پڑوسیوں کے حقوق
(shabbir Ibne Adil, karachi)
پڑوسیوں کے حقوق
تحریر: شبیر ابن عادل
عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہم اپنے پڑوس میں رہنے والوں سے واقف ہی نہیں ہوتے، ہم جانتے ہی نہیں کہ ہمارے پڑوس میں کون لوگ رہتے ہیں۔ اس کے لئے عام طورپر یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ زندگی کی مصروفیات اتنی بڑھ گئی ہیں کہ ہمیں اپنی فکر نہیں تو پھر پڑوس کی کیسے کریں؟ اس کے لئے بڑے فخر سے مغر ب کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ مکانات میں تو لوگ اپنے گھروں سے سواریوں میں بیٹھ کر اپنے کاموں سے چلے جاتے ہیں، مگر اپارٹمنٹس میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ پڑوسی سے منہ پھیر کر یا نظریں چر ا کر نکل جاتے ہیں۔ غریب بستیوں میں صورتحال مختلف ہے، وہاں پڑوسیوں سے واقفیت اور ایک حدتک میل جول ہے۔ مگر وہاں پڑوسیوں سے لڑائی جھگڑے روز کا معمول ہیں۔ ہم نے اس امر پر کبھی غورہی نہیں کیا کہ اس حوالے سے اسلامی تعلیما ت کیا ہیں؟ کیونکہ اسلام نے پڑوسیوں اتنا بلندمقام دیاکہ اس سے پہلے کسی شریعت میں اس کی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی اس کے بعد کوئی اور نظام خاص طور پر مغرب کا معاشرہ اس کی مثال پیش کرسکا۔ سورہ نساء کی آیت نمبر ۶۳ کا ترجمہ یہ ہے: "اور تم سب اللہ تعالیٰ کی بندگی اختیار کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور رشتہ دار پڑوسی سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمھارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو"۔ اسی طرح متعدد احادیث مبارکہ میں بھی پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے، رسول اکرمﷺ کا ارشادِ عالیہ ہے کہ مجھے جبرئیل ؑ برابر پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنے کی وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ میں یہ گمان کرنے لگا کہ وہ اسے وراثت کا مستحق قرار دے دیں گے۔ (بخاری) سرکار دوعالمﷺ نے اپنے تاریخی خطبہ حجتہ الوداع میں پڑوسی کے بارے میں بھی وصیت فرمائی اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر زور دیا۔ حضرت ابوامامہؓ فرماتے ہیں کہ حجتہ الوداع میں رسول اللہ ﷺ اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ اس حالت میں میں نے آپؐ کو فرماتے سناکہ "لوگو! میں تمھیں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں "۔ آپؐنے یہ اتنی بار فرمایا اور اتنا زور دے کر فرمایا کہ میں سمجھنے لگا کہ آپؐ پڑوسیوں کو وراثت میں حق دار قرار دے دیں گے۔ (ترمذی) ایک اور موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ خیر کے کلمات زبان سے نکالے، ورنہ خامو ش رہے۔ (بخاری) پڑوسیوں کے دکھ درد کا خیال اور اپنی طرف سے پوری کوشش ہو کہ ہمارے کسی رویے سے پڑوسی کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ کبھی کبھی پڑوسیوں میں کھانا بطور تحفہ بھیجنا، اگر کوئی بیمار پڑجائے تو اسے اسپتال پہنچانا اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوذر! جب تم شوربے والی کوئی چیز پکاؤ تو اس میں شوربا زیادہ کردو، پھر اپنے پڑوس میں رہنے والوں کو دیکھواور اس میں سے انہیں بھلائی کے ساتھ دو۔ (مسلم) ایک اور موقع پر آقاﷺ نے فرمایا کہ اپنے پڑوسی کو اپنی ہانڈی کی خوشبو سے تکلیف نہ پہنچاؤ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں لایا جو سیر ہوکر کھائے اور اس کی بغل میں اس کا پڑوسی بھوکا ہواور اسے معلوم بھی ہو۔ (طبرانی) آپؐ کا ارشاد ہے کہ اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں، اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں، اللہ کی قسم! وہ شخص مومن نہیں، پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ کون شخص؟ فرمایا کہ جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔ اسی طرح حضور اکرمﷺ نے پڑوسیوں پر ایک دوسرے کی خواتین کی عزت آبروکے تحفظ اور ان کے احترام کی تعلیم دی ہے۔ تاکہ خواتین اپنے محلوں میں محفوظ اورسکون سے رہ سکیں۔ ایک مرتبہ آپؐ نے صحابہ ؓ سے زنا سے متعلق سوال کیا۔ صحابہ ؓ نے عرض کی کہ حرام ہے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا کہ آدمی دس عورتوں کے ساتھ زنا کرلے، یہ آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔ پھر آپؐ نے ان سے چوری کے بارے میں دریافت فرمایا، انہوں نے عرض کی کہ یہ حرام ہے، اللہ رب العزت اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ آدمی دس گھروں سے چوری کرلے، یہ آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ اپنے پڑوسی کے گھر سے چوری کرے۔ (مسند احمد) ایک حدیث میں حضرت جابرؓ اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ کسی نے رسول کریم ﷺ سے سوال کیا کہ مجھ پر میرے پڑوسی کے کیا حقوق ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا اگر وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو، اگر اس کا انتقال ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، جب تم سے قرض مانگے تو اسے قرض دو اور جب کسی چیز کا ضرورت مند ہوتو اس کی ضرورت پوری کرو، جب اسے کوئی خیر حاصل ہو تو اسے مبارکباد دواور جب اس پر کوئی مصیبت نازل ہو تو اس کی تعزیت کرو۔ بغیر اس کی اجازت کے اپنی عمارت اونچی نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے۔ اپنی ہانڈی کی خوشبو سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ الا یہ کہ اس میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔ اگر کبھی پھل خریدو تو اسے بھی ہدیہ کرو۔ اگر ایسا کرنے کی حالت نہیں ہو تو خاموشی سے گھر لے جاؤ اور احتیاط کرو کہ تمھارا بچہ اسے لے کر باہر نہ نکلے کہ اس کے بچے بھی اس کی ضد کرنے لگیں۔ (طبرانی) یہ ہیں پڑوسیوں کے بارے میں اسلام کی روشن اور عظیم تعلیمات جن پر عمل کرکے کہ ہم اپنے محلّے، بستیوں اور شہروں کو محبت، بھائی چارے اور امن وسکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔ کاش، ان تعلیماتِ عالیہ کو عقیدت سے پڑھنے کے بجائے ان پر عمل کرلیا جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔ ==============
|