الیگزینڈر گراہم بیل اور برصغیر کے مسلمان

 2جون 1875ءکے ایک رقعے میں جومسٹر ہبرڈ کے نام گراہم بیل نے لکھا اس میں اس نے مختصراً تحریر کیا ”میں نے اتفاقیہ آلات خبر رسانی کے متعلق ایک ایسی دریافت کی ہے ، جس کی اہمیت حد سے زیادہ ہے آج میں اشارے دور تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا اور اس غرض سے کوئی بیٹری استعمال نہ کی گئی مقام وصول پر جو گیت سنا گیا وہ آہنگ اور زیر وبم میں مقام ارسال کے برابر ہی تھا میں کل شام آپ سے ملوں گا کیونکہ بہت سے معاملات ہیں جن کے بارے میں آپ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ سطریں جلدی میں لکھ رہا ہوں “

جس وقت الیگزینڈر گراہم بیل نے یہ خط تحریر کیا اس وقت اس کی عمر صرف 28سال تھی اور وہ ایک ایسی ایجادپر کام کر رہا تھا جس نے پوری دنیا پر اثر ڈالنا تھا ایک ایسی ایجاد جسے ہر شخص ایک خواب ِپریشاں قرار دے رہا تھا اور وہ ایجاد یہ تھی کہ انسانی آواز کو تار کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجا جا سکے گراہم بیل 1847ءمیں سکاٹ لینڈ کے شہر ایڈنبرامیں پیدا ہوا ۔ اس کا تعلق معلمین و ماہرین سمعیات کے خاندان سے تھا ۔ اس نوجوان سائنس دان نے اپنی محبوبہ کی سماعت بحال کرنے کےلئے کسی ایجاد پر کام کرنا شروع کیا تھا اور اس کی محبوبہ کا والد ایک دولت مند کاروباری آدمی تھا اس نے اپنی بیٹی کا علاج کرانے کےلئے بوسٹن کے ہر ڈاکٹر سے رابطہ قائم کیا لیکن ناکامی ہوئی گراہم بیل نے ڈاکٹروں کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی محبوبہ میبل کو یقین دلایا کہ تمہیں سننے اور بولنے کے قابل بنا کر دم لوں گا اور اسی جذبہ کے پیش نظر بیل اور اس کا اسٹنٹ واٹسن عرصہ دراز محنت کرتے رہے اور آج ایک ایسی ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ جس کے ذریعے آواز کو تار کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جا سکتا تھا ۔ اگست 1877ءمیں گراہم بیل کی شادی اپنی محبوبہ میبل سے ہو گئی اور پوری دنیا میں گراہم بیل کی اس ایجاد نے انقلاب برپا کر دیا ۔۔۔

قارئین ! ہمارے آج کے موضوع کا تعلق اسی بات سے ہے کہ ہم برصغیر کے رہنے والے مسلمان ازل سے ہی کچھ جذباتی نوعیت کے واقع ہوئے ہیں ہم میں ایسے شہنشاہ بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے اپنے جذبات کی عکاسی کرنے کےلئے کثیر سرمایہ خرچ کر کے ”تاج محل“ کھڑا کیا جو آج بھی دنیا کے عجائبات میں شمار ہوتا ہے ، ہم میں ایسے بادشاہ بھی گزرے جنہوں نے ایک دن کی بادشاہی ملنے پر اپنے نام کے سکے جاری کروا دیئے ، ہم میں وہ حکمران بھی گزرے کہ جنہوں نے ایسی ایسی تعمیرات کیں جو ان کے ذوق کی عکاس ہیں لیکن بد قسمتی سے جب ہمارے فرماں روا برصغیر میں یہ کارنامے انجام دے رہے تھے اس وقت یورپ ، امریکہ اور آج کے دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کچھ اور کر رہی تھیں اس وقت الیگزینڈر گراہم بیل ، ٹامس ایڈیسن ، ہنری فورڈ ، رابرٹ واٹسن اور دیگر سینکڑوں سائنسدان یونیورسٹیوں اور تجربہ گاہوں میں نہ صرف دنیا بلکہ کائنات کی تسخیر کے لئے ایجادات کر رہے تھے اور کمندیں تیار کر رہے تھے اور ایسا ہی ہوا کہ ان لوگوں کی محنت اور قربانیوں سے یورپ جو اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا وہاں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا اور ترقی کے اس سفر کا انجام ستاروں کی تسخیر تک جا پہنچا ۔جبکہ دوسری جانب ہمارے حکمران جن عیاشیوں میں ڈوبے ہوئے تھے اس کا انجام یہ نکلا کہ یونیورسٹیاں بھی نہ بنیں اور جدید تجربہ گاہیں بھی وجود میں نہ آسکیں اور عوام کا یہ حال ہوا کہ شعر و نغمہ میں الجھ کر رہ گئے اورغور کس پر ہوتا رہا ، ایسی داستانوں پر جو دلفریب تو ضرور تھیں لیکن حقیقت اور ہماری مذہبی تعلیمات سے کوسوں دور تھیں اور آخر میں وہ وقت بھی آیا کہ بہادر شاہ ظفر دو گززمین کےلئے بھی محتاج تھا ۔
بقول غالب ۔
خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغ ِ مردہ ہوں میں بے زباں گورِ غریباں کا
نہیں معلوم کس کس کا لہو پانی ہوا ہو گا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا
نظر میں ہے ہماری جادئہ راہ ِفنا غالب
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

