حرام اور مشتبہ امور سے اجتناب کا حکم - احادیث مبارکہ کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

احادیث مبارکہ کے پورے ذخیرے میں چند حدیثیں ایسی ہیں جنہیں امت کے علماء اور فقہاء کرام نے نہایت اہم اور اصولی سمجھا ہے ،ان ہی میں سے ایک حدیث حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہسے صحیح مسلم شریف میں منقول ہے جو حلال وحرام اور مشتبہات کے احکام سے تعلق رکھتی ہے ۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہفرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا:"حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے"یہ پہلا جملہ ہے،اور اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو وہ ہیں جن کا حلال ہونا سب کو معلوم ہے،اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا حرام ہونا سب کو معلوم ہے، حلال جیسے نیک کام،اچھی گفتگو،حلال ذرائع سے کمایاہوامال وغیرہ اور حرام جیسے کفرہے،شرک ہے،مردارہے،جھوٹ ہے،سود کھانا،غیبت کرنا،چغل خوری کرنا،شراب پینا،کسی کا مال چھین لینا ،کسی کے حق پر قبضہ کرلینا وغیرہ ۔تو ان میں سے حلال چیزوں کو انسان اختیار کرنے والا بنے اورحرام سے دوررہے۔حلال پر قناعت کرنے سے ،حلال کو اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ برکت بھی دیتے ہیں اور نیک اعمال کی توفیق بھی عطافرماتے ہیں، حلال غذا کا عمل صالح میں بڑا دخل ہے، جب انسان کی غذا حلال ہوتی ہے تو نیک اعمال کی توفیق اسے خود بخود ہونے لگتی ہے اور جب غذا ہی حرام ہو تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اس راہ مشکلات حائل ہو جاتی ہیں اور آدمی نیکی سے محروم ہوجاتاہے۔

ترمذی شریف کی ایک حدیث میں آتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیاجو طویل سفر کرتا ہے، پریشان حال ہے، اور اس کے بال خاک آلود ہو رہے ہیں وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے:اے میرے رب!اے میرے پروردگار!یعنی دعاکے لیے ہاتھ اٹھاکر پکاررہاہوتاہے ،اس کی ظاہری حالت سے مسکنت عیاں ہے، ایسی حالت میں اس کی دعاقبول ہونی چاہیے،اور احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ مسافرکی دعا رد بھی نہیں ہوتی، اس سب کچھ کے باوجودآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:اس کا حال یہ ہوتاہے کہ روٹی اس کی حرام ، کپڑے اس کے حرام، اور جسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہوا۔ اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو! " ۔ ایک روایت میںہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے گزارش کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ میرے حق میں دعاکیجیے کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو قبول فرمایاکرے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:سعد !پاکیزہ چیزیں کھاؤ،حلال لقمہ کھایاکرو،اللہ تعالیٰ تمہاری دعائیں قبول فرماتارہے گا۔حضرت ابراہیم بن ادہم رحمتہ ﷲ علیہ بڑے بزرگ گزرے ہیں ، وہ فرمایاکرتے تھے :اپنے کھانے پینے کو حلال رکھو،جب اس چیز کا اہتمام کروگے تو پھر زیادہ نفلی روزے نہ رکھ پاؤ یا دن میں زیادہ نوافل نہ پڑھ سکو تو کوئی حرج نہیں۔یعنی اصل یہ ہے کہ انسان کھانے پینے میں حرام سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے،کثرت عبادت نہ بھی ہوسکے کم ازکم حلال پر قناعت اور اکتفاء کا تواہتمام ہوناچاہیے۔

مشکوۃ شریف میں سیدناحضرت عبداللہ بن عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت منقول ہے،وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ :کہ اگر ئی شخص ایک کپڑا دس درہم میں خریدے اور ان دس دراہم میں سے ایک درہم بھی حرام مال کا ہو تواللہ تعالیٰ اس وقت تک اس شخص کی نماز نہیں قبول کرے گا جب تک کہ آدمی کے جسم پر وہ کپڑا ہوگا ۔ اس حدیث کے بیان کرنے کے بعد حضرت عبداللہ ابن عمرr نے اپنی شہادت کی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈالیں اور کہا کہ یہ دونوں کان بہرے ہو جائیں اگر میں نے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہ سنا ہو۔

