غزوہ بدرکفر اور اسلام کا پہلا معرکہ تھا، جو 17 رمضان المبارک سن 2ہجری کو
مدینہ منورہ سے سو (100) کلومیٹر دور ہوا اور قرآن کریم نے اسے یوم الفرقان
یعنی حق وباطل میں امتیاز کرنے والا معرکہ قرار دیا ہے۔ اس کے بعد اسلام کی
سربلندی اور فتوحات اور کفار کی شکست اور بربادی کا طویل سلسلہ شروع ہوا۔
رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے باوجود مشرکین
مکہ نے انہیں چین و سکون سے نہیں رہنے دیا۔ انہوں نے مکہ مکرمہ میں صحابہ
کرام کی جائیدادوں او ر مال و دولت پر قبضہ کرلیا اور مدینہ کی اسلامی
ریاست کو مٹانے کے لئے سازشیں کرنے لگے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے کفارِ مکہ
کے تجارتی راستوں کو غیر محفوظ بنانے کے اقدامات کئے۔
رمضان سن 2 ہجری کی بات ہے کہ مشرکین مکہ کا ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی
قیادت میں شام سے مکہ واپس جارہا تھا۔اس قافلے میں اہل مکہ کی بڑی دولت
تھی، یعنی ایک ہزار اونٹ تھے جن پر کم از کم پچاس ہزار دینار(دوسو ساڑھے
باسٹھ کلو گرام سونا)کی مالیت کا سازوسامان لدا ہواتھا۔
مشرکین مکہ اس دولت کو مسلمانوں کے خلاف فوجی کارروائی کے لئے استعمال
کرسکتے تھے۔اس لئے رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے اندر اعلان فرمایا کہ یہ
قریش کا قافلہ مال ودولت لئے چلا آرہا ہے اس کے لئے نکل پڑو، ہوسکتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ اسے بطور غنیمت تمہارے حوالے کردے۔لیکن آپ ؐ نے اس مہم میں
شرکت لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دی کیونکہ اس اعلان کے وقت یہ توقع نہیں تھی کہ
قافلے کے بجائے لشکرِ قریش سے میدانِ بدر میں ایک نہایت پُر زور ٹکر ہوجائے
گی اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے صحابہ کرام ؓ مدینے ہی میں رہ گئے۔
رسول اللہ ﷺ روانگی کے لئے تیار ہوئے تو آپؐ کے ہمراہ313 افراد تھے ۔ اس
لشکر نے غزوے کا نہ کوئی خاص اہتمام کیا تھا نہ مکمل تیاری۔چنانچہ پورے
لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے اور ستّر اونٹ، جن میں سے ہر اونٹ پر دو یا تین
آدمی باری باری سوار ہوتے تھے۔
ابوسفیان کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو قافلے پر
حملے کی اجازت دے دی ہے۔ چنانچہ اس نے مکہ مکرمہ میں اس کی اطلاع کرائی۔ یہ
اطلاع ملتے ہی مکہ سے مشرکین کا ایک ہزار کا لشکر پوری تیاری کے ساتھ روانہ
ہوا۔ جس کا سپہ سالار ابوجہل بن ہشام تھا۔
رسول اللہ ﷺ کو دورانِ سفر مشرکین مکہ کے لشکر کی روانگی کی اطلاع مل
گئی۔اس موقع پر سرکار ﷺ نے صحابہ ؓ سے صلاح مشورے کئے۔اس موقع پر حضرت
ابوبکر صدیق ؓ، حضرت عمرفاروق اعظم ؓ اور دیگر صحابہ کرام نے بھرپور
جانثاری کے جذبات کا اظہار کیا۔ مگر رسول اللہ ﷺ کی خواہش تھی کہ انصار کی
