میرے اللہ

میرے اللہ

(تحریر: شبیر ابن عادل)

برفپوش پہاڑ، حسین وادیاں، خوبصورت جنگل، آبشار، جھرنے، اچھلتے کودتے اور پتھروں سے ٹکراتے بل کھاتے دریا، چمکیلی ریت والے ساحل، شوریدہ سر اور بپھرے ہوئے سمندر، رنگ برنگ کے خوبصورت اور خوشبو بکھیرتے پھول، مزیدار پھل، چرند پرند اور حیوانات۔ یہ اور اس کے علاوہ تاحد نگاہ پھیلا ہوا نیلا آسمان، سورج، چاند اور ستارے اور لامتناہی کائنات۔ ان سب کا خالق ایک ہی ہے یعنی اللہ عزوجل، خدائے ذوالجلال والاکرام اور۔۔۔۔۔ اور اس کے بہت سے نام ہیں۔
رب کائنات ہی کے حکم سے بارش برستی ہے، جس سے مردہ زمین ایک بار پھر جی اٹھتی ہے اور ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اللہ پاک موت کے بعد اس طرح دوبارہ زندہ کرے گا۔
کائنات کی ہر چیز کا مالک ہمارا رب ہے، جس نے مردوں کو زندگی بخشی اور زندوں کو موت اور جو ہم سب کا رازق ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اتنی نعمتیں ہیں کہ ان کا شمار ممکن ہی نہیں اور اس کی اتنی کرم نوازیاں، احسانات اور بخششیں ہیں کہ عقل ان کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ کیونکہ عقل تو محدود ہے نا، اور رب العزت اور رب ذوالجلال والاکرام کی نعمتیں اور صناعیاں لامحدود۔ ہمارے اللہ کی اتنی باتیں ہیں کہ اگرتمام سمندر روشنائی بنادیئے جائیں اور تمام درختوں کو کاٹ کر ان کے قلم۔ اور تمام انسانوں اور ملائکہ کو رب کی باتیں لکھنے پر لگا دیا جائے تو تمام سمندروں کی روشنائی خشک ہوجائے گی، مگر ہمارے رب کی باتیں ختم نہ ہوں گی۔
وہی صحیح معنوں میں خالق، مصور اور باری ہے۔ کیونکہ اس کی ہر تخلیق منفرد، شاندار اور بے مثال ہے۔ آپ اگر کائنات کی ہر ہر شے پر غور کریں تو حیرت زدہ رہ جائیں گے۔ کیونکہ ہر شے میں پورا جہان آباد ہے:
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
اگر رب کی تخلیق اور اس کی نعمتوں کی تھوڑی سی تفصیل بیان کی جائے تو ایک کتا ب بھی کم پڑجائے گی۔ اسی لئے قرآن پاک میں کئی جگہ غور وفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ جتنا زیادہ ہم غور وفکر کرتے جائیں گے اور اس کی نعمتوں کو شمار کرتے جائیں گے اور اس کی تخلیقات میں صناعی کے حیرت انگیز پہلوؤں کو دیکھتے جائیں گے، اتنی ہی زیادہ ہماری جبینِ نیاز جھکتی جائے گی۔ اور اپنے رب کی شکر گذاری ہمارے دلوں میں اترتی چلی جائے گی۔ حتیٰ کہ تھوڑے ہی عرصے میں اس کا عشق ہمارے رگ وپے میں بستا چلا جائے گا۔
ذرا آسمان کی طرف نگاہ تو اٹھائیے، اس میں آپ کو کہیں کوئی سقم، کوئی خرابی یا کہیں کوئی سلوٹ تک نظر آتی ہے؟ دوبارہ آسمان کی طرف نگاہ دوڑائیں، آپ کی نگاہ تھکی ماندی واپس آجائے گی۔ مگر رب کی تخلیق میں کہیں خامی نظر نہیں آئے گی۔
ذرا اس سورج پر نگاہ ڈالیں، جو ہزاروں سال سے زمین کو دھوپ کی نعمت بخش رہا ہے۔ جس کی بدولت زندگی کا تسلسل قائم ہے۔ اگر سور ج نہ ہوتا تو زندگی کا تصور محال تھا۔
اسی طرح چاند اور ستارے۔ کائنات کی لامحدودیت کی علامت ہیں۔ جن کے درمیانی فاصلے لاکھوں نوری سال کے برابر ہیں اور اتنی سائنسی ترقی کے باوجود انسان اپنے نظام شمسی کے کسی ایک سیارے تک نہیں پہنچ سکا۔ جبکہ کائنات میں ہمارے سورج سے بہت بڑے ستارے اور ان کے سیارے ہیں۔ بہت سے ستارے مل کر ایک کہکشاں بناتے ہیں۔ ہماری کہکشاں کا نام مِلکی وے (Milky way) ہے اور کائنات میں اس طرح کی اور اس سے بھی بڑی لامحدود کہکشائیں ہیں۔
