ایک سپاہی ،جو زلفِ بنگال کا
اسیر ہو گیا !
بھٹی سے ملکر واپس آیا تودوستوں نے مذاق اُڑانا شروع کر دیا کہ آجکل کہاں
غائب رہتے ہو، کہیں کسی چکر میں تو نہیں پھنس گئے اگر ایسی بات ہو تو بتا
دینا، میں نے ہنستے ہوئے کہا نہیں بھئی ایسی کوئی بات نہیں ذرا دلدار بھٹی
کی خبر لینے ہسپتال گیا تھا آپ لوگ فکر نہ کریں اگر ایسی ویسی کوئی بات
ہوئی توآپ سب کی اجازت سے ہوگی !!
میں نے تو بھٹی کی محبت کا ذکر کسی سے نہیں کیا تھا پھر بھی اُن کو شاید
حوالدار سلیم سے پتہ چل گیا کہ بھٹی یہاں شادی کرنے والا ہے ، اسی لیے وہ
مجھ پر بھی شک کر رہے تھے کہ کہیں میرا بھی تو کوئی ایسا ارادہ نہیں، بنگال
میں شادی کرنا کوئی مشکل نہیں غربت کے مارے لوگ بیٹیوں کو دوسروں کے گھروں
میں معمولی تنخواہ یا صرف روٹی کپڑے کے عوض کام کرنے بھیج دیتے ہیں جہاں وہ
بیچاری گھر کی صفائی اور برتن مانجتے مانجتے وقت سے پہلے بوڑھی نظر آنے
لگتی ہیں مگر کھاتے پیتے لوگوں کے ہاں ایسا نہیں ہوتا ایک جاپانی سیاح سے
کسی نے پوچھا ،تم نے بنگال میں کیا دیکھا ؟تو اُس کا جواب تھا،ایک پیجارو
گاڑی کے بغل میں سائیکل رکشہ کھڑا دیکھا ،وہاں امیر بہت امیر ،غریب بہت
غریب ہیں مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں اکثر غریب لوگ ہی
کرتے ہیں اسکی صحیح وجہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ
غریبوں میں اکثریت ہونے کی وجہ سے غریب لڑکیوں کو سہارے کے لیے ایک مرد کی
ضرورت پڑتی ہے چاہے وہ سائیکل رکشہ چلانے والا ہو یا اُس کی پہلے سے دو
بیویاں ہی کیوں نہ ہوں، کھلنا میں میرے ایک دوست کے گودام کے چوکیدار کی دو
بیویاں تھیں جن میں سے ایک نرس تھی جو اپنی مرضی سے سب کچھ جانتے ہوئے اُس
کے پاس خوش تھی ۔
ادھر بھٹی صاحب کے زخم آہستہ آہستہ ٹھیک ہو رہے تھے اُدھر میر ا کام ختم
ہونے کی وجہ سے اچانک میرا واپسی کا پروگرام بن گیا جس کے ایک دن پہلے میں
بھٹی سے ملنے ہسپتال گیا ، میری اتنی جلدی واپسی کا سن کر اُس کے چہرے پر
ایک لمحے کے لیے اُداسی چھائی جس پر اُس نے فوراً قابو پاتے ہوئے مسکرا کر
کہا ، بڑے خوش قسمت ہو بھئی اللہ خیریت سے لے جائے میرے حق میں بھی دعا
کرنا، میں نے رخصت ہوتے ہوئے خوشدلی سے کہا کیوں نہیں بھئی اللہ کریم تمہیں
تمہاری محبت سے ملا دے ،،آمین۔
یہ اکتوبر کا آخری عشرہ تھا مشرقی پاکستان کے حالات بہت خراب ہو چکے تھے
غیربنگالی اپنی بلڈنگیں، فیکٹریاں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکلنے کی کوشش میں
تھے ، اس افرا تفری میں مجھے کسی صورت سے واپسی کا ٹکٹ مل گیا اور میں
لاہور پہنچ گیا میرے آنے کے بعد دسمبر کی سولہ تاریخ کو ڈھاکہ فال ہونے کی
خبر دل پر بجلی بن کر گری اور پاکستانی فوج کے قیدی بن جانے کے صدمے نے تو
نڈھال کر دیا ، بستر سے اُٹھنے کی ہمت نہیں تھی بار بار سب فوجی دوستوں کے
مسکراتے چہرے نظروں کے سامنے آرہے تھے، حوالدار سلیم،میجر شفیق،سپاہی معصوم