رائے معلوم کریں، کیونکہ وہی لشکر میں اکثریت رکھتے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ
ﷺ نے مہاجر صحابہ کی باتیں سننے کے بعد فرمایا کہ لوگو! مجھے مشورہ دو،
مقصود انصار تھے۔ یہ بات انصار کے کمانڈر اور علمبردار حضرت سعد بن معاذؓ
نے بھانپ لی، چنانچہ انہوں نے عرض کیا کہ بخدا! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اے
اللہ کے رسول ﷺ آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے، فرمایا کہ ہاں۔ انہوں نے کہا
کہ ہم تو آپؐ پر ایمان لائے ہیں، آپؐ کی تصدیق کی ہے اور یہ گواہی دی ہے کہ
آپؐ جو کچھ لے کر آئے ہیں، سب حق ہے اور اس پر ہم نے آپؐ کو اپنی سمع وطاعت
کاعہد ومیثاق دیا ہے، لہٰذا اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ کا جو ارادہ ہے، اس کے
لئے پیش قدمی فرمائیے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کوحق کے ساتھ مبعوث فرمایا
ہے۔ اگر آپؐ ہمیں لے کر سمندر میں کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپؐ کے
ساتھ کود پڑیں گے۔ ہمارا ایک آدمی بھی پیچھے نہ رہے گا۔ ہمیں قطعاً کوئی
ہچکچاہٹ نہیں کہ کل آپؐ ہمارے ساتھ دشمن سے ٹکرا جائیں۔ ہم جنگ میں پامرد
اور لڑنے میں جوانمرد ہیں اور ممکن ہے اللہ آپؐ کو ہمارے جوہر دکھلائے جس
سے آپؐ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں۔ پس آپؐ ہمیں ہمراہ لے کر چلیں، اللہ برکت
دے گا۔
حضرت سعد ؓ کی یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ پر خوشی کی لہر دوڑ گئی، آپؐ پر
نشاط کی کیفیت طاری ہوگئی۔ آپؐ نے فرمایا کہ چلو اور خوشی خوشی چلو۔ اللہ
نے مجھ سے دوگروہوں میں سے ایک کا وعدہ فرمایا ہے۔ واللہ! اس وقت گویا میں
قوم کی قتل گاہیں دیکھ رہا ہوں۔اس کے بعد آپ ؐ نے اپنے جانثار صحابہ کرام ؓ
کے ہمراہ بدر کے قریب نزول فرمایا۔ جو مدینہ منورہ سے 80 میل کے فاصلے پر
واقع ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا: مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں
کو تمہارے پاس لا کر ڈال دیا ہے۔ اللہ عزوجل نے اسی رات ایک بارش نازل
فرمائی، جو مشرکین پر موسلا دھار برسی اور ان کی پیش قدمی میں رکاوٹ بن گئی
لیکن مسلمانوں پر پھوار بن کر برسی اور انہیں پاک کردیا۔ شیطان کی گندگی
(بزدلی) دور کردی۔ اور زمین کو ہموار کردیا۔ اس کی وجہ سے ریت میں سختی
آگئی اور قدم ٹکنے کے لائق ہوگئے قیام خوشگوار ہوگیا اور دل مضبوط ہوگئے۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے لشکر کو حرکت دی تاکہ مشرکین سے پہلے بدر کے
چشمے پر پہنچ جائیں اور اس پر مشرکین کو مسلط نہ ہونے دیں۔ چنانچہ عشاء کے
وقت آپؐ نے مشرکین کے قریب ترین چشمے پر نزول فرمایا۔ پھر صحابہ کرام ؓ نے
حوض بنایا اور باقی تمام چشموں کو بند کردیا۔
بہرحال جب مشرکین کا لشکر نمودار ہوا اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کو دکھائی
