آج دنیاافراط وتفریط کی جس راہ پرگامزن ہوچکی ہے‘اس نے
افرادِانسانی سے اس کاامن وسکون چھین لیاہے اورکارِانسانیت کو
انتشاروافتراق کی ان ظلمتوں کی نذرکردیا ہے کہ بظاہراس سے نجات کی کوئی
سبیل نظر نہیں آتی۔ یہ صورتحال مسلم امہ کیلئےبھی ایک عظیم الشان چیلنج کی
حیثیت رکھتی ہے اورحقیقت یہ ہے کہ عالمی طاقتوں نے یہ تمام ترتلخیاں
مسلمانوں ہی کیلئےبالخصوص وضع کی ہیں۔آج مسلمان سیاسی، اقتصادی،علمی الغرض
تمام شعبوں میں انتہائی مجبورحدتک ناکام ونامراد ہیں اورعالمی طاقتوں کی
شیطنیت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اس راہ میں اخلاقی قدریں بھی مانع نہیں
رہیں۔یہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کاکردارعمل ہے اوراسی پرشیطان
کوکہناپڑا۔”باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک”
جس طرح کتاب وسنت اورسیرتِ نبویﷺ سے تعلق اس دنیاکی سب سے بڑی سعادت ہے
بعینہٖ اس سے بُعدودوری بھی دنیاکی سب سے بڑی شقاوت ہے۔یہ وہ اجزاے ثلاثہ
ہیں جنہیں کسی صورت تقسیم نہیں کیاجاسکتااوراگرکسی کی نگاہ وحدتِ ناآشناان
کی بنیادوں میں بھی فرق واختلاف تلاش کرلے توایسی کج نظری پرحسرت وافسوس ہی
کیاجاسکتاہے۔علم بے شک کسب وسعی کے مراحل سے گزرکرحاصل کیاجاسکتاہے لیکن
فہم ومعرفت صرف عطیۂ الٰہی کاثمرہ ہے۔آج ضرورت اسی دینی فہم کے اجاگرکرنے
کی ہے جس کی کمی کی وجہ سے تشددوانتشارجنم لیتاہے۔مسلمان سب کچھ کرسکتے ہیں
لیکن صرف اس صورت میں کہ ان کی صفیں منظم ومربوط ہوں وگرنہ تمناؤں
اورخواہشوں کے باب توکھلے ہیں مگرحقیقتوں کاسامنا نہیں ہوسکے گا۔
اس وقت مسلم امہ کو بالخصوص سیاسی،اقتصادی اورعلمی میدان میں اہم ترین
اورانتہائی مشکل حالات کاسامناہے۔ان مسائل کا مختصرتجزیہ ازحد ضروری ہے۔
خفیہ عالمی طاقتوں نے ایک طویل عرصے سے دنیاکویہ باورکرایاہے کہ مسلمان
جنگی جنون میں مبتلاہیں اور”جہاد”کے نام پر دنیاکاامن وسکون تباہ کر دینا
چاہتے ہیں۔یہ وہ منفی پروپیگنڈہ ہے جوآج بھی جاری ہے۔ تقریباًڈھائی دہائیاں
قبل برطانیہ سے شائع ہونے والے یہودی مجلہ”جیوش کرانیکل”میں’’الجہاد فی
الاسلام‘‘کے عنوان سے لکھاتھاکہ”عالمِ اسلام میں مختلف جماعتوں، تنظیموں
اورتحریکوں کی طرف سے اسلام کے بنیادی اصولوں کی طرف رجوع کرنے اوران
پرسختی سے کاربندہونے کی دعوت مسلسل دی جارہی ہے۔یہ تحریکیں اورجماعتیں
کافی مضبوط ہوچکی ہیں اورمغرب کی سیاسی حکمتِ عملی ترتیب دینے والوں نے
اگران جماعتوں کی اس دعوت کو ملحوظ رکھ کراپنی اسٹرٹیجی نہ بنائی تویہ ان
کی کوتاہ بینی کابہت بڑاثبوت ہوگا‘‘۔
اسی طرح برطانیہ سے شائع ہونے والے ایک دوسرے مجلہ سنڈے ٹیلی گراف
نے”اسلامی خطرے کامقابلہ”کے عنوان سے ایک انتہائی گمراہ کن پروپیگنڈہ کرتے