علی کے ساتھ ساتھ بھٹی کا افسردہ چہرہ پتہ نہیں اُس کے ساتھ مکتی باہنی
والوں نے کیا سلوک کیا ہو گا جن کی بہن سے وہ شادی کرنا چاہتاتھااسی طرح کے
خیالوں میں کچھ دن پریشان رہا ، شملہ معاہدہ کے تحت جب فوجی رہا ہو کر واپس
آئے تو لسٹوں میں دلدار بھٹی کا نام جب کہیں نظر نہ آیا تو ایک طرح سے میں
نے سمجھ لیا کہ شاید اب بھٹی واپس نہیں آئے گا،انسانی فطرت کے مطابق کچھ دن
بعد آہستہ آہستہ سب کچھ بھول کر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
انیس سو ستتر سے جب بنگلہ دیش کے ساتھ سفارتی تعلقات اچھی طرح بحال ہو گئے
تومیں نے پھر سے کاروبار کے سلسلے میں وہاں جانا آنا شروع کیا، ایک اردو
اسپیکنگ دوست جنہیں وہاں بہاری کہا جاتا ہے اُس نے بتایا کہ بنگلہ دیش بننے
کے ساتھ ہی مُکتی باہنی نے جب بہاریوں کو اُن کے گھروں سے نکالنے کے لیے
قتل عام شروع کیا تو ہندوستانی فوج نے ہم زبان ہونے کے ناطے ہمیں پناہ دے
کر ہمارے جان و مال کی حفاظت کر کے ہمارے ایمان کو تقویت دی کہ اللہ کریم
چاہے تو وہ دشمن کو بھی محافظ بنا دیتا ہے، بھٹی کے بارے تو میں امید ہی
کھو چکا تھا۔
اسی کی دھائی میں جب میں اپنے ایک دوست جس کی چٹاگانگ میں الیکٹرک فین
بنانے کی فیکٹری ہے اُس سے ملنے گیا تو اُس کے آفس میں دلدار بھٹی کو بیٹھا
دیکھ کر حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے میرے منہ سے نکلا، ارے بھٹی تم،
اس سے آگے بھٹی کی باری تھی اُس نے کرسی سے اُٹھتے ہوئے میری طرف دونوں
ہاتھ بڑھا کر گلے ملتے ہوئے بس اتنا ہی کہا ، ارے آپ یہاں ؟ ہم لوگوں کو
اتنے پیار سے گلے ملتے دیکھ کر میرے اُس دوست کوا تنا تو اندازہ ہو گیاکہ
دو نوں پاکستانی ہیں اور پرانی جان پہچان ہے ،اُس نے ہماری خوشی کو دیکھتے
ہوئے ملازم کو مٹھائی اور چائے لانے بھیج دیا اور میرے ساتھ ہاتھ ملاتے
ہوئے کہا ،کیوں بھئی بھٹی کو دیکھ کر ہم کو بھول گئے کیا ؟ میں نے معذرت
کرتے ہوئے ، نہیں بھائی ایسی بات نہیں دراصل مجھے ان کو اچانک یہاں دیکھ کر
ایسا لگا کہ جیسے کوئی بہت ہی پیاری کھوئی ہوئی چیز اچانک مل گئی جس کے
ملنے کی آس میں توڑ چکا تھا، اس لیے تھوڑی دیر کے لیے سب کچھ بھول گیا ورنہ
یہاں تو آپ ہی سے ملنے آیا تھا اسی وسیلے سے اتنے عزیز دوست مل گئے جس کا
کریڈٹ تو آپ کو جاتا ہے، کچھ دیر وہاں گپ شپ کی اور چائے وغیرہ پی کر میں
بھٹی کو اپنے ساتھ ہوٹل میں لے آیا تاکہ سکون سے بیٹھ کر دکھ سکھ کی باتیں
کر سکیں۔
میں نے اپنی بےتابی چھپاتے ہوئے بھٹی سے جب اپنے آنے کے بعد کے حالات کے
بارے میں پوچھا، تو اُس نے بتایا کہ آپ تو اچھے وقت میں یہاں سے نکل گئے،
نومبر میں تو یہاں سے بہت ہی خوش نصیب لوگوں کو جانے کا موقع ملا،میں نے
اُس کی بات کو بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا، وہ مجھے سب معلوم ہے مجھے تم اپنے
اور مہر جان کے بارے میں بتاﺅ تمہاری محبت کا کیا بنا ؟