اس روایت میں اگلا جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایاکہ:حلالوحرام کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں، جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے ،پس جوشخص شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا،اپنے آپ کو محفوظ رکھا اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا اور جو شبہ ڈالنے والی چیزوں میں پڑ گیا تو وہ حرام میں پڑ گیا ۔یعنی کتنی ہی چیزیں ہیں جن کے حلال ہونے کی دلیلیں بھی ہیں اور حرام ہونے کی بھی،تو اس صورت میں کوئی واضح فیصلہ کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی،تو عام شخص کے بارے میں شریعت کی تعلیم یہی ہے کہ ایسی مشتبہ چیزوں سے انسان اپنے آپ کو بچائے،مشتبہ چیزوں سے بھی احترازاور اجتناب کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بخاری شریف کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راستے سے گزررہے تھے وہاں آپ نےایک کھجورکادانہ پڑاہوادیکھا،توارشاد فرمایاکہ اگر مجھے اس کھجور کے بارے میں صدقہ کاخوف نہ ہوتاتو میں اسے کھالیتا۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کے شبہ کی وجہ سے وہ کھجور نہیں کھائی،باوجودیکہ آپ کو ضرورت تھی ۔اسی لیے ضرورت کے مواقع پربھی انسان اپنے آپ کومشتبہ سے بچالے یہ کمالِ احتیاط ہے۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بخاری شریف میں آتاہے کہ ان کے ایک غلام نے کھانے کی کوئی چیز ان کی خدمت میں پیش کی، آپ نے اس چیز میں سے کچھ کھالیا،اس کے بعد غلام نے بتایاکہ مجھے یہ چیز اس طرح حاصل ہوئی تھی کہ اسلام کے دور سے پہلے جاہلیت کے دور میں ایک آدمی کو میں نے اپنے آپ کو کاہن ظاہرکرکے کچھ بتلایاتھا۔جیسے نجومی کاہن لوگ ہوتے ہیں لوگوں کو مستقبل کے احوال وغیرہ بتلاتے رہتے ہیں،شریعت نے ان چیزوں سے سخت منع کیاہے ایسے لوگوں کے پاس جانابھی جائز نہیں چہ جائیکہ ان سے مستقبل کے احوال پوچھے جائیں یا ان پر یقین کیاجائے، شریعت میں اس کی سخت ممانعت ہے۔بہرحال!غلام نے کہاکہ اس کہانت کے بدلہ میں اس شخص نے مجھے یہ چیز دی تھی جو میں نے آپ کو کھانے کے لیے دی ،صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہواتو انہوں نے فوراً حلق میں انگلی ڈال کرقے کردی ۔کہ یہ چیزتو مشتبہ ہوگئی ۔دیکھیے !یہ لاعلمی میں جو کھالیایہ حرام نہیں تھا،مگریہ ان حضرات کا تقویٰ تھا کہ جیسے ہی اشتباہ پیداہوگیا تو انہوں نے فوراً اپنے پیٹ سے اس چیزکو نکال دیا۔

پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوا وہ حرام میں مبتلا ہو گیا اور اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چراتا ہے اور ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چراگاہ میں گھس کر چرنے لگیں ۔اس حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جان لو کہ ہر بادشاہ کا ایک ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے،اس کی اپنی حدود ہوتی ہیں،جس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی ، اور جو داخل ہوجائے وہ مجرم سمجھا جاتاہے ، سزا کا مستحق بنتا ہے ،اس کی گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ممنوعہ علاقہ اور حدود حرام چیزیں ہیں کہ جن میں مبتلا ہونا لوگوں کے لئے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے ،لہذا جو کوئی اس ممنوعہ علاقہ میں داخل ہوگا یعنی حرام چیزوں کا ارتکاب کرے گا وہ عذاب کا مستحق قرار دیا جائے گا اور پھر ان حرام چیزوں میں بھی بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کے مرتکب کی بخشش ہی نہیں ہو گی جیسے شرک اور کچھ گناہ اور جرائم ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہیں کہ چاہے ان کے مرتکب کو اللہ تعالیٰ بخشے چاہے نہ بخشے البتہ سچے دل کے ساتھ توبہ استغفار سے ہر چیز بخشی جائے گی۔حدیث مبارکہ کے آخر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اس بات کو بھی ملحوظ رکھو !کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست حالت میں رہتا ہے یعنی جب وہ ایمان و عرفان اور یقین کے نور سے منور رہتا ہے تو اعمال خیر اور حسن اخلاق واحوال کی وجہ سے پورا جسم درست حالت میں رہتا ہے اور جب اس ٹکڑے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے یاد رکھو گوشت کا وہ ٹکڑا دل ہے۔

علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں اخیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کا ذکر کیاہے،اور حدیث کی ابتداء میں حلال وحرام اور مشتبہات کا ذکر ہے،اس ترتیب سے معلوم یہ ہوتاہے کہ دل کی صفائی اور پاکی کے لیے یہ لازم ہے کہ انسان حلال پر اکتفاءکرنے والا بنے۔حرام سے بھی اور مشتبہ چیزوں سے بھی اپنے آپ کو دور رکھے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حلال پر قناعت نصیب فرمائے اور حرام اور مشتبہ چیزوں سے ہمیں محفوظ فرمائے۔
 

Ghulam Mustafa
About the Author: Ghulam Mustafa Read More Articles by Ghulam Mustafa: 15 Articles with 19660 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.