سقوط ڈھاکہ

بھارت میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے شہریت کے قانون میں ترمیم اور مسلم دشمنی کے دیگر قوانین، ماردھاڑ ،مظالم کے بعد کسانوں بالخصوص سکھ محنت کشوں کے خلاف مودی کا اعلان جنگ حقائق سے نظریں چرانے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔ اندرا گاندھی کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کرنے کا دعویٰ ایک سیکولر حکمران کا علان تھا مگر اب ایک ہندو انتہا پسند حکمران گاندھی نظریہ کا پرچار کر رہا ہے۔ہم یہاں آج دسمبر 1971کو یاد کر رہے ہیں۔جب پاکستان کو دو لخت کیا گیا۔ پاکستان ٹوٹنے کی وجوہات ہمیشہ افسوس اور صدمے کے ساتھ زیر بحث رہتی ہیں۔دسمبر میں یہ زخم پھر تازہ ہو جاتے ہیں۔ سقوط کے کردار بھی زیر بحث آتے ہیں۔ماضی سے کون سبق سیکھے گا۔ تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے غلطیاں کیوں دہرائی جاتی ہیں۔ آسان طریقہ ہے کہ ذمہ داری کسی کو ملک دشمن،ایجنٹ، سیکورٹی رسک یا مخالف قرار دے کر اس پر ڈال دی جائے۔ 14؍ اگست 1947ء کو دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آنے والی مملکت خدا داد کو ہندوستانی سامراج نے پاکستان اور اسلام دشمنوں کی سرپرستی میں 16؍دسمبر 1971ء کو توڑ دیا۔ پاکستان اپنے قیام کی سلور جوبلی بھی نہیں منا سکا جب اُس کا ایک بازو کاٹ دیا گیا۔ اس طرح اسلام کے نام پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والی واحد مملکت کے خلاف ہندو بنیئے نے انگریزوں کے ساتھ مل کر سازش کی۔ اس سازش کی کامیابی کے لئے پاکستان کے طالع آزما او راقتدار کے بھوکے ہوس پرست حکمرانوں کا بھی کردار رہا۔اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراخ سے۔ انہوں نے اپنی انا کی تسکین کے لئے مسلمانوں کے خواب چکنا چور کر دیئے۔مگر وہ سزا سے صاف بچ گئے۔آج بنگلہ دیش میں پاکستان دوست اور وحدت کے علمبرداروں اور پاک فوج کا ساتھ دینے والوں کو انتقام اور تعصب کی بنیاد پر چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے۔ عدلیہ استعمال کی جا رہی ہے، لیکن ہم خاموش ہیں۔پی ڈی ایم کے لاہور جلسہ کے بعد اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کرنے والوں کے خلاف غداری کے مقدمات دائر کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں لیکن ملک توڑنے والوں ، آئین کو روندنے والوں کے خلاف غداری کا کوئی مقدمہ قائم نہیں کر رہا ہے، جب کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد سقوط سرینگر بھی ہو چکا ہے۔

سقوط ڈھاکہ اور پاکستان توڑنے میں منافرت کا بھی کردار ہے، چاہے وہ لسانی ہو، علاقائی یا معاشی یا وسائل کی تقسیم کی ہو۔ان بنیادوں پر قوموں اور ملکوں کی تقسیم ایک خطرناک روایت بنی، جس کا زیادہ تر ایندھن مسلمانوں کو بنایا گیا حالانکہ دنیا بھر کے مسلمان ایک دین کی بنیاد پر متحدہ و متفق ہو سکتے ہیں لیکن ان میں عربی و عجمی، بلوچی،پنجابی، سندھی، بنگالی، اردو، پشتو، کشمیری وغیرہ جیسی تقسیم کی وبائی پھوٹ ڈالی گئی، جس سے بلاشبہ کشمیریبھی متاثر ہوئے۔ شیخ محمد عبداﷲ اور چودھری غلام عباس کی اسی باہمی لسانی چقپلش کی وجہ سے راہیں جدا ہوئیں جس کا خمیازہ ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو بھگتنا پڑا ۔ یہ درست ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک بڑا تنازعہ زبان کا پیدا ہوا۔ بنگالی بولنے والوں کی اکثریت تھی۔ چونکہ 54 فیصد لوگ بنگالی تھے اس لئے ملک کی سرکاری زبان اردو قرار دینے پر وہ بجا طور پر نالاں رہے حالانکہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی سرکاری زبان قرار دیا جاسکتا تھا۔ 1954ء میں قومی اسمبلی نے اردو، بنگالی اور اسی طرح کی زبانوں کو ملک کی سرکاری زبانیں قرار دینے کی بات کی تھی۔ 