اولیاء اللہ کےمزاروں پر دھماکے

یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ سیرت و کردار کے زور سے پھیلا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کا سہرا اولیاء کرام اور صوفیاء عظام کے سر ہے اور اس خطے میں ان نفوس قدسیہ کا وجود اﷲ کریم کا بہت بڑا انعام ہے۔ جو کام غازیان اسلام کی شمشیر اَبدادر ارباب ظواہر کی علمیت سے نہ ہو سکا وہ خدا وند تعالیٰ کے ان مقبول و برگزیدہ بندوں نے بخوبی اپنے اعلیٰ سیرت و کردار سے سرانجام دیا۔ انہوں نے شبانہ روز محنت اور اخلاق حسنہ سے بر صغیر پاکستان و ہندوستان کو نور اسلام سے منور کیا اور اسلام کے ننھے منے پودے کو سر سبز و شاداب اور قد آور درخت بنا دیا۔ ہمارے اسلاف اور اولیائے کرام نے مکالمہ کے ذریعے لوگوں کو پرامن رکھا اور طاقت کے ذریعے اپنے نظریات اور افکار مسلط نہیں کئے۔

قرآن مجید، مخالف مذاہب اور عقائدکے ماننے والوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کا نہیں بلکہ ’ لکم دینکم ولی دین‘ اور ’ لااکراہ فی الدین‘ کادرس دیتاہے اور جو انتہاپسند عناصر اس کے برعکس عمل کررہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ، اس کے رسول سلم ، قرآن مجید اور اسلام کی تعلیمات کی کھلی نفی کررہے ۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سے لیکر حضرت معین الدین چشتی اور سید علی ہجویری تک کسی ایک نے بھی کبھی مزار پرستی کی تعلیم نہیں دی ۔تصوف کا مقصد تو روحانی اصلاح ہوا کرتا ہے۔

ملک میں دہشت گردی کی لہر نے اب ایک نئی شکل اختیار کرلی ہے۔ پہلے بازاروں ، سرکاری دفاتر ، مساجد پر بم دھماکے ہوتے تھے اب کچھ عرصے سے اولیا اکرام اور بزرگان دین کے مزاروں پر بم دھماکوں کو سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ جس سے عوام کی بےچینی اور خوف ہراس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مزاروں پر ہونے والے ان بم دھماکوں کے باعث عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کون سی ایسی جگہ ہے جو دہشت گردی سے محفوظ ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مساجد،عبادتگاہوں،نماز عید کے اجتماعات،قبائلی جرگوں،زيارت گاہوں حتٰی پبلک مقامات پر دھماکے اور حملے کئے ہیں۔یہ دھماکوں کے ذریعے ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں،لیکن اس طرح کی دہشت گردانہ کاروائیوں سے حکومتیں تبدیل نہیں کی جا سکتیں۔یہ بات یہ خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ دہشت گردوں نے 36مزارات کو خودکش حملوں اور دھماکوں کا نشانہ بنایا اور چھ دربار صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور 200 علماء و مشائخ نے شہادت پائی۔ صوفیائے کرام کی تعلیمات امن کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔

پتہ نہیں ان طالبان دہشت گردوں کو ان اولیا اکرام اور بزرگان دین سے کیا چڑ ہے کہ گزشتہ 10 سالوں میں دہشت گردوں نے صوفیاء کرام کے آٹھ مزاروں کو اپنےحملوں کا نشانہ بنایا جن میں لاتعداد افراد لقمہ اجل بن گئے۔ صوفیاء کرام کے مزارات اسلام کی سخت گیر تشریح کرنے والے عسکریت پسندوں کے غیض و غضب کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔طالبان کے مظالم کی مذمت نہ کرنے والی مذہبی اور سیاسی جماعتیں یا تو طالبان سے خوفزدہ ہیں یا پھر ان کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھے ہوئے ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان کے لیے عوام کی حمایت ایک قیمتی اثاثہ ہونی چا ہیے جبکہ بازاروں ، مساجد اور مزارات جیسے عوامی مقامات پر خود کش حملے،تحریک طالبان کو یقینی طور پر عوامی نفرتوں کا ہدف بنارہے ہیں۔ اگر پاکستانی طالبان کچھ بھی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں تو وہ ایسی کارروائیاں سے اجتناب کریں۔ طالبان کی یہ کارواءیاں ان کی نام نہاد جدوجہد کے لیے زہر ہلاہل ثابت ہوسکتی ہیں بلکہ ہو رہی ہیں۔

گورنمنٹ کالج، حیدر آباد میں اسلامیات کے استاد پروفیسر ذکاء اللہ شیخ نے کہا کہ گزرتے ہوئے سالوں میں پاکستان میں مقدس مقامات پر حملے کرنے کا بنیاد پرست نظریہ فروغ پا رہا ہے۔

بعض مسلکوں کے نزدیک قرآنی آیات کی تشریح کے مطابق، مخالف نظریات کی تمام مذہبی علامات شرک کی نشانی ہیں۔ شیخ نے کہا کہ طالبان ان مقدس مقامات کی بے حرمتی کے ذریعے مذہبی رہنماؤں کی تشریح میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں. انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن ولیم صادق نے کہا کہ القاعدہ سے منسلک طالبان ملک میں مساجد اور دیگر مقدس مقامات کو بے رحمی سے نشانہ بناتے ہیں جس کا مقصد نہ صرف اپنے مخالفین کو ہلاک کرنا بلکہ اقلیتوں کو ہدف بنانا بھی ہے۔

