7 شوال سن 3 ہجری کو اسلامی تاریخ کا ایک بہت اہم معرکہ یعنی غزوہ احد ہوا۔
مشرکین مکہ نے غزوہ بدر کی ہزیمت کا بدلہ لینے اور اسلامی ریاست کو جڑ سے
اکھاڑ پھینکنے کی غرض سے مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تھی۔
پورے سال بھرپور تیاریاں کی گئیں اور تین ہزار کی فوج، جس کا سپہ سالار
ابوسفیان تھا، مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئی اور مدینہ منورہ پہنچ کرمشرکین مکہ
کے لشکر نے کوہِ اُحد کے قریب ڈالا۔ یہ جمعہ 6 شوال کا واقعہ ہے۔
رسول اکرم ﷺ کو مشرکین کے لشکر کی مکہ سے روانگی کی اطلاع پہلے ہی مل گئی
تھی، چنانچہ حضور ؐ ایک ہزار مسلمانوں کا لشکر لے کر احد کی جانب بڑھے۔ اسی
دوران منافقوں کے سرغنہ عبداللہ بن اُبی نے بغاوت کردی۔ اور کوئی ایک تہائی
لشکر یعنی تین سوافراد کو لے کر یہ کہتا ہوا واپس چلا گیا کہ محمدﷺ نے میری
رائے نہ مانی۔ اس طرح حضورؐ کے ساتھ صرف سات سو صحابہ رہ گئے۔ ان میں ایک
سو زرہ پوش تھے۔
اس بغاوت اور واپسی کے بعد رسول اللہ ﷺ نے باقیماندہ لشکر کو لے کر، جس کی
تعداد سات سو تھی، دشمن کی طرف قدم بڑھایا۔ اور آگے بڑھ کر وادی کے آخری
سرے پر واقع اُحد پہاڑ کی گھا ٹی میں اپنے لشکر کے ساتھ قیام فرمایا۔ سامنے
مدینہ تھا اور پیچھے اُحد کا بلند وبالا پہاڑ، اس طرح دشمن کا لشکر
مسلمانوں اور مدینے کے درمیان حَدِّ فاصل بن گیا۔ یہاں پہنچ کر رسول اللہ ﷺ
نے لشکر کی ترتیب و تنظیم قائم کی اور جنگی نقطہ ئ نظر سے اسے کئی صفوں میں
تقسیم فرمایا۔
آنحضرتؐ نے جبل احد کو پشت پر رکھ کر صف آرائی کی۔پشت کی طرف خدشہ تھا کہ
کہ دشمن اُدھر سے آئیں گے۔ اسلئے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ متعین کیا۔
ان کی کمان حضرت عبداللہ بن جبیر بن نعمان انصاری دَوسی بدری رضی اللہ عنہ
کے سپرد کی اور انہیں وادی قتادہ کے جنوبی کنارے پر واقع ایک چھوٹی سی
پہاڑی پر تعینات فرما یا جو اب جبل رماۃ کے نام سے مشہور ہے،۔ آپؐ نے تیر
اندازوں کو مخاطب کرکے فرمایا: '' ہماری پشت کی حفاظت کرنا۔ اگر دیکھو کہ
ہم مارے جارہے ہیں تو ہماری مدد کو نہ آنا اور اگر دیکھو کہ ہم مال غنیمت
سمیٹ رہے ہیں تو ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا ' '۔ اور صحیح بخاری کے الفاظ کے
مطابق آپؐ نے یوں فرمایا: '' اگر تم دیکھو کہ ہمیں پرندے اچک رہے ہیں تو
بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا، یہاں تک کہ میں بلابھیجوں۔ او ر اگر تم دیکھو کہ
ہم نے دشمن کو شکست دے دی ہے اور انہیں کچل دیا ہے، تو بھی اپنی جگہ نہ
چھوڑنا یہاں تک کہ میں بلا بھیجوں (صحیح بخاری، کتاب الجہاد ۱/۶۲۴) '
