حضرت علی کی شخصیت

حضرت علی المرتضیٰ شیرخدا ؓ

تحریر: شبیر ابن عادل
چو تھے خلیفہ راشد، حضور اکرم ﷺ کے داماد اور باب العلم حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے اسلام پر بہت سے احسانات ہیں اور قیامت تک امت انہیں محبت اور احترام سے یاد کرتی رہے گی۔
ابن سعد کا بیان ہے کہ حضرت علی ؓ کی ولادت عام الفیل کے قریباً تیس برس بعد (چھٹی صدی عیسوی) رجب کی بارہ راتوں کے گزرنے کے بعد ہوئی۔بعض روایات کے موجب آپؓکی پیدائش بعثت نبوی سے چاریا پانچ سال پیشتر بیت اللہ میں ہوئی۔

حضور ؐ نے اپنے دست مبارک سے حضرت علی ؓ کے منہ میں اپنا لعاب دہن بطور گھٹی ڈالا اور علی نام بھی خود ہی تجویز فرمایا۔ جبکہ آپؓکی والدہ ماجدہ نے ان کا نام حیدر تجویز کیا تھا اور والد نے زید رکھا تھا۔ ابوالحسن اور ابو تراب کنیت تھی۔ مرتضیٰ اور شیر خدا لقب ہیں۔ عام طورپر جناب امیر پکارے جاتے ہیں۔

ان کے والدحضرت ابو طالب بن عبدالمطلب وہ نیک دل انسان تھے،جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی بچپن سے نگہداشت اور تربیت کی اور بعثت کے بعد آپؐ کا بھرپور ساتھ دیا۔
حضرت علیؓکی والدہ حضرت فاطمہ بن اسدکے متعلق سرکار دوعالم ﷺ نے فرمایا کہ میں ابوطالب کے بعد سب سے زیادہ ان کا احسان مندہوں۔ جنہوں نے ماں کی شفقت کے ساتھ حضور ؐ کی پرورش کی اور ساری عمر انتہائی محبت سے پیش آتی رہیں۔ ایمان لے آئی تھیں اور مرتے دم تک نہایت خلوص و عقیدت سے آپؐ پر فدا رہیں۔

حضرت ابوطالب چونکہ کثیر العیال اور معاشی تنگی کا شکار تھے، اس لئے حضرت علی ؓ کی کفالت حضور ؐ نے اپنے ذمہ لے لی اور آخر تک دربار نبوت ؐ سے وابستہ رہے۔ ابتدائی عمر سے ہی حضورؐ سے از حد زیادہ محبت کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؓ کی زندگی، اعمال تعلیمات بے مثال ہیں۔ انہیں اسد اللہ اور غالب کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ابوالحسن ؓ اور ابو تراب ؓ کنیت ہے۔
حضرت علی ؓ کی عمرنویا دس سال کی تھی، جب حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کو شرف نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ آپؐ کی دعوت حق پر حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے بعد حضرت علی ؓ ایمان لائے۔