ہوئے لکھا کہ:ایسامعلوم ہوتاہے کہ کچھ عرصے تک عرب اورمسلمان ملک
دنیاپرقابض ہوجائیں گے بغیراس کے کہ وہ اپنے ہاں دورِ جدید کے نئے ترقی
یافتہ ادارے قائم کریں۔بعض عرب ملکوں کے عوام میں تجدید الاسلام کا جاری
عمل ایک نیاخطرہ ہے۔ہم پرلازم ہے کہ اس خطرے کے سدباب کیلئےمناسب وسائل
اختیارکریں ممکن ہے کہ اس غرض کیلئےعسکری قوت سے بھی کام لینا پڑے،کیونکہ
اسلام تجدیدجہادکی دعوت دیتاہے جس کامطلب یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کوختم
کردیاجائے۔ چنانچہ خفیہ عالمی طاقتیں مسلمانوں کونیست ونابود کر نے کے”مقدس
مشن”کی تکمیل میں مصروف ہوگئیں۔ سی آئی اے کے سربراہ رچرڈبی مچل نے
بظاہر’’الاخوان المسلمون‘‘کے خاتمے کی تجاویزپیش کیں لیکن حقیقت میں یہ
حربہ ہرخطہ اسلامی میں آزمایا گیا۔موصوف کی تجاویزملاحظہ ہوں:
1۔مکمل خاتمے کی بجائے جزوی خاتمے پراکتفاکیاجائے۔صرف ان رہنما شخصیتوں کا
خاتمہ کیا جائے جو دوسرے ذرائع سے جن کاذکرہم آگے کرنے والے ہیں،قابومیں نہ
آئیں۔ہم اس بات کوترجیح دیتے ہیں کہ ان شخصیتوں کاخاتمہ ایسے طریقوں سے
کیاجائے جوبالکل طبعی اورفطری معلوم ہوں۔
2۔جن شخصیتوں سے چھٹکاراحاصل کرنے کافیصلہ کیاجائے،ان کے سلسلے میں ہم
مندرجہ ذیل اقدامات کی سفارش کرتے ہیں:
(۱لف)جن لوگوں کوبڑے بڑے مناصب دے کرورغلایاجاسکتاہے،ان کوبے ضررقسم کے بڑے
بڑے اسلامی منصوبوں میں منصب دیے جائیں تاکہ ان کی قوتیں یہی منصوبے
نچوڑلیں۔اس کے ساتھ ہی ان پراوران کے اہل وعیال پرمادی سہولتوں کی بارش
کردی جائے تاکہ وہ ان میں پوری طرح منہمک ہوجائیں۔ان کی قوتیں وہیں صرف
ہوجائیں اورعوام سے ان کارابطہ کٹ کران کی بنیادختم کردی جائے۔
(ب)جن کے کاروباری رجحانات ہوں،ان پرکام کرکے انہیں کاروباری منصوبوں میں
حصہ داربنانے کی کوشس کی جائے۔
(ج)پٹرول پیداکرنے والے عرب ملکوں میں ان کیلئےکام کے مواقع پیداکیے جائیں
اس طرح وہ اسلامی سرگرمیوں سے دورہوجائیں گے۔
(د)یورپ اورامریکامیں جوعناصرفعال ہیں،ان کے بارے میں ہماری تجاویزحسبِ ذیل
ہیں:
(1)ان کی قوتوں اورکوششوں کوغیرمسلموں پرصرف کروایاجائے۔پھراپنے اداروں کے
ذریعے ان کاوشوں کولاحاصل بنادیاجائے۔
(2)ان کی کوششوں کواسلامی کتابیں چھاپنے اورشائع کرنے میں کھپادیاجائے
اورساتھ ہی ان کے نتائج کوناکام کردیاجائے۔
(3)ان کی قیادتوں میں آپس میں شکوک وشبہات پیداکیے جائیں۔ان میں اختلاف کے
بیج بوکران کونمایاں کیاجائے تاکہ نتیجہ خیز سرگرمیوں کی بجائے ان اختلافات
میں اپنی قوتیں جھونک دیں۔
3۔ نوجوانوں کے بارے میں ہم تجویزکرتے ہیں کہ:
(الف)ان کی قوتوں کومذہبی رسوم وعبادات میں کھپادیاجائے۔اس سلسلے میں وہ
