قارئین کرام ، السلام علیکم!
یہ مضمون میں نے ادارہ تحفظ حدیث فاؤنڈیشن کے ایک آرٹیکل سے نقل کیا ہے۔
اور ہماری ویب کی شرائط کے مطابق اس میں کچھ ترامیم کیں ہیں۔ صاحب مضمون نے
اس میں وجوب زیارت روضہ رسول اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پیش کی جانے والی
روایات پر بحث کی ہے۔ اس سلسلے کی پہلی روایت یہ کچھ ایسے ہے
(۱1) من زار قبری ،وجبت لہ شفاعتی''
'' جس نے میں قبر کی زیارت کی اس پر میری شفاعت واجب ہوگئی ۔''
(مجمع الزوائد ٤:٢ ،تلخیص الحبیر٢:٢٦٧،نیل الاوطار ٥: ١٧،کشف الخفاء ٢:٣٢٨،دارقطنی
السنن ٢:٢٧٨ ،حکیم ترمذی توادر الاصول ٢:٦٧،دولابی کتاب الکنی والاسماء
٢:٦٤، بیہقی شعب الایمان ٤:٤٩٠،سبکی شفاء السقام فی زیارت خیرالانام ٣)
اس حدیث کے بارے میں مندرجہ ذیل دلائل پیش کیۓ جاتے ہیں:
(١) امام نبہانی شواہد الحق فی الاستغاثہ بسد ا لخلق میں لکھتے ہیں کہ ائمہ
حدیث کی ایک جماعت نے اسے صحیح قررار دیا ہے۔
(٢) امام سبکی اس حدیث کی چند اسناد بیان کرنے اور جرح و تعدیل کے بعد
فرماتے ہیں مذکورہ حدیث حسن کا درجہ رکھتی ہے جن احادیث میں زیارت قبر انور
کی ترغیب دی گئی ہے ان کی تعداد دس سے بھی زیادہ ہے ان سے مذکورہ حدیث کو
تقویت ملتی ہے اور اسے حسن سے صحیح کا درجہ مل جاتا ہے ۔
(٣) عبدالحق اشبیلی نے اسے صحیح قرار دیا ہے امام سیوطی نے مناہل الصفا فی
تخریج احادیث الشفاء ص ٧١ میں اسے صحیح کہا ہے شیخ محمود سعید ممدوح رفع
المنارہ (ص ٣١٨) میں اس حدیث پاک پر بڑی مفصل تحقیق کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ
حدیث حسن ہے اور قواعد حدیث بھی اسی رائے پر استشہاد کرتے ہیں ۔
نوٹ : متعدد کتب میں کسی روایت کا ہوناصحت کی دلیل نہیں بن سکتی جب تک اس
کی سند تمام اعتبار سے پاک نہ ہو ۔
روایات کی تحقیق وتخریج:
پہلی روایت کو متعدد حوالاجات کے ساتھ نقل کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی
جاتی ہے کہ چونکہ یہ روایت متعدد کتب میں نقل ہوئی ہے اس لئے بھی یہ صحیح
ہو گی مگر متعدد کتب میں کسی روایت کا ہونا حجت کی دلیل نہیں بن سکتی جب تک
اسکی سند تمام غبار سے پاک نہ ہو،چنانچہ سب سے پہلے ہم اس کے تمام طرق آپ
کے سامنے بیان کئے دیتے ہیں۔ یہ روایت تین اسناد سے نقل ہوئی ہے ، اور ہم
اس کی پہلی سند کو نقل کیے دیتے ہیں اور اس کی جرح بھی نقل کر رہے ہیں۔
''اخبرنا ابو سعد المالینی ،نا ابو احمد بن الحافظ،نا محمد بن موسی
الحلوانی ،نا محمد من اسماعیل سمرة،نا موسی بن ھلال عن عبداللہ العمری عن
نافع عن ابن عمررضی اللہ عنہما قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من
زار قبری ، وجبت لہ شفاعتی''
اور اب ہم ان ہی کتب کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ اس روایت کے اصل ماخذین
نے اس روایت کے بارے میں کیا کلام کیا ہے یہ روایت دو احادیث کی کتب میں
نقل ہوئی ہے :
(١) بیہقی شعب الایمان (٢) سنن دارقطنی،ان کے علاوہ تمام کتب میں اس روایت
کو یہاں سے اپنی کتاب میں نقل کیا گیا ہے جن کتب میں یہ روایت نقل ہوئی ہیں
