ڈاکٹر سلیم اختر۔نقاد، محقق، ماہر غالبیات و اقبالیات اورماہر نفسیات

ڈاکٹر سلیم اختر۔نقاد، محقق، ماہر غالبیات و اقبالیات اورماہر نفسیات
آج ڈاکٹر سلیم اختر کی برسی ہے
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
ڈاکٹر سلیم اختر سے میری شناسائی اور تعلق کا ذریعہ میر ے دوست پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی مرحوم بنے۔ مَیں کالج سے ریٹائرہوا، ساتھ ہی مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی مل چکی تھی۔ میں یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد نوکری نہیں کرونگا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ مجھے مالی ضرورت نہیں تھی، اللہ کا دیا سب کچھ تھا، بچے اپنے پیروں پر کھڑے تھے، پھر اپنے آپ کو پریشانی میں ڈالنے کیا کیا ضرورت۔میں پوری زندگی قناعت پسند رہا۔ لکھنے، پڑھنے اور مضامین و کتابیں شائع ہونے کا عمل بھی جاری تھا۔ اس دور میں میری نصابی کتابیں انٹر اور بی اے کے نصاب میں پاکستان کے تمام تعلیمی بورڈوں اور جامعات میں رائج تھیں۔ چند ماہ ہی گزرے تھے کہ سرگودھا یونیورسٹی میں میرے دوست ڈاکٹر فاضل خان صاحب جو کہ اس وقت شعبہ لائبرری و انفارمیشن سائنس کے چیرئ مین تھے نے کہا کہ میں ان کا شعبہ جوائن کرلوں۔ بہت سوچ بچار کے بعد میں نے گھر میں مشورہ کیا اور انہیں گرین سنگنل دے دیا۔ ایک ماہ بعد انہوں نے میرا تقرر نامہ بہ حیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر کے بھجوادیا، یہ تقرری تین سال کے لیے تھے۔اس وقت میرا بڑا بیٹا بہ سلسلہ ملازمت سعودی عرب جاچکاتھا۔ چھوٹا بیٹا کراچی میں تھا۔ اس لیے کراچی کو خیر باد کہنے میں مشکل پیش نہیں آئی، بس ارادہ کر لیا تھا، پھر جامعہ میں پروفیسر کی حیثیت سے تقرری ایک اعزاز تھا۔ مختصر یہ کہ میں اللہ کا نا م لے کر سرگودھا یونیورسٹی کے لیے عازم سفر ہوا۔11مئی 2010ء کو میَں نے سر گودھا یونیورسٹی میں بہ حیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر جوائن کیا۔ اس وقت میری کیفیت پروفیسر اقبال عظیم کے ایک شعر کی سی تھی اس میں کچھ ترمیم کر کے پیش کررہا ہوں۔اس میں مَیں نے طیبہ کی جگہ سرگودھا کردیا ہے اس لیے کہ میری منزل سرگودھا تھی۔
میں عازم سرگودھا ہوں مجھے کوئی نہ روکے
کہہ دو حوادث میرے رستے میں نہ آئیں
میں نے بھی تمام تر حوادث کی پروا نہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا۔ قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ میرا یہ سفر جو تین سال کے لیے تھا ڈیڑھ سال ہی ہوسکا اور مجھے ڈیڑ سال بعد راستعفیٰ دے کر واپس کراچی آنا پڑا اس لیے کہ میری قسمت میں طیبہ کا سفر تھا اور میں طیبہ کے لیے عازم سفرہوا۔ مجھے سرگودھا یونیورسٹی کیمپس میں قائم ٹیچرز ہاسٹل میں کمرہ نمبر ۵ ملا۔