مذہبی قیادتیں مفید ثابت ہوسکتی ہیں جوصرف عبادات پرزوردیتی ہیں اورجوسیاست
سے تعرض نہیں کرتیں۔
(ب)مذہبی وفروعی اختلافات کی خلیج کووسیع کیاجائے اورنوجوانوں کے ذہنوں میں
ان کونمایاں کیاجائے۔
(ج)سنت پرحملوں کی حوصلہ افزائی کی جائے،سنت اوردوسرے اسلامی مآخذکے بارے
میں شکوک وشبہات پیداکیے جائیں۔
4۔مختلف اسلامی جماعتوں میں پھوٹ ڈالی جائے اوران جماعتوں کے اندراورمابین
تنازعات کھڑے کیے جائیں۔
5۔نوجوانوں کی توجہ اسلامی تعلیمات کی طرف بڑھ رہی ہے۔اس”رو”کامقابلہ ضروری
ہے،خاص طور پر لڑکیاں اسلامی لباس کا التزام کررہی ہیں،اس کامقابلہ
میڈیااورجوابی ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے ضروری ہے۔
6۔مختلف مراحل میں تعلیمی سرگرمیوں کے ذریعے اسلامی جماعتوں کی کاوشوں کوبے
اثربنایاجائے اوران کادائرہ محدود کرنے کی کوشش کی جائے۔
موصوف کی تجاویزتقریباًربع صدی قبل کی ہیں جس کے نتیجے میں آج مسلمان
استعماریت کے ہاتھوں کھلونابن گئے ہیں۔علیٰ ہذا القیاس اس وقت تمام اسلامی
دنیا شدیدترین سیاسی بحران کاشکارہے۔اسلامی ممالک میں اتحادویگانگت کافقدان
ہے۔فلسطین،کشمیر، چیچنیا،عراق،کوسوووغیرہابلادِاسلامیہ میں مسلمانوں
کوبدترین مظالم کاسامناہے،تمام اسلامی ممالک اس صورتحال کوملاحظہ کرنے کے
باوجودبے بس ہیں،اس لیے کہ جرأتِ ایمانی وقوتِ روحانی سے محروم ہیں۔اس
سیاسی بحران سے نکلنے کیلئےدرج ذیل تدابیرپرعمل ناگزیرہے۔
1۔تمام اسلامی ممالک ایوانِ کفرمیں سرنگوں ہونے کی بجائے آپس میں
اتحادومحبت کی فضا پیداکریں۔
2۔ اوآئی سی کوواقعتامتحرک وفعال بنایاجائے۔
3۔اپنے اندرونی معاملات میں استعماریت کی دخل اندازی کوسختی سے روکاجائے۔
4۔اپنی دفاعی صلاحیتوں کومضبوط بنایاجائے۔
اس وقت ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دنیاکوبالعموم اوراسلامی دنیاکوبالخصوص
اقتصادی طورپراپنایرغمال بنارکھاہے۔آج کی مادی دنیا نے انسان کی مادی
خواہشوں کوبے لگام کردیاہے کہ ہرشخص اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئےہرحدتک
جانے کیلئےتیارہوگیاہے۔ سلسلہ مال ودولت کاارتکازمحض ایک مخصوص طبقے تک
محدودہوکررہ گیاہے،جس نے معاشرے میں بے چینی واضطراب کو جنم دیااوریہی بے
چینی واضطراب کی کوکھ سے جرائم جنم لیتے ہیں،گویا اقتصادی بحران کادائرۂ
اثرونفوذ پورے معاشرے کو اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے۔اسلامی دنیامیں ان
ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے یہ اقتصادی بحران بڑے غیرمحسوس طریقے سے
اثراندازہواحتیٰ کہ حکومتیں بھی ان کے سامنے بے بس ہوگئیں۔انگریزوں نے
قارۂ ہندکواقتصادیات ہی کی راہ سے اپنا یرغمال بنایاتھااورآج پھراسلامی