'۔دعوت دی اور چیخ کرکہا: کیوں مسلمانو! تم سے کوئی ہے کہ یا مجھ کو جلد
دوزخ میں پہنچا دے یا خود میرے ہاتھوں جنت میں پہنچ جائے۔ حضرت علی مرتضیٰ
ؓ، شیرِ خدا نے صف سے نکل کر کہا کہ میں ہوں اور یہ کہہ کر اس زور سے تلوار
ماری کہ اس کی کھوپڑی پھٹ گئی اور وہ ایک ہی لمحے میں جہنم رسید ہوا۔ نبی
کریم ﷺ نے یہ ولولہ انگیز منظر دیکھا تو فرطِ مسرت سے نعرہ ئ تکبیر بلند
کیا اور مسلمانوں نے بھی نعرہئ تکبیر لگایا۔ (طبقات ابن سعد، جلد اول۔ ص
275، سیرت النبی ؐ۔ علامہ شبلی نعمانی)
اس کے بعد گھمسان کا رن پڑا اور پورے میدان میں بھرپور ماردھاڑ شروع
ہوگئی۔حضرت حمزہ ؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابودجانہؓ دشمن کے دَل میں گھسے اور
صفیں کی صفیں صاف کردیں، حضرت ابو دجانہ ؓ عرب کے مشہور پہلوان تھے اور اُن
کے ہاتھ میں حضوراکرمﷺ کی وہ تلوار تھی، جو انہوں نے جنگ سے پہلے ابودجانہ
ؓ کو مرحمت فرمائی تھی۔ حضرت ابودجانہ ؓ فوجوں کو چیرتے، لاشوں پر لاشیں
گراتے بڑھتے چلے جارہے تھے، یہاں تک کہ ہند سامنے آگئی۔ اس کے سرپر تلوار
رکھ کر اٹھالی کہ رسول اللہ ﷺ کی تلوار اس قابل نہیں کہ کہ عورت پر آزمائی
جائے۔
وحشی، جو ایک حبشی غلام تھا، اور جس سے اس کے آقا جبیر بن مطعم نے وعدہ کیا
تھا کہ اگر وہ حمزہ ؓ کو قتل کردے تو آزاد کردیا جائے گا، وہ حضرت حمزہ ؓ
کی تاک میں تھا، حضرت حمزہ ؓ برابر آئے تو اس نے چھوٹا سا نیزہ، جسے حربہ
کہتے ہیں اور جو حبشیوں کا خاص ہتھیا ر ہے، پھینک کر مارا، جو ناف میں لگا
اور پار ہوگیا۔ حضرت حمزہ ؓ نے اس پر حملہ کرنا چاہا، لیکن لڑکھڑا کر گر
پڑے اور روح پرواز کرگئی۔
اُ س وقت تک لڑائی کا پلہ مسلمانوں ہی کے حق میں بھاری تھا، علم برداروں کے
قتل اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو دجانہ ؓ کے بے پناہ حملوں سے
کفار کے پاؤں اکھڑ گئے،بہادر نازنینیں جو رجز سے دلوں کو ابھار رہی تھیں،
بدحواسی کے ساتھ پیچھے ہٹیں اور مطلع صاف ہوگیا۔ لیکن ساتھ ہی مسلمانوں نے
مال غنیمت جمع کرنا شروع کردیا۔
یہ دیکھ کر پہاڑی پر متعین تیر انداز یہ سمجھے کہ مسلمانوں کو فتح حاصل
ہوگئی ہے، رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کو نظر انداز کرکے پہاڑی سے نیچے اتر نے
لگے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ نے بہت روکا، مگر وہ نہیں رکے۔ تیراندازوں کی
جگہ خالی دیکھ کر کافروں نے خالد بن ولید کی قیادت میں عقب سے حملہ کیا۔
حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ چند جانبازوں کے ساتھ جم کرلڑے۔ لیکن سب کے سب شہید
