حیات طالب
کتاب : حیات طالب
مولف : مولانا غلام جیلانی مصباحی
صفحات : ۱۴۱
قیمت : سو رویے
ناشر : خانقاہ تیغیہ علائیہ چکنا شریف مظفر پوربہار
مبصر : محمد ساجد رضا مصباحی استاذ دار العلوم غریب نواز داہو گنج کشی نگر
یوپی
صوبہ بہار کا مردم خیز خطہ مظفرپورعلم وادب اور معرفت وروحانیت کے حوالے سے
اپنی منفرد شناخت رکھتاہے،ماضی قریب میں اس سر زمین پر شریعت وطریقت کے کئی
درخشندہ ستاروں نے اپنی جلوہ سامانیوں سے اہل سنت کی عظمت ورفعت کو
دوبالاکیا،اس ضمن میں شیخ المشائخ سرکار سُرکانہی حضرت تیغ علی شاہ ،امین
شریعت مفتی اعظم کان پور حضرت رفاقت حسین علیہ الرحمہ وغیرہ کے اسماخاص طور
سے قابل ذکر ہیں۔
حضرت تیغ علی شاہ رحمۃاللہ علیہ کے خلفا میں ایک بڑاہی مبارک نام ارشاد
الطالبین،علاؤ الملۃ حضرت مولاناشاہ علاء الدین طالبؔ القادری قدس سرہ کا
ہے،جو اپنے اوصاف وکمالات میں اپنے مرشدِ گرامی کے عکس جمیل تھے، انہوں نے
حضرت تیغ علی شاہ کی صحبت سے خوب خوب فیض اٹھا یااورآپ کے علمی وروحانی
کمالات کا وافر حصہ اخذ کیا ۔یہی وجہ ہے کہ سلسلہ تیغیہ کے خلفا میں شاہ
طالبؔ القادری کا نام بڑے احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے ،اہل علم ان کی دینی
وعلمی خدمات کی قد رکیا کرتے ہیں۔ان کے عظیم کار نامے ، خصوصا دینی ومذہبی
خدمات اور ان کے اوصاف وکمالات کو پڑھ کر میں بے حد متاثر ہوا اورحیرت بھی
ہوئی کہ اپنی جماعت کی اس قدر عظیم شخصیت کا اب تک تعارف نہیں ہوسکا۔خیر
غفلت کا پردہ چاک ہوا اور حضرت مولانا الحاج غلام جیلانی مصباحی استاذ
جامعہ صمدیہ پھپھوند شریف نے مسلسل محنت و مشقت کے بعد اپنے علاقے کی اس
عظیم علمی و روحانی شخصیت کا تذکرہ جمیل مرتب کرکے صاحب تذکرہ کے حالات کو
ضائع ہونے سے بچا لیا۔
عموما قومی یا بین الاقوامی شخصیات پر لکھا پڑھا تو جاتا ہے ،لیکن پسماندہ
علاقوں میں سرد وگرم برداشت گلشن اہل سنت کی آبیاری کر نے والے مجاہدین سے
حد درجہ بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔ ہم نے اپنی تساہلی اور غفلت کے سبب اپنی
جماعت کے کتنے جیالوں اور محسنوں کو فراموش کردیا ،احسان فراموشی کا یہ
سلسہ اب ختم ہونا چاہیے۔
مولف گرامی حضرت مولانا الحاج غلام جیلانی مصباحی جواں سال عالم دین اور
بلند عزم وحوصلے کے آدمی ہیں،تقریبا ڈیڑھ دہائی سے جامعہ صمدیہ پھپھوند
شریف کی مسند تدریس پر رونق افروز ہیں ،خطابت کے میدان میں بھی انہوں نے
بڑاکمال حاصل کیاہے، تدریس وخطابت کے ساتھ تصنیف وتالیف کا بھی ستھرا ذوق
رکھتے ہیں ، ان کے قلم سے اردو اور ہندی زبان میں کئی کتابیں معرض وجود میں
آچکی ہیں ، ان کی حصولیابیوں کا سلسلہ جاری ہے ،اور اس بار انہوں نے
’’حیات طالب‘‘ مرتب کر کے ایک اور تاریخی کار نامہ انجام دیا ہے اوراپنے
بلندعزائم کابھی ثبوت پیش کر دیا ہے۔
پہلی بار کسی شخصیت کی سوانح مرتب کرنا بڑاہی مشکل اور محنت طلب کام ہو تا
ہے ،متعلقہ شخصیت کے اوراق حیات کا گہرائی سے مطالعہ ، مختلف گوشوں پرمواد
کی حصولیابی ، اس کی چھان پھٹک، پھر اسے سلیقے سے مرتب کر نا جہاں سعی پیہم
اور جذبہ جنوں کا تقاضا کرتا ہے وہیں تحریر وقلم کا شعور،فکری بالیدگی ،
ذہنی وسعت اور سلیقہ مندی بھی ضروری ہوا کرتی ہے، سوانح نگار ان اوصاف سے
خالی ہو تو سوانح نگاری کا عمل کام یاب نہیں ہوتا۔مولف محترم حضرت مولانا