ان کا کلام ہم اس روایت کے بارے میں نقل کیے دیتے ہیں ۔
(١) امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو نقل کرکے اس کے ایک راوی عبداللہ
بن عمری کو منکر کہا ہے یعنی یہ روایت ان کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ (شعب
الایمان ٤:٣٩٠)
(٢) امام دار قطنی رحمہ اللہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس کے ایک روای
موسی بن ھلال کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ مجہول ہے۔( میزان اعتدال جلد
٤ص٢٠٧)
یہ اقوال ان کے ہیں جنہوں نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اس کے بعد دیگر
کتب کے حوالوں پر بھی نظر ڈالتے ہیں:
(١) مجمع الزوائد میں امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔(
مجمع الزوائد جلد ٣کتاب الحج رقم ٥٨٤١ )
(٢) امام عجلونی رحمہ اللہ نے اسے کشفا الخفاء میں نقل کیا ہے اور کشف
الخفاء میں نقل ہونے کا مطلب ہی یہی ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کتاب
میں جمع ہی موضوع اورضعیف روایات کو کیا گیا ہے امام عجلونی رحمہ اللہ نے
اپنی کتا ب میں ان روایات کو جمع کیا ہے جو عوام الناس کی زبانوں پرمشہور
ہیں مگر اس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ دیکھئے:( مقدمہ کشف الخفاء)اس
روایت کو اما م عجلونی رحمہ اللہ نے بھی ضعیف میں ہی نقل کیا ہے ۔
اور اس کے بعد ہم دیگر ائمہ حدیث کے اقوال ذیل میں نقل کیے دیتے ہیں۔
(٣) امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کی سند بہت ضعیف ہے ۔ (کما فی
دفاع عن الحدیث النبویۖ ص ١٠٦)
(٤) امام سیوطی رحمہ اللہ نے نقل فرمایا ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے
ہیں اس روایت کی تمام اسناد ضعیف ہیں (الدررلامنتثرة فی الاحادیث المشتھرة
ص١٩) اس کتب میں امام سیوطی رحمہ اللہ نے ضعیف اور موضوع احادیث کو جمع کیا
ہے ۔
(٥) ابن القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس روایت میں موسی بن ھلال مجہول ہے۔
(لسان المیزان جلد ٧ص١٣٩)
(٦) ابن حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں موسی بن ھلال مجہول ہے ۔ (لسان میزان
جلد ٧ص١٣٩)
(٧) العقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ '' لا یصح فی ھذا الباب شی'' اس باب
میں کوئی بھی (روایت) صحیح نہیں ہے ۔(تلخیص الحبیر جلد٢ص٢٦٧)
(٨) امام النسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں عبداللہ بن عمر
العمری ہے اور وہ ضعیف الحدیث ہے ۔ (تھذیب الکمال جلد ١٥ ص٣٣١۔٣٣٠)
(٩) ابن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبداللہ بن عمر العمر ی ضعیف ہے۔
(حوالہ ایضاً)
(١٠) عصر حاضر کے محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت
کو موضوع کہا ہے۔ ( ضعیف الجامع الصغیر رقم٥٦٠٧)
(١١) حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اس روایت کے تمام طرق اپنی کتاب تلخیص
الحبیر میں جمع کر کے فرمایا ہے کہ : طرق ھذا الحدیث کلہا ضعیفۃ(تلخیص
الحبیر جلد ٢ص ٢٦٧) اس روایت کے تمام طرق ضعیف ہیں ۔''
