گرمی سے ستائے ہوئے کراچی کے شہریوں کو جب سردی کے کچھ دن
میسر آجا ئیں تو وہ سرد دنوں اور سرد شاموں کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہونے
کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہم کراچی کے شہری سال بھر اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب
موسم سرد ہو اور ہمیں اپنے گرم کپڑے نکالنے کا موقع مل سکے جو اس انتظار
میں ہماری الماری کے کہیں کسی کونے میں دفن ہوتے ہیں کہ کب ہمارے بھی دن
آئیں اور ہمیں بھی اس قید سے رہائی مل سکے۔
گزشتہ دنوں کراچی میں آنے والی شدید سردی کی لہر نے ہمیں بھی یہ احساس
دلایا کہ سردی سے لطف اندوز ہونے کا کراچی کے شہریوں کو بھی تھو ڑا حق حاصل
ہے۔ بس پھر ہم نے بھی اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کا سوچا۔ اور سردی کا
ایک دن دوستوں کے ساتھ کراچی کی سیر کرتے ہوئے گزارنے کا منصوبہ بنایا۔
اب مرحلہ یہ آیا کہ پہنا کیا جائے۔ جب الماری کا جائزہ لیا تو الماری کے
کونے میں رکھا ہوا ایک ناراض سا کوٹ نظر آیا۔ جو پچھلے سال خریدا ضرور تھا
لیکن اسے پہننے کا موقع نہ مل سکا تھا۔ کیونکہ سردیاں اس وقت اپنی آخری
سانسیں لے رہی تھیں۔ تو چارو نہ چار ہمیں اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے
ہوئے اسے الماری میں نظر بند کرنا پڑا۔لیکن اب وہ مرحلہ آن پہنچا کہ ہمیں
اسے الماری سے نکالنے کا موقع ملا۔ پھر ہم نے اس منہ بسورتے کوٹ کو الماری
سے باہر نکالا۔جو پورے سال اپنی ناقدری پر ناراض سا بیٹھا تھا ۔لیکن جس طرح
سب کے دن پھرتے ہیں اس کوٹ کی قسمت بھی جاگ اٹھی۔
خوب تیاری کے ساتھ پھر ہم اپنی دوستوں کے ساتھ باہر نکلے تو سرد موسم کی
ٹھنڈی ہواوں نے ہمارا استقبال کیا۔ لیکن ہمارے گرم کوٹ نے ہمارا بھرپور
ساتھ دیا اور ٹھنڈی اور کاٹ دار ہواوں سے بچانے میں اپنا بھرپور کردار ادا
کیا۔ ہم سب دوستوں نے سردی کا دن انجوائے کرنے کیلئے سی وی یو کا رخ کیا۔
ابھی ہم سمندر سے کچھ فاصلے پر ہی تھے کہ سمندر سے آنے والی یخ بستہ ہواوں
نے ہمارے سردی انجوائے کرنے کے جذبے کو تھوڑا ماند کردیا اور ہمیں یہ احساس
دلایا کہ انسان کا گھر ایک ایسی پناہ گاہ ہے جو اسے ہر سرد وگرم موسم اور
مشکل حالات میں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ایسے میں ہماری نظر کچھ ایسے بچوں پر
پڑی جو پھٹے کپڑوں اور بغیر جوتوں کے اس سرد موسم سے بے نیاز کھیل کود میں
مصروف خوش و خرم دکھائی دے رہے تھے۔ اور ان کے چہروں سے سچی خوشی ٹپک رہی
تھی ۔ انہیں دیکھ کر ہمارے دل میں اس احساس نے جنم لیا کہ یہ معصوم بچے
حالات کی سختیوں کا ہنس کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ اور ایک ہم ہیں جو خدا کی
عطا کردہ بے شمار نعمتیں ہونے کے باوجود بھی اس کی ناشکری ہی کرتے ہیں۔
سی وی یو پہنچ کر ہم نے ساحل کا جا ئزہ لیا تو وہاں بے شمار لوگ ہمیں اس
سرد موسم کا لطف اٹھاتے نظر آئے۔ ہم بھی موسم کا لطف اٹھاتے لوگوں میں
شامل ہو گئے۔ ساحل پر ہر طرف سنہری دھوپ پھیلی ہوئی تھی ۔ وہی دھوپ جو
گرمیوں میں ہمارے مزاج کو گرم کردیتی ہے اور چہروں کو جھلسانے کا باعث بنتی
ہے اس وقت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ ہم سب دوست اس سہانے موسم اور ایک دوسرے
کے ساتھ کو یادگار بنانے کیلئے تصاویر کیھنچنے میں مصروف تھے۔ اور سر دی کی
شدت اتنی زیادہ تھی کہ ہم میں سے کسی کی اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ سمندر کے
پانی میں پیر بھی بھگو سکے۔ اس لئے ہم نے صرف سمندر کو دور سے دیکھنے پر ہی
اکتفا کیا۔
ساحل پر کھڑے مختلف کھانے پینے کے اسٹالز پر ہماری نظر پڑی تو ہماری سوئی
ہوئی بھوک اچانک چمک اٹھی اور ہمیں یاد آیا کہ صبح دوستوں کے ساتھ جانے کی
خوشی میں ہماری بھوک پیاس ایسی اڑی کہ ہم ناشتہ کئے بغیر ہی گھر سے نکل پڑے۔
اب ہم نے سوچا کہ کچھ کھا یا جائے۔ کچھ دوستوں نے چنے چاٹ کا انتخاب کیا تو
کچھ نے بھٹے کھانے کو ترجیع دی۔
ہم سب دوست ساحل پر بیٹھے اپنے یونیورسٹی کے دنوں کی یاد یں تازہ کرتے ہوئے
ساتھ ساتھ نمکین پستے اور مونگ پھلیاں کھانے میں مصروف تھے کہ اچانک موسم
بدلنا شروع ہو گیا اور سورج کا منہ کالے کالے بادلوں نے ڈھانپنا شروع کر
دیا۔ اور کچھ ہی دیر میں ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ اور بوندا باندی شروع ہو
گئی۔ موسم کے تیور دیکھتے ہوئے ہم نے واپس جانے کا سوچا اور گاڑی کی طرف چل
پڑے ۔ابھی ہم گاڑی سے کچھ ہی فاصلے پر تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی
اور ہمارا نیا نویلا کوٹ جو الماری سے باہر آنے پر اپنی خوش قسمتی پر
نازاں تھا اس اچانک افتاد پر بوکھلا اٹھا اور چپکے سے بولا ’’ مجھے کیوں
نکالا ‘‘۔۔
بارش میں بھیگتے ہم سب دوست گاڑی میں بیٹھے اور ایک خوشگوار سرد دن گزار کر
واپسی کے سفر پر رواں دواں ہو گئے۔
|