دنیااسی راہ سے مغلوب ہورہی ہے۔یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں نہ صرف ہماری اقتصادی
جڑوں پرضربِ کاری لگارہی ہیں بلکہ اپنی مصنوعات ومشروبات میں حرام
اجزاکوشامل کرکے مسلمانوں کے ایمان پربھی نقبِ زن ہورہی ہیں۔یہ ملٹی نیشنل
کمپنیاں اپنی آمدنی کاایک معتدبہ حصہ اسرائیل کے تحفظات کیلئےوقف کردیتی
ہیں،گویامسلمان ان کمپنیوں کی مصنوعات خرید کرخوداپنی تباہی وہلاکت کاسامان
تیارکررہے ہیں ۔ اقتصادی طورپراس بحران سے نکلنے کیلئےناگزیرہے کہ:
1۔اسلامی حکومتیں ملک کے اندرہونے والی صنعتی ترقی کی حوصلہ افزائی کریں۔
2۔ان تمام مصنوعات وسامان اکل وشرب پرسرکاری سطح پرپابندی عائدکی جائے،جس
میں حرام اجزاکی آمیزش ہو۔
3۔مسلمان خریدارسب سے پہلے اسلامی اداروں کی تیارکردہ مصنوعات کوفوقیت
دیں،اس کے بعدان اداروں کی مصنوعات خریدیں جن کی آمدنی اسلام دشمنی میں صرف
نہ ہورہی ہوجیسے چین،کوریاوغیرہماکی مصنوعات۔
اس وقت مسلم امہ کوعلمی میدانوں میں بہت بڑاچیلج درپیش ہے۔ایک طرف قدامت
پسند علماہیں جواصابتِ فکروصلابتِ رائے سے محروم رسومات ہی کودین سمجھ
بیٹھے ہیں۔سلف نے جوکچھ اپنے اجتہادوقیاس سے کہہ دیاہے اسے دین کے اصل
سرچشمہ مصفا پرفوقیت دیتے ہیں۔دوسری طرف تجددپسند علماکی کھیپ تیارہورہی ہے
جودین کے ہرمعاملے میں اپنے عقلِ ناقص کی پیوندکاری ضروری سمجھتے ہیں۔علمی
طورپرجوسرمایہ اس وقت جمع ہورہاہے اس میں اسلامی فکرکے احیاکی غذا
مفقودہے۔فروعات پرکتابوں کے انبارلگ رہے ہیں۔ ہرروزنت نئی سنتیں ایجادہورہی
ہیں۔ہمارے پاس قرآن موجودہے جس نے چودہ صدیاں قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ”
اِلَّا بِذِکْرِ اﷲِ تَطْمَئِنُ الْقُلُوْب”لیکن افسوس کہ ہم اپنے دل شکستہ
کی تسکین کیلئےآلاتِ لہوولعب کے خوگر بنتے چلے گئے اوراب صورتحال یہ ہو گئی
ہے کہ:
وکأس شربتُ علیٰ لذۃ
وأخریٰ تداویت منہا بہا
کتاب وسنت سے اعراض مسلمانوں کی ہیئتِ اجتماعی کاسب سے بڑاعلمی سانحہ
تھا۔غیرمسلم اسکالرزکاعلمی پروپیگنڈہ اپنے عروج پرپہنچ چکاہے،جس نے عالمی
رائے عامہ پرنہایت گمراہ کن اثرڈالاہے،اس کے برعکس مسلم اسکالرزکی
کثیرتعداد اپنی قلمی جولانیاں اندرونی اختلافات کی نذرکرتی رہیں۔بیروت کی
امریکن یونیورسٹی کے ڈاکٹرکمال صلیبی(جن کانسلی ربط یہودیوں سے بھی ہے)نے
یہ انکشافِ جدیدکیاکہ یہودیوں کااصل وطن فلسطین نہں بلکہ منطقہ عہد سعودی
عرب ہے۔ایک دوسرے یہودی مستشرق پروفیسر برنارڈ ڈیوس نے”دی جیوزآف اسلام”میں
اسلام کے نمودکومسیحی علم الاساطیراور یہودی خرافات سے منسلک کرنے کی کوشش
کی۔ریسرچ کے جدید اسالیب کواستعمال کرتے ہوئے موصوف نے یہ ثابت کرنے کی
کوشش کی ہے کہ اسلام نے علمی وفکری غذایہودیت سے حاصل کی ہے۔اس کے علاوہ
