک کی عدالتوں سے با عزت بری ہو سکتے ہیں۔ سال پہلے ایک ایم
پی آئے صاحب نے ایک ٹریفک وارڈن پر گاڑی گزار دی تھی جس کی فوٹیج ابھی تک
موجود ہے پر اس ملک کی عدالت نے اس ایم پی آئے کو بھی با عزت چھوڑ دیا۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ شاید یہ عدالتیں غریب کے لئے بنوائی گئی ہوں گی۔
غریب کی معمولی چوری اس کی ساری زندگی نگل جاتی ہے اور طاقت ور لوگ قتل بھی
کر دیں تو با عزت بری ہو جاتے ہیں کیونکہ سب کچھ تو پیسہ لگانے سے ہوتا ہے۔
معراج فیض آبادی نے کیا خوب کہا ہے :
*جو تھے سیاسی گھرانے والے ، سب ایک نکلے ،
بجھانے والے، جلانے والے، سب ایک نکلے*
*حرام کے رزق میں کوئی امتیاز کیسا کہ
کھانے والے، کھلانے والے، سب ایک نکلے*
*ہمارے ماضی کی اک عمارت یہ کہہ رہی ہے
, بچانے والے، گِرانے والے، سب ایک نکلے*
کہا جاتا ہے کہ سود اور رزق حرام کے لقمے دل کو سیاہ کر دیتے ہیں۔ ملاوٹ
کرنا بھی اسی رزق حرام کے زمرے میں آتا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم
نے بھی فرمایا ہے کہ ملاوٹ کرنے والے ہم میں نہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ملاوٹ
کرنے سے لوگ دائرہ اسلام سے بھی خارج ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں دودھ سے
لیکر دواؤں تک میں ملاوٹ پائی جاتی ہے۔ بچوں کی کھانے والی چیزوں سے لیکر
گاڑیوں کے ائل تک ، یہاں ہر شے میں ملاوٹ موجود ہے۔ یورپ اور باقی ترقی
یافتہ ملکوں میں ملاوٹ کا کوئی Concept نہیں پایا جاتا۔ شاید اس لحاظ سے وہ
ہم سے کئی درجے بہتر ہیں۔ نوجوان صحافی اقرار الحسن کو داد دینی پڑے گی جو
کرپشن سے لیکر ملاوٹ تک، اس غلیظ معاشرے کا چہرہ سب کو دیکھا رہا ہے۔
اصل میں ہم بے ایمان پارسا قوم ہیں۔ دولت کی ہوس نے سب کو اندھا کر دیا ہے
اور حلال و حرام میں امتیاز ختم ہو گیا ہے۔ رزق حرام کو انسان نے اپنا عادی
بنا دیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بے پناہ برائیوں نے جنم لیا ہے۔ مسجدیں
ویران ہیں تو سینما گھر اور اڈوں میں بے پناہ رش لگا ہوا ہے۔ میری اللہ پاک
سے یہ دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو رزق حلال کی توفیق عطا فرمائیں ۔ ( آمین
)
اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو.. آمین !
|