اس روایت کی دوسری سند جو دارقطنی میں بیان ہوئی ہے :
''ثنا ء القاضی المحملی ، نا عبیداللہ بن محمد الوراق ، نا موسیٰ بن ھلال
العبدی ، عبیداللہ بن عمر ،عن نافع عن ابن عمررضی اللہ عنہ قال:قال رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من زار قبری ،وجبت لہ شفاعتی''
اس روایت کے ایک راوی موسیٰ بن ھلال کے بار ے میں ہم اس سے قبل یہ نقل
کرچکے ہیں وہ مجھول ہے اور روایت میں عبیداللہ بن عمرالعمری ہے جس کے بار ے
میں اما م بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرہو یا عبیداللہ
دونوں منکر الحدیث ہیں ۔ (شعب الایمان٤:٣٩٠)
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے دارقطنی رحمہ اللہ کی اس روایت پر لسان میزان میں
طویل بحث کے بعد فرماتے ہیں:
''فان کان موسی بن ھلال لم یغلط فی من فوق احد العمرین فیشبہ ان یکون ھذا
من حدیث عبداللہ بن عمر فاما من حدیث عبیداللہ بن عمر ،فانی لا اشک انہ لیس
من حدیثہ ،ھذہ عبارتہ بحروفھا وعبداللہ بن العمری البکبر ضعیف الحدیث''
'' اگر موسی بن ھلال نے دونوں العمرین(عبداللہ اورعبیداللہ) میں خلط ملط
نہیں کیا ہے تو اس بات میں یہ شبہ ہے کہ اس روایت میں عبداللہ بن العمری ہے
پس جو حدیث ہے عبیداللہ بن عمر سے ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس روایت
میں وہ(عبیداللہ بن عمر) نہیں ہے یہ عبارت اس روایت کی عبداللہ بن عمر
العمری کے نام سے ہے اور عبداللہ بن عمر العمری ضیعف الحدیث ہے۔'' (لسان
المیزان جلد٧ص١٤١)
اور اس کے بعدانہوں دارقطنی کی اس روایت میں عبیداللہ کے نام کی جگہ
عبداللہ بن العمری کا نام شامل کرکے اس روایت کی سند کو درست کیا''۔
حافظ ابن حجر لسان میزان اورتلخیص الحبیر میں فرماتے ہیں کہ اس روایت کو
اسی سند کے ساتھ ابن خزیمہ نے اپنی (صحیح ابن خزیمہ) میں نقل کیا ہے لسان
میزان میں ہم ان کا قول اس روایت کے حوالے سے نقل کر چکے ہیں ۔ تلخیص
الحبیر میں فرماتے ہیں:
''رواہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ من طریقہ و قال ان صح فان فی القلب من اسنادہ ،
ثم رجع انہ من روایۃ عبداللہ بن العمری المکبرالضٰعف ، لا المصغر الثقہ و
صرح بان الثقۃ لا یروی ھذا الخبر المنکر''
''ابن خزیمہ نے اسے اپنی صحیح میں اسی سند سے روایت کیا ہے اور وہ ( ابن
خزیمہ رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ اس روایت کی سند میں ردوبدل موجود ہے اس کے
بعد ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں پھر رائج یہی ہے کہ اس روایت میں عبداللہ
بن عمر العمری ہے جو ضعیف ہے ، اور (عبیداللہ ) جیسا ثقہ راوی نہیں ہے ،
صحیح بات یہی ہے کہ اس ثقہ راوی سے ایسی منکر خبر نہیں دیکھی گئی ہے ۔''(
تلخیص الحبیر جلد٢ ص ٢٦٧ تحت الحدیث ١٠٧٥)
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی تائید ابن خزیمہ سے بھی ہوتی ہے اور ابن ابی حاتم
نے اور خود ابن حجررحمہ اللہ نے موسی بن ھلا ل نے جن لوگوں سے روایت کی ہے
اس میں عبیداللہ کا نام موجود نہیں ہے۔
