اسلام بمقابلہ سامراجی تہذیبیں

ایک امریکی یہودی دانشور ’’ شیرین ہنٹر ‘‘ نے اپنی کتاب ’’مغرب اور اسلام کا مستقبل ‘‘ میں لکھا ہے’’اسلام ایک ایسا نیا مثالی دشمن امیدوار ہے جو کمیونزم کے انہدام سے پیدا ہونے والے خلا کو پْر کرے گا۔ ‘‘ چنانچہ امریکی دانشو ر قوم کے لہو کو گرم رکھنے کے لئے اس کے کسی حریف اوردشمن کے وجود کو ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر میں یہ مفروضہ حریف اور متوقع مخالف اہل اسلام اور ان کی تہذیب ہے۔ امریکہ اور اس کے حلیف مغربی ممالک نے اس مفروضے پر عمل کرتے ہوئے اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ معاندانہ رویہ اپنا لیا ہے۔ مغربی تہذیب باقاعدہ منصوبہ بندی سے اسلامی تہذیب پر حملہ آور ہوچکی ہے یعنی اہل کفر (یہود ونصاریٰ و ہنود ) اسلام دشمنی میں متحد ہیں۔ یہودیوں نے مغرب کو اسلام کے پھیلتے ہوئے سائے اور بڑھتے ہوئے اثرو راسوخ اور قوت وکردار سے خوف زدہ کرکے انہیں اسلام کے مدمقابل لا کھڑا کیا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد ایک امریکی یہودی دانشور سیموئل ہن ٹنگ ٹن ( نے یہ تصور پیش کیا کہ’’اب امریکہ کے مقابلہ میں اس کا اشتراکی روس تو بطور سپر پاور باقی نہیں رہا اس لیے اب آئندہ مقابلہ اور تصادم عالم اسلام سے ناگزیر ہے۔ ‘‘ہن ٹنگ ٹن نے اپنی کتاب ’’ Civilization of Clash ‘‘میں لکھا ہے’’اگر دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی جائے تو تقریباً تمام کے تمام قدرتی و معدنی وسائل مسلم علاقوں میں پائے جاتے ہیں اس کا حل یہ ہے کہ یا تو ان کے ساتھ دوستی کر کے ان میں گھل مل جایا جائے یا پھر ان کے علاقوں پر قبضہ کر لیا جائے۔ ‘‘اکیسویں صدی میں دہشت گردی کی پشین گوئی کرتے ہوئے لکھتا ہے۔’’بہر حال یہ بات اپنی جگہ پر موجود ہے کہ بیسویں صدی ختم ہو رہی ہے اور اکیسویں صدی میں مسلمان دوسری تہذیبوں کے ساتھ دہشت گرد گروپوں کی شکل میں نبرد آزما ہوں گے۔ ‘‘ سوال یہ ہے کہ انہیں یہ کیسے علم ہوا کہ اکیسویں صدی میں اسلام و دوسری تہذیبوں کا آپس میں ٹکراؤ ہو گا ؟کیا ان کے پاس غیب کا علم تھاکہ انہوں نے یہ بات صدیوں پہلے جان لی تھی اور اسے لکھ کر محفوظ کر لی تھی؟ اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے خود اس کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی کہ اکیسویں صدی کے آغاز میں ہی دہشت گردی کی مختلف وارداتیں کروا کر اس کا الزام مسلمانوں کی مذہبی اور جہادی تنظیموں پر ڈال دیاجائے گا۔ یہ دنیا بھر میں دہشت گردانہ کاروائیاں اپنے زر خرید ایجنٹوں اور مہروں کے ذریعے کرواتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا ڈرامہ رچا کر فوراً اس کا الزام مسلمانوں پر ڈال دیا ۔اسلام امن و سلامتی کادین ہے۔ اسلم تسلم اگر سلامتی چاہتے ہوتو اس میں داخل ہو جاؤ۔ مشرق بعید انڈونیشیا، ملائیشیا وغیرہ میں تو کوئی مسلمان جنگجو تلوار لے کر نہیں گیا وہاں اسلام کیسے پہنچا؟ تقریبا تمام غیر مسلم ریاستوں میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے، وہاں اسلام کیسے پہنچا؟وہاں تو کوئی تلوار لیکر نہیں گیا۔ اب بھی مغرب (امریکہ و یورپ) میں اسلام تیزی سے پھیل رہاہے، لاکھو ں کی تعداد میں لوگ مسلمان ہو رہے ہیں ان کے پاس تو کوئی تلوار لے کر نہیں جاتا کہ اسلام قبول کرو ورنہ تمہاری گردن اڑا دی جائے گی۔