غلام جیلانی مصباحی قبلہ ایک بالغ نظر عالم دین ،بالیدہ افکار ونظریات کے
حامل اور انتہائی سلیقہ مند واقع ہو ئے ہیں ،جس کا ثبوت آپ کو اس کتاب میں
ملے گا۔خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے صاحب تذکرہ کی حیات مبارکہ کا نہایت
گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اورواقعات کی تحقیق وتفتیش میں کوئی دقیقہ
فروگزاشت نہیں ہو نے دیاہے ، اس لحاظ سے ہم اس کتاب کو شاہ طالبؔ القادری
رحمۃ اللہ علیہ کی حیات وخدمات پر مشتمل اولین مستند دستاویز کہہ سکتے ہیں
۔
’’ حیات طالب ‘‘ میں شاہ طالبؔ القادری کے مختلف گوشہاے حیات کا احاطہ کر
نے کی کوشش کی گئی ہے ،خاندانی پس منظر ،ولادت ، ابتدائی تعلیم ،حصول علم
سے فراغت، ملازمت اور پیر ومرشد کی بارگاہ میں پہلی حاضری کے احوال وکوائف
پر بھر پور روشنی ڈالی گئی ہے ۔
سوانح نگاری کے باب میں مبالغہ آرائی بلکہ اوصاف وکمالات کے بیان میں غلو
عام ہے،سوانح نگار جب تک زمین وآسمان کے قلابے نہ ملادے آسودہ نہیں ہو تا
،حالاں کہ صاحب تذکرہ کے حقیقی کمالات اور خدمات کو ہی صحیح طریقے سے بیان
کر دینا ان کی شخصیت کی تفہیم کے لیے کافی ہو تا ہے۔’’حیات طالب ‘‘ میں
مولف محترم نے مبالغہ آرائی سے پر ہیز کرتے ہوئے مکمل حزم واحتیاط کے ساتھ
حقائق کو منظر عام پر لا نے کو شش کی ہے ،اور انہیں حالات وواقعات کو شامل
کتاب کیا ہے جن کے بارے میں انہیں مستند ذرائع سے یقینی علم حاصل ہو گیاہے
۔
شاہ طالبؔ القادری علیہ الرحمہ جامع شریعت وطریقت تھے ، اپنے پیر ومرشد کی
نگہ التفات سے آپ نے معرفت وروحانیت کے اعلیٰ مراتب کا سفر طے کیاتھا ،بے
شمار پریشان حال لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی پریشانیوں کا ذکر
کرتے اوردامن مراد کو بھر کر واپس ہو تے ۔مولف نے ایسے متعدد واقعات مستند
ذرائع سے نقل کیے ہیں جن سے آپ کے روحانی تصرفات کا پتہ چلتا ہے ۔
شاہ طالبؔ القادری رحمۃ اللہ علیہ اپنے علاقے کے معتمد علیہ اور مرجع عوام
وخواص تھے ، ملک کے مستند علما سے آپ کے گہرے روابط تھے ،خانوادہ رضویہ
بریلی شریف اور خانوادہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف کے اکابرین سے عقیدت مندانہ
وابستگی رکھتے تھے ،ان کے ادب واحترام میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے ، اس
حوالے سے بھی متعدد واقعات اس کتاب کی زینت ہیں۔
کسی شخصیت کی عظمت ورفعت پر معاصرین کی شہادت بڑی اہمیت رکھتی ہے ،حضرت شاہ
طالب ؔالقادری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے مولف نے ارباب علم وفن کے تاثرات
جمع کر کے ان کی شخصیت کو واضح کر نے کو شش کی ہے ۔ ۱۴۰؍ صفحا ت پر مشتمل
اس کتاب کے ابتدائی صفحات پر حضرت مفتی محمد انفاس الحسن چشتی ، حضرت مفتی
مطیع الرحمن رضوی مظفر پوری،حضرت مفتی محمد حامد القادری تیغی اورشہزادہ
طالب القادری حضرت مولانا محمد شہاب الدین قادری تیغی کے حوصلہ افزا کلمات
و تقریظات کتاب کی اہمیت کو دوبالا کرتی ہیں،کتابت و طباعت کے اعتبار سے
بھی یہ کتاب ذوق جمیل کا نمونہ ہے ۔ یہ کتا ب ہر جہت سے متاثر کن ہے ، امید
ہے کہ علم و ادب کے حلقوں میں یہ کاوش پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جائیگی ۔
محمد ساجد رضا مصباحی
استاذ دارالعلوم غریب نواز داہو گنج ضلع کشی نگر یوپی
|