ہوئے۔ جس کے بعد آگے کا راستہ صاف تھا۔
خالد بن ولید نے سواروں کے دستے کے ساتھ نہایت بے جگری سے حملہ کیا۔ مسلمان
مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے، اس لئے اس اچانک اور بھرپور حملے سے
سنبھل نہ سکے۔ بد حواسی میں دونوں فوجیں اس طرح مل گئیں کہ خو مسلمان
مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کو، جو رسول اللہ ﷺ کے
مشابے اور علبمردار تھے، ابن قمیہ نے شہید کردیا۔ جس کے دوران شور مچ گیا
کہ نعوذ باللہ حضور اکرم ﷺ نے شہادت پائی، اس اعلان سے عام بدحواسی طاری
ہوگئی، بڑے بڑے دلیروں کے پاؤں اکھڑ گئے، بدحواسی میں اگلی صفیں پچھلی صفوں
پر ٹوٹ پڑیں اور دوست دشمن کی تمیز نہ رہی۔ حضرت حذیفہؓ کے والد (یمان) اس
کشمکش میں آگئے اور ان پر تلواریں برس پڑیں، حضرت حذیفہ ؓ چلاتے رہے کہ
میرے باپ ہیں، لیکن کون سنتا تھا، غرض شہید ہوگئے اور حضرت حذیفہؓ نے
سسکیوں کے درمیان ایثار کے لہجے میں کہا کہ مسلمانو! اللہ تم کو بخش دے۔
رسول اللہ ﷺ نے مڑ کر دیکھا تو صرف گیارہ جانثار پہلو میں رہ گئے تھے۔ جن
میں حضرت علی ؓ، حضرت ابوبکر ؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت زبیر بن
العوامؓ، حضرت ابودجانہ ؓ اور حضرت طلحہ ؓ شامل تھے۔ لیکن صحیح بخاری میں
یہ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف حضرت طلحہ ؓ اور حضرت سعد ؓ رہ گئے
تھے۔
جانباز صحابہ کرام ؓ بے جگری سے لڑرہے تھے، لیکن ان کی نظریں مسلسل اپنے
آقا ﷺ کو تلاش کرتی تھیں۔ سب سے پہلے حضرت کعب بن مالکؓ کی نظر پڑی۔ چہرہ
مبارک پر لوہے کا خود (یا آج کل کی زبان میں ہیلمٹ) تھا، لیکن چشم مبارک
نظر آتی تھیں۔ حضرت کعب ؓ نے پہچان کر وارفتگی کے ساتھ آواز لگائی کہ
مسلمانو! رسول اللہ ﷺ سلامت ہیں اور یہاں ہیں۔ یہ سن کر ہرطر ف سے جانثار
ٹوٹ پڑے۔ کفار نے بھی یہ آواز سنی اور پوری قوت سے اس جانب حملہ کیا، جہاں
رسول اللہ ﷺ تھے۔ لیکن حضرت علی ؓ کی تلوار ذوالفقار کی کوند سے صفوں کی
صفیں الٹ جاتی تھیں۔ ایک دفعہ آقائے دوجہاں ﷺ نے فرمایا کہ کون مجھ پر جان
دیتا ہے؟ زیاد بن سکن ؓ پانچ انصاری صحابہ کو لے کر خدمت کو ادا کرنے کے
لئے بڑھے اور ایک ایک نے جانبازی سے لڑ کر جانیں فدا کردیں۔
حضرت زیاد ؓ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ حضور ﷺ نے حکم دیا کہ اُن کا لاشہ قریب
لاؤ، لوگ اٹھا کر لائے، ان میں تھوڑی بہت جان باقی تھی، قریب آتے ہی انہوں
نے آقا ﷺ کے قدموں پر منہ رکھ دیا اور اسی حالت میں جان دے دی۔ ایک بہادر
مسلمان اس حالت میں کھڑا کھجوریں کھا رہا تھا اس نے بڑھ کر پوچھا کہ یا