16؍دسمبر 1951ء کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد پاکستان عدمِ استحکام کا شکار ہوا ا۔ ظاہر ہے کہ قانون ساز اسمبلی بالکل غیر موثر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ایک عشرہ تک ملک آئین کے بغیر رہا، جب لیاقت علی خان کی جگہ بنگالی گورنر جنرل خواجہ نظام الدین ملک کے وزیر اعظم بنے تو پنجابی سول سروس کے غلام محمد گورنر جنرل بنے۔ 1953ء میں گورنر جنرل نے وزیراعظم کو برطرف کر دیا۔ پنجاب میں مارشل لاء نافذ کر دیا جبکہ مشرقی پاکستان میں گورنر راج لگا دیا۔ ایک بنگالی کو پنجابی کی طرف سے بر طرف کرنے کا مسئلہ دشمنوں کے لئے اتنا معمولی واقع نہ تھا بلکہ پاکستان کے خلاف زبان کو منافرت کے لئے استعمال کرنے کی جڑیں اس کے باعث ہی مضبوط کی گئیں۔
1954ء میں جب غلام محمد نے اپنی کابینہ تشکیل دی تو ایک بنگالی محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم نامزد کیا جو امریکہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے تھے۔ اس دوران مشرقی پاکستان کے انتخابات میں مسلم لیگ کو بنگالی جماعتوں کے اتحاد یونائٹیڈ فرنٹ نے بدترین شکست دی۔ اتحاد کا 21 نکاتی ایجنڈا تھا جس نے مغربی پاکستان کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی بھرپور کوششیں کی۔ حسین شہید سہر وردی کی عوامی لیگ اور فضل الحق کی کرشک سرامک نے نمایاں کردار ادا کیا۔ جو صوبائی خود مختاری چاہتے تھے۔ وزیر اعظم بوگرہ نے جب گورنر جنرل غلام محمد کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے فوج اور بیوروکریسی کو استعمال کیا اور اسمبلی کو ہی ختم کر دیا اور نئی کابینہ تشکیل دے دی۔ بوگرہ وزیراعظم بنے لیکن بے اختیار، فوجی اور بیورو کریٹ جنرل سکندر مرزا وزیر داخلہ بنے۔ آرمی کمانڈر جنرل ایوب خان وزیر دفاع بنے۔ سابق چیف سیکرٹری چوہدری محمد علی وزیر خزانہ بنائے گئے۔ 1956ء میں مغربی پاکستان کے چار صوبوں کو ایک انتظامی یونٹ قرار دیا گیا۔ وقت یوں لسانی منافطرت کو ہوا دیتے ہوئے گزر گیا۔ 1966ء میں شیخ مجیب الرحمن نے اپنے 6 نکاتی پروگرام کا اعلان کیا۔ (1) حکومت وفاقی اور پارلیمانی ہو، آبادی کی بنیادپرارکان منتخب کئے جائیں۔(2) مقامی حکومت خارجہ معاملات اور دفاع کے لئے اصولی طور پر ذمہ دار ہو۔(3) ہر وِنگ کی اپنی کرنسی اور اکاؤنٹ ہوں۔ (4) صوبائی سطح پر ٹیکس جمع ہوں۔ (5) ہر وفاقی یونٹ فارن ایکسچینج آمدن پر خود کنٹرول کرے۔(6) ہر یونٹ اپنی فوج اور نیم فوجی بھرتی کرے۔مجیب کا 6نکاتی پروگرام ایوب خان کے گریٹر نیشنل انٹگریشن(National Integration) سے متصادم تھا۔ اس لئے 1968ء میں مجیب کو حراست میں لے لیا گیا۔

25؍ مارچ 1969ء کو ایوب خان نے مسندِ اقتدار آغا یحییٰ خان کو دے دیا۔ یحییٰ خان نے انتخابات کرا ئے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے 298 ، آزاد نے 2 اور دیگر نے 5 سیٹیں لیں۔ پیپلز پارٹی کو
 ایک سیٹ بھی نہ ملی۔ اس طرح قومی اسمبلی کے انتخابات میں عوامی لیگ نے 167، پیپلز پارٹی نے 88، آزاد نے 7ا ور دیگر نے 5 سیٹیں حاصل کیں۔ صوبائی الیکشن میں عوامی لیگ نے مغربی پاکستان میں ایک بھی سیٹ نہیں لی اور پیپلز پارٹی کی مشرقی پاکستان میں کارکردگی زیرو رہی۔ انتخابات کے نتائج کے مطابق حکومت عوامی لیگ نے بنانی تھی اور مجیب الرحمن کو ملک کا وزیر اعظم منتخب ہونا تھا لیکن پارلیمنٹ کا اجلاس کبھی نہ بلایا گیا۔ یحییٰ خان اور اس کے صلاح کاروں نے انتہائی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا اور بنگالیوں کو اقتدار نہ ملا۔ یحییٰ خان دراصل پاکستان توڑنے کا ایک بڑا کردار بنا۔شیخ مجیب نے ایک اجلاس منعقد کرکے الیکشن میں منتخب ہونے والے صوبائی اور قومی اسمبلی کے ارکان سے حلف لیا۔ جنہوں نے ان کے 6 نکاتی پروگرام کی حمایت کی اور صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا لیکن مغربی پاکستان کی جماعتوں نے اس مطالبہ کو مسترد کر دیا جو ایک انتہائی افسوس ناک بات تھی۔جنوری؍ 1971ء کو یحییٰ خان ڈھاکہ گئے۔ انہوں نے مجیب کے ساتھ میٹنگ کی۔ یحییٰ خان نے واپسی پر لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی جس کے فوری بعد بھٹو نے ڈھاکہ کا دورہ کیا اور شیخ مجیب سے ملاقات کی تاہم انہوں نے واپسی پر اپنے مشن کو ناکام قرار دیا اور راولپنڈی میں جنرل یحییٰ سے ملاقات کی۔ یحییٰ نے اسمبلی اجلاس 3؍ مارچ 1971ء کو طلب کر لیا۔ انہوں نے اس اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا جوکہحیران کن بات تھی۔ یکم مارچ کو یحییٰ خان نے طلب کردہ اجلاس ملتوی کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں اجلاس ملتوی کرنے پر شدید ردعمل ہوا جس پر فوج طلب کی گئی۔ اُس روز یحییٰ خان نے جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کا گورنربنا دیا۔ شیخ مجیب نے نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر دیا۔ اس پر جنرل یحییٰ نے ڈھاکہ کا دورہ کیا اور شیخ مجیب سے ملاقات کی۔ ملاقات میں شیخ مجیب نے تین مطالبات پیش کئے۔(1) مارشل لاء ختم کریں (2) قومی اسمبلی کو کام کرنے دیا جائے (3) قومی اور صوبائی سطح پر اقتدار منتقل کیا جائے۔ لیکن ان مطالبات کو ایک بار پھر نظر انداز کیا گیا۔ شیخ مجیب نے یوم جمہوریہ کے دن مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا۔ مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا۔ یہی موقع تھا جب بھارت نے حالات کا فائدہ اٹھانا شروع کیا۔ بھارت نے بھی مغربی پاکستان کے خلاف لڑنے کے لئے بنگالیوں کی تربیت شروع کر دی۔ جگہ جگہ ٹریننگ سنٹرز کھول دیئے۔ ایک اندازے کے مطابق ابتدائی طور پرمکتی باہنی کی آڑ میں 50 ہزار گوریلا تیار کرکے مشرقی پاکستان میں داخل کئے گئے جنہوں نے پاک فوج کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

ایسٹرن کمانڈر جنرل نیازی کو 9 بڑے نکات پر عمل کرنے کے لئے کہا گیا۔(1) مشرقی پاکستان میں حکومتی رِٹ بحال کرنا (2) انسرجنسی یا درپردہ جنگ کے خلاف آپریشن (3) جغرافیہ کی حفاظت (4) سرحدوں کو بند کرنا (5) محب وطن شہریوں کی حفاظت (6) مواصلات رابطے (7) بیرونی حملے سے بچانا (8) میں فوج کی موجودگی (9) دشمن فورسز کو مشرقی پاکستان میں مصروف رکھنا۔ لیکن جب اکتوبر 1971ء سے بنگلہ دیش میں بھارتی مداخلت میں اضافہ ہو گیا تو جنرل نیازی اس سے نمٹنے کے لئے کوئی بھی کردار ادا نہ کر سکے۔ بھارت نے مکتی باہنی والوں کو تربیت دے کر بنگلہ دیش میں داخل کیا۔ نومبر 1971ء کو بھارتی فوج نے چٹا گانگ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ بھارتی فوج محمد پور کے علاوہ شہزاد پور، ماسلیہ اور چاروباری کی جانب بھی آگے بڑھنے لگی۔ سلہٹ سیکٹر کے اٹگرام اور ذکی گنج پر قبضہ کر لیا گیا۔بعدازاں جنرل نیازی نے 16؍دسمبر 1971ء کو سرنڈر کرلیا۔ آغا شاہی اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے تھے۔ انہیں بھارتی سرکار اور مکتی باہنی کی دہشت گردی کو بے نقاب کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے ساتھ سیاسی مذاکرات کا آپشن بند کر دیا۔ڈھاکہ میں سرینڈر کی دستاویز پر بھارت کی طرف سے لیفٹنٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ جو جی او سی(GOC) تھے اور پاکستان کی طرف سے لیفٹنٹ جنرل عبداﷲ خان نیازی نے دستخط کئے۔ 93 ہزار فوجیوں کاڈھاکہ میں سرینڈر ایک افسوسناک واقعہ تھا ۔
بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ کرکے اندرا گاندھی نے فخر سے کہا کہ انہوں نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دو قومی نظریہ ہی نظریہ پاکستان کی بنیاد ہے جس کے لئے کروڑوں افراد نے ہجرت کی اور لاکھوں افراد نے اپنی جانوں، عزتوں اور مالوں کی قربانی پیش کی اور اپنے گھر بار چھوڑ دیئے۔ جس پاکستان کا تصور مفکر اسلام علامہ اقبالؒ نے پیش کیا جس کے لئے لاکھوں مسلمان قربان ہوئے، اس پاکستان میں73 سال گزرنے کے باوجود سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان کو متصادم کیا گیا ۔ آج بھی عوام بے اختیارہیں۔ آج بھی غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہا ہے۔ آج بھی قومی ایشوز پر سودا بازیاں ہوتی ہیں۔ آج بھی مسئلہ کشمیر پر کنفیوژن ہے۔وہی ادھر تم ادھر ہم کی باتیں ہو رہی ہیں۔وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کے بقول تقسیم کشمیر کی سازش ہو رہی ہے۔ بھارت نے جنگ بندی لائن پر باڑ کے بعد پختہ دیوار لگا دی۔لیکن اسے کوئی روک نہیں سکا۔بھارت نے مقبوضہ ریاست کو ختم کر کے اپنی دو کالونیوں میں بدل دیا، ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے دعوے کرتے رہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان توڑنے والوں کو پاکستان کے دوست قرار ددینے کے منتظر ہیں۔ پاکستان توڑنے میں سب سے بڑا ہاتھ کس کا تھا، ملک توڑنا اگر سب سے بڑی غداری ہے تو غداروں کو کیا سزا ملی۔ ابھی تک تو غداروں کا تعین یا نشاندہی تک نہیں کی گئی۔حمودالرحمان کمیشن نے بھی نشاندہی کی مگر سفارشات پر ابھی تک عمل نہ ہوا۔ جیسے سقوط ڈھاکہ اور پاکستان توڑنے کا کسی کو دکھ، صدمہ نہیں۔ اس لئے سقوط ڈھاکہ اور پاکستان کے ٹوٹنے پر اظہار افسوس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ البتہ نئی نسل کو پاکستان اور اسلام کے دشمنوں کا پتہ چلنا چاہیئے کہ کس نے چہرے پر نقاب چڑھا رکھی تھی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد اب سقوط سرینگر بھی ہو چکا، مگر ہم ایک تقریر سے آگے نہ بڑھ سکے۔ کشمیر کا سودا کرنے کے الزامات بھی لگے ، مگر ہم تماشہ دیکھتے رہے۔پہلے سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن تسلیم کر کے پھر اس لائن پر بھارتی دیوار بندی کی اجازت دے کر کس نے کشمیر کی جنگ بندی لائن کو مستقل سرحد میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی ۔ کس نے ادھر ہم ادھر تم کانعرہ لگا کر پہلے سقوط ڈھاکہ ، پھر سقوط سرینگر کے لئے سی بی ایمز متعارف کرائے۔ کس نے کشمیر کو عالمی مسئلے سے دو طرفہ مسئلہ بنا دیا۔ اس طرح پاکستان ٹوٹنے کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان، دو قومی نظریہ کی سوچ اور کشمیر کاز کو پہنچا۔سقوط ڈھاکہ کے مجرم بچ گئے۔ سقوط سرینگر کے مجرم بھی آزاد ہیں۔ مجرم جب حکمران بن جائے تو انصاف کی کیسی امید۔ ماضی سے سبق سیکھنے کی طرف کوئی متوجہ نہ ہوا۔حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پہلے تو چھپاکر رکھی گئی۔ پھر اس میں تحریف کی گئی۔ لیکن اس کی سفارشات کی فائلیں گرد و غبار میں گم ہو گئیں۔ کسی میں عمل کرنے کی جراء ت ہی نہیں۔کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھنے ، قانون کی حکمرانی ، فوری انصاف کی فراہمی کی باتیں صرف باتوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ اگر کوئی کشمیر پالیسی ہے تو اس پر از سر نو غور، از سر نو تشکیل، جرائتمندانہ اقدامات ، جارحانہ اور اصولی سفارتکاری کی خلاء اب بھی موجود ہے۔ بھارت میں مسلمان 73سال بعد دو قومی نظریہ کو اپنے لہو سے درست ثابت کر رہے ہیں، تاریخ سے سبق سیکھنے والوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ آج ہمیں پھر سے گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ انا کو ختم کرنے کا وقت ہے۔ سب مل کر ملک کی تعمیر و ترقی میں کردار اداکریں تو بہت سی غلطیوں کا ازالہ ہو سکتا ہے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555818 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More