تعارف و تنقید

’’تعارف وتنقید‘‘ معروف ادیب و نقاد ڈاکٹر خواجہ اکرام صاحب اسسٹنٹ پروفیسر جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی کے مختلف النوع مضامین کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت علمی وادبی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ۔ بقول پروفیسر عبد الحق صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی’’ ان کے امتیازات محترم اور مختلف ہیں، وہ اقدار شناشی کے پیکر اور تعلیم و تدریس میں مثالی مقام کے حامل ہیں ، ان کے فکر وعمل کی جولان گاہ تب و تاب زندگی سے روشن ہے‘‘۔

تعارف و تنقید
مصنف : ڈاکٹر خواجہ اکرام،اسسٹنٹ پروفیسر جواہر لال نہرو یونی ورسٹی دہلی
صفحات : ۱۶۰
ناشر : : کتابی دنیا دہلی
مبصر: : محمدساجدرضا مصباحی

’’تعارف وتنقید‘‘ معروف ادیب و نقاد ڈاکٹر خواجہ اکرام صاحب اسسٹنٹ پروفیسر جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی کے مختلف النوع مضامین کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت علمی وادبی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ۔ بقول پروفیسر عبد الحق صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی’’ ان کے امتیازات محترم اور مختلف ہیں، وہ اقدار شناشی کے پیکر اور تعلیم و تدریس میں مثالی مقام کے حامل ہیں ، ان کے فکر وعمل کی جولان گاہ تب و تاب زندگی سے روشن ہے‘‘۔

تعارف و تنقید میں کل ۱۸؍ تحقیقی و تجزیاتی مضامین شامل ہیں جو مختلف مواقع پر لکھے اور مختلف سیمیناروں میں پڑھے گئے ہیں ۔ ان مضامین کے مطالعے سے داکٹر صاحب کی وسعت فکر وتخیل اور دقت نظر کا بخوبی اندازہ ہو تا ہے۔ اپنے ان مضامین میں موصوف نے ادب کے نئے پہلووں کو تلاش کر نے کی کوشش کی ہے اور ادب کے بعض ایسے مسائل پر بھی گفتگو کی ہے جو جدید دور کی پیداوار ہیں ۔ ’’ سائبر اسپیس اور اردو زبان کی تدریس ، ایک جائزہ‘‘، الیکٹرانک میڈیا اور اردو‘‘ اور’’ صحافت کے فن اور رویے‘‘ جیسے مضامین میں خاص طور سے اردو ادب کے جدید مسائل پر گفتگو کی گئی ہے اور اس کے فروغ کے لیے نئے امکانات کے جستجو کی کامیاب کو شش کی گئی ہے۔

’’اردو زبان کی تعلیم : مسائل، طریق کار اور تجاویز‘‘ کے عنوان سے بیس صفحات پر مشتمل اس کتاب کا پہلا مضمون ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے اس مضمون میں اردو زبان و ادب کی تعلیم میں پیش آنے والے مسائل ، ان کے صحیح حل اور مؤثر طریقہ تعلیم پر نہایت فکر انگیز اور جامع گفتگو کی ہے اور اردو زبان و ادب کے دائرہ اثر ، امتیازات اور خصوصیات پر روشنی ڈالنے کے ساتھ تاریخی پس منظر بھی پیش کیا ہے۔’’سائبر اسپیس‘‘ میں انٹر نیٹ کے ذریعہ اردو تعلیم کی اہمیت اور طریقہ کار پر روشنی ڈالی ہے، اور چند ایسی سائٹس کا تعارف کرایا ہے جو اسی مقصد کے لیے تیار کی گئی ہیں۔

’’ الیکٹرانک میڈیا اور اردو زبان‘‘ ایک مختصر مضمون ہے جس میں نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ میڈیا کے تمام شعبوں میں اردو کے دائرہ اثر اور ذرائع ابلاغ و ترسیل میں اس کی ہمہ گیریت پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔

صحافت نہایت پاکیزہ فن ہے۔ عہد حاضر میں صحافت کی ہمہ گیریت اور دنیا پر اس کے مرتب ہو نے والے اثرات کسی بھی صاحب عقل وشعور سے پوشیدہ نہیں ، لیکن مختلف مواقع اور مختلف مقامات پر اس کا ایک نیا چہرہ سامنے آتا ہے، اس کا اپنا کوئی نصب العین سمجھ میں نہیں آتا ، کبھی سماجی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کیا جا تا ہے تو کبھی مخصوص طبقے کے افکار ونظریات کی اشاعت کے لیے، کبھی اسے حکمراں جماعت کا غلام بے دام بھی دیکھا گیا ہے۔ ان حالات میں صحافت اور اس کے فنی لوازمات کو واضح کر نا نہایت ضروری ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ مضمون میں صحافت کے مبادیات، اس کے مقاصد اور صحافت کے ذیلی شعبوں اور ان کے دائرہ کار پر نہایت جامع گفتگو کی ہے۔ واضح رہے کہ یہ مضمون ’’ تنظیم ابنا ے اشرفیہ ‘‘ کے زیر اہتمام منعقد بین الاقوامی میڈیا سیمینار میں پیش کیا جا چکا ہے۔
امن وآشتی اور اخوت وبھائی چار گی کے لیے مشہور سر زمین ’’بنگال‘‘ سے اردو ادب کابہت ہی قدیم تعلق رہا ہے۔ بلکہ اردو زبان وادب نے تصنیف وتالیف کے میدان میں اپنی ارتقائی منزلیں اسی سر زمین پر طے کی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بنگلہ زبان کے اثرات اردو زبان وادب میں نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔ یوں ہی بنگلہ زبان میں اردو کے بے شمار محاورات، ضرب الامثال آج بھی مستعمل ہیں ۔ ؎
زور مہنگائی کا اتناہے کہ ماتھا ہے خراب
اور خالص چیز کا ملنا ہے نا ممکن یہاں

