آج صبح سے ہی ماحول پر ایک عجیب قسم کی مایوسی ،دکھ
پریشانی اور غم کے بادل چھائے تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس زمین پر کہیں
بھی خوشی کا کوئی احساس موجود نہیں ،ایسا لگ رہا تھا جیسے زمین کے ساتھ
ساتھ آسمان بھی غمزدہ تھا کیونکہ صبح سے ہی غم کے بادل برسنے کو تیار تھے
اور کہیں پر خوشی کی کوئی کرن آسمان پر نظر نہیں آرہی تھی ،ایسا لگ رہا تھا
جیسے آج سورج بھی کچھ روٹھاروٹھا سا تھاکیونکہ آسمان پر کہیں دور دور تک اس
کی خوشی کی کوئی جھلک اور روشنی کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا کیونکہ وہ
بھی زمین کے غم میں برابر کا شریک تھا کیونکہ دنیا کے باقی مخلوقات سب ایک
دوسرے کے غم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں سوائے انسانوں کے کیونکہ وہ انسان
ہی تو ہیں جو ایک دوسرے کو سوائے غم کے کچھ نہیں دے پاتے ،انسان ہی تو ہیں
جو ایک دوسروں کی خوشیوں کی چھننے میں اپنی پوری کوشش اپنی پوری قوت اور
کبھی کبھی تو کچھ انسان اپنی پوری زندگی لگا دیتے ہیں کہ دوسروں کی خوشیوں
کو چھن سکیں کبھی وہ دوسروں کی خوشیوں کو چھن کے خود خوش رہنے کی ناکام
کوشش کرتے ہیں لیکن وہ صدا کا نادان یہ کہاں سمجھ پاتےہیں کہ دوسروں کی
خوشیاں چھن کے خوش رہنے کی تمنا سوائے دکھ اور دھوکے کہ کچھ نہیں کیونکہ
انسان کےپاس واپس پلٹ کے وہی آتا ہے جو اس نے دوسروں کو دیا ہوتا ہے۔
16دسبمر 2014 ایک ایسا یادگار دن ہے جو شاید دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے
والا بھلائے نہیں بھلا پائے گا کیونکہ وہ ایک ایسا اذیت ناک دن تھا جس کو
صرف احساس والے محسوس کر سکتے ہیں کیونکہ دکھ کا تعلق ہی احساس سے ہے
کیونکہ جو کسی کے دکھ کو محسوس کر سکتا ہے وہی کسی دوسرے کی خوشی کو بناء
دیکھے محسوس کر سکتا ہے میرا خیال ہے کہ انسان کا انسان کے ساتھ دکھ کو
محسوس کرنے والا رشتہ ہونا چاہیے کیونکہ خوشی تو نظر آتی ہے جسے ہر کوئی
دیکھ سکتا ہے اور غم کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے اور 16 دسمبر والے دن
ہمیں جو غم ملا وہ ایک ایسا غم ہےجس کانہ آج تک کوئی مرہم،نہ کوئی دوا اور
نہ ہی کوئی ہمدرد مل پایا آج تک جو بھی ملا ؤہ صرف جھوٹے وعدے،جھوٹے
دعوے،جھوٹی ہمدردی،جھوٹا دکھ کبھی کسی نے سچ میں کچھ کرنے کی کوئی کوشش ہی
نہیں کی کیونکہ اگر کسی ایک نے بھی ہلکی سی سچی کوشش کی ہوتی تو آج 6 سال
گزر جانے کے بعد ہمیں انصاف جیسی گمنام اور نا پید چیز کی ہلکی سی جھلک
ضرور دیکھنے کوملتی کیونکہ جس نے کوشش کی اس نے پالیا لیکن ہم نے تو کبھی
کچھ پایا ہی نہیں بلکہ صرف کھویا ہی ہے اور کھویا بھی کیا دنیا کی سب انمول
شے معصومیت جو صرف بچپن میں ہی ہوتی ہے اور جو بچپن گزر جانے کے بعد کبھی
بھی واپس نہیں آتی اور سب سے بڑھ کر جو کھویا وہ ہیں معصوم بچے،ان کا معصوم
اور صاف و شفاف بچپن، ان کے سچے خواب،ان کی جھوٹ و فریب سے پاک چمکدار
آنکھیں جن میں ابھی بہت سے خواب جگمگا رہے تھے،بڑے ہونے کے خواب، کچھ کر