حضور نبی کریم ؐ اعلان نبوت کے بعد تیرہ سال تک مکہ مکرمہ میں رہے۔ بادشاہوں کا شعار ہے کہ جب وہ فاتحانہ انداز میں کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں کے عزت والے لوگوں کو ذلیل کر کے رکھ دیتے ہیں، قتل و غارت کرتے ہیں، املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں، لوٹ مار کرتے ہیں، نوجوان عورتوں کی آبرو ریزی کی جاتی ہے،عوام پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں، ان کے حقوق کو پامال کیا جاتا ہے مگر جب آنحضرت ؐ فاتحانہ انداز میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، دس ہزار جانبازوں کا لشکر ساتھ ہے، کوئی مد مقابل نہیں، سب گردنیں جھکائے کھڑے ہیں جن میں آپ ؐ کے بد ترین دشمن بھی تھے، کافر بھی تھے اور مشرک بھی، جنہوں نے آپ ؐ کو اپنے آبائی وطن سے نکالا تھا، آپ ؐ اور آپ ؐکے اہل خانہ اور صحابہ پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے تھے مگر اس وقت آپ ؐ نے کسی سے انتقام نہیں لیا، کسی سے یہ نہیں فرمایا کہ اسلام قبول کرو توتمہیں معاف کیاجائے گا ورنہ نہیں بلکہ آپ ؐنے یہ اعلان فرمایا کہ۔ ’’لا تثریب علیکم الیوم ‘‘جاؤ! آج تم سب آزاد ہو، تم پر کوئی گرفت نہیں۔ ‘‘بلکہ یہاں تک کہ اس وقت ایک صحابی نے یہ نعرہ لگایا کہ’’آج کادن انتقام کا دن ہے ‘‘مگر آپ ؐ نے اس کا ردکرتے ہوئے فرمایا۔’’ نہیں، آج کادن امن و سلامتی کا دن ہے۔ ‘‘دنیا کا کوئی لیڈر اپنے بد ترین دشمنوں کے ساتھ ایسے عظیم حسن سلوک کی کوئی ادنیٰ سی مثال تو پیش کرے۔خلفائے راشدین نے تقریباً آدھی دنیا پر حکمرانی کی جوبحیرہ عرب سے لے کر افریقہ، ایشیاء اور یورپ تک پھیلی ہوئی تھی اس عظیم دور میں کسی ایک غیر مسلم کی طرف سے کوئی ایک شکایت دائر نہیں کی گئی کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی یاان کے حقوق کو پامال کیا گیایاکسی مسلمان نے کسی غیرمسلم لڑکی پر بری نگاہ ڈالی ہو۔ ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ اس طویل عرصہ میں وسیع و عریض اسلامی سلطنت کے اندر اغواء گینگ ریپ(زنا بالجبر)، ظلم و زیادتی کا کوئی ایک کیس بھی نہیں ہوا۔
امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے ستمبر2006ئمیں تہذیبوں کی جنگ کا ایک نیا شوشہ چھوڑا جسے انہوں نے خود ہی عالمی بتاہی ے نام سے تعبیر کیا ۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں تہذیبوں کی جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جنگ کا آغاز مشرق وسطیٰ میں نیوکلیئرہتھیاروں سے لیس مذہبی قوتوں کی طرف سے ہوگا۔ ان کا اشارہ شاید ان مسلم قوتوں کی طرف تھا جو جہاد یا عسکریت کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور خطے میں مذہبی ریاست کا قیام چاہتی ہیں۔اسی طرح وال اسٹریٹ جنرل میں مارک اسٹن نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ کوئی اس قضیے پر یقین کرے نہ کرے لیکن یہ مسلمہ امر ہے کہ تمام دنیا میں فسادات کی اصل جڑ مذہب اسلام ہے، کیونکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی شدت پسند تحریکیں یا جارحانہ کاروائیاں ہو رہی ہیں ان میں اکثر مسلم جماعتیں یا گروہ ملوث ہیں۔ مارک اسٹن کی بات سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے مسلمانوں کو پھنسانے والا کون ہے؟ کس کی منشاء پر یہ مسائل الجھے ہوئے ہیں ؟ وہ کون جو مسلمانوں کے مسائل کے حل کی راہ میں روکاوٹ ہے؟کون منافقت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور مسلمانوں کے مسائل کوبجائے حل کرنے کے انہیں مزید الجھانا چاہتا ہے؟ یہ کتنی منافقت ہے کہ امریکا فلسطین، کشمیر، چیچنیا وغیرہ میں بین الاقوامی امن فوج لگانے کی مخالفت کرتا ہے اور نہ ہی وہاں غیر جانبدار امن فوج کی تعیناتی کے لیے آمادہ ہے ،کیا اس لیے کہ وہاں کی آبادی مسلمان ہے ؟یہ کہاں کا عدل اور انصاف ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں کی آبادی پر بم برسائے جائیں، آتش و آہن کی بارش کی جائے اور عیسائی آبادی کو مسلم ریاستوں کے خلاف بغاوت پر اکسایا جائے، باغیوں کو اسلحہ اور رقم فراہم کر کے مسلم ریاستوں کو توڑا جائے؟جیسے مشرقی تیمور میں ہوا اور اب جنوبی سوڈان میں ہوا ہے۔کون دنیا کے امن کو برباد کیے ہوئے ہیں ؟ کون دنیا میں قیام امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟کیا امریکا صہیونیت و طاغوتی قوتوں کی پشت پنائی نہیں کر رہا؟اسرائیل کا فتنہ کس نے پیدا کیا مشرقی وسطیٰ میں؟کیا امریکہ نے شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے اتحاد میں گذشتہ نصف صدی سے رخنہ نہیں ڈال رکھا؟ کیا امریکا تائیوان کے چین سے الحاق کے راستے میں حائل نہیں ہو رہا؟کیا امریکہ نے چین کے ساتھ اس کے جنوبی جزائر اور ساحلوں کا بجا معاملہ کھڑا نہیں کر رکھا؟جس نے مغرب سے اٹھ کر آ کر مشرق کے مسائل میں ٹانگ اڑا رکھی ہے ؟ اگر ان مسائل میں الجھ کر امریکا اور چین براہ راست ایک دوسرے سے متصادم ہو گئے یا شمالی کوریا اور امریکہ کا تصادم ہو گیا تو بات تیسری عالمی جنگ تک پہنچے گی۔ایٹمی تصادم ہو گا اور دنیاقیامت آنے سے پہلے ہی قیامت سے دو چار ہو جائے گی۔

 

Haji Latif Khokhar
About the Author: Haji Latif Khokhar Read More Articles by Haji Latif Khokhar: 141 Articles with 112977 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.