ان تمام واقعات میں سے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملہ 19 مارچ 2005 کو بلوچستان کے شہر جھل مگسی میں پیر رکھیل شاہ کے مزار پر کیا گیا جس میں ایک خودکش بمبار نے 36 افراد کو ہلاک کر دیا۔دہشت گردوں اور انتہاپسندوں نے مزاروں کو متعدد بار نشانہ بنایا۔ ۲۷مارچ ۲۰۰۵ کو درگاہ بری امام،اسلام آباد کو ہدف بنایا گیا ،اس حملے میں بیس افرادجان بحق اور بیاسی زخمی ہوئے۔ پانچ مارچ دوہزار نو کو پشاور میں نامعلوم افراد نے پشتو کے ممتاز اور مقبول صوفی شاعر رحمان بابا کے مزار کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں عمارت کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔

سات اکتوبر دوہزار دس کو کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر دو خودکش حملوں میں دس افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے اور اب پچیس اکتوبر دوہزار دس کو پاکپتن میں حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کے مزار پر ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں سات زائرین جاں بحق اور پندرہ زخمی ہوئے۔

یکم جولائی دوہزار دس کو لاہور میں حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے مزار پر خود کش حملہ ہوا جس میں سینتالیس افراد شہید ہوئے۔

تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کے یہ بیانات کہ ایسی کارروائیوں سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔”یہ کارروائی غیرملکی ایجنٹوں کی ہے،ہم اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں ، ہم عوامی مقامات کو نشانہ نہیں بناتے۔ ہمارے اہداف بالکل واضح ہیں عین اس حکمت عملی کے مطابق ہیں جو اس تحریک کی حقیقی اور عملی ضرورت ہے جبکہ اس کی جانب سے عوامی مقامات ، مساجد، بازاروں اور مزارات کو نشانہ بنانے کا مطلب اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ اس تناظر میں کراچی کے سانحہ کے فوراً بعد برطانوی نشریاتی ادارے سے، احسان اللہ احسان کے نام سے تحریک طالبان پاکستان کے نائب ترجمان کی حیثیت سے بات کرنے والے شخص کے بیان کو دیکھا جائے تو وہ اعظم طارق کے موقف کے صریحاً منافی نظر آتا ہے۔ نشریاتی ادارے کے مطابق اس شخص نے اس کے ایک کارکن کو فون پر بتایا کہ ”یہ دھماکے تحریک طالبان پاکستان کا کام ہیں اور وہ ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بریلوی مسلمان طالبان کے مخالف ہیں اسی لیے انہیں نشانہ بنایا گیا۔“اس سے واضح ہے کہ اس کا مقصد دیوبندی و بریلوی کشیدگی پیدا کرنا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں اسلام اولیائے اللہ کی تبلیغ اور حسن کردار سے پھیلا۔ ان برگزیدہ ہستیوں کے مزار اور مقابر صدیوں سے مرجع خلائق ہیں۔ لوگ اپنے اپنے ایمان عقیدے اور یقین کے مطابق ان مزاروں پر حاضری دیتے اور سکون قلب حاصل کرتے ہیں جنہیں اس مسلک سے اختلاف ہے وہ بھی ان ہستیوں کا دلی احترام کرتے اور ان کے مقام و مرتبہ کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ روایت کوئی نئی نہیں۔ سیکڑوں سال سے اس پر عمل ہورہا ہے اختلاف رائے کے باوجود اس پر کوئی جھگڑا یا خونریزی نہیں ہوئی۔ آج اگر اولیااللہ کے درباروں پر حملے ہورہے ہیں تو ان میں پاکستان کے داخلی حالات اور خارجی عناصر کے عمل دخل کو نظرانداز نہ کیا جائے۔

حضرت عبداللہ شاہ غازی حضرت داتا گنج بخش حضرت بابا فرید شکرگنج اور بعض دوسرے اولیاء اللہ کے مزاروں پر اس نوعیت کے انتہائی المناک واقعات ظہور پذیر ہوچکے ہیں جو اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ ان کے پیچھے ایک باقاعدہ سازش کارفرما ہے جس کا مقصد ملت اسلامیہ میں اتحاد و یگانگت اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچانا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام دشمن قوتوں نے اتحاد بین المسلمین کو پارہ پارہ کرنے کیلئے ہردور میں فتنہ پروری کی ہے۔ پہلے مسلمانوں میں شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے کر انہیں آپس میں لڑانے اور امت مسلمہ کی قوت توڑنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس مقصد میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہونے پر اب انہوں نے دوسرے فقہی مکاتب فکر کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کردی ہے۔

مذہبی جماعتیں یہ کہتی ہے کہ اس طرح کی دہشت گردانہ کاروائیاں مسلمان نہیں کر سکتے،لیکن جب طالبان ان کاروائیوں کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں تو ان کو چپ لگ جاتی ہے۔پاکستان کی مذہبی جماعتیں منافقت کرتی ہیں۔طالبان کی مدد کرتی ہیں اور کھل کر ان کے بارے میں اپنے موقف کا اظہار نہیں کرتیں۔ جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کے رہنما ان دہشت گردانہ کاروایئوں اور ان کے ذمہ داروں کی مذمت نہیں کرتے۔

در حقیقت صوفیائے کرام کی تعلیمات تمام مسلمانوں کو امن، اخوت،بھائی چارے کا درس دیتی ہیں موجودہ نفسا نفسی اور دہشت گردی کے عروج کے دور میں ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ملک سے بدامنی و دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے بشرطیکہ ہم سب لسانی،گروہی ، مذہبی و مسلکی اختلافات کو بھلا کر نچلی سطح پر قیام امن کیلئے جدوجہد کریں۔
iqbal jehangir
About the Author: iqbal jehangir Read More Articles by iqbal jehangir: 28 Articles with 42483 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.