دیکھئے : (الجرح التعدیل جلد ٨ص ١٩١، تھذیب التھذیب جلد ٨ ص٤٣١ ترجمة ٧٣٠٣)
ان کتب میں یہ موجود ہے کہ موسی بن ھلال کا عبیداللہ سے سمع نہیں ہے بلکہ
اس نے صرف عبداللہ بن عمر العمری سے روایت کی ہے نیز علامہ ناصر الدین
البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ارواء الغلیل میں بھی یہی بات بیان کی ہے کہ
:
'' لم یدرک عبیداللہ بن عمر ''
'' (موسی بن ھلال ) نے عبیداللہ کو نہیں پایا۔'' ( ارواء الغلیل جلد ٤
ص٣٣٨۔٣٣٧)
ان تمام دلائل سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اس روایت میں عبیداللہ بن عمر کا
نام خطا ہے اور اس روایت میں بھی عبداللہ بن عمر العمری ہے جوضعیف الحدیث
ہے ۔(لسان میزان جلد ٧ص١٤٢۔١٣٩)
یہ اس روایت کی دوسری سند ہے جس میں عبداللہ بن عمر العمری ہے جو ضعیف
الحدیث ہے اور موسی بن ھلال مجھول ہے جیسا ہم نے اس روایت کی پہلی سند کی
تحقیق میں بیان کیا ہے اور اس سند میں بھی یہی دونوں راوی موجود ہیں، اس
روایت کو مسند بزار نے اپنی سند سے روایت کیا ہے اورہم اس سند کو بھی ذیل
میں نقل کر کے اس کی علت واضح کیے دیتے ہیں:
'' حدثنا قتبۃ، حدثنا عبداللہ بن ابراہیم، حدثنا عبدالرحمن بن زید بن اسلم،
عن ابیہ، عن ابن عمر ،عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من زار قبری
وجبت لہ شفاعتی''
یہ اس روایت کی تیسری سند ہے اس روایت میں دو راوی ضعیف الحدیث ہیں (١)
عبداللہ بن ابراہیم الغفاری (٢) عبدالرحمن بن زید بن اسلم،۔ان دونوں راویوں
کے بارے میں محدثین کرام نے کیا کلام کیا ہے ذیل میں ہم اس کو بیان کر رہے
ہیں۔
(1۱) عبداللہ بن ابراہیم
امام ابوداؤد فرماتے ہیں: منکر الحدیث ۔
امام ابن حبان فرماتے ہیں: یضع الحدیث '' وہ حدیث وضع (گھڑتا)تھا۔''
امام دارقطنی فرماتے ہیں :حدیثہ منکر '' اس کی حدیث منکر ہوتی ہے۔ ''
امام حاتم فرماتے ہین : روی عن جماعۃ من الضفاء احادیث موضوعۃ لا یرویھا
غیرہ''
'' وہ ضعفاء کی جماعت میں سے روایت کرنے والا ہے موضوع احادیث کے سوا ہم نے
اس سے کچھ نہیں دیکھا ہے " (تھذیب التھذیب جلد ٤ ص٢٢٧۔٢٢٦ ترجمة ٣٢٨٧)
(۲) عبدالرحمن بن زید بن اسلم
(۱) امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے جو بھی
اپنے والد سے بیان کیا ہے وہ سب موضوع(من گھڑت) ہے۔ (المدخل الی معرفۃ
للصحیح جلد ۱ص ۱۷۰)
(۲) امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم ضعیف ہے۔
(دلائل النبویٰ جلد 5۵ص۴۸۹)
(۳) امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم بہت
زیادہ ضعیف ہے۔
(تھذیب التھذیب جلد۵ص۹۰)
(۴ ) امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے بارے
میں محدثین کا اتفاق ہے کہ وہ ضعیف ہے۔ (تھذیب التھذیب جلد۵5 ص۹۰ )
(٥)امام سیوطی رحمہ اللہ نے اس طرق کو اپنی کتاب (ذیل) میں نقل کیا ہے۔
(ذیل الاحادیث الموضوعۃ بحوالہ لسان المیزان جلد ٧ص ١٤١۔ ١٣٩)
اس کتاب میں امام سیوطی رحمہ اللہ نے ضعیف اور موضوع روایات کو جمع کیا ہے
۔
یہ اس روایت کے بارے میں تمام محدثین کی آراء ہیں اور اس کے تمام اسنادضعیف
ہیں اوریہ ضعیف بھی معمولی نہیں ہے بلکہ شدید ضعیف ہے اور اس بارے میں جو
