حضرت اویس قرنی کا سفرِ آخرت

پیارے دوستوں! شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب کہا :
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقيروں کی
نہيں ملتا يہ گوہر بادشاہوں کے خزينوں ميں
کہا جاتا ہے کہ اللہ پاک اپنے نیک بندوں کو عام لوگوں میں پوشیدہ رکھتا ہے ان کی گمنامی ان کے بلندیٔ درجات کا سبب ہوتی ہے ،حدیث پاک میں فرمایا گیا: بہت سے پراگندہ بالوں والے میلے کچیلے کپڑوں والے جو کسی بڑے گھر تک نہیں پہنچ سکتے اللہ کے ہاں اتنے بڑے مرتبہ والے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر کوئی قسم کھائیں تو اللہ تعالیٰ اسے بھی پوری فرما دے ۔(سنن ترمذی:3854)
حضرت اویس قرنی بھی ایسے ہی افراد کے سرخیل تھے ،اس حوالے سے یہ ایمان افروز واقعہ ملاحظہ کریں!
ایک عارف باللہ کہتے ہیں کہ ہم عراق سے مکہ مکرمہ اوررسول اللہ ﷺ کے شہر مدینہ منورہ کے لیے نکلے،ہمارے قافلے میں بہت سے لوگ تھے ہم عراق سے نکلے تو ایک عراقی شخص بھی ہمارے ساتھ چل پڑا،اس کا گندمی رنگ کثرتِ عبادت کی وجہ سے زرد ہو چُکا تھا، اس نے پیوند زدہ ایک پرانا لباس پہنا ہوا تھااس کے ہاتھ میں عصا تھا اور ایک تھیلی تھی جس میں کچھ توشہ تھا، وہ شخص عابد وزاہد حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے قافلے والوں نے انہیں اجنبی جانتے ہوۓ کہا: ہمارا گمان ہے کہ تم ایک غلام ہو۔حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:ہاں !میں ایک غلام ہوں۔انہوں نے کہا :ہمارا گمان ہے کہ تم ایک بُرے غلام ہو اورتم اپنے آقا کے پاس سے بھاگ کر جا رہے ہو ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہاں!انہو ں نے کہا :جب تم اپنے آقا کو چھوڑکر بھاگے تھے اس وقت تمہاری کیا حالت تھی اور اب تمہاری کیاحالت ہے؟ اگر تم اپنے آقا کے پاس ہی ٹہرے رہتےتو تمہاری یہ حالت نہیں ہوتی ا ور بے شک تم ایک بُرے اور کوتاہی کرنے والے غلام ہو۔ تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا : اللہ کی قسم ! بلا شبہ میں گنہگار غلام ہوں ،میرا آقا بہت ہی اچھا ہے اور کوتاہی میری ہی ہے اگر میں اس کی اطاعت کرتا اور اسکی خوشنودی چاہتا تو میری یہ حالت نہیں ہوتی یہ کہہ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے اور اتنا روئے کہ قریب تھا کہ آپ کا انتقال ہو جاتا ،لوگو ں کوا ن پر بہت تر س آیا ، وہ لوگ آقا سے دنیوی آقا مراد لے رہے تھے حالانکہ ان کی آقا سے مراد اللہ رب العزّت کی ذات تھی ۔ قافلے والوں میں سے ایک نے کہا : ڈرو مت !میں تمہارے لئے تمہارے آقا سے اَمان لے لوں گا ، تم اس کی طرف لوٹ جاؤ اورتوبہ کر لو۔ تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں اس کی طرف لو ٹتا ہوں اور جو اس کے پاس ہے میں اس کی رغبت رکھتا ہوں۔ حضرت اویس قرنی رسول اللہ ﷺکے روضۂ انور کی زیارت کے لیے نکلے تھے اورچونکہ قافلے نے بھی اسی دن کوچ کیا تھا اس لیے آپ اس میں شامل ہوگئے تھے ،قافلہ تیزی سے سفر کررہا تھا رات اس قافلے نے ایک بیابان میں پڑاؤڈالا ،وہ رات انتہائی سرد اور با ر ش والی تھی۔ وہ بزرگ فرماتے ہیں کہ قافلے والو ں میں سے ہر شخص نے اپنے کجاوے اور خیمے میں پناہ لی،حضرت اویس قرنی کے پاس خیمہ وغیرہ نہیں تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سردی سے بچاؤ کے لیے کسی سےکوئی شے نہیں مانگی کیونکہ آپ نے اپنے نفس سے عہد کرر کھا تھا کہ کوئی دنیاوی چیز بھی کسی مخلوق سے طلب نہیں کریں گےوہ اپنی حاجات میں اللہ ہی سے سوال کیا کرتے تھے ۔اس رات آپ کو سخت سردی لگی یہا ں تک کہ شدیدسردی کی وجہ سے آپ کے اعضا ءکانپنے لگے ، سردی آپ پر غالب آگئی اور رات کے درمیانی حصّے میں آپ کاانتقال ہوگیا۔ جب صبح ہوئی اورقافلے والوں نے کُوچ کا ارادہ کیا تو آپ کو پکار ا : اے شخص اٹھو، لوگ کو چ کر رہے ہیں ،آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو ایک شخص آپ کے قریب آیا ، اس نے آپ کو جھنجوڑا تو دیکھا کہ آپ کا انتقال ہو چکا ہے ،اس شخص نے قافلے والوں کو پکار کر کہا: قافلے والو!وہ غلام جو اپنے آقا سے بھاگا ہوا تھا اس کا انتقال ہوگیا ہے اورہمیں اسے دفن کئے بغیر سفرنہیں کرنا چاہیے ۔قافلے والوں نے کہا:اس کے کفن دفن کی صورت کیسے ہوگی ؟قافلے میں موجود ایک نیک شخص نے کہا :یہ غلام توبہ کرچکا تھا ، اپنے آقا کی طرف لوٹنے کا ارادہ رکھتا تھا اوریہ اپنے کئے پر نادم تھا اور ہمیں امید ہے کہ اللہ عزوجل اس کے ذریعے ہمیں نفع پہنچا ئے گا کیونکہ اسکی تو بہ قبول ہوچکی ہے اوراگرہم اسے دفن کئے بغیر چل پڑے تو کہیں ہم سے اس کے بارے میں سوال نہ کیا جائے، تمہارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کے لئے قبر کھود نے اور اسے اس قبر میں دفن کرنے تک صبر کرو لوگوں نے کہا : اس جگہ پانی موجود نہیں ہے۔ ایک نے کہا:کسی جاننے والے سے پوچھ لو چنانچہ لوگو ں نے ایک شخص سے پوچھا تواس نے بتایا کہ پانی یہاں سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ملے گا تم میرے ساتھ کسی آدمی کو بھیج دو میں تمہیں پانی لادوں گا۔اس شخص نے قافلے والوں میں سے ایک کو اپنے ساتھ لیا، ڈول اٹھایا اور دونوں پانی لینے چل پڑے،ابھی وہ کچھ دیر ہی چلے تھے کہ سامنے پانی کی ایک چھوٹی نہر نظر آئی اس نے کہا: بڑا عجیب معاملہ ہے میں نے پہلے کبھی اس نہر کو نہیں دیکھا یہ تو وہ جگہ ہے جہاں پانی ملتاہی نہیں اور نہ ہی کسی قریبی جگہ میں پانی ملتاہے۔بہرحال وہ شخص قافلے کی طرف لوٹ آیا اور قافلے والوں سے کہنے لگا: تمہاری مشقت ٹل گئی لکڑیا ں جمع کرو۔تو انہوں نے پانی گرم کرنے کے لئے لکڑیاں جمع کرلیں پھر جب پانی لینے کے لئے نہر پرآئے تودیکھا کہ نہر کا پانی گرم تھا ، ان کے تعجب میں مزیداضافہ ہو ا۔یہ معاملہ دیکھ کر شرکائے قافلہ حضرتِ اویس قرنی سے مرعوب گئے اور کہنے لگے:بے شک یہ شخص بڑی عظمت والا ہے۔ پھر ان لوگو ں نے آپ کے لئے قبر کھودنا شروع کی تو مٹی کو جھاگ سے زیادہ نرم پایا او رزمین میں سے خوشبو آرہی تھی ۔قافلے والوں نے دنیا میں اس سے زیادہ پاکیزہ خوشبو نہ سونگھی تھی ۔ ان کے دلوں میں حضرت اویس قرنی کا رعب و وقار بڑھ گیا ،آپ کی قبر کی مٹی دیکھنے میں عام مٹی کی طرح تھی لیکن سونگھنے پراُس میں سے مشک کی خوشبو آرہی تھی ، ان لوگوں نے آپ کے لئے ایک خیمہ نصب کیااور آپ کے جسم کو اس میں منتقل کر دیا اور آپ کے کفن کے معاملے میں بحث کرنے لگے ایک شخص نے کہا کہ انہیں کفن میں دوں گا۔دوسرے نے کہا:میں دوں گا ۔ پھر جب ان سب کی رائے اس بات پر متفق ہو ئی ہر شخص کفن کے لئے ایک ایک کپڑا دے پھران لوگوں نے کاغذ اور قلم لیا اور آپ کا حلیہ اور صفات لکھنے لگے اور آپس میں کہنے لگے: ان شاء اللہ ہم مدینے پہنچیں گے توشاید وہاں ہمیں ان کاکوئی نہ کوئی جاننے والامل جائے گا۔ پھر ان لوگو ں نے اس پرچے کو اپنے سامان میں رکھ لیا۔جب انہوں نے حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسل دے دیا اور کفن پہنا نے کے لئے آپ کے لباس کو اُتارناچاہا تو آپ کو جنّتی کفن میں لپٹاہواپایا۔ دیکھنے والوں نے کبھی ایسا کفن نہ دیکھا تھا اُس کفن پر مشک وعنبر لگا ہوا تھا جس کی خوشبو نے فضاکومعطر کر دیاتھا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشانی اور قدموں پر مشک لگی ہوئی تھی۔یہ دیکھ کر لوگ کہنے لگے :لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلیّ العظیم ۔ یعنی : گناہ سے بچنے کی توفیق اور نیکی کرنے کی طاقت اللہ ہی دیتاہے جو بلندو بالا اورعظمت والا ہے۔اللہ نے انہیں کفن پہنا دیا اوربندوں کے کفن سے بے نیاز کردیا، ہم اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے اس نیک بندے کے صدقے ہمیں جنت عطا فرمائے گا اور ہم پر رحم فرمائے گا۔ قافلے والوں کو حضرت اویس قرنی کو اس سخت سرد رات میں تنہا چھوڑدینے پر سخت ندامت تھی ، ان لوگو ں نے آپ کو دفن کرنے کے لئے اٹھایا اور نماز جنازہ ادا کرنے کے لئے ایک ہموار جگہ پر رکھا۔ جب ان لوگوں نے تکبیر کہی تو آسمان سے زمین تک مشرق سے مغرب تک تکبیر کہنے کی آواز یں سنائی دیں تو ان کے کلیجے دہل گئے اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ اپنے کانوں سے سنی جانے والی آوازوں سے مرعوب ہونے اورشدید گھبراہٹ کی وجہ سے یہ نہ سمجھ پائے کہ نماز جنازہ کس طر ح ادا کی جائے ۔پھر جب انہیں قبر کی طرف لے جانے کا ارادہ کیاتو اٹھاتے وقت انہیں یوں محسوس ہوا کہ حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسم کسی اور مخلوق نے اٹھارکھاہے اور آپ کاوزن کندھوں پر بالکل محسوس نہیں ہوا۔ آپ کو دفن کرنے کے لئے قبر کی طرف لائے اور آپ کو دفنا دیا۔ قافلے والے حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی کے بارے میں حیران وپریشان تھے اسی حالت میں انہوں نے سفر شروع کیا واپس پلٹ کر لوٹے تو کوفہ کی مسجد میں آئے اور لوگو ں کو آپ کا واقعہ سنا یا اور وہاں حلیہ بیان کیاتو حلیہ بیان کرنے پر لوگوں نے آپ کو پہچان لیا، مسجد میں رونے کی آوازیں بلند ہوئیں اور اگر آپ کے وصال کے بعد آپ کی کرامات ظاہر نہ ہوتیں تو حضرتِ سیِّدُنا اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتقال کی خبرکسی کو نہ ہوتی اور نہ ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےقبر انور کا علم ہو پاتا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگو ں سے پوشیدہ رہاکرتے تھے۔(بحرالدموع :ص:۳۹)
ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب فرمایا :
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہو تو ديکھ ان کو
يد بيضا ليے بيٹھے ہيں اپنی آستينوں ميں
اللہ پاک ہمیں حضرت اویس قرنی کے فیوض وبرکات سے مالامال فرمائے۔
 

Imran Attari Abu Hamza
About the Author: Imran Attari Abu Hamza Read More Articles by Imran Attari Abu Hamza: 51 Articles with 52817 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.