آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ بچوں کی تربیت آج کے دور
میں کتنی مشکل ہو چکی ہے۔ جدید ایجادات کے بعد تو بچوں پر نظر رکھنا بھی
مشکل ترین امر ہو چکا ہے۔بچوں کی تربیت کی اولین ذمہ داری اگرچہ والدین کی
بنتی ہے مگر اب یہ مشکل ہو چکا ہے کہ بچوں کے پاس تفریحات کے لئے بہت کچھ
سامنے ہے۔مگر اصلاحی و مستقبل سنوارنے والا مواد یا تفریحات کم ہی ہیں۔
والدین کسی قدر چاہتے ہوئے بھی بچوں کو بہت کچھ نہیں بتا سکتے ہیں تب ہی
ایک ایسے ذریعہ کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی تاکہ وہ بچوں کی رہنمائی کرے۔
جہاں تک والدین کر سکتے ہیں وہ اپنے فرض کو ادا کرتے ہیں ، اس کی بڑی وجہ
یہ ہے کہ بچے اسکول جانے کی عمر تک تو گھر میں ہی رہتے ہیں۔ماں کے ساتھ باپ
بھی کردار سازی پر توجہ دیتا ہے تو بچہ ایک سچامسلمان اور اچھا شہری بنتا
ہے۔ مگر اس طرف بھی تو سوچنا چاہیے کہ والدین کے پاس آج اس دور میں کتنا
وقت ہے کہ وہ بچوں کے لئے نکال کر اُن کی تربیت کرسکے۔ موجود ہ دور میں جب
تک والدین مل کر گھر کے نظام کو چلانے کی کوشش نہ کریں، معاشی طور پر
گھرانہ مضبو ط نہیں ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ بچہ ارد
گرد کے ماحول سے زیادہ سیکھتا ہے۔ خاص طور پر و ہ اپنے جیسے بچوں کو کچھ
اچھاکرتا ہوا دیکھ کر اُسی کی طرح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب یہ کوشش عادت
بن جاتی ہے تو پھر اُس کے لئے اچھے کاموں کوبڑے ہو کر سرانجام دینا آسان تر
ہو جاتا ہے کہ اُس کے لئے یہ عادت پختہ ہو چکی ہوتی ہے۔جب سے ٹی وی کی
ایجاد ہوئی ہے اُ س وقت سے آج تک ہر بچے کی پہلی خواہش ٹی وی پر کارٹون
اوراپنے جیسے بچوں کے ڈرامے اور تفریحی پروگرام دیکھنا ہے، اسی جبلت کو
مدنظر رکھتے ہوئے کئی ممالک میں بچوں کے لئے ٹی وی چینل معرض وجود میں آچکے
ہیں مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے اس جانب ابھی تک توجہ نہیں دی جا سکی ہے۔
راقم السطور کی اس اہم موضوع کی جانب توجہ محترمہ تسنیم جعفری صاحبہ نے
دلوائی ہے جو کہ بچوں کی نامور ادیبہ ہیں۔ اُن کی یہ تحریک ہم سب نے مل کر
کامیاب بنوانی ہے تاک ہمارے بچوں کو معیاری تفریح چینل مل سکے۔اُن کی
نشاندہی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ آج جب ہم کرونا وائرس کی وباء سے نمٹ رہے
ہیں۔تمام تعلیمی ادارے بھی بند ہو چکے ہیں، اگرچہ آن لائن کلاس کا سلسلہ
جاری و ساری ہے مگر یہ بات سوچنے کی ہے کہ انٹرنیٹ جو بچے نہیں استعمال کر
سکتے ہیں ، وہ کہاں جائیں گے، کہیں پر تو کوئی ایسا طریقہ کار موجود ہو کہ
اُن کا تعلیمی سلسلہ جاری رہ سکے اور اس کے لئے ٹی وی چینل کا قائم کیا
جانا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ ایک زمانے میں سرکاری ٹی وی چینل ’’عینک
والا جن ‘‘ نشر کرتا تھا تو اُس زمانے کے بچے سب کچھ چھوڑ کر وہی دیکھا
کرتے تھے۔ اس وقت دنیامیں بے شمار ممالک میں بچوں کی تفریح کے لئے ٹی وی
چینل کام کر رہے ہیں اورخوب کمائی بھی کر رہے ہیں۔ اس کمائی سے ہٹ کر بات
کی جائے تو وہ بچوں کی تعلیم وتربیت بھی عمدگی سے کر رہے ہیں کہ وہاں پیش
