|
الوداع2020 ء ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی سال 2020کو الوداع خوشی کے ساتھ یقینا نہیں بلکہ بوجھل دل کے ساتھ، دکھ اور تکلیف کے ساتھ، افسوس اور تاشف کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ اس لیے کہ یہ سال دنیا کی تاریخ میں کورونا (کووڈ19-) کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔رواں سال شروع ہوا تو اکثر لوگوں کی سوچ تھی کہ یہ سال دنیا کے لیے، لوگوں کے لیے بہتر سال ثابت ہوگا لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس، یہ جس قدر ظالم ثابت ہوا، تاریخ میں اسے بد ترین سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ سال 2020ء کا آغاز یکم جنوری کو دنیا میں 392978اور پاکستان میں اس دن 16787بچے پیدا ہونے سے ہوا۔پاکستان کا نمبر 4ہے، بھارت میں 67,355 چین46299، نائیجیریا26039، امریکہ10,452بچے پیدا ہوئے۔ کورونا (کووڈ19-) ایک جانب اس سال میں آبادی میں اضافہ ہوا تو دوسری جانب اس سال جنوری میں ہی کورون کی آثار دکھائی دینے لگے تھے، لوگ لا علم تھے، اس کی حسسایت کا انہیں علم نہیں تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس وبا نے تیزی سے لوگوں کو ہلاک کرنا شروع کردیا۔ ہلاکتوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا وہ تاحال جاری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا۔2 وائرس یا کووڈ-19 کی دوسری لہر کا آغاز ہوچکا ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطا بق دنیا کے 15ممالک میں کورونا کی دوسری لہر آچکی ہے۔ کورونا کی ابتدا کے بارے میں کہا گیا کہ یہ چین کے شہر ووہان سے شروع ہوا، دوسری لہر کا آغاز برطانیہ سے ہوا۔ پاکستان میں نئے کورونا کے تین مریض لندن سے کراچی آچکے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ 2020ء وراست میں کورونا 2021ء کو دے کر جائے گا۔ ویسے اس وبا کی ویکسین امریکہ اور چین نے ایجاد ہی نہیں کی بلکہ لگانے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ پہلے مرحلے میں میڈیکل کے عملے کو ویکسین لگائی جارہی ہے۔ آج ہی کی اطلاع ہے کہ پاکستان نے چین کو کئی لاکھ ویکسین کا آڈر دے دیا ہے امید کی جارہی ہے کہ یہ ویکسین مارچ تک پاکستان پہنچے گی۔ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے سال میں یہ وبا کب تک رہتی ہے۔ 2020ء کے ابتدائی مہینوں میں ہی اس سال نے اپنا ظالمانہ رنگ روپ دکھانا شروع کردیا تھا۔ کورونا جیسا وائرس کوڈ19نے اپنے سفر کا آغاز تو چین کے شہرووہان سے کیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دنیا کے تمام ہی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ترقی پزیر ممالک، کمزور ممالک، غریب ریاستیں تو اپنی جگہ تھیں اس نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا، اٹلی جیسے ترقی یافتہ ممالک میں تباہی مچا کر رکھ دی، ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں انسانی جانیں نگل گیا۔ اب جب کے رواں سال رخصت ہورہا ہے جاتے جاتے اس نے کوروناکی دوسری لہر نئے سال کو دے دی ہے۔ یعنی کورونا 2020 ء کی یاد گار کے طور پر آنے والے سال میں بھی دنیا میں رہے گا۔ اس کے برعکس یہ سال صرف کروناسے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھو ں زندگیاں اپنے ساتھ لے گیا۔دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ نیا سال سابقہ سال کی روش پرقائم رہتا ہے یا اپنے اندر تبدیلی لے آتا ہے۔ اس وائرس نے دنیا کے ترقی تافتہ، ترقتی پذیر، چھوٹے یا بڑے ہر ملک میں انسانی جانوں کو بڑے پیمانے پر ہڑپ کیا۔ امیریکہ جیسے ملک میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ پاکستان میں بھی اس نے کاروبار زندگی ٹھپ کر کے رکھ دیا۔ اکتوبر میں اس کی دوسری لہر شروع ہوئی اور اس نے دوبارہ سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا۔ چین میں پاکستانی طلبہ کو واپس لانے کی کوششیں کی گئیں، چھ ہزار سیاحوں والے کروز شپ کو اٹلی نے کرونا کے خطرے کے پیش نظر روک لیا، جہاز پر چینی جوڑے کے خون کے نمونے لیے، انہیں حفاظتی حراست میں لیا گیا۔ چین سے پاکستانی طلبہ کو وپس نہ لانے کا فیصلہ کیا گیا، اس فیصلہ کو ملک کے وسیع تر مفاد میں قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے بعض علماء اکرام کا کہنا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی احادیث موجود ہیں جس میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسے علاقے میں داخل نہ ہوں جہاں طاعون پھیلا ہواور وہاں موجود لوگوں کو متاثرہ علاقہ چھوڑنے سے روکا گیا ہے ’بخاری 5739، اور مسلم2219) میں حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”میں نے اللہ کے پیغمبر سے سنا“ اگر کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوتو وہاں جانے سے گریز کیا جائے اور اگر ’پ جہاں ہوں وہاں طاعون پھیل جائے تو پھر وہاں سے نہ نکلا جائے“۔ معاشی صورت حال 2020 ء بہت سی باتوں کے حوالے سے ہمیشہ یادرکھا جائے گا، پاکستان کی تاریخ خاص طور سے سیاسی و معاشی تاریخ اس سال کے اہم واقعات کے بغیر ادھوری رہے گی۔کپتان کی حکومت کو 2019ء کی طرح2020ء میں بھی بے پناہ سیاسی اور معاشی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان کی معیشت جو ڈوب چکی تھی اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا تحریک انصاف کی حکومت کے لیے سب سے بڑ ا چیلنج تھا۔ 2020ء کا آغاز ہی مایوس کن تھا۔ حکومت نے پہلے ہی دن تیل کی مصنوعات میں اضافہ کر کے نئے سال کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی کراچی کے لیے بجلی 4.30روپے فی یونٹ مہنگی بھی کردی۔ اس طرح عوام کی نظروں میں حکومت وقت کی کارکردگی جو پہلے ہی قابل ذکر نہ تھی اس کے لیے اور زیادہ منفی رویہ جنم لینے لگا۔ عالمی اعتبار سے ایران کے جنرل سلیمانی کا قتل نئے سال کے پہلے ہی مہینے کا ایک ایسا عمل تھا کہ جس میں دنیا میں اچھا تاثر قائم نہیں کیا۔ آٹا چینی کا بحران اس سال ملک میں چینی اور آٹے کا شدید بحران آیا۔ حزب اختلاف نے اس ایشو کو خوب ہائی لائٹ کیا۔حکومت نے چینی پر تحقیقاتی کمیشن بنایا، تحقیقات سامنے بھی آئیں، اس کے نتیجے مین جہانگیر ترین لندن چلے گئے اورپانچ ماہ بعد واپس وطن پہنچے، ان کے کہنے کے مطابق وہ ہر سال علاج کی غرض بیر ون ملک جاتے ہیں، مختلف ذرائع حکومت سے ترین کی مفاحمت قرار دے رہے تھے۔حکومت نے تین لاکھ ٹن گندن درآمد کرنے کا فیصلہ کیا، آٹا کے بعد چینی بھی مہنگی ہوئی اور چینی بھی درآمد کرنے کا فیصلہ ہوا۔چینی درآمد کرنے کے بعد اس کی قیمت فروخت میں کمی آچکی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ آٹا اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوگی۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پاکستان میں ایک اعتبار سے آغاز اچھا تھا کہ آرمی چیف جنرل باجوہ کی مدت ملازمت کا مسئلہ قانونی طور پر حل ہوا، بل کی منظوری پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے دی، نولیگ نے غیر مشروط ووٹ دیا البتہ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس عمل پر نون لیگ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ وجوہات میں جانا مناسب نہیں، اپوزیش جماعتوں کو منتخب ایوانوں میں کئی بار سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے،باغی سینیٹرز کا معاملا خاموشی سے دبا دیا گیا۔ صورت حال کچھ ایسی ہے کہ سٹرکوں پر کپتان ہائے ہائے ایوانوں میں کپتان آگے آگے۔ خارجہ پالیسی پاکستان کی خارجہ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن عمران خان نے پاکستان کو عالمی اداروں میں اپنی تقاریر کے ذریعہ پاکستان کا نام روشن کیا، عمران خان نے ایران، سعودیہ اور امریکہ کے مابین دوستی میں کرادا ادا کرنے کی کوشش ضرور کی۔۵ فروری کو یوم کشمیر منایا گیااور دنیا کے سامنے کشمیر کا مسئلہ اجاگر کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ مودی نے بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کے لیے ٹرسٹ بنادیا، نواز شریف صاحب جو لندن جاچکے تھے انہوں نے مریم کے لندن پہنچنے تک آپریشن کرانے سے انکار کردیا، تاریخ آگے بڑھا دی گئی۔نواز شریف کے لندن سے واپسی کے لیے حکومت نے برطانوی حکومت کو خط، نون لیگ نے کہا سو خط لکھ لیں کچھ نہیں ہوگاملائیشیا کانفرنس میں پاکستان کی عدم شرکت، کوالا لمپور کانفرنس (ملائیشیا کانفرنس بھی کہا گیا) میں پاکستان کی عدم شرکت، وزیر اعظم نے شرکت نہ کرنے پر معذرت کی، چیف جسٹس نے کراچی سرکلر ریلوے کے راستے میں آنے والی عمارتیں گرانے کا حکم دیا۔فروری کے آخری ہفتہ کورانا وائرس کے دو مریضوں کی تصدیق۔ پاکستان میں پہلا کورونا کیس 26فروری کو کراچی میں ظاہر ہوا۔عمران خان نے افغانستان کا یک روزہ دورہ کیا، یہ دورہ افغانستان کے صدرکی دعوت پر ہوا۔ 8 مارچ عالمی یوم نسواں کے حوالے سے میڈیا پر ماروی سر مد کے جملے میرا بدن میری مرضی پرمیڈیا پر موضوع بحث بنارہا۔ کے درمیان تیز و تند گفتگو، گالی گلوچ کے بعد ہر چینل نے اسے ٹاک شو کا موضوع بنایا، اس دن عالمی یوم نسواں دوسرا ”حیا مارچ“ کے نام سے با پردہ خواتین نے مارچ کیا۔ سیاست میں شدت پاکستان میں عام سے بات ہے، اکتوبر کے آخری ہفتہ میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھارتی پائیلٹ ابی نندن کی رہائی کے حوالے سے قومی اسمبلی میں ایسی گفتگو کی کہ جس سے قومی راز کے فاش کرنے، بھارت میں خوشیاں منانے کی صوت حال پیدا ہوگئی جس پر پاکستان آرمی ISPRکے ڈی جی میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ”ابینندن کی رہائی ایک مہ دار ریاست کے میچور رسپانس کے علاوہ کسی اور چیز سے جوڑنا گمراہ کن اور پاکستا ن کی واضح برتری اور فتح کو متنازعہ بنانے کے مترادف ہے۔ابھی نندن کو جنیوا کنونشن کے تحت رہا کیا گیا جسے سارے دنیا نے سرہا 26فروری کو بھارت کو جارحیت پر منہ کی کھانی پڑی، پاکستان نے اعلانیہ دن کی روشنی میں جواب دیا، پاکستان کی فتح دنیا میں تسلیم کی گئی، بھارت اپنی شکست اور ہزیمت کو کم کرنے کے لیے منفی بیانیے سے فائدہ اٹھا رہا ہے“ میاں نواز شریف نے لندن میں رہتے ہوئے اپنی پالیسی تبدیل کی اور حزب اختلاف کی اے پی سی میں ویڈیو پر ایک دھواں دھار تقریر کی جس میں انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ ہماری لڑائی عمران خان کے ساتھ نہیں بلکہ عمران کو لانے والوں کے ساتھ ہے۔ بس اس بیان کے بعد تو حکومتی حلقوں میں ایک طوفان آگیا دوسری جانب حزب اختلاف میں 11جماعتیں متحدہوگئیں اور PDMیعنی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بنا کر ملک میں دما دم مست قلندر کا آغاز کردیا۔مولانا فضل الرحمن صاحب اس الائنس کے سربراہ منتخب کر لیے گئے۔ اے پی سی (پی ڈی ایم کیا قیام) میں نے ایک کالم بعنوان ’نواز شریف کی تقریر اے پی سی پر ہاوی آگئی‘ تحریر کیا تھا جس کی خاص باتیں یہاں درج کررہاہوں۔”میاں صاحب کی تقریر میں کوئی نئی بات نہیں تھی، کوئی نیا پلان، نئی حکمت عملی، نیا بیانیہ، کچھ نہیں تھا، انہوں نے اپنی پختہ سوچ جس پر وہ اپنے سابقہ تینوں ادوار میں عمل کرتے رہے ہیں اب بھی انہوں نے وہی کچھ کہا، گویا ان کے اندر کا نواز شریف مشکل دور کی چکی سے گزرجانے کے باوجود بھی اپنی وہی سوچ رکھتا ہے، یعنی اسٹیبلشمنٹ سے محاز آرائی۔ ایک جانب انہوں نے اپنے دل میں چھپی باتوں کو کھول کر رکھ دیا، عمران خان یہی تو چاہتا تھا کہ نواز شریف کی تقریر کو میڈیا پر دکھا یا جائے تاکہ نواز شریف ایکسپوز ہو، جو باتیں باہر جانے کے حوالے سے کہی جارہی ہیں انہیں تقویت ملے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو میاں صاحب نے بہادری کا ثبوت بھی دیا، ان کی صحت کی جو صورت حال ہے، جس طریقے سے وہ ملک سے علاج کرانے گئے، علاج ہوا یا نہیں وہ اللہ جانتا ہے یا پھر وہ خود جانتے ہوں گے۔ انہوں نے اپنے اس بیانیہ سے جو ان کا ہمیشہ سے رہا ہے سے کمپرومائز کرنے سے نہ صرف انحراف کیا بلکہ اعلان بغاوت بلند کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس صورت حال میں بھی طاقت کے سامنے کھڑے ہیں۔ سیاست دیکھئے میاں صاحب نے کہا کہ ”ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں، انہیں لانے والوں سے ہے“۔ کاش میاں صاحب لانے والوں کی وضاحت صاف صاف الفاظ میں کردیتے لیکن سیاست دان اتنے بہادر نہیں، اشاروں، کناروں میں، ڈھکے چھپے الفاظ میں، تشبہات دیتے ہوئے اشارہ جس جانب کررہے ہوتے ہیں وہ سب کو معلوم ہوتا ہے لیکن کھلے الفاظ میں کہنے کی جرت کسی سیاست داں میں نہیں۔عمران خان کو اگر کوئی لایا ہے تو اس سے پہلے بھی جو حکمراں آئے انہیں بھی کوئی یقینا کوئی لایا ہوگا“ پی ڈی ایم کا گوجرانوالہ کے بعد 18اکتوبر کو کراچی میں جلسہ، جلسہ سے قبل کیپٹن (ر) صفدر کا نون لیگی کارکنوں کے ہمراہ قائد اعظم کے مزار میں عین قبر مبارک پر نعرے بازی کرنا، پولیس کے ہاتھوں ان کی گرفتاری بارہ گھنٹے بعد ضمانت پر رہائی، عجیب و غریب صورت حال، آرمی چیف کا انکوائری کرانے کا حکم، وزیر اعلیٰ سندھ کا انکوائری کرنے کا حکم، اعلیٰ پولیس افسران کی چھٹی کی درخواست، آرمی چیف کا بلاول بھٹو سے فون پر بات کرنا۔ آرمی چیف،ڈی جی آئی ایس آئی سے شہباز، بلاول، سراج الحق، مولانا فضل الرحمن کے بیٹے کی ملاقات،جس پر شیخ رشید کا کہنا ہے کہ’جنرل باجوہ نے کہا کہ منتخب حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کے پابند ہیں“۔ملاقات کسی بھی مسئلہ پر ہی کیوں نہ ہوئی ہو ملاقات تو ہوئی۔حزب اختلاف کی تحریک کا تسلسل جاری رہا 11سیاسی پارٹیوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے گوجرانوالہ میں 16اکتوبر کو عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا، خاص بات لندن سے نواز شریف کے تقریر تھی جس میں انہوں نے بعض فوج کے بڑے افسران کے نام لے کر تنقید کی۔ دوسرا جلسہ 18اکتوبر کو کراچی میں، جس کی میزبان پیپلز پارٹی تھی۔ کراچی کے جلسہ کی خاص بات قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار اور قبر پر مریم نواز اکے ساتھ کیپٹن (ر)صفدرکی حاضری اور صفدر کے نعرے اور مزار کی بے حرمتی کا سبب بنے، چنانچہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی اور وہ گرفتارہوئے، واویلا ہوا، بارہ گھنٹوں بعد ضمانت پر رہائی بھی ملی گئی۔ کراچی کے بعد پی دی ایم نے کوئٹہ میں سیاسی میدان سجایا، کوئٹہ کے جلسہ کی خاص بات شاہ احمد نورانی مرحوم کے بیٹے انس نورانی کی تقریر وجہ اختلاف بنی جس میں انہوں نے بلوچستان کی آزادی کی بات کی۔دوسری جانب پی ڈی ایم میں اختلافات ابھر نے لگے بلاول بھٹو زرداری نے نواز شریف اور نون لیگ کے بیانیے سے اختلاف کیا۔چوتھا جلسہ ملتان میں ہوا، جس میں حکومت نے جلسہ کی اجازت نہیں دی، آخری دن جلسہ کی اجازت تو نہیں لیکن کہا گیا کہ حکومت جلسہ کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ جلسہ ہوا۔لاہور جلسہ اچھا پاور شو تھا لیکن بہت اچھا نہیں، جو دعوے کیے گئے تھے، جتنی تیاری کی گئی، جو جو بیانات سامنے آئے تھے ان تمام کے پیش نظر لاہور شو اتنا کامیاب نہیں تھا۔ دسمبر نے نواز شریف پرستم ڈاھایا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرینسز میں اپیلوں پر سماعت کے بعد اشتہاری قرار دے دیا، ضمانت دینے والوں کو شو کاز نوٹس جاری کیے گئے۔ 27دسمبر گڑھی خدابخش میں بے نظیر کی شہادت کے حوالے سیاسی شو جس میں مولانا صاحب نے شرکت نہیں کی، البتہ ان کا یک وفد شریک ہوا، مریم نواز نے بطور خاص اس تقریب میں شرکت کی۔ انہوں نے لاہور سے سکھر پہنچ کر نون لیگ کے کارکنوں سے خطاب میں وہی باتیں کیں جو وہ کرتی چلی آرہی ہیں۔ البتہ کارکنوں سے استعفے دینے کے حق میں ہاتھ اٹھوائے، اور اسلام آباد مارچ میں پہنچنے کی تائید بھی ہاتھ اٹھوا کر لی۔یہی کام بلاول نے گڑھی خدا بخش کے تعزیتی جلسے میں کیا۔ زرداری صاحب نے ویڈیو لنک پر خطاب کیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کی سی ای سی کی میٹنگ جو 30دسمبر کو ہوئی اس میں فیصلہ ہوا کہ سینٹ کے انتخابات اور ضمنی انتخابات میں حصہ لیا جائے گا، میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہے۔ پی پی کے اس فیصلے سے بڑے جماعتوں مولانا فضل الرحمن اور مریم شریف کو چھٹکا پہنچا۔ سیاست میں بھوچال آیا ہو ا ہے۔ اسی دن مولانا صاحب اور مریم نواز نے اسلام آباد میں مشاورت کی اور میڈیا سے خطاب کی۔ نیب نے نون لیگ کے رہنما خواجہ آصف کو 29دسمبر کی شب اسلام آباد سے گرفتار کر لیا۔ دوسری جانب مولانا کی جماعت میں چار سینئر لوگوں نے بغاوت کردی مولنا شیرانی اور حافظ حسین احمد نے مولانا پر بے شمار الزامات لگا کر جمعیت علمائے اسلام پاکستان کو بحال کرنے کا اعلان کیا ان کا کہنا تھا کہ فضل الرحمن صاحب نے جماعت میں ایک گروپ اپنے نام سے قائم کیا تھا، دوسری جانب نون لیگ کے دو استعفے قومی اسمبلی کے چیرئ مین کو بذریعہ ڈاک پہنچ گئے، مریم نے اعلان کیا کہ وہ اراکین چیر ئ مین کے طلب کرنے پر جائیں اور استعفے ان کے منہ پر ماردیں لیکن آج ہی دونوں اراکین اسمبلی پہنچے اور کہا کہ یہ استعفے جالی ہے۔مختصر یہ کہ نون لیگ بھی اس مسئلہ پر تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب پی ڈی ایم کے سربراہان کا اجلاس یکم جنوری 2021ء کو ہوگا۔ گویا اب کل سے جو سیاست سامنے آئے گی وہ 2021ء کا حصہ ہوگا۔ نومبر کے مہینے میں گلگت بلتستان میں انتخابات منعقد ہوئے۔ سیاسی جماعتوں میں مقابلہ تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان سخت مقابلہ ہوا، بلاول بھٹو ایک ماہ گلگت بلتستان میں موجود رہے اور بہت جذباتی دکھائی دیے، مریم نواز نے بھی انتخابی جلسوں میں بھر پور کردار ادا کیا۔ سرکاری نتائج کا اعلان 25نومبر کو کیاگیاجس کے مطابق تحریک انصاف نے 22، پیپلز پارٹی نے 5، مسلم لیگ نون نے3سیٹیں حاصل کیں۔ گلگت بلتستان میں انتخابات ہوئے اور تحریک انصاف کو زیادہ سیٹیں حاصل ہوئیں، آزاد امیدواروں کی اکثریت نے تحریک انصاف میں شمالیت اختیار کر لی۔ اس طرح عمران خان کی حکومت گلکت بلتستان میں بھی قائم ہوگئی،حافظ سعید کو 10سال 6ماہ قید کی سزا انسداد دہشت گرد ی عدالت سنادی۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 29 فروری 2020ء کو دستخط ہوئے۔امریکہ اور طالبان کے درمیان امن کے لیے مذاکرات کی کوششیں شروع ہوئیں، طالبان نے ٹرمپ کو مذاکرات کو نقصان پہچانے کا ذمہ دار قرار دیاٹرمپ نے بھارت کا دورہ کیا، ٹرمپ نے کہا کہ یہ مسئلہ حلق کا کانٹا بن گیا ہے۔ دورہ پر مسئلہ کشمیر پر مودی اور ٹرمپ کے مذاکرات ہوئے۔ کشمیر کے علاوہ دہلی میں فسادات، آر ایس ایس کے غنڈوں نے قتل عام کیا۔ مرنے والوں کی تعداد تیس تک جا پہنچی، سینکڑوں زخمی ہوئے۔ نومبر 2020 امریکہ میں صدارت لیے کانٹے دار مقابلہ ہوا، صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو جوپائیڈن نے شکست دی اور ہیلری کلنٹن کا بدلہ لے لیا۔ ٹرمپ نے آخری وقت تک شکست تسلیم کرنے سے انکار کرتا رہا اور سپریم کورٹ جانے کی باتیں کرتا رہا لیکن دونوں کے درمیان الیکٹرول ووٹس کاتناسب اتنا زیادہ تھا کہ ٹرمپ میں نہ مانوں کی رٹ لگائے،آخرکار ٹھنڈا ہوگیا۔ جوبائیڈ ن امریکہ کا نیا صدر منتخب ہوگیا۔ٹرمپ نے میں نہ مانوں کی رٹ لگائی آخر کار ہتھیار ڈالنا پڑے۔برطانیہ اور یورپی یونین کا تاریخی تجارتی معادہ طے پایا، برطانوی شہر یورپی سلہولتوں سے لطف اندز نہیں ہوسکیں گے۔ سال رواں میں اموات علمی، ادبی، سیاسی و سماجی شخصیات جنہیں 2020اپنے ساتھ لے گیا۔ اس سال کا یکم جنوری کو ملتا ن میں میرے دوست شاعر، ادیب پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب اللہ کو پیارے ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب متعدد تصانیف کے خالق تھے۔ کالج اور سرگودھا یونیورسٹی، فیصل آباد یونیورسٹی میں پروفیسر و صدر شعبہ کے فرائض انجام دئے، ڈائریکٹر کالجیز ااور بورڈ کے چیر ئ مین بھی رہے۔ معروف شاعر احمد فراز کا ایک شعر نہ شب و روز ہی بدلے ہیں نہ حال اچھا ہے کسی برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے سال ۰۲۰۲ء تو بالکل بھی اچھا نہ رہا، لاکھوں انسانوں کو کورونا ہڑپ کر گیا۔ وہ احباب جنہوں نے 2020ء میں داعی اجل کو لبیک کہا کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔ بہت ممکن ہے کچھ نام رہ گئے ہوں، اس کی معزرت۔ نثار عزیز بٹ، پروفیسر صدیقہ مسعود انور، ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی، سلطان جمیل نسیم، طارق عزیز، علامہ طالب جوہری، احمد زین الدین، احفاظ الرحمان، تاج بلوچ، اطہر شاہ خان، اقبال حیدر، پروفیسر حبیب ارشد، سرور جاوید، ڈاکٹر علی یاسر،کبیر انجم،اے کے ڈوگر، قانون دان،ڈاکٹر مغیث الدین شیخ،آل عمران، جواں سال شاعر،محمد خالد، شاعر،نسیم صدیقی، نواز مسکین (خوشاب)، سرائیکی و پنجابی کے شاعر،نجیب پروانہ۔ پشتو کے دشاعر،سید کاظم عباس زیدی، شاعر،سلیم فاروقی، قلم کار،کرکٹر امتیاز احمد، عزیز ظفر آزاد،پروفیسر انوار احمد زئی،مولانا ڈاکٹر عادل خان مہتمم جامعہ فاروقیہ، کراچی،مرزا خورشید بیگ میلسوی، قومی سیر ت ایوارڈ یافتہ شاعرو نعت خواہ،ناصر زیدی،،استاد، شاعر پروفیسر عنایت علی خان، شاعر،ڈاکٹر آفتاب میمن،سید منور حسن سابق امیر جماعت اسلامی،پروفیسر مظفر حنفی، شاعر، ادیب، افسانہ نگار، دانشور،مولانا ڈاکٹر عبد الحلیم چشتی،میر حاصل بزنجو، سیاستدان،اعظم خلیل،مصباح الدین فرید،بھارت کے شاعر راحت اندوری، شاعر،سید اطہر علی ہاشمی صحافی، سلطان جمیل نسیم افسانہ نگار،نصرت ظہیر ادیب، مزاح نگار صحافی،امیر حسین چمن افسا نہ نگار،شاعر استاد پروفیسر منظر ایوبی، رشید مصباح دانشور، سیدنصرت زیدی،ڈاکٹر اعجاز احسن،ظفر اکبر آبادی،خواجہ محمد اسلام، موت کا منظر کے مصنف،اطہر شاہ خان عرف جیدی،سجاد شاہین،سید ارشاد حسین نقوی،سیاستداں اور مسلم اسکولوں کے روح رواں آزاد بن حیدر، میر جاوید الرحمن، روزنامہ جنگ کے پبلشر،پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد،امان اللہ،نعمت اللہ سابق ناظم کراچی،پروفیسر شمیم اختر،ڈاکٹر آصف فرخی، سینئر وکیل اور دانشور اسلامک لائرز موومنٹ پاکستان کے نائب صدر ایڈووکیٹ غلام قادر جتوئی 12 اکتوبر کو انتقال کر گئے۔پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما راشد ربانی کورونا کے نتیجے میں اللہ کو پیارے ہوئے، عالم دین مولانا عبد الرحمن(مولانا طارق جمیل کے استاد تھے)، اکتوبر میں ہی سینئر صحافی شکیل حسنین،صحافی سلیم عاصمی بھی اکتوبر میں ہی اللہ کو پیارے ہوئے۔اکتوبر 16شمالی وزیر ستان میں اورماڑہ بلوچستان میں دہستگردی کے نتیجے میں فوجیوں سمیت 20اہل کار شہید ہوگئے۔جنگ ستمبر 1965ء میں دوارکا آپریشن کے غازی وائس ایڈمرل (ر) اقبال فضل قادر کراچی میں 19اکتوبر کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ثناخوانِ رسول الحاج محبوب احمد حمدانی (20اکتوبر) کو انتقال کر گئے۔اردو ڈائجسٹ کے روح رواں ڈاکٹر اعجاز حسین قریشی لاہور میں انتقال کر گئے۔ ڈاکٹر اعجاز قریشی کاتعلق میرے خاندان سے ہے۔ وہ تحریک پاکستان کے رکن، اردو ڈائجسٹ کے بانی، ادارہ کاروان علم فاؤندیشن کے بانی بھی تھے۔ سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرر ایسو سی ایشن (سپلا) کے سرگرم کارکن، ریاض احسن مرحوم کے ساتھی دیوان آفتاب احمد خان کراچی میں انتقال کر گئے، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد سیٹھ کورونا کے باعث جان کی بازی ہار گئے۔ پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی کی ملک عدم روانگی ہوئی۔ یکم نومبر 2020ء کو خادم روضۃ رسول ﷺ شیخ احمد علی یاسین قضائے الٰہی سے اس دنیا ئے فانی کو خیر آباد کہہ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ انہیں نصف صدی تک نبی کریم ﷺ کے حجرہ مبارک میں خدمات دینے کا شرف حاصل ہوا۔ 3نومبر کو شاعر ادیب علامہ عادل فاروقی اور صحافی سعود ساحر کا انتقال ہوا۔ ہاکی ٹیم کے کپتان عبدالرشید جونیئر، اردو نثر نگارمسعود مفتی اللہ کو پیارے ہوئے۔سرائیکی دانشور و شاعر سردار صوفی تاج محمد خان گوپنگ، قاضی جاوید، سید اختر علی، صحافی ارشد چودھری، شاعرہ ڈاکٹر مینا نقوی نومبر کے مہینے میں اللہ کو پیاری ہوئیں،مفتی جمیل احمد نعیمی اللہ کو پیارے ہوئے۔ قاضی جاوید حسین،تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کا انتقال ہوا تدفین 21نومبر کو ہوئی، اخباری اطلا ع کے مطابق القاعدہ سربراہ این الظواہری افغانستان20 نومبر کو میں انتقال کر گئے۔سیاستداں انور عزیز، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی والدہ شمیم اختر 22نومبر کا لندن میں انتقال ہوا، تدفین لاہور میں جاتی امرا خاندانی قبرستا ن میں 28 نومبر کو عمل میں آئی ہوئی۔ ترقی پسند شاعر، ادیب اور دانشور اشفاق سلیم مرزا23نومبر کی صبح اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔سابق نیول چیف ایڈمرل ریٹائر ڈ فصیح بخاری 24نومبر کو انتقال کر گئے۔مسلم لیگ فنگشنل کے سینئر سیاست دان جام منگریو کورونا کے باعث انتقال کر گئے۔ ارجنٹائن کے لیجنڈفٹبال کے کھلاڑی ڈیگومیرڈونا 60برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما چوہدری احمد مختار اللہ کو پیارے ہوئے۔ ڈاکٹر ثمین خان اللہ کو پیارے ہوئے۔ صاحبزادہ فاروق علی، محسن فخری زادہ(ایرانی سانئسدان)، انجمن مبصرین پاکستان کے صدر ادبی و سماجی شخصیت زاہد جعفری اللہ کو پیارے ہوئے۔سابق وزیر اعظم ٖظفر اللہ جمالی دل کے عارضے کے باعث ۲دسمبر کو انتقال کر گئے، تدفین ان کی آبائی گاؤ ڈیرہ مراد جمالی میں عمل میں ہوئی۔ادیب، کہانی کار اور محقق ناقد پروفیسر مختار شمیم، کرنل ولی، شاہ جی عبد القدوس فائق، پروفیسر اقبال بخت دنیا چھوڑ گئے۔ یکم دسمبر متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر عادل صدیقی کورونا سے اللہ کو پیارے ہوئے، کالم نگار و دانشور عبدالقادر حسن نے لاہور میں داعی اجل کو البیک کہا۔جج ارشد ملک کورونا کے باعث ۴ دسمبر کو انتقال کر گئے۔ سندھ کے معروف ماہر تعلیم بختاور کیڈٹ کالج فار گرلز کے پرنسپل پروفیسر شیخ محمد یوسف 3دسمبر کو جہان فانی سے کوچ کر گے۔ بزرگ سیاست داں شیر باز مزاری ہفتہ 6دسمبر کو انتقال کر گئے تدفین بلوچستان کے علاقے روجھان مزاری میں ہوئی۔ جامعہ کراچی کے سابق رجسٹرار، سابق چیف ایکزیکیٹو ہمدرد یونیورسٹی، سٹی کیمپس، پروفیسر کرنل (ر) محمد ولی خان درانی، ملیر کینٹ میں تدفین ہوئی،معروف تاجر سراج قاسم تیلی، مذہبی شخصیت مفتی زر ولی خان کراچی میں انتقال کر گئے۔ صحافی عبد لقدوس فائق امریکہ میں انتقال رک گئے۔وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر سید اعجاز علی شاہ کورانا سے انتقال کر گئے، ناظم شاہ بھی داربقا کی طرف کوچ کر گئے۔فیڈرل سیکریٹری ڈاکٹر شفیق ندیم ملک، پاکستان نیوی کے عارف الحسینی، فیصل سے تعلق رکھنے والے قاضی محمد فضل رسول وحید، شاعر گستاخ بخاری (حکیم منیر شاہ)، عالم دین مفتی زر ولی خان، پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے دسمبر کے آخری دنوں میں دنیا کو الودع کہا۔ سینیٹر کلثوم پروین کی موت کورونا کے باعث ہوئی۔ نیب تحقیقات پر کنٹرلر جنرل اکانٹس خرم ہمایوں نے خود کشی کی۔ اس سال نوبیل انعام پانے والوں میں ادب کا انعام امریکی شاعرہ لوئس گلک جن کی عمر 77برس ہے، پیشہ کے اعتبار سے استاد ہیں وار امریکی یونیورسٹی میں انگریزی ادب پڑھاتی ہیں دیا گیا۔ انہیں طلائی تمغہ اور 11لاکھ 18ہزار امریکی ڈالر کی انعامی رقم بھی دی جائے گی۔ اقتصادیات کا نوبیل انعام مشترکہ طور پر 2امریکی ماہرین پال ملکروم اور رابرٹ ولسن کے دینے کا اعلان ہوا۔ 2020ء میں ایک عالمی تنظیم نے سروے کر کے رپورٹ دی کہ دنیا کے 10شہر ایسے ہیں جن میں ملازمین کوسب سے زیادہ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔خوش قسمتی سے پاکستان کا کوئی شہر اس فہرست میں شامل نہیں اول نمبر پر جاپان کا شہر ٹوکیو، دوسرے نمبر پر بھارت کا شہر ممبئی اور تیسرے نمبر پر جنوبی کوریا بتا یا گیا۔ سال 2020ء کئی اعتبار سے اچھا سال ثابت نہیں ہوا۔ کورونا نے معیشت پر بہت برے اثرات مرتب کیے، کورونا کے علاوہ ڈینگی نے بھی عوام کو نقصان پہنچایا، کتوں کے کاٹنے کے واقعات بھی بے شمار ہوئے، اخباری رپورٹ (جنگ) کے مطابق 2020، فرائض ادائیگی کے دوران 50میڈیا ورکرز قتل ہوئے، چین نے کہا کہ سی پیک پر اضافی گارنٹیا ں مانگنے کی خبر بے بنیاد ہے۔سال رواں میں بلوچستان میں مختلف واقعات میں 396افراد جاں بحق ہوئے، صرف کراچی میں 6پولس اہلکار شہید ہوئے،جب کہ دہشت گرد وں اور ڈکوؤں و اغوا کاروں سمیت 74ملزم مارے گئے۔ جاتے جاتے یعنی آخری دن مفتی منیب الرحمن جو کہ رویت ہلاک کمیٹی کے چیر ئ مین تھے کے لیے اس اعتبار سے اچھا ثابت نہیں ہوا کہ انہیں اس عہدے سے برطرف کر کے ان کی جگہ عبدالخبیر آزاد کو چیرئ مین کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا گیا۔ بلکہ پوری کمیٹی کی تشکیل نئے سرے سے کی گئی۔ نون لیگ کے رہنما خواجہ آصف کی گرفتاری کے باعث ملک میں خاص طور پر میڈیا پر ایک طوفان برپا ہوگیا۔ رواں سال نے سیاست میں ہلچل مچائے رکھی، حزب اختلاف نے عمران خان کی حکومت کو ایک پل چین نہیں لینے دیا۔ باوجود اس کے کہ کورونا اپنی جگہ تباہی مچارہا تھا لیکن پی ڈی ایم نے کوروں کی پروا نہیں کی اور اپنی سیاسی سرگرمیاں اسی طرح جاری رکھیں۔ پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں رواں سال اضافہ ہوا، ایک رپورٹ کے مطابق سال کے شروع کے ساتھ ماہ میں صرف پنجاب میں 2043واقعات سامنے آئے۔ ہمیں اپنے بچوں کے حوالے سے بہت احتیاط از خود کرنا ہوگی۔ حکومت پر یا متعلقہ اداروں پر انحصار نہیں کی کیا جاسکتا۔ اپنے بچوں کا از خود خیال کریں اور حفاظتی تدابیر اختیار کریں۔ اب نہیں معلوم کہ رخصت ہونے والا سال کس کے لیے اچھا اور کس کس کے لیے اچھا نہیں رہا، اللہ کے نظام کے تحت وقت کا دھارا اسی طرح بہتا رہے گا، ایک دن ختم ہوتاہے دوسرادن شروع ہوجاتاہے، اسی طرح دن، ماہ و سال آئیں گے اور جاتے رہیں گے، دنیا اسی طرح قائم و آباد رہے گی، شخصیات بھی انہی کی مانند اپنا اپنا کردار ادا کرکے رخصت ہوجائیں گی اور ہورہے ہیں۔ ہمیں اچھے کی امید رکھنی چاہیے اور اچھے کے لیے عملی جدوجہد بھی۔2020ء اب رخصت ہوا، ”جانے والے مسافر2020 تمہارا اللہ حافظ،تم جارہے ہو گو تم نے انسانوں کو بے انتہا دکھ اور تکلیف پہنچائی حتیٰ کہ تم نے اس سال لاکھوں کی تعداد میں انسانوں کو ہلاک کیا۔پھر تم دلوں کا میل، حسد و کینہ کی آگ،بری نظریں، گھٹن اور بدگمانی، آپس کی رنجشیں، کدورتیں، لڑائی جھگڑے،بد کلامی و بد گوئی سب تم اپنے ساتھ لیتے جانا، جہاں تم جاکر رہوگے نا وہیں ان کو بھی اپنے ساتھ ہی رکھنا، تم ہمیں تحفے تو بھیجو گے؟ 2021 ء کے ہاتھوں؟ محبت بے تحاشا سی، خلوص و گرم جوشی بھی، بے غرض ناطے، بہتر تعلق اور نرم سے دل جو سب کے لیے دھڑکتے ہوں بھجوادینا“۔کورونا بھی تمہارا دیا ہوا ایک تحفہ ہی ہے جو تم نئے سال نو کو منتقل کروگے۔ تم نے جس قدر انسانی جانوں کو ہلاک کرنا تھا کردیا۔ اب انسانوں پر رحم کرو۔ اپنی تمام تر باقیات کو اپنے ساتھ لیتے جانا۔آخر میں کورونا سے متاثر ہونے والے، ہلاک ہونے اورصحت یاب ہونے کے اعداد و شمار حسب ذیل ہیں: پاکستان میں کوروناکے مریضوں کے عداد و شمارفروری 2020ء تا دسمبر 2020ء :(یہ اعداد و شمار حکومت پاکستان کی ویب سائٹ سے لی گئی) کنفرم کیسیز کی تعداد: 31 دسمبر 2020۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 477,240 وفات۔۔۔۔۔۔۔۔ 31 دسمبر 2020۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔10,047 صحت یاب۔۔۔۔۔۔ 31 دسمبر 2020۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔430,113 پوری دنیا میں کوروناکے مریضوں کے عداد و شمارفروری 2020ء تا دسمبر 2020ء (یہ اعداد و شمار ویب سائٹ ورلڈ میٹر سے لی گئی) کنفرم کیسیز کی تعداد۔۔۔۔۔۔۔۔۔دسمبر 2020۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 82,929,449 وفات ۔31 دسمبر 2020۔۔۔۔۔ 31 دسمبر 2020۔۔۔۔۔۔۔۔۔1,809,000 صحت یاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 31 دسمبر 2020۔۔۔۔۔۔۔۔۔58,710,582 کورونا ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ اس کی دوسری لہر زیادہ خطر ناک کہی جارہی ہے، بلکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ نئی لہر یا قسم 15سال سے کم عمر کے بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ اس لیے اب پہلے سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ غیر ضروری گھر سے باہر نہ نکلیں، باہر جانے کی صورت میں ماکس لگائیں، چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں، ہاتھ نہ ملائیں، بغل گیر نہ ہوں، سینی ٹائیزر کا استعمال کریں، بار بار کم از کم بیس منٹ تک ہاتھ صابن سے دھوئیں۔ خود بھی احتیاط کریں دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔(یکم جنوری2021ء |