مغرب کابیشترتحریری اثاثہ اسی قسم کی زہرآلودمسموم تحقیقات سے معمورہے لیکن
مسلم اسکالرزنے اس کی تردیدمیں جوکچھ تحریری اثاثہ جمع کیااسے خود مسلمانوں
کی اکثریت نے لائقِ اعتنا نہیں سمجھا‘ جس کی وجہ سے ان کی آوازصدا بصحرا
ہوکررہ گئی۔اب کچھ اجتماعی کوششیں کی جارہی ہیں۔اﷲ اس کے دائرۂ
اثرونفوذمیں اضافہ فرمائے۔(آمین)
علمی میدانوں میں مسلم اسکالرزاوراربابِ اقتدارکوبالخصوص درج ذیل امورپیشِ
نظررکھنے چاہیئں:
1۔اسلامی ممالک کی تعلیمی پالیسی میں دین کو’’اچھوت‘‘کی جوحیثیت دی گئی
ہے،اس کے صحیح مقام کوواضح اورنمایاں کرنے کی کوشش کی جائے۔
2۔تعلیم کیلئےکی گئی تمام اصلاحات اس وقت تک غیرموثررہیں گی جب تک کہ
میڈیاکومشرف بہ اسلام نہ کرلیاجائے۔مجھے اس امرکاشدیداحساس ہے کہ میڈیاکو
کوئی معجزہ ہی’’مشرف بہ اسلام‘‘کرسکتاہے لیکن گذشتہ چندبرسوں سے
میڈیاجس’’آزادی‘‘کے سفرپرگامزن ہے اس نے طہارتِ فکرو نظر اورنظافت روح وقلب
کے تصورکومجروح کردیاہے بالخصوص’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘کامیڈیاجس
اندازسے’’بسنت کی بہاروں‘‘اور ’’ویلنٹائن ڈے کی معصومیت‘‘کاپرچارکرتی ہے،وہ
انتہائی افسوسناک ہے۔
3۔دینی ادارے ہوں یاانفرادی شخصیتیں،ضرورت اس امرکی ہے کہ وسعتِ قلبی کے
ساتھ دینی خدمت کیلئےمستعد ہوں،ایک دوسرے کوبرداشت کرنے اورہم آہنگی کی
فضاپیداکرنے کی سعی کی جائے۔
4۔مستشرقین کی وہ تحریریں جواسلام کی حقانیت کاپرچارکرتی ہوں،ان کی زیادہ
سے زیادہ تشہیرکی جائے۔مثلاًڈاکٹرفرینک ٹیلرنے اپنی کتاب”فزکس آف موریلیٹی”
میں جواہم ترین سائنسی انکشافات کیے ہیں اس سے اسلامی عقیدے کااثبات
ہوتاہے۔اسی طرح عالمی شہرت یافتہ”موریس بوکائلے کی کتاب۔دی بائبل،دی قرآن
اینڈ سائنس”بھی اس حوالے سے مفیدکتاب ہے۔اس قسم کے علمی سرمائے کوزیادہ سے
زیادہ عام کیاجائے۔
5۔آج تک یہ سمجھاجاتارہاہے کہ قرآن مسلمانوں کی کتاب ہے لیکن یہ غلط ہے
کیونکہ قرآن توانسانوں کی کتاب ہے اورحاملینِ قرآن کاسب سے اہم فریضہ یہ ہے
کہ وہ انسانیت کواس کی متاع گم گشتہ لوٹا دیں۔ دین کی خدمت ایک بہت بڑی
سعادت ہے وگرنہ یہ توظاہرہے کہ اﷲ کادین میری،آپ کی یاکسی فردِ انسانی کی
خدمت کامحتاج نہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ اﷲ کادین بھی کبھی معدوم ہوجائے. وہی
توہے جس نے اپنے پیغمبرکوہدایت اوردین حق دے کربھیجاتاکہ اسے اورسب دینوں
پرغالب کرے خواہ مشرکوں کوبراہی لگے(صف:9)
آج ہم عمل کی دنیامیں ہیں اوراحتساب کاوقت نہیں آیا۔کل میدانِ احتساب میں
ہوں گے اورعمل کاکوئی موقع نہ ہوگا۔آیئے اس سے پہلے کہ وقت کی ساعتیں دغادے
جائیں،ہم خلوص وانابت کے جذبے سے سرشارہوکرجوکچھ ممکن ہوکرگزریں۔
|