دینے لگیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے اللہ یہ قریش ہیں جو اپنے پورے
غرور وتکبر کے ساتھ تیری مخالفت کرتے ہوئے اور تیرے رسول ؐ کو جھٹلاتے ہوئے
آگئے ہیں۔ اے اللہ تیری مدد۔۔۔ جس کا تو نے وعدہ کیا ہے۔ اے اللہ آج انہیں
برباد کرکے رکھ دے"۔رسول اللہ ﷺ صفیں درست کرکے واپس آتے ہی اپنے پاک
پروردگار سے نصرت و مدد کا وعدہ کرنے کی دعا مانگنے لگے۔ آپؐ کی دعا یہ
تھی:"اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے، اسے پورا فرمادے۔ اے اللہ! میں
تجھ سے تیرا عہد اور تیر ے وعدے کا سوال کررہا ہوں "۔
پھر جب گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی، نہایت زور کا رَن پڑا اور لڑائی شباب پر
آگئی تو آپؐ نے یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ! اگر آج یہ مٹھی بھر گروہ ہلاک
ہوگیا تو قیامت تک تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کو ایک
جھپکی آئی۔ پھر آپؐ نے سر اٹھا یا اور فرمایا! ابوبکر خوش ہوجاؤ، یہ جبرئیل
ؑ ہیں، گردو غبار میں اٹے ہوئے۔ ابن اسحاق کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ
ابوبکر خوش ہوجاؤ، تمہارے پاس اللہ کی مدد آگئی۔ یہ جبرئیل علیہ السلام
ہیں، اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے اور اس کے آگے آگے چلتے ہوئے آرہے ہیں
اور گردو غبار میں اٹے ہوئے ہیں۔
جس وقت رسول اللہ ﷺ نے جوابی حملے کا حکم صادر فرمایا، دشمن کے حملوں کی
تیزی جاچکی تھی اور ان کا جوش و خروش سرد پڑرہا تھا۔ اس لئے یہ باحکمت
منصوبہ مسلمانوں کی پوزیشن مضبوط کرنے میں بہت مؤثر ثابت ہوا، کیونکہ صحابہ
کرام ؓ کو جب حملہ آور ہونے کا حکم ملا اور ابھی ان کا جوشِ جہاد شباب پر
تھا تو انہوں نے نہایت سخت تند اور صفایا کن حملہ کیا۔ وہ صفوں کی صفیں
درہم برہم کرتے اور گردنیں کاٹتے آگے بڑھے۔ ان کے جوش وخروش میں یہ دیکھ کر
مزید تیزی آگئی کہ رسو ل اللہ بنفسِ نفیس زرہ پہنے تیز تیز چلتے تشریف
لارہے ہیں اور پورے یقین و صراحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ عنقریب یہ جتھہ
شکست کھاجائے گا اور پییٹھ پھیر کر بھاگے گا۔ اس لئے مسلمانوں نے نہایت
پرجوش و پرخروش لڑائی لڑی اور فرشتوں نے بھی ان کی مدد فرمائی۔ چنانچہ ابن
سعد کی روایت میں حضرت عکرمہ ؓ سے مروی ہے اس دن آدمی کا سرکٹ کر گرتا اور
یہ پتہ نہ چلتا کہ اسے کس نے مارا ہے اور آدمی کا ہاتھ کٹ کر گرتا اور یہ
پتا نہ چلتا کہ اسے کس نے کاٹا ہے۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک
مشرک کا تعاقب کررہا تھاکہ اچانک مشرک پر کوڑے مارنے کی آواز آئی اور ایک
شہسوار کی آواز سنائی دی، جو کہہ رہا تھا کہ آگے بڑھ۔ مسلمان نے مشرک کو
اپنے آگے دیکھا کہ وہ چِت گرا، لپک کر دیکھا تو اس کی ناک پر چوٹ کا نشان
تھا، چہرہ پھٹا ہوا تھا جیسے کوڑے سے مارا گیا ہو اور یہ سب کا سب ہرا