اس شعر میں ’’ماتھاخراب‘‘ خالص بنگلہ تر کیب ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون’’اردواور بنگلہ تہذیب ‘‘ میں اس طرح کی بے شمار مثالیں پیش کی ہیں اور اس سلسلے میں اچھا خاصا مواد جمع کر دیا ہے۔
’’رشید احمد صدیقی کا اسلوب‘‘اس کتاب کا ایک اہم مضمون ہے، جس میں رشید احمد صدیقی کے منفرد اسلوب تحریر، فکری پختگی، زبان وبیان کی شگفتگی اور ان کی نگارشات کے رنگ وآہن پر خوب تبصرہ کیا گیا ہے۔ رشید احمد صدیقی نے اپنے اسلوب کو جہاں نثری سطح پر بلند کیا ہے، وہیں فنی طورپر بھی تازگی وتوانائی بخشی ہے۔ ان کی تحریروں میں سماجی معنویت،تہذیبی رکھ رکھاؤ کے ساتھ طنز ومزاح کا بھی رنگ و آہن ملتا ہے۔’’مضامین رشید‘‘ اور ’’خنداں‘‘ان کے طنزیہ مضامین کے دو اہم مجموعے ہیں ۔ اس مضمون میں رشید صاحب کی نگارشات کی دوسری خصوصیات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’’ عظیم چغتائی کا اسلوب‘‘اقبال کی شاعری میں کوہ وکہسار،اردو غزل، شعراے عظیم آباد کا تنقیدی شعور‘‘ اس سلسلے کے قیمتی اور اہم مضامین ہیں ، جو کتاب کی اہمیت وافادیت میں اضافے کا سبب ہیں ۔

یہ مضامین ڈاکٹر صاحب کی عمدہ نثر اور شگفتہ بیانی کی بہترین مثال ہیں ۔ موصوف زبان و بیان پر کامل دسترس رکھتے ہیں ، ان کی سادگی میں بھی ادبیت کا حسن ہے ۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:
’’رشید احمد صدیقی اکثر زندگی کے چھوٹے اور عام واقعات کو لکھتے ہو ئے پتے کی بات کہہ جاتے ہیں، انہیں بات سے بات نکالنے کا فن آتا ہے۔ وہ کھیرے کی دکان سے ہیرے کی کان تک جا پہنچتے ہیں ، اور کبھی ار ہر کے کھیت سے ان کی نگاہیں پار لیا منٹ تک جا پہنچتی ہیں، یہی در اصل بات سے بات بنانے کا فن‘‘ [ص:۷۳]

ڈاکٹر صاحب انشا پر دازی پر بھی کمال رکھتے ہیں ، خشک سے خشک موضوع کو بھی دل چسپ بنا نے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔ عبد الحکیم ارمان کی ادبی زندگی کے آغاز ہی میں ان کی وفات پر کس خوب صورت انداز میں اظہار افسوس کرتے ہیں، ملاحظہ فر مائیں:
’’ ارمان ابھی تو گلستان شاعری میں چہک ہی رہے تھے کہ قضا نے آن گھیرااور ان کی شاعری جو مائل ِپرواز تھی، ابھی فکر کی توانائیاں ہی لے رہی تھیں ، اس شاعر کی کرشمہ سازیاں ابھی رنگ آمیزیوں میں ہی مصروف تھیں کہ وہ راہ اجل کے مسافر ہو گئے‘‘۔[ص:۱۵۰]

طنزوتنقید اردو زبان وادب کے اہم اجزا ہیں ، ان کی اہمیت وافادیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ڈاکٹر خواجہ اکرام صاحب کی تحریروں میں تنقیدی بصیرت بھی خوب جھلکتی ہے۔ ان کے تنقیدی شعور کی ایک مثال ملاحظہ فر مائیں:
’’اپنا تاریکیوں میں چھپا چہرہ سر عام بے نقاب ہو نے سے گھبرائے ہو ئے انسا نوں نے صحافی کو سکوّں کی کھنک سے متحیر کیا تو صحافی اور صحافتی اداروں کےلیے یہ خوش گوار تجربہ نہ صرف حیرت انگیز ثابت ہوابلکہ بعض اداروں اور صحافیوں نے اسی عمل کو اپنا مقصد ومنہاج بنا لیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صحافت نے اپنی شناخت بھی تبدیل کر نی شروع کر دی‘‘۔[ص:۳۷]

بلا شبہہ تعارف وتنقید اردو ادب کا اعلیٰ شاہ کار اور سر مایہ ادب میں بیش بہا اضافہ ہے، اللہ تعالیٰ مصنف کے علم وعمل میں بے پناہ بر کتیں عطا فر مائے۔
٭٭٭


 

محمد ساجدرضا مصباحی
About the Author: محمد ساجدرضا مصباحی Read More Articles by محمد ساجدرضا مصباحی: 56 Articles with 106200 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.