رسول اللہ ﷺ اگر میں شہید ہوجاؤں تو اللہ پاک کی طرف سے مجھے کیا ملے گا؟
آپ ﷺ نے فرمایا کہ جنت۔ اس بشارت کو سن کر وہ کفار پر ٹوٹ پڑا اور شہادت
پائی۔
اسی دوران قریش کا ایک جنگجو عبداللہ بن قمیہ صفوں کو چیرتا پھاڑتا رسول
اللہ ﷺ کے قریب آگیا اور چہرہ مبارک پر اتنی زور سے تلوار ماری کہ لوہے کے
خود کی دوکڑیاں چہرہ مبارک میں گھس گئیں۔ ہر طرف تلواریں چل رہی تھیں اور
تیر برس رہے تھے۔ یہ دیکھ کر صحابہ نے آپؐ کو دائرے میں لے لیا۔ حضرت
ابودجانہ ؓ جھک کر سپر بن گئے۔ تیر آکر ان کی کمر میں پیوست ہوتے رہے، مگر
انہوں نے آقاﷺ کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیا۔ حضرت طلحہ ؓ نے تلواروں کو
ہاتھ پر روکا، ایک ہاتھ کٹ کر گر پڑا۔ ظالم اور وحشی کفار رحمت للعالمینﷺ
پر تیر برسا رہے تھے اور آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ تھے:
ربّ اغفر قومی فانھم لایعلمون
اے رب میری قوم کو بخش دے، وہ جانتے نہیں
حضرت ابو طلحہ ؓ نے، جو مشہور تیرانداز تھے، اس قدر تیر برسائے کہ دو تین
کمانیں ان کے ہاتھ میں ٹوٹ ٹوٹ کر رہ گئیں۔انہوں نے اپنی ڈھال سے آقا ئے
دوعالم ﷺ کے چہرہ مبارک کو چھپا رکھا تھاکہ آپ ؐ سلامت رہیں۔ آپؐ کبھی گردن
اٹھاکر دشمنوں کی فوج کی طرف دیکھتے تو عرض کرتے کہ آپؐ گردن نہ اٹھائیں۔
ایسا نہ ہوکہ کوئی تیر لگ جائے، یہ میرا سینہ سامنے ہے۔ حضرت سعد بن ابی
وقاصؓ بھی مشہور تیرانداز تھے اور اس وقت اپنے آقا ﷺ کی حفاظت کے لئے اپنی
جان کی بازی لگا دی تھی۔ آنحضرتؐ نے اپنا ترکش ان کے آگے ڈال دیا اور
فرمایا کہ تم پر میرے ماں باپ قربان، تیرچلاتے جاؤ۔
صحیح بخاری کے مطابق رسول اللہ ﷺ اپنے جانثار صحابہ کے ساتھ احد کی چوٹی پر
چڑھ گئے، تاکہ دشمن ادھر نہ آسکے۔ ابوسفیان نے دیکھ لیا، سپاہیوں کو لے کر
پہاڑ پر چڑھا، لیکن حضرت عمر ؓ اور دیگر صحابہ نے پتھر برسائے اور وہ اوپر
نہ آسکے۔
رسول اللہ ﷺ کی شہادت کی خبر مدینے میں پہنچی تو کہرام مچ گیا۔ حضرت فاطمہ
زہرا رضی اللہ عنہا نے آکر دیکھا تو چہرہ انور سے خون جاری تھا۔ حضرت علی ؓ
اپنی ڈھال میں پانی بھر کر لائے۔ جناب سیدہ ؓ دھوتی تھیں، لیکن خون نہیں رک
رہا تھا۔ انہوں نے بالآخر چٹائی کا ایک ٹکڑا جلایا اور زخم پر رکھ دیا، جس
سے خون فوراً رک گیا۔
ابوسفیان نے سامنے کی پہاڑی پر چڑھ کر پکارا کہ یہاں محمد ﷺ ہیں؟ آپ ؐ نے
حکم دیا کہ کوئی جواب نہ دے۔ ابوسفیان نے حضرت ابوبکرؓاور عمرؓ کا نام لے
کر پکارا اور جب کوئی آواز نہ آئی تو پکار کر بولا، سب مارے گئے۔ حضرت عمر
ؓ سے ضبط نہ ہوسکا، بول اٹھے کہ او دشمنِ خدا، ہم سب زندہ ہیں۔
قریش کی عورتوں نے انتقام بدر کے جوش میں مسلمانوں کی لاشوں سے بھی بدلہ