پڑگیا۔ اس انصاری مسلمان نے آکر رسول اللہ ﷺ سے یہ ماجرا بیان کیا تو آپؐ
نے فرمایا کہ تم سچ کہتے ہو، یہ تیسرے آسمان کی مدد تھی۔
ابو داؤد مازنی کہتے ہیں کہ میں ایک مشرک کو مارنے کے لئے دوڑ رہا تھا کہ
اچانک اس کا سر میری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گرگیا۔ میں سمجھ گیا کہ
اسے میرے بجائے کسی اور نے قتل کیا ہے۔ ایک انصاری حضرت عباس ؓ بن
عبدالمطلب کو قید کرکے لایا تو حضرت عباس ؓ کہنے لگے کہ واللہ! اس نے مجھے
قید نہیں کیا، مجھے تو ایک بے بال کے سر والے آدمی نے قید کیاہے جو نہایت
خوبرو تھا اور ایک چتکبرے گھوڑے پر سوار تھا۔ اب میں اسے لوگوں میں دیکھ
نہیں رہا ہوں۔ انصاری نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ؐ! انہیں میں نے قید کیا
ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ خاموش رہو، اللہ نے ایک بزرگ فرشتے سے تمہاری مدد
فرمائی ہے۔
تھوڑی دیر بعد مشرکین کے لشکر میں ناکامی اور اضطراب کے آثار نمودار ہوگئے۔
ان کی صفیں مسلمانوں کے تابڑ توڑ حملوں سے درہم برہم ہونے لگیں اور معرکہ
اپنے انجام کے قریب جاپہنچا۔ پھر مشرکین کے جتھے بے ترتیبی کے ساتھ پیچھے
ہٹے اور ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ مسلمانوں نے مارتے کاٹتے اور پکڑتے باندھتے
ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ ان کو بھرپور شکت ہوگئی۔
یہ معرکہ مشرکین کی شکستِ فاش اور مسلمانوں کی فتح مبین پر ختم ہوااور اس
میں چودہ مسلمان شہید ہوئے۔ چھ مہاجرین میں سے اور آٹھ انصار میں سے، لیکن
مشرکین کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ ابوجہل اور دیگر بڑے سرداروں سمیت ان کے
ستّر آدمی مارے گئے اور ستّر قید کئے گئے،جو عموماً قائد، سردار اور بڑے
بڑے سربر آوردہ حضرات تھے۔
حضرت ابو طلحہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے حکم سے بدر کے روز قریش کے چوبیس
بڑے بڑے سرداروں کی لاشیں بدر کے ایک گندے خبیث کنویں میں پھینک دی گئیں۔
آپؐ کا دستور تھا کہ آپؐ جب کسی قوم پر فتح یاب ہوتے تو تین دن میدان ِ جنگ
میں قیام فرماتے۔ چنانچہ جب بدر میں تیسرا دن آیا تو آپؐ کے حسب الحکم آپ ؐ
کی سواری پر کجاوہ کسا گیا۔ اس کے بعد آپ ؐ پیدل چلے اور پیچھے پیچھے صحابہ
کرام ؓ بھی چلے یہاں تک کہ آپؐ کنویں کی بار پر کھڑے ہوگئے۔ پھر انہیں ان
کا اور ان کے باپ کا نام لے لے کر پکارنا شروع کیا۔ اے فلاں بن فلاں اور اے
فلاں بن فلاں! کیا تمہیں یہ بات خوش آتی ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول ؐ
کی اطاعت کی ہوتی؟ کیونکہ ہم سے ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے ہہم نے
برحق پایا تو کیا تم سے تمہارے رب نے جو وعدہ کیا تھا اسے تم نے برحق پایا؟
حضرت عمر ؓ نے عرض کی، یا رسول اللہ ؐ، آپ ایسے جسموں سے کیا باتیں کررہے
