سونامی ، تبدیلی، معاشرہ اور انصاف۔ ۔۔

معاشرتی ترقی معاشرے میں ہر فرد کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کے بارے میں ہے، تاکہ وہ اپنی پوری صلاحیتوں کو حاصل کرسکیں۔ معاشرے کی کامیابی کا تعلق ہر شہری کی فلاح و بہبود سے ہے، معاشرتی ترقی کا مطلب لوگوں میں اخلاقی سرمایہ کاری کرنا ہے۔ اس کے لئے رکاوٹوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ تمام لوگ اعتماد اور وقار کے ساتھ اپنے خوابوں کی طرف سفر کرسکیں۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ غربت میں رہنے والے لوگ ہمیشہ غریب ہی رہتے ہیں اگر وہ یقین محکم، عمل پیہم کے اصولوں پر عمل کریں اور قسمت یاوری کرے تو وہ بھی مارک زکر برگ اور بل گیٹس بن سکتے ہیں۔

اس ترقی کے سفر میں حکومت وقت پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے، لوگوں کو خود کفالت کے حصول میں مدد دینے کے لئے ایک محفوظ جگہ بہت اہم ہے۔ یہ خاندانی زندگی کا محور ہے، جہاں کنبے با عزت طریقے سے رہ سکتے ہیں ، اپنے بچوں کی پرورش کرسکتے ہیں ، اور اپنی اخلاقی اقدار میں رہتے ہوۓ معاشرتی تعلقات استوار کرسکتے ہیں۔ مہذب معاشرے کے بغیر ، معاشرے کے پیداواری رکن کی حیثیت سے کام کرنا مشکل ہے،معاشرے کی معاشی خوشحالی میں کردار ادا کرنے والے لوگوں میں نوجوانوں کے پروگرام اور خدمات ، ثانوی تعلیم کے بعد ، ملازمتوں کی تخلیق کا فروغ شامل ہیں۔ غربت کو کم کرنے کے لئے ہمیں معاشرتی ترقی کے نقطہ نظر کو اپنانے اور نوجوان لوگوں میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔

یہی وہ سہانے خواب تھے جن کے سہارے تبدیلی نام کی سونامی کووطن عزیز میں زبردستی نازل کیا گیا۔ أج عالم یہ ہے کہ أزادی اظہار کے نام پر ہماری نئ نسل نے اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے، ہماری حکومت بجاۓ اس بربادی کو لگام ڈالنے کے خود اس کی پشت پناہی کر رہی ہے اور اسے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر رہی ہے یہ سوچے بغیر کہ اس کے معاشرے پر کیا دیر پا اثرات مرتب ہونگے۔

یہ حکومت بہت ٹرانسپیرنٹ ہے۔ جیسی اندر سے ہے بالکل ویسی ہی بدتمیز باہر سے بھی ہے۔ یہ صرف ٹویٹر پر گالیاں نہیں دیتے، ٹی وی پر بیٹھ کر سیاسی مخالف کو تھپڑ بھی رسید کر دیتے ہیں۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان کی یہ تربیت بھی ثاقب نثار نے کی ہے یا یہ سلطان راہی سٹائل شغلِ اعظم کی اپنی کاوش ہے۔ ویسے تو دونوں ہی اس میدان میں اپنی مثال نہیں رکھتے۔

اس حکومت نے بہت محنت کی اور کشمیر کا مسئلہ حل ہو گیا۔ میڈم منسٹر مخولیات نے اپنی تقریر میں وزیر اعظم صاحب کے کشمیر کے سلسلے میں کارنامے گنوا کر دنیا کو حیران کر دیا۔ کہنے لگیں، پرائم منسٹر صاحب نے ٹویٹ کیے، بیانات دیے، تقریر کی۔ وہ یہ بتانا بھول گئیں کہ آدھ گھنٹہ دھوپ میں کھڑے ہوئے اور ساری قوم کے ساتھ دو منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی۔ کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سری نگر ہائی وے رکھ دیا، اور اب روزانہ ویزے کے بغیر سری نگر کا دورہ کرتے ہیں۔

یہ عمران کی بائیس سال کی محنت کا نتیجہ کہ پاکستانی معیشت کو مضبوط ہونے میں صرف اڑھائ سال لگے۔ پہلے مہینے میں ہی سیاستدانوں کی لوٹی ہوئی رقم میں سے دو سو ارب ڈالر واپس لے آئے۔ سو ارب ڈالر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے منہ پر دے مارے جو وہ ابھی تک گن رہے ہیں۔ باقی سو ارب ڈالر سے پاکستانی معیشت کھڑی کر دی۔ اب ہمیں کسی سے ادھار لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ وزیراعظم کو خودکشی نہیں کرنا پڑی۔ جو روزانہ ایک ارب ڈالر کی کرپشن ہو رہی تھی وہ بھی روک لی گئی ہے۔ اب گٹروں اور گندے نالوں کے ساتھ ساتھ قومی خزانہ بھی ابل رہا ہے۔