ایک روز حضرت علیؓ، جن کی عمر اُس وقت آٹھ سال تھی، حضور ؐ کے گھر تشریف لائے۔ وہ چھپ کر اپنی اہلیہ حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت علی ؓ نے نئی بات دیکھی تو دریافت کیا کہ یہ کیا ہے؟ حضور ؐ نے فرمایا:
"یہ وہ دین ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے پسند کیا ہے اور جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر بھیجے ہیں۔ میں تمھیں بھی اسی اللہ کی طرف بلاتا ہوں، جو تنہا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور لات و عزیٰ بتوں کو کفر جاننے کے لئے کہتا ہوں "۔
یہ سن کر حضرت علیؓ نے عرض کیا:
"یہ ایک نئی بات ہے، جس کے بارے میں، میں نے آج سے پہلے کہیں کچھ نہیں سنا۔ اسلئے میں اپنے بارے ابھی کچھ طے نہیں کرسکتا۔ ذرا اپنے والد (ابو طالب) سے مشورہ کرلوں "۔
حضورؐ نہیں چاہتے تھے کہ آپؐ کا راز خود اعلان کرنے سے پہلے فاش ہوجائے۔ اسلئے آپؐ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا:
"علیؓ ۔۔۔۔ اگر تم مسلمان نہیں ہوتے تو بھی اس بات کو ابھی چھپائے رکھو"۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے اس بات کا کسی سے ذکر نہیں کیا۔ بلکہ اسی کے بارے میں سوچتے سوچتے رات گزار دی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کو روشنی سے منور کردیا۔ وہ صبح ہی حضور اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کلمہ توحید پڑھ لیا۔
حضرت خدیجہ ؓ کے بعد حضرت علی ؓ سب سے پہلے ایمان لائے اور (مردوں میں) پہلے شخص ہیں، جس نے نماز پڑھی۔ زید بن ارقم سے روایت ہے کہ سب سے پہلے ایمان لانے والے علی ؓ تھے۔
حضرت حسن بن زید ؓ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے کبھی بھی بتوں کی پرستش نہیں کی کیونکہ ا ن کی عمر کم تھی۔ابن اسحق نے بیان کیا کہ بعض اہل علم بیان کرتے ہیں کہ جب نماز کا وقت آتا رسول اللہ ﷺ مکہ کی کسی گھاٹی میں جاکر عبادت کرتے اور آپؐکے ساتھ علی ؓ بھی چھپ کر جاتے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نمازیں پڑھتے اور شام کو واپس آتے۔
ایک دفعہ رسول اللہﷺ حضرت علی ؓ کے ساتھ کسی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے۔ اتفاق سے آپ ؐ کے چچا حضرت ابوطالب وہاں تشریف لے آئے۔ ان کے اس انوکھے طریقہ عبادت پر انہیں حیرت ہوئی اور انہوں نے پوچھا کہ یہ کون سا دین ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ ہمارے دادا حضرت ابراہیم ؑ کا یہی دین تھا۔ ابو طالب نے کہا کہ میں اسے اختیار تو نہیں کرسکتا، لیکن تم کو اجازت ہے اور کوئی شخص تمھاری مخالفت نہیں کرسکے گا۔ ابوطالب نے اپنے بیٹے علی ؓ سے دریافت کیا کہ بیٹے، یہ کیا مذہب ہے، جس پر تم چل رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اباجان، میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان لاچکا ہوں اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عبادت کرتا ہوں اور ان کی پییروی کرتا ہوں۔ اس کے جواب میں ابوطالب نے کہا کہ وہ تم کو اچھی بات ہی کی طرف بلاتے ہیں، لہذا اس پر قائم رہو۔

رسو ل اللہ ﷺ نے بعثت کے بعد تین برس تک رازداری کے ساتھ اسلام کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعوتِ عام کا حکم آیا۔ آپؐ نے حضرت علیؓ سے کہا کہ دعوت کا سامان کرو۔ چنانچہ پورے خاندان بنو ہاشم کو جمع کیا گیا۔ کھانے کے بعدرسول اللہ ﷺ نے اسلام کی دعوت دی اور کہا کہ اس کام میں کون میرا ساتھ دے گا؟ "یہ سن کر پوری محفل میں سناٹا طاری ہوگیا۔ حضرت علی ؓ نے، جن کی عمر اس وقت نو سال کے قریب تھی، کھڑے ہوکر فرمایا کہ اگرچہ مجھے آشوب چشم ہے، میری ٹانگیں پتلی ہیں اور میں سب سے کم عمر ہوں۔ مگر میں آپ کا ساتھ دوں گا"۔ قریش نے اس موقع پر بھی آپؐ کا مذاق اڑایا۔

مکہ مکرمہ میں نبوت کے 13 ویں سال جب سرکار ﷺ نے ہجرت فرمائی تو حضرت علی ؓ کو، جن کی عمر اس وقت22 سال تھی، اپنے بستر پر لٹایا اور ہدایت کی کہ لوگوں کی امانتیں واپس کرکے مدینہ تشریف لے آئیں۔
مدینہ منورہ میں جب حضور ؐ نے مہاجرین اور انصار میں مواخات کرائی تو حضرت علیؓ روتے ہوئے حضورؐ کے پاس آئے اور کہا کہ آپؐ نے ہر ایک میں مواخات قائم کرادی، لیکن میں رہ گیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم میرے بھائی ہو۔

ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں سن دو ہجری میں حضور ؐ نے ان کا نکاح اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ الزہرا ؓ سے کرایا۔ اور ان سے فرمایا کہ میں نے اپنے خاندان کے سب سے افضل انسان سے تمہارا نکاح کیا ہے۔

سوائے ایک جنگ تبوک کے آپؓ نے حضور اکرم ﷺ کے ہمراہ تقریباً ساری جنگوں میں نہ صرف شرکت کی بلکہ عام طور پر آپؓ ہی کی ذات اسلام کی علمبردار رہی اور جنگوں میں آپؓ کی حربی مہارت اور شجاعت کے جوہر یادگار ہیں۔
غزوہ بدر میں آپؓ نے بڑی شجاعت کا مظاہرہ کیا، اس روز آپؓ نے مبارزت طلب کی اور اس میں غالب آئے۔ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کے بقول غزوہ بد ر کے روز رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو پرچم دیا تھا۔ بدر کے روز آسمان میں منادی نے جسے رضوان کہا جاتا ہے اعلان کیا کہ ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں اور حضرت علی ؓ کے سوا کوئی جوان نہیں، ابن عساکر کا بیان ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بدر کے روز ذوالفقار غنیمت میں حاصل کی پھر اسے حضرت علی ؓ کو دے دیا (تاریخ ابن کثیر)۔
غزوہ احد میں حضرت علی ؓ میمنہ کے سردار تھے۔ اس روز حضرت علی ؓ نے شدید جنگ کی اور مشرکین کے بہت سے جوانوں کو قتل کیا، لڑائی کے دوران ان کے جسم مبارک پر سولہ زخم آئے تھے۔ اور نبی کریم ﷺ کے چہرے سے اس وقت خون دھویا جب آپؐ کا چہرہئ انور زخمی ہوا، آپؐ کے سامنے کے چاردانتوں اور کچلیوں کے درمیان والا دانت ٹوٹ گیا۔
آپؓ غزوہ خندق میں بھی شامل ہوئے، اس روز آپؓ نے عربوں کے شہسوار اور ان کے مشہور شجاع عمرو بن عبدود العامری کو قتل کیا۔ حضر ت علی ؓ حدیبیہ اور بیت رضوان میں بھی شریک تھے۔
غزوہ خیبر میں حضرت علیؓ نے شاندا رکارنامے انجام دیئے۔ نبی اکرم ﷺ نے جھنڈا آپؓ ہی کے ہاتھ میں دیا تھا اور پہلے سے فرما دیا تھا کہ خیبر کو آپ ؓ ہی فتح کریں گے(صحیح بخاری)۔آپؓ نے یہودی پہلوان مرحب کو قتل کیا تھا۔ اس کے علاوہ غزوہ خیبر میں حضرت علی ؓ نے یہودیوں کے بہت سے شہسواروں اور ان کے بہادرون کو قتل کیا۔
حضرت علیؓ عمرۃ القضا میں بھی شامل ہوئے اور اسی عمرے میں نبی کریم ﷺ نے آپؓ سے فرمایا کہ انت منی، وانا منک یعنی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔
حضرت علی ؓ نے فتح مکہ اور جنگ حنین اور طائف میں بھی شمولیت کی اور ان معرکوں میں اپنی بہادری کے جوہر دکھائے۔ اور جعرانہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ عمرہ کیا۔
غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنگ میں شرکت سے روک دیا اور اہل بیت کی حفاظت ونگرانی کے لیے مدینہ ہی میں رہنے کا حکم دیا تو اس کا آپ کو بہت قلق ہوااور آپؓ نے حضو ر ؐ سے عرض کی کہ کیا آپ ؐ مجھے عورتوں اور بچوں پر نائب مقرر کررہے ہیں؟ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر ان کے اعزاز کو بلند کیا کہ ”علی تم اسے پسند نہیں کرتے کہ میرے نزدیک تمہارا وہ مقام اور درجہ ہو جو ہارون ؑکا موسیٰ ؑ کے نزدیک تھا مگر میر ے بعد کوئی نبی نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کو یمن کا امیر اور حاکم بنا کر بھیجا اور حضرت خالد بن ولید ؓ بھی آپ کے ساتھ تھے۔
سن 9 ہجری میں حج فرض ہونے کے بعد جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو امیر حج بنا کر مکہ مکرمہ بھیجا تو چند روز بعد سورہئ برأت یا سورہئ توبہ کی آیات کے ساتھ حضرت علی ؓ کواہل مکہ کی طرف بھیجاکہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرسکے گا اور نہ برہنہ ہوکر بیت اللہ کا طواف کرے گا اور جنت میں صرف مومن ہی داخل ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے بعد میں فرمایا کہ جبرئیل ؑ میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ اس اعلان کو آپ ؐ خود کریں گے یا آپؐ کے گھر کا کوئی آدمی کرے گا۔ چنانچہ حضرت علی ؓ نے یوم نحر اور ایام تشریق میں منیٰ کے میدان میں سورہئ برأت کی مذکورہ آیات کی تلاوت فرمائی اور اعلان فرما دیا کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا۔
میں مشرکین کے خلاف آیات اور ان کے مطابق آئندہ سال سے کافروں کے حج پر پابند ی لگانے کا اعلان کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ ہی کو بھیجا تھا، کیونکہ عرب دستور کے مطابق حکمران کی طرف سے اس طرح کے اہم اعلان کوئی خونی رشتے دار ہی کرسکتا تھا۔
پھر حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ آملے اور اپنے ساتھ قربانی کے جانور بھی لائے۔
جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوگئے تو حضرت عباس ؓ نے آپ ؓ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھو کہ آپؐ کے بعد امارت کس کے لئے ہوگی؟ آپ ؓ نے کہا کہ خدا کی قسم میں آپ ؐ سے کبھی نہیں پوچھوں گا، اگر آپؐ نے ہمیں امارت سے روک دیا تو لوگ آپؐ کے بعد ہمیں کبھی امارت نہیں دیں گے۔ البتہ صحیح احادیث صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے نہ توحضرت علی ؓ او ر نہ کسی اور کو خلافت کی وصیت کی، بلکہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو بہت اصرار سے اپنی بیماری کے ایام میں نماز کی امامت کراکے اس جانب واضح اشارہ کردیا تھا۔