ہونے والا مواد بچوں کے ذہنوں کو خاص طرف لے جا رہا ہے۔
کچھ یو ٹیوب چینلز پر بھی بچوں کے حوالے سے خاطرخواہ مواد موجود ہے۔مگر
بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچوں کے لئے کوئی تفریحی ٹی وی چینل نہیں ہے۔ یہاں
تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمسایہ ممالک کے بنائے گئے کارٹو ن اور ڈرامے بچوں کے
اخلاق کو متاثر کر رہے ہیں وہیں اُن کی اقدار کو بھی اپنانے کی طرف مائل کر
رہے ہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس طرف ابھی تک حکومت وقت نے کیوں توجہ
نہیں دی ہے۔ بچے کسی بھی قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں اور ہم بچوں کے لئے کچھ کر
ہی نہیں رہے ہیں۔
کروناوائرس وباء کی وجہ سے کھیل کے میدان تک تو بند ہو چکے ہیں اور گھروں و
گلیوں میں پھرتے بچوں کی فکر کسی کو نہیں ہے، نہ ہی بچوں کو دیگر ممالک کے
گراوٹ کا شکار ڈراموں اور کارٹونز سے بچاؤ کا سوچا گیا ہے جو کہ ایک المیہ
ہے۔اب کے حالات میں جہاں بچے زیادہ وقت گھر پر ہونگے تو اُن کے ان لمحات کو
فائدہ مند بنانے کے لئے ضروری ہے کہ خاص طور پر ایک ٹی وی چینل کا آغازکیا
جائے جو ایسے پروگرام نشر کرے جن سے حب وطنی، اخلاقیات کے ساتھ ساتھ سوچ کے
دھار ے کو بھی بدلنے کی کوشش کی جا سکے۔ اس حوالے سے یہ عمل افسوس ناک
دیکھنے میں آرہا ہے کہ ہمارے ہاں قومی ٹیلی ویژن سے لے کر نجی ٹی وی اداروں
تک کوئی بھی بچوں کی تربیت کے حوالے سے مسلسل پروگرام نشر نہیں کر رہا ہے۔
قوم کے مستقبل سے غفلت برتنا بہت ہی نا مناسب عمل ہے ، اس طرف فوری توجہ
دینے کی ضرورت ہے۔
حیرانگی تو یہ ہے کہ چند گھنٹوں کا وقت بھی کوئی چوبیس گھنٹوں میں بچوں کے
حوالے سے دینے کو راضی نہیں ہے۔ حیران کن عمل یہ ہے کہ ہم آج بچوں کو نظر
انداز کر رہے ہیں ۔دوسری طرف یہی بچے نو عمری میں ملک کا نام مختلف کھیلوں
اورذہانت کی بدولت روشن بھی کر رہے ہیں ۔ایک زمانے میں سرکاری ٹی وی بے
شمار پروگرام نشر کرتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے ، اس حوالے سے بھی حکام
بالا کو سوچنا چاہیے۔ موجودہ حکومت کو اب ایک ٹی وی چینل کھولنا لینا
چاہیے، جہاں اُردو زبان کے ہر ادیب کی کہانیوں، نظموں اور ڈراموں کو پیش
کیا جائے تاکہ وہ تفریح کے ساتھ ساتھ کچھ سیکھ بھی سکیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی
کے حوالے سے بھی پروگرام نشر کیے جا سکتے ہیں ۔ بچوں کو اسلام کے قوانین سے
روشناس بھی کرایا جا سکتا ہے اور مخصوص اوقات میں تعلیم بھی دی جا سکتی ہے
جو کہ آن لائن سے لاکھ درجہ بہتر ہوگا۔ نجی ٹی وی مالکان کوبھی بچوں کے لئے
پروگرام کا آغاز کرنا چاہیے، اس کو بھی منافع بخش بنا یا جا سکتا ہے ، اس
سلسلے میں مشہور بچوں کے رسائل وجرائد کے مالکان سے رابطہ کرکے اس سلسلے کو
کامیاب کرایا جائے تاکہ بچوں کے لئے بہترین مواد پیش ہو سکے ۔آج بچوں کے
ذہنوں کو آپس میں محبت و اتفاق سے رہنے کا درس دیا جائے گا تو کل کو وہ
اُخوت کا مظاہر ہ کر سکیں گے۔اسی سوچ کو دیکھتے ہوئے بچوں کے ٹی وی چینل کی
شروعات بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہے۔اس حوالے سے پیش رفت کی گئی تو یہ ایک
انقلابی اقدام ہوگا۔
|