ایک سپاہی، جو زلفِ بنگال کا
اسیر ہو گیا !!
میرا یہ معمول بن گیا کہ روزانہ اپنے کام نپٹا کر شام کو بھٹی سے ملنے جاتا
اور ہر دوسے تیسرے دن مدنا گھاٹ کا چکر لگا آتا ، آ ٹھ دنوں میں بھٹی کچھ
چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا تو اُس نے مہر جان کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار
کیا ، اُدھر مہر جان کے بارے میں مولوی صاحب نے بتایا کہ اُس کی حالت کو
دیکھتے ہوئے اُس کے ماں باپ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مہر جان جہاں چاہے گی
اُس کی شادی کریں گے جبکہ اُس کے دو بھائی جو چٹاگانگ میں رہتے ہیں انہوں
نے بھی حامی بھر دی ہے بس مکتی باہنی والے بھائی ابھی تک اپنی ضد پہ اڑے
ہوئے ہیں۔
میں نے بھٹی کو روزانہ جو دلاسے دے کر بہلا رکھا تھا، کہ مہر جان ٹھیک ہے
کوئی فکر والی بات نہیں ،وہ تمہارا انتظار کر رہی ہے، اب وہ وقت آگیا تھا
کہ اُسے حقیقت سے آگاہ کر دیا جائے! پھر یہ بھی ڈر تھا کہ مہر جان کی
بیماری کا سُن کر یہ اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکے گا ، لہٰذا میں نے اُسے
یہ کہہ کر کہ ابھی تمہارا وہاں جانا مناسب نہیں ، میں مولوی کمال کے ساتھ
مل کر اُس کے ماں باپ سے ملوں گا ، جہاں تک مجھے علم ہوا ہے وہ راضی ہیں بس
اسکے بھائیوں کی تھوڑی سی ضد ہے جسے وہ توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں انشااللہ
وہ بھی راضی ہو جائیں گے اور تم اپنے ہونے والے سسرال سے ابھی دور ہی رہو
کیونکہ یہی دستورِ زمانہ ہے کہ شادی سے پہلے سسرال کے چکر لگانے والوں کو
لوگ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے کیا سمجھے ؟میری ان باتوں نے اُس پر جادو کا
اثر کیا اور وہ ایک نئے نویلے دولہے کی طرح شرما کر بیڈ پر سمٹ کر بیٹھ گیا،
چہرے کے پلاسٹر اُتر چکے تھے زخموں کے نشان چیچک کے داغوں میں گُڈ مُڈ ہو
کر اپنی حقیقت کھو چکے تھے بس نچلا ہونٹ ذرا سا کٹا کٹا لگ رہا تھا جو
ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق کچھ دِنوں ٹھیک ہو جائے گا سینے کے زخم گہرے تھے جن
کو ٹھیک ہونے میں کافی وقت لگے گا۔
اِدھر گاﺅں میں مہر جان اور بھٹی کی محبت کے چرچے عام تھے مولوی کمال گاﺅں
کے لوگوں سے یہ کہہ کر اُن کی رائے متوازن کرنے کی کوشش میں لگا تھا کہ
لڑکا لڑکی جب ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں تو اُن کی شادی کر دینی چاہیے
اِسی میں سب کی بہتری ہے لڑکا اگر بنگالی نہیں تو کیا ہوا ؟ مسلمان ہے
دیندار ہے بر سرِروزگار ہے ، مہر جان کے ماں باپ کو اعتراض تھا کہ ہماری
ایک ہی بیٹی ہے اور شادی کے بعد اگر اُسے ہم سے بچھڑ کر مغربی پاکستان جانا
پڑا تو ہم لوگ اُس کی جدائی کیسے برداشت کریں گے؟ جس کے جواب میں مولوی
صاحب نے جوش میں آ کر کہہ تو دیا کہ اگر لڑکا یہیں رہ جائے تو پھر بھی آپ
کو کوئی عذر ہو گا ؟ (مگر اِس میں بھٹی کی رائے شامل نہیں تھی) مہر جان کے
والد نے یہ کہہ کر اپنی رضا مندی ظاہر کر دی کہ پھر تو ہم لوگوں کوئی