لیا ان کے ناک کان کاٹ لئے۔ ہند (ابوسفیان کی بیوی) نے ان پھولوں کا ہار
بنا کر اپنے گلے میں ڈالا۔ سید الشہداء حضرت حمزہ ؓ کی لاش پر گئی اور ان
کا پیٹ چاک کرکے کلیجہ نکالا اور چبا گئی۔ لیکن حلق سے نہ اتر سکا، اس لئے
اگل دینا پڑا۔اسی وجہ سے تاریخ میں ہندکا لقب جگر خوار لکھا جاتا ہے۔
اس غزوے میں بہت سی مسلم خواتین نے شرکت کی، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت انس ؓ
کی والدہ حضرت ام سلیم نے زخمیوں کو پانی پلانے کا فریضہ سرانجام دیا۔ وہ
مشک بھر بھر کر لاتی تھیں اور زخمیوں کو پلاتی تھیں۔ مشک خالی ہوجاتی تو
پھر بھر لاتیں۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابوسعید خدری ؓ کی والدہ حضرت
ام سلیطؓ نے یہی خدمت انجام دی۔
عین اُس وقت جبکہ کافروں نے عام حملہ کردیا تھااور آپؐ کے ساتھ سرف چند
جانثار رہ گئے تھے، حضرت ام عمارہ ؓ حضوراکرم ﷺ کے پاس پہنچیں اور سینہ سپر
ہوگئیں۔ کفار جب آپﷺ کی طرف بڑھتے تو تیر اور تلوار سے روکتی تھیں۔ ابن
قمیہ جب حضور اکرم ﷺ کے قریب پہنچ گیا تو حضرت ام عمارہ ؓ نے آگے بڑھ کر
روکا، چنانچہ کندھے پر زخم آیا اور غار پڑگیا۔ انہوں نے بھی تلوار ماری،
لیکن وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھے، اس لئے کارگر نہ ہوئی۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت صفیہ ؓ شکست کی خبر سن کر مدینہ سے
نکلیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ان کے صاحبزادے حضر ت زبیر ؓ کو بلا کر ارشاد فرمایا
کہ وہ حضرت حمزہ ؓ کی لاش نہ دیکھنے پائیں۔
ایک انصاری صحابیہ کے باپ، بھائی اور شوہر سب اس معرکے میں شہید ہوئے۔ باری
باری تین سخت حادثوں کی صدا ان کے کان میں پڑتی جاتی تھی۔ لیکن وہ ہر یہی
پوچھتی رہیں کہ رسول اللہ ﷺ کیسے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ خیریت سے ہیں۔ اس نے
قریب آکر چہرہ مبارک دیکھا اور بے اختیار پکار اٹھیں۔
کل مصیبۃ بعدک جلل (یعنی آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے سب مصیبتیں معمولی ہیں)
میں بھی اور باپ بھی، شوہر بھی، برادر بھی فدا
اے شِہ دیں تیرے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم
اس جنگ میں ستر مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے۔
لیکن مسلمانوں کی مالی حالت اس قدر ابتر تھی کہ اتنا کپڑا بھی نہ تھا کہ
شہداء کی پردہ پوشی ہوسکتی تھی۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا پاؤں
چھپائے جاتے و سر کھل جاتااور سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے، آخر پاؤں