دلائل دیئے جاتے ہیں کہ امام نبہانی کہتے ہیں کہ ائمہ حدیث کی ایک جماعت نے
اسے صحیح کہا ہے اب وہ کونسی ائمہ حدیث کی ایک جماعت ہے یہ بیان نہیں کیا
جاتا اتنے سارے جلیل القدر ائمہ حدیث نے اس روایت کوضعیف کہا ہے ان جلیل
القدر ائمہ حدیث میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہے جس نے ان روایات کو صحیح کہا
ہے۔ وجوب کے قائیلین کی ائمہ حدیث کی ایک جماعت سے مراد عبداللہ الحق رحمہ
اللہ اور امام السبکی رحمہ اللہ سے ہے اور جو امام سیوطی رحمہ اللہ کے
حوالے سے کہتے ہیں کہ انہوں نے اس روایت کو صحیح کہا ہے تو امام سیوطی رحمہ
اللہ کے حوالے سے ہم اوپر نقل کر چکے ہیں کہ انھوں نے اس روایت کو اپنی
کتب'' الدررلامنتثرة فی الاحادیث المشتھرة'' اور ذیل الاحادیث الموضوعۃ''
میں نقل کیا ہے اور دوسرا یہ کہ انھوں نے امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول نقل
کیا ہے کہ امام ذہبی فرماتے ہیں اس روایت کی تمام اسناد ضعیف ہیں اور یہ
قول بھی ان کا انہی کتب میں موجود ہے جس میں انہوں نے ضعیف اور موضوع
روایات ہی کو جمع کیا ہے تو پھر وہ کیسے اس روایت کو صحیح کہہ سکتے ہیں اور
ہماری بات کی تصدیق اور اس قول کا باطل ہونا اس بات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ
عبدالحق رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح نہیں کہا ہے بلکہ اس پر سکوت اختیار
کیا ہے اور جس کو ابن القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سکوت تصریح کا
نہیں ہے (لسان میزان جلد ٧ص١٣٩) اور اس سکوت کے بارے میں اختلاف ہے جیسا کہ
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ عبدالحق کاسکوت تصریح
کا ہے۔ دیکھئے (ارواہ الغلیل جلد ٤ ص ٣٣٥ تحت ح ١١٢٧) اب صرف امام سبکی اور
محمود سعید ممدوح رہ گئے ہیں جن کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے ا مام سبکی اس
حدیث کی چند اسناد بیان کرنے اور جرح و تعدیل کے بعد فرماتے ہیں: مذکورہ
حدیث حسن کا درجہ رکھتی ہے جن احادیث میں زیارت قبر انور کی ترغیب دی گئی
ہے ان کی تعداد دس سے بھی زیادہ ہے ان سے مذکورہ حدیث کو تقویت ملتی ہے اور
اسے حسن سے صحیح کا درجہ مل جاتا ہے اور محمود سعید ممدوح کے حوالے سے بیان
کیا ہے کہ شیخ محمود سعید ممدوح رفع المنارہ (ص ٣١٨) میں اس حدیث پاک پر
بڑی مفصل تحقیق کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور قواعد حدیث بھی اسی
رائے پر استشہاد کرتے ہیں۔
امام سبکی اور محمودسعید ممدوح جنہوں نے ان روایات کے بارے میں فرمایا ہے
کہ یہ حسن کا درجہ رکھتی ہے قواعد حدیث بھی اس پر اشتہاد کرتے ہیں تو جیسا
ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ یہ روایت شدید ضعیف ہے اور کسی طرح بھی حسن
درجے کو نہیں پہنچ سکتی ہے اور قواعد حدیث میں اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں
ہے محدثین کرام نے کسی ضعیف حدیث کوحسن درجے تک پہچانے کے جو قواعد مرتب
کیے ہیں ہم اسے ذیل میں بیان کیے دیتے ہیں۔
