پانچویں عالمی اہل قلم کانفرنس ادب اطفال 2020
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
|
پانچویں عالمی اہل قلم کانفرنس برائے ادب اطفال 2020 لاہور کے نجی ہوٹل میں 25اکتوبر 2020کو منعقدکی گئی، اس محفل کا جب آغاز ہوا تو پھر اس کی رونق دیکھنے کے قابل تھی کہ نہ صرف پاکستان بھر سے نامور ادیب، شاعر حضرات شامل ہوئے تھے۔اس کے علاوہ چند مہمان تو بطور خاص کانفرنس میں شرکت کے لئے دیگر ممالک سے بھی تشریف لائے تھے۔ راقم السطور کو یوں لگ رہا تھا کہ پورے پاکستان کی نمائندگی ہو رہی ہے کیوں کہ چاروں صوبوں اور آزاد کشمیرسے ادب اطفال کے ادیب اس میں شریک تھے۔ جس سے آپس میں روابط بہترین اور سب اختلافات کو بھلا کر محض پاکستانیت اوربچوں کے ادب کے فروغ کا جذبہ پھل پھولتا ہو ا دکھائی دیا۔پاکستان میں بچوں کے لکھنے والے ادیب کم ہیں مگر جو ہیں وہ اکثر ایسے ہیں جو کہ مختلف مسائل کا شکار ہیں، دوسری طرف اُن کو سراہنے والے اشخاص اوراداروں کی بھی کمی ہے۔ محض بچوں کے مستقبل کو بہتربنانے کا خواب لئے بہت سے ادیب معاوضے اور تعریف کے بناء بھی کام کیے جا رہے ہیں۔مگر گذشتہ چند سالوں میں اس صورت حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ادیبوں کے حالات قدرے بدلے جائیں تاکہ مزید بچوں کے ادب کو فرو غ حاصل ہو سکے۔ اس حوالے سے چلڈرن لٹریری سوسائٹی(رسائل باغ، جگنو،دنیا) کے ساتھ ساتھ اکادمی ادبیا ت اطفال اور تعمیر پاکستان پبلی کیشنز اینڈ فورم کی خدمات کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔
ادیبوں کے آپس کے روابط پہلے بہت کم تھے۔ اگرچہ اب سوشل میڈیا کے ذریعے سے رابطہ تو ممکن ہے مگر بالمشافہ ملاقات کا کوئی خاص اہتمام نہیں تھا کہ وہ سالانہ بنیادوں پر ہو سکے۔ اس مشکل امر کو جناب محمد شعیب مرزا صاحب نے اپنے چند رفقاء کے ساتھ سر کرنے کا سوچااور بے شمار مسائل کو حل کرتے اور نظر انداز کرتے ہوئے عالمی اہل قلم کانفرنس اد ب اطفال کا سلسلہ یوں شروع کیا ہے کہ امسال اُس کی پانچویں تقریب کا اہتمام کیا۔جس میں راقم السطور کو بھی شرکت کا موقعہ ملا،ایسے ادیب جن کو برسوں سے محض نام کی حد تک جانتے تھے۔ اُن کو براہ راست دیکھنے کا جہاں موقع ملا،وہیں اُن خوش نصیبوں کو اعزازت سے نوازتے دیکھنا بھی پُرلطف تھا جو کہ برسوں سے یا کم عمری میں ادب اطفال میں عمدہ تخلیقات سامنے لا چکے ہیں۔ملک بھر کے بچوں کے ادیبوں کو ادب اطفال ایوارڈ کا دیا جانا ایک اہم اقدام ہے جو کہ لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کاسبب بن رہا ہے۔