اُس نے کچھ دیر توقف کے بعد کہنا شروع کیا، آپ کے جانے کے بعد میں مولوی
کمال الدین سے جا کر ملا تو اُس نے بھی مجھے وہی شرط بتائی جس کا آپ نے ذکر
کیا تھا کہ شادی کے بعد مستقل یہاں رہنا پڑے گا جس کے لیے میں پہلے سے ہی
تیار تھا ،اُس نے مہر جان کے والدین سے بات کی جنہوں نے یہ کہہ کر کچھ وقت
انتظار کرنے کو کہا کہ ہمارے بیٹے آنے والے ہیں اُن کی رضا مندی لے کر ہم
بات پکی کریں گے تقریباً ایک ہفتے بعد انہوں نے مولوی صاحب کو بتایا کہ
ہمارے بیٹے اس رشتے میں با لکل بھی راضی نہیں ، اُن کا کہنا ہے کہ ہمارے
مکتی باہنی کے کمانڈر کا کہنا ہے کہ پاک آرمی ہماری دشمن ہے اور اپنے دشمن
کے سامنے ہم اپنا سر کبھی بھی نیچا نہیں ہونے دیں گے، ادھر مہر جان کی حالت
پاگلوں جیسی ہو چکی تھی نہ کھانے کا ہوش نہ سونے کا ہر وقت بڑبڑاتی رہتی
جسے دیکھ کر ماں باپ کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی آخر کار انہوں نے مجبور
ہو کر اپنے بیٹوں سے چوری مولوی صاحب کو بلا کر کہا کہ چپکے سے نکاح کر کے
بیٹی کو رخصت کر دیتے ہیں اگر بیٹو ں کو بعد میں پتہ چل بھی گیا تو اُس وقت
جو بھی ہو گا دیکھا جائے گا ، سو ایک دن عشاءکی نماز کے بعد ہمارا نکاح ہو
گیا اور میں مہر جان کو لے کر ہوٹل شاہ جہان ( جس میں پہلے سے روم بُک کیا
ہوا تھا ) آگیا،تین دن تک ہم لوگ ہوٹل کے کمرے سے باہر نہیں نکلے ، چوتھے
دن مہرجان جو اب میری بیوی بن کر بہت خوش تھی بلکہ یوں کہا جائے تو درست ہو
گاکہ ہم دونوں بہت خوش تھے، ایک دوسرے کی زبان سے ناواقفیت ہونے کی وجہ سے
زیادہ تر اشاروں میں باتیں ہوتی رہیں پھر اُس نے مجھے بنگالی زبان کے کچھ
الفاظ جن کی ہر وقت ضرورت پڑتی ہے مثلاً کھانا پیناجانا آنا وغیرہ سکھائے ،
چوتھے دن اُس نے کہا کہ ہم لوگ تو خوش ہیں مگر ماں بابا کا کیا حال ہے اُس
کی بھی خبر لینی چاہیے، میں نے بھی اُس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا چلو
آج ہی چلتے ہیں، اور ہم لوگ ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو
کر مدنا گھاٹ کی طرف روانہ ہوئے۔
وہاں پہنچنے پر غیر متوقع طور پر ہمارا استقبال ہوا جس گاﺅں کی گلی سے گزرے
نوجوان مجھے نفرت کی بجائے د و لہا بھائی کہہ کر سلام کرکے مسکراتے ہوئے
پاس سے گزر جاتے ، میں بہت حیران تھا کہ یا الہی یہ ماجرا کیا ہے یہ دیکھ
کر تو مجھے اور بھی تعجب ہوا جب ہمارے آگے آگے چھوٹے بچے دوڑ کر میرے سسرال
والوں کو خبر دار کرنے پہنچ گئے۔ د و لہا بھائی آئے سے (دولہا بھائی آ گئے
ہیں) مجھے بڑی عزت سے بٹھایا گیا ، ادھر مہر جان کی سہیلیوں نے جب سُنا وہ
بھی دوڑتی چلی آئیں اور مہر جان کو علیحدہ کمرے میں لے گئیں غرض کہ ہم لوگ
جو ڈر رہے تھے کہ پتہ نہیں ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا اُس کے بر عکس مجھے
اتنی عزت ملے گی میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا، اس کی وجہ مولوی کمال نے
