کچھ بڑی بات تھی جو ہوتے مسلمان بھی ایک
جب بھی لفظ امن میری زبان پہ آتا ہے تو مجھے اس پاکستان کا خیال آتا ہے جسے
بابائے قائد نے امن کی خاطر سر دھڑ کی کوششوں اور لاکھوں قربانیوں سے دنیا
کے نقشے پر اجاگر کیا۔ لیکن افسوس صد افسوس کے ہم نے ان کوششوں اور ان
محنتوں پر پانی پھیر دیا۔ ہم نے اسی سرزمیں پر تو کافر تو کافر کا کھیل
کھیلا اور اپنے ہی بھائیوں کا استحصال کیا۔ ہم نے امن و آشتی کے حقیقی مرکز
مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو چھوڑ کر واشنگٹن اور نیویارک کی چوکھٹ پر
اپنے سر کو جھکایا۔ ہم نے اپنے سب سے بڑے اثاثے اپنے ہی ملک کو بیچ کھایا۔
ارے ہم نے تو دنیا کو راہ راست پہ لانا تھا ہمیں تو آخری امت ہونے کے ناطے
ساری دنیا کو ایک مرکز پہ لانا تھا لیکن ہم نے کیا کیا؟ ہم نے اپنے ہی
اسلاف کا سودہ کر دیا۔ ان فرانسیسی کتوں کو اتنی جراءت دینے والے کوئی اور
نہیں ہمیں مسلمان ہیں۔ اگر آج ہم متحد ہو کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے
قول کے مطابق جدید واحد کی طرح ڈٹے ہوتے تو آج بھی اسلام دنیا کے کونے کونے
میں ہوتا ۔ اگر ہم لوگ اس تفرقے سے نکل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے
رکھتے تو اللہ ہمیں سرخرو کرتا۔ اگر ہم نے انفرادیت کو چھوڑ کر اجتماعی
مفاد کو پیش نظر رکھا ہوتا تو آج ہمارے سامنے دنیا کی کوئی طاقت سر نہ اٹھا
سکتی۔ لیکن قصوروار کوئی اور نہیں ہم ہیں ۔
میں یہ کس کے نام لکھوں جو اَلَم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی
ہمِیں قتل ہو رہے ہیں، ہمِیں قتل کر رہے ہیں
اب جب کہ تباہی کے دہانے پہ ہم لوگ کھڑے ہیں تب بھی ایک ذات ہماری منتظر
ہے۔ اگر ہم آج اپنے اندر سے یہ برائیاں ختم کر دیں اور اپنے آپ کو قرآن کے
اصولوں کے مطابق ڈھال لیں تو یقین کریں ابھی زیادہ دیر نہیں۔ اٹھ جائیں اس
سے پہلے کے ہماری روایات ہمارے ہی ہاتھوں مر جائیں۔ اس سے پہلے کے ہم اپنے
زوال کو اپنے ہاتھوں سے لکھ ڈالے اور اس سے پہلے کے ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا
دیا جائے اور پرانی سطریں بنا دیا جائے۔
|