جہاں تک اس تقریب کے خا ص الخاص شرکا کی بات ہے تو اس میں جناب امجد اسلام امجد صاحب،اخوت کے چیئر مین ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب، محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ،محترمہ مسرت کلانچوی صاحبہ،ڈاکٹر فضیلت بانو،جناب نذیر انبالوی صاحب اور محمد فہیم عالم صاحب، سید اعجاز گیلانی، ڈاکٹر فوزیہ سعید، شجاعت علی راہی، سعد اللہ شاہ صاحب، محترمہ فوزیہ سعید، اسسٹنٹ کمشنر محترمہ شرمین قمر تو تھے ہی،مگر اس تقریب کے روح رواں جنا ب محمد شعیب مرزا صاحب کو ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔ یہ اُن کی جہد مسلسل ہی ہے کہ وہ پانچویں بار اس تقریب کے انعقاد کو ممکن بنا رہے تھے۔اگرچہ یہ ایک مشکل کام ہے کہ آپ سب کو ایک ساتھ ایک جگہ پر جمع کریں اور مختلف با صلاحیت ادیبوں کو اُن کی نمایاں کارکردگی پر ادب اطفال ایوارڈ، معمار وطن ایوارڈ، تسنیم جعفری ایوارڈ، پروفیسر دلشاد کلانچوی ایوارڈ اور انعم فاطمہ ایوارڈز اورلائف اچیومنٹ ایوارڈز کو نقد انعامات، اسناد اور شیلڈز کی صورت میں ادیبوں کو نوازیں۔اس کام میں محمد شعیب مرز ا صاحب کس قدر کامیاب ہو چکے ہیں،یہ تو تقریب کے شرکا ء بخوبی جان چکے ہیں اور اُن کے چہروں پر آنے والی مسرت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی کوشش میں پھر سے کامیاب ہو گئے ہیں۔
یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ اس طرح کی تقریب دنیائے اُردو خاص کرادب اطفال میں منفرد ہے ایسا کام تو ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی نہیں ہو پایا ہے۔ اس کانفرنس میں جناب نذیر انبالوی صاحب، محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ اورمسرت کلانچوی صاحبہ، شجاعت علی مرزا اورنوید مرزا،، محترم محمد شعیب مرزا ور ضیا ء اللہ محسن، عبدالعزیز چشتی صاحب کو مسلسل بہترین کارکردگی پر سراہے جانا، یہ ثابت کرتا ہے کہ وقت بدل رہا ہے اور اب ادب اطفال کو نجی سطح پر سہی مگر سراہنے کی روایت بن گئی ہے۔یہی دیکھ لیں کہ معمار وطن ایوارڈ، تسنیم جعفری ایوارڈ، پروفیسر دلشاد کلانچوی ایوارڈ اور انعم فاطمہ ایوارڈز برائے ادب اطفال 2020 جن کو ملا، وہ ایسی شخصیات ہیں جو اپنے کام میں لاجواب ہیں اور اُ ن کی شہرت ہر سو ہے کہ یہ اپنے کام میں جس لگن سے مگن ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ دوسری طرف فلک زاہد جیسی کم عمر مگر بھرپور صلاحیتیں رکھنے والی منصفہ کو بھی امجد اسلام امجد صاحب کے ہاتھوں سے ”15پرسرار کہانیاں“پر انعم فاطمہ ایوارڈ اور دس ہزار روپے سے نوازا گیا۔جو کہ بے شمار نوجوان لکھاریوں کے لئے ایک خوش آئند بات ہے کہ وہ بھی عمدہ کہانیوں اورکتب کے ذریعے سے خود کو منوانے کی کوشش کریں تاکہ ایک دن وہ بھی یوں سراہے جاسکیں۔یہ صورتحال نوجوان ادیبوں کے لئے ایک مثبت اشارہ ہے کہ آپ کی کارکردگی دیکھی جا رہی ہے جب وقت آئے گا تو اُن کو بھی یوں سراہے جانے کے خواب کی تعبیر ظہور پذیر ہو گی۔محمد فہیم عالم صاحب جیسے جوہری کو جو کہ نئے لکھاریوں کو جہاں سامنے لا رہے ہیں،نئی جہتیں متعارف کروا رہے ہیں اُنکو بھی خدمات پر ایوارڈ سے بھی نوازا گیاتھا۔ 