ہیں جن میں روح ہی نہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں
محمد ؐ کی جان ہے میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سن
رہے ہو لیکن یہ لوگ جوا ب نہیں دے سکتے۔
مشرکین نے میدان بدر سے غیر منظم شکل میں بھاگتے ہوئے تتر بتر ہوکر گھبراہٹ
کے عالم میں مکے کا رخ کیا۔ اہل مکہ کو میدانِ بدر کی شکست فاش کی خبر ملی
تو ان میں سراسیمگی پھیل گئی۔
ادھر مسلمانوں کی فتح مکمل ہوچکی تو رسول اللہ ﷺ نے اہل مدینہ کو جلد از
جلد خوشخبری دینے کے لئے دو قاصد روانہ فرمائے۔ ایک حضرت عبداللہ بن رواحہؓ
جنہیں عوالی (بالائی مدینہ) کے باشندوں کے پاس بھیجا گیا اور دوسرے حضرت
زید بن حارثہ ؓ جنہیں زیریں مدینہ کے باشندوں کے پاس بھیجا گیا۔اس دوران
یہود اور منافقین نے جھوٹے پروپیگنڈے کرکرکے مدینے میں ہلچل بپا کررکھی تھی
یہاں تک کہ یہ خبر بھی اڑا دی تھی کہ نبی ﷺ قتل کردئیے گئے ہیں۔ بہرحال جب
دونوں قاصد پہنچے تو مسلمانوں نے انہیں گھیر لیا اور ان سے تفصیلات سننے
لگے حتیٰ کہ انہیں یقین آگیا کہ مسلمان فتحیاب ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد ہر طرف
مسرت وشادمانی کی لہر دوڑ گئی اور مدینے کے دَروبام تہلیل وتکبیر کے نعروں
سے گونج اٹھے اور جو سربر آوردہ مسلمان مدینے میں رہ گئے تھے وہ رسول اللہ
ﷺ کو اس فتح مبیں کی مبارکباد دینے کے لئے بدر کی طرف چل پڑے۔
غزوہ بدر کے دوران رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ ؓ کا انتقال ہوگیا،
جو حضرت عثمان غنی ؓ کے عقد میں تھیں۔ حضرت اسامہ بن زید ؓ کا بیان ہے کہ
ہمارے پاس اس وقت خبر پہنچی، جب ہم حضرت رقیہ ؓ کوسپرد خاک کرکے قبر پر مٹی
برابر کر کے تھے۔ ان کی تیمارداری کے لئے حضرت عثمان ؓ کے ساتھ مجھے بھی
مدینے میں ہی چھوڑ دیا تھا۔
لشکر اسلام مدینے واپس ہوا تورسول اللہ ﷺ کے حکم پر مکہ کے دو سفاک اور شقی
القلب سرداروں نضر بن حارث اور عُقبہ بن ابی معیط کو قتل کردیا گیا۔
آپؐ مدینہ منورہ میں اس طرح مظفر و منصور داخل ہوئے کہ شہر اور گردو پیش کے
سارے دشمنوں پر آپ ؐ کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ اس فتح کے اثر سے مدینے کے بہت
سے لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے اور اسی موقع پر عبداللہ بن ابی اور اس کے
ساتھیوں نے بھی دکھاوے کے لئے اسلام قبول کیا۔
پھر نہایت نفیس موقع اور خوشگوار اتفاق یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنی زندگی
میں پہلی عید جو منائی وہ شوال ۲ ھ کی عید تھی جو جنگ بدر کی فتح مبین کے
بعد آئی تھی۔ کتنی خو شگوار تھی وہ عید سعید جس کی سعادت اللہ تعالیٰ نے
مسلمانوں کے سرپر فتح وعزت کا تاج رکھنے کے بعد عطا فرمائی تھی اور کتنا
ایمان افروز تھا اس نماز عید کا منظر جسے مسلمانوں نے اپنے گھروں سے نکل کر
تکبیر وتوحید اور تحمید وتسبیح کی آوازیں بلند کرتے ہوئے میدان میں جاکر
ادا کیا تھا۔
|