اسلام محبت سے پھیلا، نفرت سے نہیں

دین نفرت سے نہیں، محبت سے پھیلا

تحریر: شبیر ابن عادل

تاریخ عالم شاہد ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے اپنی دعوت کو پھیلانے اور لوگوں کو حق اور سلامتی کے راستے کی جانب بلانے کے لئے نفرت، انتقام اور تشددسے نہیں، بلکہ محبت، حلم، عفو اور درگذر سے کام لیا۔ آپ پوری حیات طیبہ کا مطالعہ کرتے چلے جائیے، کہیں کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی نہیں ملے گا، جہاں دعوت دین میں تشدد، عدم برداشت اورنفرت سے کام لیا گیا ہو۔ مکی زندگی میں مشرکینِ مکہ نے آپﷺ کے ساتھ جو سلوک کیا، اس پر زمین وآسمان کانپ اٹھتے ہیں۔آپؐ کی شان میں قریش کی گستاخیاں، مارنے کی دھمکی، راستے میں کانٹے بچھائے گئے، جسم اطہر پر نجاستیں ڈالی گئیں، گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا گیا۔ کسی بھی شخص کو جب سرعام جھٹلایا جائے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔ ایک صاحب جنہوں نے حضور ؐ کو ذی المجاز کے بازار میں اسلام کی دعوت دیتے ہوئے دیکھا تھا، بیان کرتے ہیں، حضور ؐ فرمارہے تھے کہ لوگو لا الہ الا اللہ کہو تو نجات پاؤ گے۔ پیچھے پیچھے ابوجہل تھا، وہ آپؐ پر خاک اڑا اڑا کر کہہ رہاتھا، لوگو ! اس شخص کی باتیں تم کو اپنے مذہب سے برگشتہ نہ کردیں، یہ چاہتا ہے کہ تم اپنے دیوتاؤں لات اور عزیٰ کو چھوڑ دو۔ راوی کہتا ہے کہ حضورؐ اس کی طرف مڑ کر دیکھتے بھی نہ تھے۔ (مسند احمد جلد ۴، ص ۳۶)
دشمنوں سے انتقام کا سب سے بڑا موقع فتح مکہ کا دن تھا، لیکن رحمت عالمﷺ نے یہ کہہ کر سب کو چھوڑ دیا کہ تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔غزوہ احد میں کفار نے آپؐ پر پتھر اور تیر برسائے، تلواریں چلائیں، دندان مبارک کو شہید کیا، جبین اقدس کو خون آلود کیا، لیکن آپؐ نے اس کے جواب میں کہا کہ اے اللہ، ان کو معاف کرنا، یہ نادان ہیں۔
طائف کا واقعہ تو ہم سب کو یاد ہی ہے کہ ہادی برحق ﷺ کی دعوت اسلام کا جواب اہلِ طائف نے نہ صرف یہ کہ مذاق و استہزا سے دیا، بلکہ پتھراؤ کرکرکے پائے مبارک لہولہان کردئیے تھے۔ اس موقع پر رحمت الہٰی جوش میں آئی اور حضرت جبرئیل ؑ کے ہمراہ پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا، جس نے دریافت کیا کہ حکم ہوتو ان دونوں پہاڑوں کو باہم ملا دیا جائے، جس کے نتیجہ میں طائف پس کر رہ جاتا، مگر ہمارے آقاﷺ کا جواب تاریخ کا حصہ بن گیا، ارشاد ہوا کہ نہیں، شاید ان کی نسل سے کوئی ہدایت پاجائے۔ دس بارہ برس بعد غزوہ حنین کے موقع پر اسی طائف کے لوگ اہلِ ایمان کے لشکر پر تیروں اور نیزوں کی بارش کررہے تھے، جاں نثاروں کی لاشوں پر لاشیں گررہی تھیں، صحابہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ ﷺ، ان کے لئے بد دعا کیجئے، آپؐ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر بارگاہ ِ خداوندی میں عرض کی کہ اے اللہ اہل طائف کو اسلام نصیب کراور ان کو دوست بنا کر مدینے لا۔ چنانچہ تھوڑے عرصے میں ان کی دعا قبول ہوئی اور اہل طائف نے مدینے آکر حضورﷺ کے دستِ حق پرست پر اسلام قبول کیا۔