25اکتوبر2020کو ہونے والی اس تقریب میں جس موضوع پر اظہار خیال کرنے کا موقع دیا گیا تھا وہ بھی نہایت ہی اہمیت کا حامل تھا۔یہ موضوع تھا ”نئی نسل پر کرونالاک ڈاؤن اور منشیات کے بڑھتے استعمال کے تدارک میں اہل قلم کا کردار“ جس پر مقررین نے مختصر مگر پُر اثر گفتگو کرکے شرکاء محفل کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔
اکادمی ادبیات اطفال کے چیئر مین اور مدیر ماہنامہ ”پھول“ محترم محمد شعیب مرزا نے کہا کہ ہم بچوں کے ادب اور بچوں کے ادیبوں کو ان کا حق اور مقام دلوانے میں مصروف عمل ہیں جس میں ہم کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں، لیکن ابھی تک منزل نہیں آئی ہے۔جبکہ امجد اسلام امجد صاحب نے اکادمی ادبیات اطفال کو سراہتے ہوئے اُس کے نمایاں کردار کی بھرپور تعریف کی اورکہاکہ ایسے اداروں کی حکومت کو سرپرستی اور معاونت کرنی چاہیے۔معروف شاعر ومعالج ڈاکٹر فرحت عباس نے کہا کہ قائداعظم قلم کو تلوار سے بھی زیادہ موثر سمجھتے تھے، لہذا اگر ہم قلم کو مثبت انداز میں استعمال کریں تو اپنی تحریروں کے ذریعے سے معاشرے میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں کہ ادیب کی تحریر دوسروں کی کایا پلٹ سکتی ہے۔دوسری طرف ڈاکٹر عمران مرتضی جو کہ ماہر نفسیات ہونے کے ساتھ فاوئیٹن ہاوس کے ایم ایس بھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر ادیب قارئین کی نفسیات کو پیش نظر رکھ کر ادب تخلیق کریں تو ان کی تحریریں بہتر نتائج دے سکتی ہیں۔کرونا/ لاک ڈاؤن اور منشیات کے بڑھتے استعمال نے نئی نسل کو شدید متاثر کیا ہے۔ادیب اپنی تحریروں کے ذریعے ان کی ذہنی و نفسیاتی بحالی میں اہم کردار کر سکتے ہیں۔
دیگر مقررین نے بچوں کے حوالے سے نت نئے موجودہ حالات کے تقاضوں کے مطابق بھی کہانیاں سامنے لانے کی بات کی۔ جس پر تمام رسائل کے مدیران کوغورو فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ بچوں کیلئے مستقبل اور اُن کی موجودہ ذہنی شعور کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریروں کی اشاعت بڑے دل کے ساتھ ممکن بنائی جائے۔دوسری طرف نئے لکھنے والوں کو درپیش مسائل کو بھی حل کرائے جانے کی کوشش ہو تاکہ و ہ مزید نکھر سکیں۔
اس محفل میں شرکا کی تواضع بھی بھرپور انداز میں کی گئی تھی۔اُن کو جہاں خوب صورت ساتھیوں سے ملاقات کا موقعہ ملا، مدیران اور نامورشخصیات سے ملے،وہیں اُن کو خوب اچھے سے کھانوں سے بھی لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔اس تقریب کے اختتام پر سب مہمانوں کا شکریہ ادا کیا گیا جس کے بعد سب لکھاری حضرات نے ایک حسین یاد کے ساتھ واپسی کی راہ لی۔
تسنیم جعفری ایوارڈ