اذخر کی گھانس سے چھپا دئیے گئے۔ وہ بے کسی اور غربت کا ایسا واقعہ تھا کہ
بعد میں بھی مسلمانوں کو یاد آتا تو آنکھیں تر ہوجاتیں۔ شہداء بے غسل اسی
طرح خون میں لتھڑے ہوئے دو دو ملا کر ایک ایک قبر میں دفن کئے گئے۔
دونوں فوجیں جب میدان جنگ سے واپس ہوئیں تو مسلمان زخموں سے چور چور تھے
تاہم یہ خیال کرکے کہ کہیں ابوسفیان مسلمانوں کو مغلوب سمجھ کر دوبارہ حملہ
آور نہ ہو، آپ ﷺ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کون اُن کا تعاقب کرے گا۔ اس
مہم کے لئے فوراً ستر آدمیوں کی جماعت تیار ہوگئی۔ جس میں حضرت ابوبکرؓ اور
زبیرؓ بھی شامل تھے۔ ابوسفیان احد سے نکل کر جب مقام روحا پہنچا تو خیال
آیا کہ کام ادھورا ہی رہ گیا۔ حضور اکرم ﷺ کو پہلے ہی سے اس امر کا خدشہ
تھا۔ دوسرے ہی دن آپﷺ نے اعلان فرمادیا کہ کوئی واپس نہ جائے۔ چنانچہ حمراء
اسد تک جو مدینہ سے آٹھ میل دور ہے، تشریف لے گئے۔ قبیلہ خزاعہ اس وقت تک
ایمان نہیں لایا تھا، لیکن درپردہ اسلام کا طرفدار تھا، اس کا رئیس معبد
خزاعی شکست کی خبر سن کر بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوا اور واپس جاکر
ابوسفیان سے ملا۔ ابوسفیان نے اپنا ارادہ ظاہر کیا، معبد نے کہا میں ابھی
دیکھ کر آرہا ہوں، محمد ﷺ اتنی تیاری سے آرہے ہیں کہ ان کا مقابلہ ناممکن
ہے۔ یہ سن کر ابوسفیان واپس چلا گیا۔
حضور اکرم ﷺ واپس تشریف لائے تو تمام مدینہ ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ جس طرف
سے گزرتے تھے، گھروں سے ماتم کی آوازیں آتی تھیں۔ آپ ﷺ نے بڑی دکھ بھری
آواز میں کہا کہ سب کے عزیز واقارب اپنے چہیتوں کو یاد کررہے ہیں، لیکن
حمزہ ؓ کا رونے والا کوئی نہیں ہے۔
انصار نے یہ الفاظ سنے تو تڑپ اٹھے، سب نے جاکر اپنی بیویوں کو حکم دیا کہ
رسول اللہﷺ کے دولت کدے پر جاکر سید الشہداء حضرت حمزہ ؓکا ماتم کریں۔ جب
حضور ؐ اپنے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ دروازے پر انصار کی خواتین کا رش
لگا ہوا ہے اور بلند آواز سے حضرت حمزہ ؓ کا ماتم کیا جارہا ہے۔ حضور اکرم
ﷺ نے ان کے حق میں دعائے خیر کی اور فرمایا کہ میں تمھاری ہمدردی کا شکر
گزار ہوں، لیکن مُردوں پر نوحہ کرنا جائز نہیں ہے(عرب میں دستور تھا کہ
عورتیں مرنے والوں پر زور زور سے بین کرتیں، گال نوچتی، گالوں پر تھپڑ
مارتی اور چیختی چلاتی تھیں، یہ رسم بد اسی دن سے بند کردی گئی اور فرمایا
گیا کہ آج سے کسی مردے پر نوحہ نہ کیا جائے، بعد میں یہ بھی ارشاد ہوا کہ
اس طرح ماتم کرنا مسلمان کی شان نہیں)
(قرآن مجید کی سورہ آل عمران میں غزوہ احد کا مفصل ذکر موجود ہے)
|