دکھانے کے خواب ،اپنے آپ،اپنے والدین ،اپنے بہن،بھائی اور سب سے بڑھ کر
اپنے وطن کے لئے کچھ کردکھانے کے بہت سے سہانے خواب ان کے معصوم اور پُر
اثر آنکھوں میں جگمگا رہے تھے لیکن ان کو کیا پتہ تھا کہ ان سب خوابوں کو
پورا کرنے کے لئے ان کو اتنی بڑی قیمت چکانی پڑے گی اپنے آپ اپنے وجود کو
ہمیشہ کے لئے سب سے جدا کرنا پڑے گا،اپنی آنکھوں ہمیشہ کے لئے موند کے جانا
پڑے گا ہمیشہ کےلئے اپنے وجود کو اس جھوٹی دنیا سے لےجانا پڑے گا اور لے
کےبھی خود نہیں جانا پڑےگا بلکہ کسی ظالم کے ہاتھوں اپنے آپ کو ہارنا پڑےگا
بجائے کسی گنا ہ کے مرنا پڑے گا اور بلاوجہ سب کو رولانا پڑےگا اور ایک
ایسی دنیا میں جانا پڑے گا جہاں سے کوئی واپسی نہیں کیونکہ جو ایک بار جان
کی بازی ہار دے تو پھر صرف وہ جان کی بازی نہیں ہارتا وہ اپنے اپنے پیچھے
بہت سے ہارے ہووں کو چھوڑ جاتا ہے جیسے وہ ہمیشہ کے لئے جان بازی ہارتا ہے
ویسے ہی اس کا بابا جانی ہمیشہ کے لئے حوصلہ ہار جاتا ہے ،اس کی امی جان
ہمیشہ کے لئے اپنی ہمت اور پیار ہار جاتی ہے اور بڑا بھائی اپنے چھوٹے
بھائی کے لئے اپنی جیتی ہوئی بازی کو ہار جاتا ہے اور ایک بہن ایک بھائی کے
اپنا سب کچھ ہار جاتی ہے کیونکہ اب جینے اور جتنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ
پاتی کیونکہ ان کا سب سے پیارا اور آنکھ کا تارہ اپنی جان کی بازی جو ہار
گیا ہے اور جو جان کی بازی ہار دے پھر وہ موت کو ہمیشہ کے لئے جیت لیتا ہے
اور جو موت کو جیت لے پھر اس کی کہیں سے بھی واپسی نہیں ہو پاتی۔
ایک وقت ایسا تھا جب کسی کو پتہ چلتا کہ فلاں جگہ یا فلاں گھر میں کوئی
بیمار ہے یا کوئی سانحہ رونما ہوا ہے تو سب کے سب لوگ ان کے غم میں برابرکے
شریک ہوتے لیکن 16 دسمبر 2014 کو ہونے والا واقعہ اور اس جیسے بہت سے
واقعات رونما ہوئے ہیں ان سب کو دیکھتے ہوئے اب قوم بے حس ہو چکی ہے لیکن
اگر واقعی انھیں اس سانحے کا دکھ ہے تو انھیں چاہیے کہ اپنی بے حسی چھوڑدے،
ہر شخص کے دل میں جوش و جذبہ پیدا ہو جو کہ وقتی نہیں بلکہ دائمی ہو،ان
معصوم فرشتوں کی شہادت کو رائیگا نہ جانے دیا جائے،یہ سب تب ہی ممکن جب ہم
سب ایک ہوجائے، اپنے اندر کے انسان کو بدلیں،دوسروں پر تنقید کے تیر چلانے
کی بجائے اپنی ذات میں تبدیلی لائیں، اس چیز کا انتطار چھوڑ دے کہ جب کوئی
اپنا رویہ تب ہی ہم اپنے رویے میں تبدیلی لائیں گے۔
ہمیں خود کے ساتھ یہ عہد کرنا چاہیے کہ کسی کے ساتھ بھلائی کرتے وقت یہ
قطعی نہ سوچیں کہ کل کو وہ بھی ہمار ی مدد کرے گا بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ
کل کو جب ہم کسی مشکل میں پڑھگے تو ضرورو کوئی کہیں نہ کہیں سے آ کر ہماری
مدد کرے گا۔
ظلم ہوتے دیکھ کر خاموش رہنے کی بجائے اس کے خلاف آواز آٹھانی چاہیے اور
اسے روکنے کے اپنی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے ورنہ ہمارا پیارا ملک دن بہ دن
اس دلدل میں دھنستا چلا جائے گا اور تب اسے کوئی بھی نہیں بچا سکیں گا، اب
اس ملک کی تقدیر اس کے قوم کے ہاتھوں میں ہیں۔
|