قارئین! پھر ایسا ہوا کہ 1857ءکا حادثہ پیش آیا اور 1947ءتک مسلمانان برصغیر اپنی کھوئی ہوئی منزل تلاش کرتے رہ گئے اس دوران بڑے بڑے مصلح سامنے آئے اور اسی تعلیم کی کھوئی ہوئی منزل کو پانے کےلئے سرسید احمد خان نے علی گڑھ یونیورسٹی کے نام سے وہ ادارہ تخلیق کیا کہ جس سے فارغ التحصیل ہونے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی باگ دوڑ سنبھالی اور ملک کو اپنی خدمات پیش کیں ۔

قارئین!یہاں ہم اس موضوع سے وابستہ ایک اور درد بھرے عنوان کو شامل کر رہے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف بلاشبہ ایک ڈکٹیٹر تھا اور اس کی حکومت کو ہم کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دے سکتے لیکن جنرل مشرف کے چند کارنامے ایسے بھی ہیں جو آج بھی عوام کو یاد آتے ہیں ۔ جنرل مشرف کے دور میں ڈالر سے لیکر اشیاءصرف کی قیمتیں ایک جگہ پر رکی رہیں اور یہ جنرل مشرف ہی کا دور تھا کہ جب ماہر تعلیم سائنسدان ڈاکٹر عطاالرحمان کو ملک میں معیار تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کو اپ گریڈ کرنے کےلئے ذمہ داریاں سونپی گئیں اور یہ ذمہ داریاں ڈاکٹر عطاالرحمان نے اس طریقہ سے نبھائیں کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پی ایچ ڈی کےلئے ایسے سکالر شپ جاری کیے کہ جس کے ذریعے ایک غریب کا بچہ بھی 50لاکھ روپے تک کے تعلیمی اخراجات حکومتی خزانہ سے ادا کرنے کے بعد یورپ اور امریکہ سے تعلیم حاصل کر سکتا تھا ملک میں موجود یونیورسٹیوں کی تعداد میں تین گناسے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت لاتعداد میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیاں وجود میں آئیں اور وہ تعلیمی انقلاب شروع ہوا کہ جس پر بھارت میں بھی اعلیٰ سطح پر ڈسکشن شروع ہو گئی یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا نہ تو مارشل لاءکی تعریف کرنے کےلئے ہے اور نہ ہی ڈکٹیٹر شپ کو کوئی جواز مہیا کرنے کےلئے ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ اچھا کام کوئی بھی کرے ہم اسے اچھا ہی کہیں گے ۔

قارئین! یہاں سے اگلی بات شروع ہوتی ہے ذوالفقار علی بھٹو شہید وہ شخصیت ہیں کہ جب تک دنیا قائم ہے اور پاکستان کا پرچم لہرا رہا ہے ہر دور کا مورخ اس شخصیت پر بات ضرور کرے گا ذوالفقار بھٹو شہید بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے تھے اور جدید ٹیکنالوجی کا ملکی دفاع میں کیا کردار ہے اس سے بھی وہ بہت اچھی طرح آشنا تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں ایٹمی سائنسدان فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان میں ایٹمی منصوبہ بنانے اور پروان چڑھانے کی ذمہ داریاں سونپیں اور آج انہی کے اس درست فیصلے کی وجہ سے پاکستان دنیا کے سات ایٹمی ممالک میں شامل ہے ۔

قارئین ! ہائر ایجوکیشن کمیشن کے متعلق تمام سیاسی حلقے گفت وشنید کر رہے ہیں اور سیاسی بحث نقطہ عروج پر ہے یہ مسئلہ نہ تو سیاسی ہے اور نہ ہی اسے سیاست کی نظر ہونا چاہیے یہ ایک قومی معاملہ ہے اور زندہ قومیں قومی مسائل سیاست کی نظر نہیں کرتیں پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے فلسفے کو پھر سے پڑھے اور ہائرایجوکیشن کمیشن کو تحلیل کرنے سے گریز کرے۔ یہی درست فیصلہ ہمیں گراہم بیل جیسے سائنسدان دے سکتا ہے اور ہم بھی تعلیمی ترقی کرتے ہوئے تسخیر کائنات کے راستے پر گامزن ہو سکتے ہیں یہ ہمارا خواب ہے خدا کرے کہ اس کی تعبیر خوش نما ہو ۔۔۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374037 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More