رسول اللہ ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد حضرت علی ؓ بھی ان کی تغسیل و تکفین کرنے والوں میں شامل تھے اورتدفین کا بھی انتظام کیا۔
اس کے بعد حضرت علی ؓ نے پہلے خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے بیعت کی اور حضرت ابوبکر ؓ کی وفات کے بعدحضرت عمر فاروق اعظم ؓ خلیفہ بنے تو حضرت علی ؓ ان کی بیعت کرنے والوں میں شامل تھے اور آپ ؓ مختلف کاموں میں امیرالمومنین حضرت عمر ؓ کومشورے دیا کرتے تھے اور انہوں نے حضر ت علی ؓ کوقاضی مقرر کیا او ر آپ ؓ دیگر صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ خلیفہ ئ وقت حضرت عمر ؓ کے ہمراہ شام آئے اور آپؓ کے خطبہ جابیہ میں شامل ہوئے۔ پھر جب حضرت عمر ؓ قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے تو انہوں نے امارت کو چھ رکنی شوریٰ کے سپرد کیا، جن میں حضرت علی ؓ بھی شامل تھے۔جب ان چھ میں سے حضرت عثمان غنی ؓ کو خلیفہ چن لیا گیا تو حضرت علی ؓ نے سمع وطاعت کی۔