اعتراض نہیں اور اِس کے بھائیوں کو بھی ہم راضی کر لیں گے ۔
بھٹی سے ملکر جب میں مدنا گھاٹ میں مولوی کمال سے ملا تو انہوں نے خوشی
خوشی یہ ساری باتیں مجھے بتاتے ہوئے کہا ، اب تو آپ خوش ہیں ؟ میں نے اپنی
خوشی کے ساتھ جب یہ اندیشہ ظاہر کیا ، کہ کیا بھٹی یہاں رہنے پر راضی ہو
جائے گا ؟ آپ نے بھٹی سے مشورہ کیے بغیر اتنی بڑی بات کہہ دی اگر بھٹی یہاں
رہنے پر راضی نہ ہوا تو ؟میری بات سن کر وہ تھوڑا پشیمان سے ہو کر کہنے لگے
، یہ تو بہت بڑی غلطی ہو گئی مجھ سے مگر میں کیا کرتا مجھے تو بھٹی کی بے
لوث محبت نے ایسا کہنے پر مجبور کر دیا کہ کوئی بھی صورت سے یہ مسئلہ حل ہو
جائے، میں سوچ میں پڑ گیا کیونکہ مسئلے کا حل تو میں بھی چاہتا تھا مگر
ساتھ ساتھ بھٹی کا یہاں رہنا بھی ناممکنات میں نظر آتا ہے ، یہاں اور ہمارے
ہاں کے کلچر میں کا فی فرق ہے،یہاں کے تو مسلمان بھی ہندوانہ رسمُ رواج کے
مطابق دولہا دلہن اپنے ساس سُسر کے پاﺅں چھو کر ماتھے پر لگاتے ہیں شادی
شدہ عورتیں ساڑھی پہن کر پیٹ کا کچھ حصہ نہیں ڈھانکتیں، اس طرح کی رسمیں
بھٹی نبھا سکے گا ؟ یا پھر پنجرے میں بند طوطے کی طرح زندگی گزارنے پر راضی
ہو جائے گا، اس کا جواب تو خیر وہ ہی دے سکے گا موجودہ صورت حال میں تو
مولوی صاحب کی بات ہی پر عمل کر کے دونوں فریقوں کو باہم ملایا جا سکتا تھا
۔
دوسرے روز جب میں نے بھٹی سے ملکر اِس شرط ذکر کیا تو اُس کا جواب ہاں میں
تھا اُ س نے جو ش میں یہ کہہ کر سارا کام ہی آسان کر دیا کہ میں اپنی محبت
کو پانے کے لیے پوری دنیا کو چھوڑنے کے لیے تیار ہوں،میں نے اُسے سمجھاتے
ہوئے کہا، بھٹی صاحب ذرا سوچ سمجھ کر مجھے کل تک بتا دیں ، جسے آپ جوانی کے
جوش میں آسان سمجھ رہے ہیں یہ منزل بہت لمبی ہے تمہیں اپنے ماں باپ بہن
بھائی سب کو چھوڑ کر یہاں چین مل سکے گا ؟ اِس کے علاوہ یہاں کا رہن سہن
بھی اپنا سکو گے ؟ بھٹی کا جواب ایک ہی تھا کہ مجھے ہر مشکل کا احساس ہے ،
ہر رشتے کی قدر ہے آپ میری ایک بات کا جواب دیں کہ اگر میں اِس حملے میں
شہید ہو جاتا ، تب بھی تو میرے ماں باپ بہن بھائی صبر کر لیتے، اُن کے لیے
تو میں اُسی دن شہید ہو گیا تھا جس دن انہوں نے مجھے وطن کی حفاظت کے لیے
جان دینے کا عہد لے کر فوج میں بھرتی کروایا تھا، رہی یہاں کے رہن سہن کی
بات تو اُس میں موافقت پیدا کرنا اپنے ہاتھ میں ہے جو چیز اچھی ہو گی اُسے
اپنا لیں گے اور اسلام میں تو بری کا سوال ہی نہیں!!سب کچھ اچھا ہے اگر
کوئی اس پر عمل کرنے میں صدق دل اور صاف نیت سے کام لے جیسے آپ نے دیکھا ہو
گا یہاں بچے اپنے ماں باپ کے پاﺅں کو ہاتھ لگاتے ہیں ، اِس میں اگر اُن کی
نیت بزرگوں کا احترام کرنے کی ہے تو ہمیں بھی ماں باپ کی تعظیم کرنے کا درس
دیا گیا ہے اور کوئی منافقت سے دُنیا کو دکھانے کے لیے کہ میں والدین کا
بڑا تابعدار ہوں اُن کے سامنے اپنا سر جھکاتا ہے تو وہ غلط کرتا ہے ایسا
کرنے سے وہ گُناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے اُس کو منافقوں کی لسٹ میں شمار کیا
جا سکتا ہے۔
اُس کی اس لمبی چوڑی تمہید کے بعد میں نے آخری بار اُس سے پوچھا تو تم یہاں
رہنے پر رضا مند ہو ؟ اُس نے مسکرا کر کہا میں نے تو آپ کو بتایا ہی نہیں
کہ مجھے بڑے صاحب نے دو ماہ کی چھٹی پر گھر جانے کے لیے کہا تھا مگر میں نے
انکار کر دیا اس لیے کہ مجھے اب یہیں رہنا ہے میں نے اپنے دل کو یہ سمجھا
لیا ہے کہ تم اُس رات کے حملے میں کام آ گئے ہو اب یہ میری دوسری زندگی ہے
جسے میں نے مہر جان کے نام کر دیا ہے، اُ س کا یہ فیصلہ کن انداز دیکھ کر
میں نے بھی اپنی عقلی دلیلوں کی طنابیں کھینچ لیں کہ جہاں دیوانگی آ جائے
وہاں عقل کا کوئی کام نہیں ۔
یہ دیوانہ پن ہی انسان کو منزل تک پہنچاتا ہے چاہے وہ کوئی دنیاوی کام ہو
یا خُدا کی طلب جب تک انسان دیوانہ وار اُس کی طرف نہ بڑھے وہ منزل ہاتھ
نہیں آتی،اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ رات دن ریاض کر کے گانے بجانے میں
اپنا نام پیدا کر لیتے ہیں جبکہ کچھ اللہ والے رات دن عبادت کر کے خُدا کو
پا لیتے ہیں ، اللہ کی شان ہے کچھ لوگ دن رات محنت کر کے بھی کچھ حاصل نہیں
کر پاتے شاید اُن کی محنت کا پھل آخرت کے لیے ہو ؟ یہ اوپر والے کی مرضی ہے
جس کو چاہے دنیا میں دے دے یا آخرت میں ، ’ دیتا ضرور ہے ‘ انسان ہی بے
صبرا ہے جو ذرا سی اگر کھانا ملنے میں دیر ہوجائے تو بیوی پر چلانا شروع کر
دیتا ہے ، جو سامنے اور دکھ سکھ کی ساتھی ہوتی ہے، خُدا تو سامنے بھی نہیں
ہوتا !!!
میرے دل میں یہ خیال اُبھرا کہ بھٹی نے مہر جان کو دیوانہ وار چاہا اور
اُسے پانے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کی ٹھان لی ہے تو مجھے کیا ضرورت
پڑی ہے ا ن کے درمیان دیوار بننے کی!! یہی سوچ کر جب میں واپسی کے لیے
اُٹھا تو بھٹی نے پھر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور وہی پرانا مکالمہ دہراتے ہوئے
کہنے لگا ،لگتا ہے آپ پھر ناراض ہو گئے ہیں ، اگر میری باتوں سے آپ کو
تکلیف پہنچی ہے تو معافی چاہتا ہوں آپ چاہیں تو اِس کام میں میرا ساتھ دیں
اور اگر نہیں بھی دیں گے تو مجھے آپ سے کوئی گِلہ شکوہ نہیں ، میری لگن اگر
سچی ہے تو اللہ کار ساز ہے وہی کوئی سبب پیدا کر دے گا ، آپ نے میرا بہت
خیال کیا، اس کے لیے میں تا زندگی آپ کا احسان مند رہوں گا ۔
مجھے بھٹی کی یہ بات کچھ اچھی نہیں لگی میں نے جھٹ سے کہہ دیا بھٹی صاحب
میں ناراض نہیں تھا مگر آپ کی یہ بات سُن کر ضرور میرا دِل دُکھا ہے کہ تم
نے کیسے سوچ لیا کہ میں تمہیں اکیلا چھوڑ دوں گا ، اللہ کے بندے تمہاری
خوشی اگر اسی میں ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے ، تم ہی بتاﺅ اگر کوئی
تمہارا بڑا بھائی یہاں ہوتا تو کیا وہ تمہیں اونچ نیچ سے آگاہ نہ کرتا ؟
میری اِس بات پر بھٹی کی آنکھیں کچھ نم سی ہو گئیں اور اُس نے آگے بڑھ کر
میرے گلے لگنے کے لیے ہاتھ بڑھائے مگر سینے کے زخموں نے اُسے ایسا کرنے
نہیں دیا۔
(جاری ہے) |