نظام فلکی کو چھوڑ کر اپنی چھوٹی سی زمین پر آئیے۔ اس کے اسرار ورموز ہمیں حیران کرکے رکھ دیتے ہیں۔ جانداروں کو لیجئے، انسان کے علاوہ سیکڑوں ہزاروں اقسام کے حیوانات ہیں۔ جن میں خشکی کے الگ اور تری کے الگ ہیں۔ ان کی افزائش نسل کا حیران کن نظام اور ان کی بدولت ہمارے فائدے۔ کیونکہ یہ بات ذہن میں رہے کہ اس زمین کی ساری چیزیں اور نظام فلکی کی بہت سی چیزیں اللہ بزرگ وبرتر نے ہمارے فائدے کے لئے بنائی ہیں۔
اپنے رب کی نعمتوں سے ہر انسان فائدہ اٹھارہا ہے اور یہ سلسلہ ہزاروں سال سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ اللہ عزوجل کی فیاضی کے صدقے کہ ان نعمتوں سے صرف وہی لوگ فائدہ نہیں اٹھارہے، جو صاحبِ ایمان ہیں۔ بلکہ ان سے وہ لوگ بھی فائدے سمیٹ رہے ہیں، جو اللہ پاک کو نہیں مانتے یا مشرک اور کافر ہیں۔ بلکہ کافروں اور مشرکوں پر اس کی نعمتوں کی بارش ہے۔ تاکہ انہیں ان کے اچھے کاموں کا صلہ دنیا ہی میں مل جائے اور آخرت میں صرف جہنم ان کا مقدر بنے۔
رب العزت کے خزانوں کی وسعت کا اندازہ ہم کرہی نہیں سکتے۔ کیونکہ جب سے یہ دنیا وجود میں آئی، تب سے انسان اور حیوان مسلسل اپنا رزق حاصل کررہے ہیں اور کبھی ایسانہیں ہوا کہ خوراک کے ذخیرے ختم ہوئے ہوں۔ ہاں انسانوں کی اپنی نااہلی یا کبھی رب کی ناراضی کی وجہ سے کسی خاص علاقے میں خاص مدت کے لئے قحط یا خشک سالی ہوجاتی ہے۔ لیکن پوری زمین پر انسانوں اور حیوانوں کو خوراک کی فراہمی کا حیرت انگیز نظام نان اسٹاپ کام کرتا رہتا ہے۔
یہ سب او ر بہت سی باتیں، جو ہمارے غور وفکر سے ہم پر کھلتی چلی جائیں گی، ہم سے پکار پکار کر کہتی ہیں کہ ہم اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ یہی انسانوں اور حیوانوں میں بنیادی فرق ہے۔ حیوانوں میں شعور ہی نہیں کہ وہ کس طرح اپنے رب کا شکر ادا کریں اور نہ وہ اس کے مکلّف ہیں۔ مگر انسانوں کو اس امر کا علم ہے کہ انہیں اپنے رب کا کیسے شکر ادا کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام زمین پر بھیجے۔ پہلا انسان ہی پیغمبر تھا، یعنی حضر ت آدم علیہ السلام۔ جن کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور آقائے دوجہاں حضور اکرمﷺ پر آکر ختم ہوگیا۔ جو قیامت تک کے لئے تما م انسانوں کے لئے اللہ کے رسول اور پیغمبر بنا کر بھیجے گئے اور انؐ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن حکیم ہماری اور تمام انسانیت کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
اللہ عزوجل کی بے کراں اور بے شمار نعمتوں اور بے حساب کرم نوازی کا بدلہ دینے کا تو ہم تصور ہی نہیں سکتے۔ لیکن شکر ادا کرسکتے ہیں، جو ہم پر لازم بھی ہے اور فرض بھی۔ لیکن اگر ہم بہت زیادہ غور وفکر کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اتنے بے مثال رب، اپنے بندوں سے اتنی محبت اور اتنی کرم نوازی کرنے والے رب کے لئے صرف شکر ہی کافی نہیں۔ بلکہ ہمیں اپنے رب سے عشق ہوجانا چاہئے، دیوانوں اور پاگلوں کی طرح۔ دن رات اسی کا ذکر کرنا چاہئے، اسی کی عبادت کرنا چاہیے، اسی کے بتائے ہوئے طریقے (شریعت) پر چلنا چاہئے۔ ہمیں سوتے، جاگتے، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے غرض ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہئے۔ اتنا ذکر کرنا چاہئے کہ دیکھنے والے ہمیں پاگل یا دیوانہ کہنے لگیں۔ لیکن اتنا کرنے پر بھی حق اد ا نہ ہوگا، کیونکہ:
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا


shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 112103 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.