اس میں بائیو لوجی کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال پہلے سے ہی رہائش رکھتے تھے۔ میں ان کا روم پا ٹنر بن گیا۔ شہر نیا، لوگ نئے، ماحول اجنبی‘ البتہ خالصتاً علمی۔ زندگی کا پہلا تجربہ تھا گھر سے باہررہنے کا‘وہ بھی ہاسٹل لائف۔اکثر احباب سے سنا کرتا تھا کہ ہاسٹل لائف عام زندگی سے مختلف ہوتی ہے۔ جامعہ سرگودھا کا عین وسطی حصہ خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔ میَں بھی اس حسین منظر نامے کا حصہ بن گیا تھا۔ مغرب کی نماز پڑھ کر واپس ہاسٹل کا رخ کرتا تو باہر کھلی فضا میں کرسیاں رکھی ہوا کرتیں اور ایک کرسی پرعام طور پر ایک صاحب کو مستقل بیٹھا ہوا دیکھا کرتا، میرے ہی ہم عمر تھے۔میَں انہیں دور ہی سے سلام کر دیا‘ کرتا وہ مجھے اسی طرح جواب دے دیا کرتے۔ اکثر احباب ان کے پاس آکر بیٹھتے اور چلے جاتے‘ لیکن یہ مستقل مزاجی سے اپنی نششت پر براجمان رہتے۔ایک دن ڈائینگ ٹیبل پر ناشتہ کرتے ہوئے تفصیلی تعارف ہوا۔جب میَں نے انھیں یہ بتا یا کہ میرا تعلق کراچی سے ہے اور میَں ڈاکٹر محمد فاضل کے شعبہ میں استاد کی حیثیت سے آیا ہوں، عمر تو کراچی میں گزری‘ لیکن پنجاب کا شہر میلسی میری جنم بھومی ہے۔ انہوں نے بھی اپنا تعارف کرایا کہ میرا نام طاہر تونسوی ہے شعبہ اردو کا چیر ئ مین ہوں۔ اب ہم ایک دوسرے کے زیادہ قریب آگئے۔ دور دور کے سلام قربتوں کے سلاموں میں بد ل گے‘ ساتھ ہی میَں باقاعدگی سے ان کی شام کی محفل کا مستقل حصہ بن گیااور گرمیوں کی شامیں ایک ساتھ گزرنے لگیں‘ حتیٰ کہ گرم شامیں سرد شاموں میں تبدیل ہوگئیں اور یہ بھی فرق ہوا کہ یہ محفل کھلی فضاکے بجائے میرے کمرے میں سجنے لگی۔ اس محفل میں ہمارے شریک ڈاکٹر ظفر اقبال اور ڈاکٹرعبدالرشید رحمت بھی ہوتے، ڈاکٹر ظفر بائیالوجی میں اور ڈاکٹرعبدالرشید رحمت، ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرنگ، ڈاکٹر صاحب کے رفیق کار ڈاکٹر خالد ندیم جو ان دنوں شعبہ اردو کے سربراہ ہیں اس محفل کے شریک ہوتے۔ ڈاکٹر خالد ڈاکٹر صاحب کے قریبی ساتھی تھے۔ کبھی کبھار ڈاکٹر شاہد راجپوت جو ہمارے ہا سٹل کے میس سیکریٹری تھے‘ شریک محفل ہو جا یا کرتے۔ڈاکٹر طاہر تونسوی سے میری دوستی خلوص پر مبنی تھی چنانچہ وہ تیزی سے آگے بڑھتی رہی۔ان کی شخصیت ایک کھلی کتاب کی سی تھی، انہوں نے دوسروں پر اور دوسروں نے ان پر بہت کچھ لکھا، جو کتابوں اور رسائل میں محفوظ ہے۔پھر بھی انسان کی شخصیت کے بعض پہلو وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ کروٹیں بدلتے رہتے ہیں۔وہاں مجھے ڈاکٹر سلیم اختر والا وہ طاہرتونسوی نظر نہیں آیا‘ جو ملتان میں بیٹھ کر لاہور کو سرکرنے کا ارادہ رکھتا تھا،نہ ہی چومکھی لڑتا ہو ا ڈاکٹر طاہر تونسوی کہیں دکھائی دیا۔یہ تو صلح جو، امن پسند، ہر ایک سے خوش ہوکر ملتا،البتہ صاف گو، نڈر، غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنا اس کے مزاج کا حصہ ہمیشہ سے رہا تھا۔