خلیفہ سوئم حضرت عثمان غنی ؓ کی دردناک شہادت کے ایک ہفتے بعد 25 ذی الحجہ سن 35 ہجری کو حضرت علی بن ابی طالبؓ کے ہاتھوں پر مدینہ منورہ میں بیعت عام ہوئی۔ کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے مدینہ منورہ کے بجائے کوفہ کو دارالخلافہ بنایا۔ ان کی خلافت کا پورا عرصہ خانہ جنگیوں اور بغاوتوں کو کچلنے میں گزرا۔

خارجیوں کی سازش کے تحت عبدالرحمن ابن ملجم کوفہ آیا اور اپنے ساتھ دو افراد شبیب بن شجرہ اور وردان کو ملایا۔ 16 رمضان سن 40 ہجری کوابن ملجم ملعون اور اس کے دوساتھی رات کے آخری پہرجامع مسجد کوفہ آئے دروازے کے قریب چھپ کربیٹھ گئے۔ حضرت علی ؓ حسب عادت لوگوں کو نماز کے لئے آوازیں دیتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے۔ سب سے پہلے وردان نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا مگر اس کی تلوار دروازے کی چوکھٹ یا دیوار پر پڑی اور علی ؓ آگے بڑھ گئے۔ ابن ملجم نے فوراً لپک کر آپؓ کی پیشانی پر تلوار کا ہاتھ مارا جو بہت کاری پڑا۔ علیؓ نے زخم کھا کرحکم دیا کہ ان کو پکڑو۔ لوگ نماز کے لئے مسجد میں آچکے تھے۔ یہ حکم سنتے ہی دوڑ پڑے، وردان اور شبیب دونوں مسجد سے نکل بھاگے مگر ابن ملجم مسجد سے باہر نہ نکل سکا۔ وہ مسجد ہی کے ایک گوشہ میں چھپا اور گرفتار کرلیا گیا۔ شبیب کو ایک شخص حضری نے پکڑا مگر وہ چھوٹ کر بھاگ گیا او ر ہاتھ نہ آیا۔ وردان بھاگکر اپنے گھر کے قریب پہنچ چکا تھا کہ لوگوں نے جالیا اور وہیں اسے واصل جہنم کیا۔ ابن ملجم گرفتار ہوکر مولا علیؓ کے روبرو پیش کیا گیا۔ آپؓ نے حکم دیا کہ اگر میں اس زخم سے مرجاؤں تو تم بھی اس کو قتل کردینا اور اگر میں اچھا ہوگیا تو خود جو مناسب ہوگا کروں گا۔ پھر آپ ؓ نے بنو عبدالمطلب کو وصیت کی کہ میرے قتل کو مسلمانوں کی خونریزی کا بہانہ نہ بنانا۔ صرف اسی ایک شخص کو جو میرا قاتل ہے، قصاص میں قتل کردینا، پھر حضرت علی ؓص نے اپنے بیٹے حضرت حسن ؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے حسن ص اگر اس زخم کے صدمے سے میں مرجاؤں تو تم بھی اس کی تلوار سے ایسا ہی وار کرنا کہ اس کاکام تمام ہوجائے اورمثلہ ہرگز نہ کرنا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔
ابن ملجم کی تلوار کا زخم حضرت علی ص کی کنپٹی تک پہنچا تھا اور تلوار کی دھار دماغ تک اتر گئی تھی مگر آپؓ جمعہ کے روز حیات رہے۔ جمعہ کے روز17 رمضان المبارک سن 40 ہجری کو آپؓ نے وفات پائی۔رمضان کے سترہ روزے ہوچکے تھے۔ شہادت کے وقت آپ ؓ کی عمر تریسٹھ (63 ) سال تھی۔ آپؓ کی خلافت کی مدت چار سال نوماہ ہے، آپؓ کے جنازے کی نماز آپؓ کے صاحبزادے حضرت حسن ؓ نے پڑھائی، کوفے کے دارالامارہ میں سپرد خاک کیا گیا، کیونکہ خوارج سے خوف تھا کہ کہیں آپؓ کے جسدِ مبارک کو کھود کر نکال نہ لیں۔ (البدایہ والنہایہ، ج 7 ، ص 330 ، علامہ ابن کثیر)
آپ ؓ میانہ قد، مائل بہ پستی تھے۔ دوہرا بدن، سرکے بال کسی قدر اڑے ہوئے، باقی تمام جسم پر بال اور لمبی گھنی داڑھی، گندم گوں تھے۔