حسن حدیث کی ایک قسم حسن لغیرہ بھی ہوتی ہے جو کہ دراصل ضعیف حدیث ہی ہوتی
ہے لیکن ایک تو وہ دوسری یا کئی اسناد سے ثابت ہوتی ہے مگر اسکا ضعف شدید
نہیں ہوتا ہے ۔
(١) اس کے ضعف کا سبب راوی کے حافظ میں معمولی خرابی ہوتی ہے ۔
(٢) اس کی سند میں انقطاع ہوتا ہے۔
(٣) اس کے کسی راوی کا مجھول ہونا ہوتا ہے ۔
ایسی روایت کی دوسری اسناد کو دیکھا جاتا ہے کہ اگر دوسری اسناد میں اسی
قسم کا ضعف پایا جاتا ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے یا روایت اس سند سے قوی
الاسناد ہے تو وہ روایت حسن لغیرہ تک پہنچ جاتی ہے اور اگر اس روایت کی
دوسری اسناد خواہ ایک ہو یا اس سے زیادہ ان اسناد میں ضعف کاباعث روای کا
فسق ،کذب، موضوع ضعیف ہونا ہے تو وہ روایت کسی طرح حسن لغیرہ کے درجے پر
نہیں پہنچ سکتی ہے ۔ د یکھئے : (تیسیرمصطلح الحدیث) یہ وہ قواعد ہیں جو
محدثین کرام نے مرتب کیے ہیں اور ا نھیں قواعد کے مطابق کوئی ضعیف روایت
حسن لغیرہ تک پہنچتی ہے ان قواعد کے روشنی میں آپ بھی خود اندازہ کر سکتے
ہیں کیا یہ روایت یا حسن یا صحیح درجے تک پہنچتی ہیں ، اور امام سبکی کا یہ
قول کے جن روایات میں زیارت قبر انور کی ترغیب دی گئی ہے ان کی تعداد دس سے
بھی زیادہ ہے اس لئے اس حدیث کو تقویت ملتی ہے اور اسے حسن سے صحیح کا درجہ
ملتا ہے ،تو اس بارے میں ہم یہی کہتے ہیں پہلے تو اس کا حسن ہونا ثابت کیا
جائے جو ناممکن بات ہے کیونکہ قواعد حدیث میں ایسا کو ئی قاعدہ بیان نہیں
کیا گیا ہے ۔روایت کو اسی متن کی روایات کی اسناد سے حسن لغیرہ تک پہنچایا
جاتا ہے جیسا ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ وہ روایت دوسری یا دیگر اسناد سے
نقل ہو اگر وہ قواعد پر اتر تی ہے تو حسن لغیرہ تک پہنچے گی دوسرے متن کی
روایت اس کی تقویت کا باعث نہیں ہو سکتی ہے ایسا کوئی اصول محدثین کرام نے
مرتب نہیں کیا ہے جس کی بنا پر اس روایت کوتقویت ملے اور ہم زیارت قبر انور
کی ترغیب میں تمام روایات کو ذیل میں جمع کریں گے اور ان کی علت بھی واضح
کریں گے جس سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ زیارت قبر انور کی ترغیب میں
جوروایات بیان ہوئی ہیں وہ بھی کسی طرح آپس میں مل کر ان قواعد پر پوری
نہیں اترتی ہیں جن سے دلیل دے کر ان روایات کو حسن اور صحیح کر نے کی کوشش
میں کی جاتی ہے ۔
اب یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ وجوب زیارت کے قائیلین نے اپنی دلیل کی
بنیاد جس روایت کو بنایا ہے وہ روایت بیت العنکبوت ثابت ہوئی ہے اور جس سے
حجت لینا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے اور ائمہ محدثین میں سے کسی نے بھی اس
روایت سے حجت نہیں لی ہے اورنہ قواعد اس بات کی اجازت دیتے ہیں مگر اگر
کوئی باضد ہوجائے جیسا کہ صاحب کتاب ہیں اس با رے میں ہیں تو ہم فقط قرآن
مجید کی یہ آیت ہی پیش کر سکتے ہیں کہ:
'' وما اختلف فیہ الا الذین اوتوہ من بعد ماجاء تھم البینت بغیابینھم
''(سورہ البقرة)
'' اور انہوں نے واضح نشانی آنے کے بعد صرف آپس کی ضد کی وجہ سے اختلاف
کیا''۔
|