دوسرے ملکوں کے شہری پاکستان آنے کے لیے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں۔ یہاں پر نوکریوں کا مینا بازار لگ چکا ہے۔ نوجوان اور ان کے والدین بے فکری اور خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں۔

حکومت نے پچاس لاکھ گھر بنا دیے ہیں۔ غریب اور بے گھر لوگ نئے گھروں میں شفٹ ہو چکے ہیں۔ سارے ملک کے غریب چیخ چیخ کر دعائیں دے رہے ہیں۔ چند کروڑ خوش نصیبوں کو گھر نہیں ملا تو کم از کم شغلِ اعظم کے وعظ سے یہ علم تو گیا کہ سکون قبر میں ہی ملے گا اب اسی کے انتظام میں جان ماری کر رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت کے تحت پاکستان میں زندگی گزارنے کا اجر کم ازکم جنت میں ایک گھر تو بنتا ہی ہے۔

علم اور سائنس کی ترقی کے لئے بھی اس حکومت نے زبردست اقدام کیے ہیں۔ سوہاوہ میں روحانی یونیورسٹی کا افتتاح کیا جا چکا ہے۔ اس یونیورسٹی میں روحانیت پر تحقیق ہو گی۔ روحانیت پڑھائی جائے گی۔ روحانیت سپر سائنس ہے۔ اس طرح سے ہمیں سائنس پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ مطالعہ پاکستان اور روحانیت جیسی سپر سائنس ہی پاکستان کا مستقبل ہے۔

ایک ہزار ڈیم اس حکومت نے دو سال کے دوران بنا دیے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں پانی کی کمی نہیں رہی نہ زراعت کے استعمال کے لیے نہ گھریلو استعمال کے لیے۔ بابائے انصاف ثاقب نثار نے ڈیم پر پہرہ دینا تھا لیکن اب ضرورت نہیں۔ ان کی اپنی بنائی ہوئی پی ٹی آئی کی حکومت یہ کام کر رہی ہے اور حضرت لندن میں آرام۔

پاکستانی حکومت کرپٹ ہونے کی وجہ سے دوسروں سے قرض مانگتی تھی اور ہماری عزت خراب ہوتی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ ہمارے ہینڈسم وزیراعظم یاری دوستی میں صرف امیر شہزادوں کی گاڑیاں ڈرائیو کرتے ہیں اور وہ ٹپ میں دو تین ارب ڈالر ادھار دے جاتے ہیں۔ اور پھر کبھی کبھی ناراض ہوکر چلتے جہاز سے چلتا بھی کر دیتے ہیں، ارے کوئی بات نہیں یاری دوستی میں اتنا تو چلتا ہے۔

ہم نے ایران اور سعودی عرب اور امریکہ اور روس کے درمیان ثالثی کر کے صلح کرا دی ہے۔ ہم نے کورونا کے دوران امریکی فوج کو کورونا سے بچاؤ کی چیزیں بھیجیں۔ ہم نے انڈیا کو آفر کی ہم ان کے ساتھ احساس پروگرام کے تحت عوام میں نقد رقم بانٹنے کا راز شیئر کر سکتے ہیں۔ لیکن انڈیا والوں کی بدقسمتی کہ انھوں نے اس آفر کی قدر ہی نہیں کی کاش مودی فون اٹھا لیتا اور خان صاحب کے مفید مشوروں سے فائدہ اٹھاتا، ویسے تو آج کل جو باییڈن نے بھی مشورے کی خاطر اپوائنٹمنٹ ریکوسٹ بھیج رکھی ہے وہ بھی حکومت سنبھالنے سے پہلے خان صاحب سے داخلی و خارجی معاملات پر صلاح مشورہ کرنا چاہ رہا ہے۔

ہمارے وزیر اعظم کو احمد فراز کی شاعری پسند نہیں تھی اس لیے انہوں شبلی فراز کو اپنی کابینہ میں شامل کر کے احمد فراز سے خوب بدلہ لیا ہے ۔

یہ حکومت تحریک انصاف کی ہے۔ اس لئے ملک سے تمام بے انصافی ختم ہو چکی ہے۔ ہر طرف افتخار چوہدری اور ثاقب نثار ناچتے پھر رہے ہیں، شریفوں و زرداریوں کو چوراہوں پر لٹکا دیا گیا ہے۔

یہ دکھ نہیں کہ زمانہ خلاف ہے میرے
یہ رنج ہے کہ میرا یار بھی منافق ہے۔۔۔

پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔۔۔
 

Qasim Naqvi
About the Author: Qasim Naqvi Read More Articles by Qasim Naqvi: 42 Articles with 54151 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.