حضرت علی المرتضیٰ ؓ کا پہلا نکاح حضور اکرم ﷺ کی صاحبزادی بی بی فاطمہ ؓ سے ہوا۔ جن سے دو صاحبزادے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ پیدا ہوئے، اور کہا جاتا ہے کہ ایک صاحبزادے حضرت محسن ؓتھے، جو صغیر سنی میں فوت ہوگئے۔ صاحبزادیوں میں حضرت زینب الکبریٰ ؓ اور حضرت ام کلثوم ؓ تھیں، ام کلثوم ؓ سے حضرت عمر فاروق اعظم ؓ نے نکاح کیا تھا۔
حضرت فاطمہ ؓ کی وفات کے بعد آپؓ نے مختلف اوقات میں آٹھ نکاح کئے۔ ان کی دیگر ازواج میں حضرت ام البنین ؓبنت حزام، حضرت لیلیٰؓ بنت مسعود ؓ، حضرت اسماء ؓ بنت عمیسؓ، حضرت امامہ ؓ بنت ابی العاصؓ، حضرت خولہ ؓ بنت جعفرؓ، حضرت صہباؓ بنت ربیعہ ؓ، حضرت ام سعید ؓ بنت عروہ ؓ اور حضرت محیاۃ بنت امراء القیسؓ شامل تھیں۔ ساری ازواج سے چودہ (14 ) بیٹے اور سترہ (17 ) بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ نرینہ اولادوں میں حضرت عباس علمدار، حضرت جعفر، حضرت عبداللہ، حضرت عثمان، حضرت عبید اللہ، حضرت ابوبکر،حضرت محمد اصغر، حضرت یحییٰ،حضرت عمر، حضرت محمد اوسب، حضرت محمد اکبر جو محمد بن حنفیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔حضرت علی ؓ نے اپنی ساری زندگی نہایت سادگی اور پاکیزگی سے بسر کی۔ لباس میں بھی اکثر پیوند لگے ہوتے تھے۔ گھر میں کئی کئی دن چولہا جلنے کی نوبت نہیں آتی تھی۔ اہل بیت ہونے کے باوجود کبھی مراعات طلب نہیں کیں۔ اور خلیفتہ المسلمین بننے پر بھی بیت المال سے ایک پیسہ تک نہ لیا۔ تنگی اور عسرت کی زندگی میں بھی آپؓ نہایت خوش خلق، خوش مزاج اور مرنجاں مرنج رہے۔ ان کی گفتار میں مزاح، کردار میں پاکیزگی تھی جس پر اہل آسمان بھی رشک کرتے تھے۔آپؓ خوشی کے عالم میں بھی کبھی کھلکھلا کر نہین ہنسے بلکہ تبسم کناں ہی دیکھے گئے۔ گھریلو سودا سلف خود خریدنے جاتے اور زندگی بھر آپؓ نے اپنے ہاتھ کی کمائی کرکے کھایا اور کھلایا۔ آپؓ کے در سے کبھی کوئی سوالی خالی ہاتھ واپس نہیں ہوا۔ بڑے سے بڑے سیاہ کار دشمن کو انتہائی خندہ پیشانی سے معاف کردیتے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے پیار، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور نفرت بھی اسی کی رضا کے لئے رکھی۔
انہیں اپنی کنیت ابوتراب ؓ بہت پسند تھی، جب کوئی اس کنیت سے انہیں پکارتا تو بہت خوش ہوتے تھے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک روز آپ ؓ گھر سے حضرت فاطمہ ؓ سے کسی بات پر ناراض ہوکر مسجد میں آئے اور وہیں پڑکر سورہے۔ نبی کریم ﷺ کو جب معلوم ہوا تو آپؐ مسجد تشریف لائے اور علی ؓ کو اٹھایا تو ان کے جسم سے مٹی پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ ابو تراب (مٹی کے باپ) اٹھو (صحیح بخاری)۔
shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 128256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.