تقریب میں ”تسنیم جعفری ایورڈز برائے ادبِ اطفال“بھی دیئے گئے، تسنیم جعفری بچوں کے ادب میں معروف نام ہیں،اپنی نوعیت کی پہلی سائنس فکشن لکھاری ہیں،جنہوں نے نہ صرف ملک میں سائنسی ادب کا رجحان پیدا کیا بلکہ ماحولیاتی آلودگی کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھاجس کا سامنا آج ساری دنیا کو ہے۔تسنیم جعفری ایک ماہر تعلیم اور مصورہ بھی ہیں،اس لئے بچوں کی نفسیات کو سمجھتی ہیں اور اسے خوبصورتی سے کہانی کا روپ دیتی ہیں۔یہ ایوارڈ جاری کر کے انہوں نے تاریخی قدم اٹھایا ہے اور اپنی ذاتی طور پر بچوں کے ادیبوں کے لئے ایک لاکھ روپے کے انعامات دینے کا اعلان کیا، جو اپنی نوعیت کا واحد ایوارڈ اور موصوفہ کی علم دوستی اور ادب پروری کا مظہر ہے -
متفرق ایوارڈز
اس کانفرنس میں اخوت ایوارڈ، انعم فاطمہ ایوارڈ اور دلشاد کلانچوی ایوارڈز کا بھی اعلان کیا گیا۔جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔ تسنیم جعفری میں سال 2019ءمین شایع ہونے والی کتب پر اول انعام 50 ہزار روپے مشترکہ طور پر محمد نوید مرزا کی کتاب "لوح و قلم "اور شجاعت علی راہی صاحب کی کتاب "ماں" پر دیا گیا جس میں شیلڈ اور پچیس پچیس ہزار روپے شامل تھے۔ دوسرا انعام ضیا اللہ محسن کی شاعری کی کتاب "میٹھے بول" پر 30 ہزار روپے اور شیلڈ دیئے گئے۔ تیسرا انعام مسرت کلانچوی صاحبہ کی کتاب "پھولوں بھرا راستہ " کو دیا گیا جو 20 ہزار روپے اور شیلڈ دئیے گئے۔
پروفیسر دلشاد کلانچوی ایوارڈ
"پروفیسر دلشاد کلانچوی ایوارڈ " 2019ء میں ماہنامہ پھول میں سب سے زیادہ اور معیاری کہانیاں لکھنے پر دیا گیا تھا ،،جس میں اول انعام نذیر انبالوی صاحب کو 15 ہزار روپے اور شیلڈ دی گئی۔ دوسرا انعام مشترکہ طور ببنش توصیف خان اور عائشہ طارق کو پانچ پانچ ہزار روپے اور شیلڈ ،دیا گیا ۔
اخوت ادبی ایوار ڈ
تیسرا "اخوت ادبی ایوارڈ " جو 50ہزار روپے کا تھا بچوں کے ادب میں نمایاں خدمات پر مشترکہ طور پر محمد شعیب مرزا اور تسنیم جعفری کو دیا گیا جس میں پچیس پچیس ہزار روپے اور شیلڈ شامل تھی۔
"انعم فاطمہ ایوارڈ
انعم فاطمہ ایوارڈ " یہ 18 سال سے کم عمر ادیبوں شایع ہونے والی کتب پر دیا گیا جو فلک زاہد کی کتاب "پر اسرار کہانیاں "پر 10 ہزار روپے اور شیلڈ کے ساتھ دیا گیا۔ اس کے ساتھ حوصلہ افزائی ایوارڈ دو ننھے ادیبوں مریم محمود اور محمد حذیفہ کو دو دو ہزار روپے اور شیلڈ دی گئی۔
بزرگ ترین ادیب کو ایوارڈ
اکادمی ادبیات اطفال کی جانب سے "لائف ٹائم ایچومینٹ ایوارڈ "91 سالہ بزرگ ادیب عبدالعزیز چشتی صاحب کو دیا گیا جو اب بھی بچوں کے لئے لکھ رہے ہیں ۔
معمار وطن ایوارڈ
اس کے علاوہ "معمار وطن ایوراڈ " محمد امجد ثاقب صاحب، امجد اسلام امجد صاحب، شوکت حسین صاحب، تسنیم جعفری صاحبہ، ڈاکٹر فضیلت بانو صاحبہ، پروفیسر اسحاق وردک صاحب، شیخ فرید صاحب، ریاض احمد قادری صاحب، عبداللہ نظامی صاحب کو دیئے گئے۔
|