یہ بے چین بگولہ ضرور ہوگا‘کیونکہ اپنی عمر کے اس حصہ میں جب کہ اکثرلوگ گھر بیٹھ جایا کرتے ہیں اور اللہ اللہ کرتے نظر آتے ہیں، ڈاکٹر طاہر تونسوی ہے کہ اللہ اللہ کے ساتھ بہت کچھ کر گزرنے کے بعد بھی بہت کچھ کرنے کی لگن اپنے دل میں لیے ہوئے تھے۔ ہماری نشستوں میں ادب کے موضوعات ہوتے۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی ڈاکٹر سلیم اختر کا ذکر بہت زیادہ واور بے حد احترم اور ادب سے کیا کرتے تھے۔ استاد اور شاگرد کے علاوہ دونوں کے درمیان مثالی دوستی تھی۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی جب بھی لاہور جاتے ڈاکٹر سلیم اختر کے گھر قیام کیا کرتے۔
مجھے سرگودھا سے لاہور پھر کراچی آرہا تھا، ڈاکٹر تونسوی کو بھی لاہور جاکر ملتان جانا تھا چنانچہ ہم لاہور میں ٹہرے، میں اپنی بیٹی کے گھر چلا گیا اس وقت وہ لاہور کے جوہر ٹاؤ ن میں رہتی تھی۔ دو دن ہم دونوں کا قیام لاہور میں تھا۔ طے ہوا کہ تونسوی صاحب کی موجودگی میں مَیں ڈاکٹر سلیم اختر سے ملاقات کروں۔ میں طے شدہ وقت کے مقابق اقبال ٹاؤن ڈاکٹر سلیم اختر کے گھر پہنچ گیا، تباک سے ملے، ڈاکٹر طاہر تونسوی پہلے سے موجود تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے میرا تعارف کرایا۔ سرگودھا میں رہتے ہوئے ڈاکٹر تونسوی نے ڈاکٹر سلیم اختر کے بارے میں اتنا کچھ بتا دیا تھا کہ مجھے ان کے سامنے اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ڈاکٹر سلیم اختر اردو میں ایم اے کرنے سے پہلے 1958 پنجاب یونیورسٹی سے لائبریری سائنس میں سرٹیفیکیٹ کورس کرچکے تھے، انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لائبریری میں خدمات بھی انجا م دین، پنجاب یورسٹی لائبریری کے بعد پنجاب پبلک لائبریری میں بھی مصروف کار رہے۔ 1961میں اردو میں ماسٹر کیا اور جنوری 1962ء میں ایمرسن کالج ملتان میں بطور اردو کے لیکچرر خدمات کا آغاز کیا۔ پھر 1972ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں آگئے اور راسی کالج سے 1994ء میں ریٹائر ہوئے۔ پھر جی سی یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ایجو کیشن میں پڑھاتے رہے۔سلیم اختر اور میں بہت جلد گھل مل گئے۔ اس لیے کہ سلیم اختر لائبریری پروفیشن سے وابستہ رہے تھے۔ اس دور کے احباب سے میں بخوبی وقف تھا بلکہ وہ میرے دوست بھی تھی۔ جیسے معروف افسانہ نگار و ناول نگار فرخندہ لودھی سے میرے پیشہ ورانہ مراسم تھے۔ سلیم اختر اور فرخند ہ لودھی نے ایک ساتھ ہی لائبریری سائنس کا کورس کیا تھا۔ میں فرخندہ لودھی کا خاکہ لکھ چکا تھا، ڈاکٹر صاحب سے اس کا بھی ذکر آیا، ان کے شوہر پروفیسر صابر لودھی سے میرے مراسم تھے، وہ بھی اردو کے پروفیسر اور لکھاری تھے خاص طور پر خاکے بہت عمدہ لکھا کرتے تھے۔ اب سلیم اختر صاحب سے میرے تعلقات پختہ ہونا شروع ہوے۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی نے بھی سرگودھا یونیورسٹی کو خیر باد کہا اور فیصل آباد یونیورسٹی چلے گئے۔ میں پہلے سعودی عرب چلا گیا چند ماہ بعد واپس آیااور جنوری 2012ء میں منہاج یونیورسٹی میں شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس کا آغاز ہوا، میں اس جامعہ سے بطور پروفیسر اور چیر ئ مین منسک ہوگیا اور آج بھی اس سے وابستہ ہوں۔ اسی سال یعنی 2020 ء میں سرگودھا یونیورسٹی نے مجھے 'Professor Emeritus' کے درجہ پر فائز کیا۔ متعدد ایم فل میری نگرانی میں ہوچکے ہیں اس وقت چار طلبہ میری نگرانی میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں، متعدد کا ممتحن رہ چکا ہوں۔ سلیم اختر صاحب سے دوستی ہوچکی تھی میں لاہور جاتا تو سلیم اختر کو فون کرتا اور ان سے ملاقات رکھی جاتی۔
دسمبر کی 30تاریخ تھی، سال 2018ء میں منہاج یونیورسٹی گیاہوا تھا، میرا قیام یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اپنے شاگرد شاہد محمود کے کمرے میں ہوتا تھا، شعبہ میں ایک طالب علم کے ایم فل کا وائیوا Vivaتھا۔ کئی اساتذہ موجود تھے۔ ان میں سے کسی نے بتایا کہ لاہور میں ڈاکٹر سلیم اختر صاحب اللہ کوپیارے ہوگئے۔ سن کربے حد افسوس ہوا، اگر مجھے پہلے معلوم ہوجاتا تو میں ان کی تدفین میں ضرور شرکت کرتا۔ ڈاکٹر سلیم اختر 11مارچ 1934ء کو لاہور میں پیداہوئے اور لاہور ہی کی مٹی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سوگئے۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، آمین۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے اسکول لائف سے ہی افسانے لکھنا شروع کردیے تھے، کالج میں پہنچے تو تنقید ی مضامین بھی لکھنے لگے۔ ڈاکٹر سلیم اختر اردو ادب سے پہلے نفسیات ان کا خاص موضوع تھا۔ مستقل مزجی سے نفسیاتی شعور کی باریک بینیاں ان کا موضوع ہوا کرتیں۔ نفیسات میں جنسی، جذباتی زندگی جیسے موضوعات پر ان کے مضامین اتنے مشہور ہوئے بقول ان کے کہ لوگ انہیں ماہر نفسیات تصور کرکے ان سے اپنے نفسیاتی مسائل پر مشورہ کیا کرتے تھے۔انہوں نے نفسیات اور جنسی موضوع پر کئی کتابوں کے تراجم بھی کیے اس اعتبار سے وہ ایک ماہر مترجم بھی تھے۔ ان کی تصانیف میں عورت: جنس اور جذبات، ہماری جنسی اور جذباتی زندگی، تین بڑے نفسیاتی دان(فرائیڈ، ایڈلر،ژونگ) اور خود شناسی مشہور ہیں۔ ماہنامہ ”سپوتنک“ لاہور نے اپنی اشاعت جلد 12شمارہ7 جولائی2001 ء میں ڈاکٹر سلیم اختر پر خصوصی گوشہ شائع کیا۔ ا س شمارہ میں محمد سعید نے کی تحریر ”ڈاکٹر سلیم اختر اپنی نظر میں“ ڈاکٹر سلیم اختر کی زبانی باتوں کا تفصیلی احاطہ کیاگیا ہے، ڈاکٹر سلیم اختر کہ کہنا تھا کہ ”بی اے تک ابنارمل سائیکا لوجی اور جنس کے بارے میں اتناکچھ پڑھ چکا تھا کہ خود کو کنوارا ہوتے ہوئے اپنے شادی شدہ دوستوں کو ان کی ازدواجی زندگی کے بارے میں مشورے دیا کرتا تھا“۔