مدنی دور میں یہودی قبائل اور منافقین کی سازشیں اور شان ِ رسالت ﷺ میں گستاخیاں اور اس نوع کے واقعات سیرت کی کتب اور احادیث میں ملتے ہیں۔ سرکار دوعالمﷺ نے بڑی حکمت کے ساتھ ہر قسم کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا خاتمہ کیا۔ مگر اس کمال کے ساتھ کہ اسلام کے دامن پر نفرت، تشدد اور انتقام کے چھینٹے نہیں آئے۔ عام مسلمانوں کو یہی حکم تھا کہ دین کی دعوت محبت کے ساتھ پھیلائیں اور نبی آخرالزماں ﷺ بہت حکمت کے ساتھ صورتحال کو مسلمانوں کے حق میں موافق کرتے رہے۔
دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے احترام کا درس دیاگیا، ان کو اور ان کے دیوتاؤں سے نفرت کرنے، انہیں تشدد سے مٹانے کی تعلیم نہ تو دی گئی اور نہ اس پر عمل کیا گیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ شام فتح ہونے کے بعد حضرت امیر معاویہ ؓ کو اس کا گورنر بنایا گیا تو وہاں مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی فضا قائم کی گئی۔ جہاں عیسائی بڑی تعداد میں آباد تھے۔
اسی طرح بعد کے زمانوں میں آئمہ اربعہ کے ماننے والوں کے درمیان فقہی اختلافات کبھی بھی نفرت اور خونریزی کا سبب نہیں بن سکے۔ نہ جانے کیوں بعد کے زمانوں میں فروعی اختلافات نفرت کا سبب کیوں بنے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مختلف مسالک کے ماننے والے اپنے اپنے عقائد پر پورے خشوع وخضوع کے ساتھ عمل کرکے اپنی دنیاو آخرت سنوارنے پر توجہ دیتے۔ کیوں کہ گمراہی کے اس دور میں دین پر عمل کرنے والے ہی آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور پھر اتنی قلیل تعداد کا آپس میں لڑنا مرنا اور ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن جانا۔ اسی بنیاد پر خونریزی، فائرنگ اور بم دھماکے اور زیرو ٹالرنس کے مظاہرے۔ ایک دوسرے کو اتنی تیزی سے کافر قرار دینا کہ اگر ان کے فتوؤں کو مان لیا جائے تو نعوذباللہ دنیا کے سارے مسلمان ہی کافر وں کی فہرست میں نظر آئیں۔
اب بھی کچھ نہیں بگڑا، اپنے اپنے مسالک پر کاربند رہتے ہوئے بے عمل مسلمان بھائیوں کو عمل کی دعوت دیں اور اپنا پورا زور مخالف فرقوں کو کافر قرار دینے یا ان کے قتل عام کے بجائے عمل پر لگادیں۔ یعنی خالق کائنات کی پورے خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت، اذکار، نوافل اور روزے اور دیگر عبادات۔ خلق خدا (خاص طور پراپنے قریبی رشتے داروں، دوستوں، ساتھیوں اور مسلمان بھائیوں) کی مدد کرنے پر توجہ دیں، چاہے وہ مالی مدد ہو یا اپنا وقت لگا کر متاثرہ فرد کے ساتھ جاکر اس کی مشکل آسان کرنا ہو۔ یہ نہ سوچیں کہ میرے کرنے سے کیا ہوگا، یاد رکھیں کہ ایک ایک فرد سے مل کر معاشرہ بنتا ہے۔
اولیائے کرام نے اپنی دعوت محبت اور شفقت سے پھیلائی، یہی وجہ تھی کہ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر نوے لاکھ سے زائد افراد نے اسلام قبول کیا تھا، جن کی درگاہ سے ہزاروں بھوکوں کو کھانا اور کپڑا ملتا تھا۔ اس وقت تفصیل میں جانے کا موقع نہیں، تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ تحریر پورے خلوص اور ملت اسلامیہ کے اتحاد کے جذبے کی خاطر لکھی گئی ہے:
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات

shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 111140 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.