حضرت عمر فاروق اعظم

امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظمؓ

(تحریر: شبیر ابن عادل)
دنیا میں بعض ایسی ہستیاں بھی گزری ہیں، جنہوں نے تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا۔ ان ہی اولوالعزم ہستیوں میں حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی سرفہرست ہے۔
ٰٓآقائے دوجہاں ﷺ نے غلافِ کعبہ پکڑ کر دعا مانگی تھی کہ اے اللہ عمر بن خطاب یا عمرو بن ہشام(ابوجہل) سے اسلام کو قوت عطا فرما۔ چنانچہ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عمرؓ کی بدولت اسلام کو بے پناہ قوت حاصل ہوئی۔ کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد حضرت عمرفاروقؓ کی درخواست پر رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں مسلمانوں نے، جن کی تعداداس وقت تک چالیس ہوگئی تھی، مشرکین مکہ کے مظالم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بیت اللہ شریف میں علانیہ نماز ادا کی۔
مکہ مکرمہ کے آزمائشوں اور سختیوں سے بھرپور دورمیں اور پھر ہجرت مدینہ کے بعد تمام غزوات میں آقائے دوجہاں ﷺ کے شانہ بشانہ رہے۔ حضرت عمرفاروقؓ کی بدولت اسلام کو نہ صرف قوت وشوکت ملی، بلکہ بہت سے اسلامی احکام آپؓ کی تجویز پر نازل ہوئے۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی ستائیس آیات مبارکہ حضرت عمر فاروقؓ کی رائے پر نازل ہوئیں۔ اذان دینے کا سلسلہ حضر ت عمرؓ کی رائے سے شروع ہوا۔ آپؓ کی شان اقدس میں چالیس سے زیادہ احادیث رسول ﷺ موجود ہیں۔
حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے عمرؓ کی زبان پر حق کو جاری کردیا ہے۔ دوسری حدیث میں فرمایا کہ اگر میرے بعد نبوت کا سلسلہ جاری رہتا تو عمرؓ نبی ہوتے۔مزید ارشادِ نبویﷺ ہے: اے عمر ؓ جس راستے پر آپ چل رہے ہوں گے، اُس پر تمھیں شیطان چلتا ہوا کبھی نہیں ملے گا وہ مجبور ہوگا کہ اپنا راستہ بدل کر دوسرا راستہ اختیار کرے۔ ایک اور جگہ فرمایاکہ اہل جنت میں سے ایک اور شخص ابھی ہمارے پاس آنے والا ہے۔ صحابہ کرام نے دیکھا تو آپؐ کے فرمانے کے بعد حضرت عمر فاروقؓ تشریف لائے۔تاجدار مدینہ ؐ نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ جناتی اور انسانی شیطان عمرؓ سے بھاگتے ہیں۔ ایک مرتبہ سرکار دوعالمﷺ جبل احد پر تشریف لے گئے اس موقع پر پہاڑ میں کچھ حرکت سے پیدا ہوئی تو حضور ؐ نے فرمایا کہ اے احد ٹھیر جا اس وقت تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ حضور اکرمﷺ ایک اور موقع پر ارشاد فرماتے ہیں کہ میں جنّت میں داخل ہوا اور وہاں ایک محل دیکھا اُس محل کی خوبصورتی کی وجہ سے پوچھا کہ یہ عالی شان محل کس کا ہے تو جواب ملا کہ عمر بن خطابؓ کا۔
حضرت عمر فاروقؓ کو رسول اللہ ﷺ کے خسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آپؓ کے عقد میں حضورؐ کی نواسی اور سیدنا علی مرتضیؓ کی صاحبزادی حضرت اُمّ کلثوم بھی آئیں، اس لئے آپؓ کو خسر رسولؐ اور داماد حضرت علیؓ بھی کہا جاتا ہے۔
حضور اکرمﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ خلیفۃ المسلمین بنے تو حضرت عمر فاروق اعظم ؓ اسی طرح بلکہ پہلے سے زیادہ اسلام کی خدمت انجام دیتے رہے اور اپنی بصیرت اور فراست کی بناء پر کئی نازک مواقع پر امت مسلمہ کے اتحاد ویکجہتی کو نہ صرف برقرار رکھا، بلکہ اس میں نمایاں اضافہ بھی کیا۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے آخری وقت میں بعض صحابہ کے مشورے سے حضرت عمر ؓ کو اپنا جانشین مقرر کیا۔حضرت عمرفاروقؓ کا عہد حکومت اسلامی تاریخ کا زریں باب ہے۔ جس میں عدل وانصاف، رعایا پروری، خداترسی اور خوشحالی کا دور دورہ تھا۔
سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کے لباس پر پیوند لگا ہوتا تھااور دن میں درخت کے سائے میں آرام فرماتے تھے۔ مگر انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں کسریٰ کی پُرشوکت سلطنت اور قیصر کی باجبروت بادشاہت کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا۔عالمی تاریخ کے دھارے کے رخ کو موڑدینے والے وہ امیرالمومنین تھے، جنہوں نے شہنشاہوں کے تاج ہاتھ بڑھا کر اُن کے پُر غرور سروں سے کھینچ کر مسل ڈالے۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں ایران، روم، شام، عراق،ترکستان اور مصر سمیت تین ہزار چھ سو سے زائد علاقے فتح ہوئے اور ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست بائیس لاکھ مربع میل تک پھیل گئی۔
جس بے پناہ قابلیت کے ساتھ فاروق اعظم ؓ نے حکومت کی اور جس اعلیٰ لیاقت کے ساتھ مفتوحہ ملکوں کا انتظام کیا، جس بے نظیر تدّبر کے ساتھ آپؓ نے مختلف دفاتر اور محکمے، جیل خانے، ڈاک کا نظام، باقاعدہ فوج اور فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ جس رواداری کے ساتھ آپؓ نے غیرمسلم رعایا سے سلوک کیا۔
جس بہادری کے ساتھ آپؓ نے ایرانی شوکت، رومی طاقت اور مصری بادشاہت کا مقابلہ کیا، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ آج تک دنیا کے کسی مدبر سے مدبر حکمران سے بھی ایسی خوبی و حکمت سے حکومت نہیں کی، جیسی حضرت عمر ؓ نے کی اور اس وقت تک اس قسم کے عدل وانصاف والا ایک بھی شہنشاہ نہیں گزرا، جیسے حضرت عمر بن خطابؓ تھے۔ حتیٰ کہ عدل فاروقی ایک تاریخی مثال بن گیا۔اور لوگ سکندر اعظم کی فتوحات اور نوشیرواں عادل کے انصاف کو بھول گئے۔ حضرت عمر فاروقؓ کا مشہور قول ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا۔
26 ذی الحجہ سن23 ہجری کوامیر المومنین حضرت عمرفاروقؓ مسجد نبویﷺ میں فجر کی نمازکی امامت کرارہے تھے کہ ایک بدبخت مجوسی ابولولو فیروز نے زہر آلود خنجر سے آپؓ پر وار کئے اور آپؓ زخمی ہوکر گرپڑے۔ تین روز مو ت وزیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعدیکم محرم الحرام سن 24 ہجری کو اسلام کا یہ بطل جلیل اور تاریخ کے دھارے کا رخ موڑنے والا عظیم انسان اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔انہوں نے دس سال چھ ماہ تک حکومت کی۔
انہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے حجرے میں آقائے دوجہاں ﷺ اور خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پہلو میں دفن کیا گیا ہے۔ آج بھی اہل ایمان جب حج یا عمرے کی سعادت کے لئے ارضِ مقدس جاتے ہیں اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری دیتے ہیں تو ان کے پہلو میں ان کے دو قریبی ساتھیوں حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کو بھی سلام پیش کرتے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا۔
…………………….
shabbir Ibne Adil
About the Author: shabbir Ibne Adil Read More Articles by shabbir Ibne Adil: 108 Articles with 111157 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.