میں ڈیڑھ سال تک اندھیروں میں رہا۔۔۔حسن شہریار یاسین کی آپ بیتی

image
 
کہتے ہیں جو سفر میں تھک جاتا ہے اس کی منزل اتنی ہی دور ہوجاتی ہے ۔۔۔اور جو اپنے ہر قدم کو ایک نئی امید کے ساتھ اٹھاتا ہے اس کی منزل بھی اسے بہت جلد اور بہت شان سے ملتی ہے۔۔۔فیشن کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام ہیں حسن شہریار یاسین۔۔جو اب ڈرامہ انڈسٹری میں بھی قدم رکھ چکے ہیں۔۔۔ان کی زندگی میں ایسے کئی پل آئے جو آج کے نوجوانوں کے لئے ایک مثال ہیں۔۔۔ان کی آپ بیتی کچھ یوں ہے۔۔۔
 
میں دو سال کا تھا تو امی ابو میں علیحدگی ہوگئی۔۔۔مجھ سے بڑی ایک بہن بھی ہے جو اس وقت چھے سال کی تھی۔۔۔اس علیحدگی کے بعد میری ماں نے فیصلہ کیا کہ وہ مجھے تنہا ہی پروان چڑھائیں گی۔۔۔حالانکہ وہ چاہتیں تو اپنے میکہ سے با آسانی مدد لے سکتی تھیں لیکن پھر وہ ہماری تربیت میں بہت کچھ شامل نا کر پاتیں۔۔۔وہ بہت سخت حالات تھے۔۔۔ہم نیویارک چلے گئے تھے اور میری ماں دو سے تین نوکریاں کرتی تھیں تاکہ وہ ہم بہن بھائی کو پڑھا سکے اور ہماری اچھی دیکھ بھال کر سکے۔۔۔میں بہت چھوٹا تھا تو یہ سمجھ گیا کہ ہمیں گھر کو کیسے چلانا ہے۔۔۔ہمیں اپنی امی کا انتظار کرنا ہے اور امی جو کہہ کر جائیں اسے ماننا ہے۔۔۔
 
پڑھائی میں اتنا اچھا تھا کہ ہر وقت ڈرائنگ بنانے کے باوجود اپنی والدہ کے لئے فخر کا ہی باعث بنا۔۔۔چھٹی کلاس میں ہی تھا تو لائبرییری میں اسکول کے بعد کام کرنے لگا۔۔۔ایک دن اپنی ماں کو بتیس ڈالر کے ایک بروچ کے لئے آنکھوں میں خواب سجائے دیکھا۔۔۔سوچ لیا تھا کہ جیسے ہی بتیس ڈالر ملیں گے فوراً امی کو یہ تحفہ دوں گا۔۔۔میری ماں کے لئے وہ تحفہ دنیا کا حسین ترین تحفہ تھا کیونکہ وہ جان گئی تھیں کہ میرے بچے میری قربانیوں کو سمجھ رہے ہیں۔۔۔
 
image
 
ہمیں پاکستان واپس آنا پڑا اور یہاں آکر حالات کی ایک اور مشکل جنگ شروع ہوگئی۔۔۔میں نے مزدوری بھی کی، ٹیوشنز پڑھائیں، گھروں میں رنگ و روغن بھی کیا تاکہ اپنی تعلیم کا خرچہ اٹھا سکوں۔۔۔پھر وہ ہوا جس نے میری زندگی کو پلٹ دیا۔۔۔میں سترہ سال کا تھا اور دوستوں کے ساتھ گاڑی میں کھانا لا رہا تھا کہ ہماری گاڑی کا ایکسیڈینٹ ہوگیا۔۔۔میرے چہرے پر ساڑھے تین سو ٹانکے تھے اور میری دونوں آنکھوں کی بینائی جا چکی تھی۔۔۔ڈیڑھ سال تک میں نے اندھیرے سے جنگ لڑی۔۔۔اور اس اندھیرے نے مجھے ایک نئی دنیا سے ملوایا۔۔۔آرٹ کی حقیقی دنیا سے۔۔۔مجھے یوں بھی رنگ اور سجاوٹ پسند تھی۔۔۔پھر جو پہلا رنگ بینائی واپس آنے کے بعد آیا وہ لال رنگ تھا۔۔۔مجھے اس لال رنگ سے عشق ہے۔۔۔
 
پھر وقت آیا جب مجھے فیشن اسکول میں داخلہ لینا تھا۔۔۔پیسے نہیں تھے لیکن عزم تھا۔۔۔دن رات محنت کی اور ساتھ ساتھ پڑھائی۔۔۔جہاں میرے دوست کھانے آتے تھے میں وہاں کے کام کرتا تھا۔۔۔بہت ہی کامیابی سے یہ سفر بھی طے کیا اور جب نوکری تلاش کرنے نکلا تو بڑے بڑے ڈیزائنرز نے مجھے رکھنے سے منع کردیا۔۔۔میں نے سوچ لیا کہ اب مجھے خود ایک برانڈ بننا ہوگا۔۔۔میں نے جیب میں رکھے ستائیس سو کو دیکھا اور اسی سے بزنس شروع کرنے کا عزم کیا۔۔سلائی مشین کے پیڈل خریدے اور ایک ماسٹر صاحب کو سات ہزار مہینہ تنخواہ بول کر گھر لے آیا۔۔۔ان سے کہا کہ دو ماہ تک آپ کے پیسے مجھ پر ادھار ہیں۔۔۔گھر کے سارے پردے امی کی اجازت سے کاٹ ڈالے۔۔۔ڈیزائن بنائے اور چار سے پانچ پیس ریڈی ہوئے۔۔۔اس کی فوٹو شوٹ کروانے کا سوچا تو ماڈل نہیں تھی۔۔۔میری بہن کی دوست تھی جو نئی نئی ماڈل بنی تھی وینیزہ احمد۔۔۔وہ آگئی۔۔۔اپنی پرانی دوست کو فون کیا جو ماڈل بننا چاہتی تھی ایمان علی۔۔۔
 
 
image
 
سفر یوں شروع ہوا کہ پلٹ کر دیکھ نا پایا۔۔۔ایک انتھک محنت کا طوفان تھا جس میں ، میں بہتا چلا گیا اور پھر جو خواب دیکھا وہ سچ کر دکھایا۔۔۔میں ایک برانڈ بن ہی گیا۔۔۔
YOU MAY ALSO LIKE: