حج
(shabbir Ibne Adil, karachi)
حج
تحریر: شبیر ابن عادل
اے اللہ، میں حاضر ہوں تیرے حضور حاضر ہوں، حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں تیرے حضور حاضر ہوں ساری حمد وستائش کا تو ہی مستحق ہے اور ساری نعمتیں تیری ہی ہیں اور ساری کائنات میں فرماں روائی بھی بس تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔ فضا میں گونجتے اس تلبیہ کو سن کر ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ حج ہے ہی وجد اور اپنے ربّ کے لئے دیوانگی کا نام اور اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں، جن کو یہ عظیم اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔ اہلِ ایمان ہر سال ذی الحج کے مہینے میں دنیا کے کونے کونے سے ارضِ مقدس آتے ہیں، مختلف رنگ ونسل اور مختلف زبانیں بولنے والے ایک ہی لباس میں اور ایک ہی دھن میں نظر آتے ہیں، کسی طرح اپنے ربّ کی رضا حاصل کرلیں۔ اُن میں جو لوگ اپنے آپ یعنی اپنی انا اور اپنی خواہشات سے باہر نکل آتے ہیں، وہ عشقِ الٰہی کی دولت سے مالامال ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ایک شان یہ ہے کہ وہ ذوالجلال والجبروت، احکم الحاکمین اور شہنشاہ کل ہے اور ہم اُس کے عاجز و محتاج بندے اور مملوک ومحکوم ہیں۔ اور دوسری شان اس کی یہ ہے کہ اس میں وہ تمام صفات بھرپور انداز میں موجود ہیں، جس کی وجہ سے انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے اور اس لحاظ سے صرف وہی محبوبِ حقیقی ہے۔ اس کی پہلی حاکمانہ اور شاہانہ شان کا تقاضا یہ ہے کہ بندے اس کے حضور میں ادب ونیاز کی تصویر بن کر حاضر ہوں۔ ارکانِ اسلام کے پہلے عملی رکن نماز میں یہی رنگ غالب ہوتا ہے۔ زکوٰۃ بھی اسی نسبت کے ایک دوسرے رخ کو ظاہرکرتی ہے۔ اس کی دوسری شان محبوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ بندوں کا اس کے ساتھ تعلق محبت اور والہیت کا ہو۔ روزے میں بھی کسی قدر یہ رنگ ہے، کھانا پینا چھوڑ دینا اور نفسانی خواہشات سے منہ موڑ لینا عشق ومحبت کی منزلوں میں سے ہے۔ مگر حج اس کا پورا پورا مرقع ہے۔ سلے کپڑوں کے بجائے ایک کفن نما لباس پہن لینا، ننگے سر رہنا، حجامت نہ بنوانا، ناخن نہ ترشوانا، بالوں میں کنگھا نہ کرنا، تیل نہ لگانا، خوشبو کا استعمال نہ کرنا، میل کچیل سے جسم کی صفائی نہ کرنا۔ چیخ چیخ کر لبیک پکارنا، بیت اللہ کے گرد چکر لگانا، اس کے ایک گوشے میں لگے سیاہ پتھریعنی حجر اسود کو چومنا، اور اس کے درودیوار سے لپٹنا اور آہ وزاری کرنا،پھر صفا ومروہ کے پھیرے کرنا، پھر مکہ مکرمہ سے باہر نکل جانااور منیٰ اور کبھی عرفات اور کبھی مزدلفہ کے صحراؤں میں جاپڑنا، پھر جمرات پہ بار بار کنکریاں مارنا، یہ سارے عمل وہی ہیں جو محبت کے دیوانوں سے سرزد ہوا کرتے ہیں، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام گویا اس رسم عاشقی کے بانی ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اُن کی یہ ادائیں اتنی پسند آئیں کہ اپنے دربار کی خاص الخاص حاضری حج وعمرہ کے ارکان ومناسک ان کو قرار دے دیا۔ انہی سب کے مجموعے کا نام گویا حج ہے، اور یہ اسلام کا آخری تکمیلی رکن ہے۔ حج سن 9 ہجری میں فرض ہوا، اُس سال حضور ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجااور اسکے اگلے سال رسول اکرم ﷺ نے سن 10 ہجری میں یعنی اپنے دنیا سے بظاہر پردہ فرمانے سے صرف تین ماہ قبل اپنے صحابہئ کرام کی بڑی تعداد کے ساتھ حج فرمایا، جو حجتہ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔ اسی حجتہ الوداع میں عرفات کے میدان میں آقا ﷺ پر سورہئ مائدہ کی وہ آیت نازل ہوئی، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کردیا۔ اگر بندے کو صحیح اور مخلصانہ حج نصیب ہوجائے جس کو دین و شریعت کی زبان میں حج مبرور کہتے ہیں اور ابراہیمی و محمدیؐ نسبت کا کوئی ذرہ اس کو عطا ہوجائے تو گویا اس کو سعادت کا اعلٰی مقام حاصل ہوگیا اور وہ نعمتِ عظمیٰ اس کے ہاتھ آگئی، جس سے بڑی کسی نعمت کا اس دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ حج کے نتیجے میں اپنے ربّ سے والہانہ محبت اور اس کے ہر حکم کے آگے سرتسلیم خم کردینا کا جذبہ پیدا ہوجائے تو ایسے شخص کو دنیا وآخرت میں کامیابی ہی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ یہی حج کا مقصد ہے اور یہی مطلوب۔
|