ان کے بقول وہ عالمی ادب میں دوستو فسکی اور اس کے بعد سارتر کے ناولوں نے بطور خاص متاثر کیا، کامیو کا پلیگ بھی انہیں پسند تھا۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے پی ایچ ڈی تحقیق کا موضوع تھا ”اردو میں تنقید کا نفسیاتی دبستان“، یہ مقالہ نفسیاتی تنقید کے نام سے طبع ہوچکاہے۔ اردو کے استاد ہوجانے کے بعد وہ ادب کے موضوعات پر راغب ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ان کی باقاعدہ افسانہ نگاری کا آغاز 1962ء سے ہوا، ”ادب لطیف“کے سالنامے میں ان کا افسانہ ”سویٹ ہارٹ“ شائع ہوا۔ ان کی کتاب ”ادب کی مختصر ترین تاریخ“ بہت معروف ہے۔ انہوں نے خاکہ نگاری بھی کی ’روشن جھروکہ“ خاکوں کا مجموعہ ہے۔ تنقید کے موضوع پر ڈاکٹر صاحب کی کئی تصانیف ہیں ان میں نگاہ اور نقطے، دلی والے میر امن کی باغ و بہار کا تحقیقی مطالعہ، تنقیدی دبستان، تنقید اور تاریخ، ادب اور شعور، تنوع، افسانہ: حقیقت سے علامت تک، حیات جاوید (تلخیص)، تخلیق اور لاشعوری محرکات، ادب اور کلچر، نفسیاتی تنقید،ا نشائیہ کی بنیاد، جوش کا نفسیاتی مطالعہ، پاکستان میں اردو ادب سال بہ سال، تخلیق، تخلیقی شخصیات اور تنقید، باغ وبہار تحقیق و تنقید،داستان اور ناول، افسانہ اور افسانہ نگار، ڈاکٹر شوکت سبزواری،(کتابیات)، اصطلاح سازی، پاکستانی ادب، ہاتھ ہمارے قلم ہوئے، اردو زبان کیا ہے، خواتین کی شاعری میں عورتوں کے مسائل کی تصویر کشی۔ اسی طرح غالبیات پر شعور اور لاشعور کا شاعر غالب، غالب شناسی اور نیاز و نگار۔ اقبالیات پر کوئی 15تصانیف، ناولٹ ضبط کی دیوار، افسانوں میں کڑوے بادام اور دیگر، مذہب پر بنیاد پرستی، اس کے علاوہ سفرنامہ، طنز و مزاح، نفیسات و جنس کے موضوع پر کئی تصانیف، اسی طرح نصابی کتب، آپ بیتی، سوانح شامل ہیں۔ڈاکٹر سلیم اختر کے کوائف اور مکمل تصانیف کی تفصیل ان کی زندگی میں شائع ہونے والے ایک کتابچے بعنوان ”ڈاکٹر سلیم اختر (کوائف /کتابیات) میں موجو د ہے۔ یہ کتابچہ مجھے ڈاکٹر طاہر تونسوی نے عنایت کیا تھا۔
ڈاکٹر سلیم اختر کی کل تصانیف کی تعدا سو سے زیادہ ہے۔ انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان پر متعدد احباب نے مضامین لکھے، ان پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر پاکستان کے علاوہ بھارت میں تحقیق ہوئی۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی نے ان پر ”ڈاکٹر سلیم اختر: شخصیت و تخلیقی شخصیت“ تحریر کی۔ ڈاکٹر سلیم اختر اختر شریف النفس انسان تھے، ساتھ ہی اپنے زمانے میں عاشق مزاج بھی، سیلف میڈ، نیچے سے اوپر اپنی محنت اور جستجو سے پہنچے۔ پروفیسر تھے لیکن ان کا گھر سادگی کا نمونہ تھا۔ لاہور کے اقبال ٹاؤن میں ان کاگھر تھا۔ 2012میں روؤف ظفر نے ڈاکٹر سلیم اختر کا یک انٹر ویو لیا جو روز نامہ جنگ میں شائع ہوا۔ دیگر موضوعات کے علاوہ اس میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی کا یاد گار واقعہ بتا جسے نمایاں طور پر مضمون میں جگہ دی گئی ہے۔ کہتے ہیں ”عموماً پروفیسرز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھلکڑ ہوتے ہیں۔”یہ 1970ء کا واقعہ ہے میں نے اسکوٹر پر بیگم کو اسکول سے لیا، جہاں وہ پڑھاتی تھیں، راستے میں سُرخ بتی پر اسکوٹر رُک گیا۔ میں نے بیگم کواترنے کا کہہ کر کِکس مارنا شروع کردیں۔ اسی دوران گرین لائٹ آن ہوگئی۔ میں پورے راستے بیگم سے باتیں بھی کرتا رہا۔ تاہم، جب ٹیمپل روڈ پر وقع اپنے گھر جاکے اسکوٹر روکا، تو بیگم پچھلی سیٹ سے غائب۔ میں حواس باغتہ ہوکر واپس بھاگا۔ راستے میں دیکھا تو ان کے ایک کزن انہیں گاڑی میں لیے چلے آرہے تھے۔ بیگم نے انہیں بتایا کہ ”میرا میاں مجھے سنگنل پر بھول گیا ہے“۔ بہر حال، اس ر وز خیال آیا کہ پروفیسر کے بارے میں لوگ جو کہتے ہیں ٹھیک ہی کہتے ہیں“۔صاحب اس واقعہ پر ہمیں بھی اپنا ایک واقعہ یاد آگیا، ہم بیگم کو سنگنل پر تو نہیں بھولے البتہ کراچی کی شاہراہ لیاقت پر ہم موٹر سائیکل پر بیگم کو پیچھے بٹائے جامعہ کلاتھ مارکیٹ جانے کے لیے ٹاور سے برنس روڈ کی جانب دوڑ رہے تھے حبیب بنک پلازہ سے کچھ پہلے موٹر سائیکل ایک اونچے گڑ پر چڑھ گئی، اسپیڈ اچھی خاصی تھی چنانچہ بیگم بیچ سڑک پر، ہم اور موٹر سائیکل الگ الگ بکھر گئے، ہم تو کسی طرح کھڑے ہوگئے۔ البتہ بیگم کے منہ سے جھاگ آنا شروع ہوگئے۔ فیروز سنز کا آفس سامنے ہی تھی کچھ بھلے لوگ تھے انہوں نے ہماری مد د کی اور بیگم کو آفس میں لٹا دیا، تھوڑی دیر میں ہوش تو آگیا اور دوبارہ موٹر سائیکل پر ہی گھر پہنچ گئے لیکن کچھ دیر بعد وہ اسپتال پہنچ گئیں۔ معلوم ہوا کہ ہنسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی، فوری طور پر آٹھ نمبر پٹی باندھ کر انہیں جکڑ دیا گیا۔
ڈاکٹر سلیم اختر پر معروف کالم نگار، ادیب و شاعر عطا ء الحق قاسمی نے ”روزنِ دیوار سے“ کے تحت ڈاکٹر سلیم اختر پر کالم بعنوان ”مہاشہ جی“ لکھا جو دو قسطوں میں شائع ہوا۔ یہ کالم 31مئی اور دوسرہ قسط یکم جون 2014ء کو شائع ہوئی۔ عطا ء الحق قاسمی نے ڈاکٹر سلیم اختر سے اپنی دوستی کی تفصیل لکھی جس میں انہوں نے لکھا کہ جب میں ڈاکٹر سلیم اختر کے بارے میں لکھنے بیٹھا تو میں نے سوچا کہ سلیم اختر سے دیرینہ قربت اور محبت کی وجہ سے ہم دونوں کی یکتائی کی سی جو کیفیت پیدا ہوچکی ہے اس کے پیش نظر اس کی تعریف کرتے ہوئے مجھے یوں لگے گا جیسے میں اپنی تعریف کررہا ہوں، اپنی تعریف کون نہیں سننا چاہتا، چنانچہ میں نے سوچا جی بھر کر سلیم اختر یعنی اپنی تعریف کروں۔ دوسری قسط میں لکھتے ہیں ”جس شخص کا نام سلیم اختر ہے وہ صرف ایک اعلیٰ درجے کا اسکالر ہی نہیں سر سے لے کر پاؤں تک سراپا محبت، وضعدار اور شریف النفس انسان ہے۔ سب سے محبت کرنے والا یہ شخص اور تو اور اپنی بیوی سے بھی ٹوٹ کر محبت کرتا ہے حالانکہ میں نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ اپنی بیوی سے رومانی گفتگو کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی ایسے مقام پر خارش کی جائے جہاں خرش نہ ہو رہی ہو بہر حال یہ تو اپنے نصیب کی بات ہے“۔ڈاکٹر سلیم اختر کے بارے میں عطا ء الحق قاسمی کے ان کے طویل کالموں سے چند جملوں کا ہی انتخاب ہوسکتا ہے۔اتنا اور لکھنا چاہتا ہوں کہ میرے پہلے خاکوں کے مجموعے ”جھولی میں ہیرے اور موتی“ کا فلیپ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے علاوہ ڈاکٹر سلیم اختر نے بھی تحریر فرمایا۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا ””اگر سوانح عمری آراستہ ڈرائنگ روم ہے تو خاکہ روزن در کہ کم سے کم الفاظ استعمال کرتے ہوئے اختصار کے اسلوب میں شخصیت سے متعارف کرادیا جاتا ہے۔یویہ چند واقعات کچھ کوائف اور مجمل اشارات کی مدد سے شخصیت سے مضافحہ ہوجاتا ہے۔ مصوری کی اصطلاح میں بات کریں تو خاکہ اسکیچ ہے پوٹریٹ نہیں۔ بنیادی طور پر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی جو کئی کتب بھی تحریر کر چکے ہیں لیکن پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے باوجود انہوں نے ادب اور ادیبوں، قلم ار اہل قلم اور اہل علم سے رشتہ استوار رکھا اس کا اظہار دوستوں پر محبت کی روشنائی سے تحریر کردہ خاکوں سے ہوتا ہے۔ ”یادوں کی مالا“ کے بعد اب ”جھولی میں ہیرے اور موتی“ خاکوں کا تازہ مجموعہ پیش ہے جو دس خاکوں، اپنے بارے میں ایک مضمون، ماضی کی یادوں کے حوالہ سے دو مضامین اور ایک رپوتاژ پر مشتمل ہے۔ یہ ہیں وہ ہیرے اور موتی جن سے اس ددرویش صفت انسان کی جھولی بھری ہے۔اس کتاب میں میری دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں میرے ان دو عزیز دوستوں ڈاکٹر طاہر تونسوی اور عبد الوہاب خان سلیم کے خاکے بھی شامل ہیں۔ ان کی محبت سرمایہ حیات ہے۔ان کے علاوہ فیض احمد فیض، عبد الستار ایدھی کے خاکے بھی ہیں۔رئیس صمدانی صاحب نے والدہ محترمہ کا خاکہ بھی قلم بند کیا ہے۔ فرزندگی کے اسلوب میں۔ مجھے یقین ہے ک شخصیت اور شخصیت نگاری سے دلچسپی رکھنے والے خوش ذوق قارئیں سے یہ کتاب داد کے ہیرے اور تحسین کے موتی حاصل کرے گی“۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے 30جون 2018ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ للہ پاک ڈاکٹر سلیم اختر کواپنے جوار رحمت میں جگہ دے،آمین۔(30دسمبر2020ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1276803 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More