مجھے بتائی کہ بنگالی داماد کو بہت عزت یتے ہیں اسی لیے پورے گاﺅں کے
نوجوان مجھے دولہا بھائی کہہ کر پکار رہے تھے جیسے ایک گھر کا نہیں پورے
گاﺅں کا داماد ہوں، یہ دیکھ کر مجھے پنجاب کے دیہات کا ماحول یاد آ گیا جو
داماد کو پورے گاﺅں کا ”پروہنا“(مہمان) کہہ کر عزت کرتے ہیں اور گھر گھر
دعوتیں ہوتی ہیں،کچھ دیر کے لیے تو میں بھول ہی گیا کہ میں کسی دوسرے دیس
میں ہوں۔اور جب سولہ دسمبر کو پاک فوج نے سرنڈر کیا تو مجھے میرے مکتی
باہنی والے برادر نسبتی نے گاﺅں میں چھپا کر سرنڈر نہیں کرنے دیا، میری
حفاطت کے لیے چار مکتی باہنی والے گھر کے باہر متواتر پہرہ دیتے رہے جیسے
میں ان کا کوئی کمانڈر ہوں، دھیرے دھیرے حالات نارمل ہوتے گئے مگر بھوک اور
افلاس نے لوگوں کو لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے پر مجبور کر دیا ، مکتی
باہنی اب ”باکشال“ کہلانے لگی جن کا بظاہر کام تو شیخ مجیب کی حفاظت کرنا
تھا مگر اندرون خانہ اُسکے مقابلے پر کھڑے ہونے والوں کو ختم کرنا تھا،کسی
شریف آدمی کی جان اور عزت محفوظ نہیں تھی،آخر کار خُدا کی خدائی جوش میں
آئی اور اُس سیاہ دور کا خاتمہ ہوگیا، فوج نے اقتدار اپنے قبضے میں لے کر
ناجائز اسلحہ جس کے بل بوتے پر باکشال والے لوٹ مار کرتے تھے اُن سے چھین
کر انہیں جیلوں میں بند کیا جس میں میرا ایک برادر نسبتی بھی جیل کی ہوا
کھا کر چھ مہینے بعد ضمانت پر رہا ہوا،میں نے چٹا گانگ میں کرایہ کا مکان
لے کر رہنا شروع کر دیا مہر جان کے بڑے بھائیوں نے بہت کوشش کی کہ میں اُن
کے ساتھ کاروبار کروں مگر اللہ کا شکر ہے کہ جس نے ہر ذی روح کا رزق اپنے
ذمے رکھا ہے۔
اب ماشاللہ میرا چار سال کا ایک بیٹا اور ایک سال کی بیٹی ہے۔ میں نے جب
پوچھا کہ کیا تم نے پاکستان میں اپنے گھر والوں سے رابطہ نہیں کیا تو اُس
نے بڑے افسردہ لہجے میں کہا، میں دو سال پہلے مہر جان اور اپنے بیٹے سرفراز
بھٹی کو لے کر پاکستان گیا تھا،جہاں میری ماں کے علاوہ پورے خاندان والوں
نے مہرجان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ، اُس کی زبان سے ناواقفیت کا فائدہ
اُٹھاتے ہوئے ہر کوئی اُس کا مذاق اُڑانے لگا، میری بڑی بھابی نے تو میرے
سامنے اِسے جادوگرنی اور بھوکی بنگالن کہہ کر اس کی توہین کی جو مجھ سے
برداشت نہیں ہوسکا اور میں اسے لے کر واپس آ گیا اب میں یہاں پر اپنے بیوی
بچوں کے ساتھ خوش ہوں، یہاں سب لوگ میری بہت عزت کرتے ہیں، پنکھے بنانے
والی فیکٹری کے مالک عبدا لرﺅف صاحب سے ہول سیل میں پنکھے خرید کر مارکیٹ
میں کچھ نفع کر کے سیل کر دیتا ہوں جس سے ہمارے اخراجات بخوبی چل جاتے ہیں۔
میں نے جب مہر جان سے ملوانے کی بات کی تو اُس نے خوشی سے دوسرے دن کی دعوت
دے کر گھر پر مہر جان کے ہاتھ کا کھانا کھانے اور بچوں سے ملوانے پر اصرار
کرتے ہوئے کہا، اسی بہانے میرے بچوں کو اپنے باپ کے رشتہ داروں سے ملنے کا
شوق بھی پورا ہو جائے گا۔
ختم شد |