مائیں نی!مینوں بستہ لے دے!

دھرتی نئیں ،امبر چیرے گا
میرا لکھیا اندر چیرے گا
پنجابی صوفی شاعری کے حوالے سے کاشف حباب کسی تعارف کے محتاج نہیں ،قدرت جسے چاہتی ہے ہنر سے نوازتی ہے لیکن ہنر کو برتنے کا ہنرکسی کسی کو آتا ہے۔کاشف اعلی تعلیم یافتہ شاعر ہیں۔اصلی نام محمد کاشف جاوید ہے ۔ایم فل اردو، بی ایڈ کے بعد اصلاح معاشرہ کے لیے معلمی کا پیشہ اپنایا۔آبائی ضلع فیصل آبادہے جب کہ عارضی سکونت اوکاڑہ ہے۔ مصوری، خطاطی، شاعری کالم نگاری فرصت کے شوق ہیں کمپئرہونے کے ساتھ ساتھ وائس اوور آرٹسٹ ہیں۔ ادب برائے ادب کے قائل نہیں ہیں۔ ادب برائے حیات کے قائل ، ادب برائے اصلاح کے قائل کاشف کی ایک معروف پنجابی نظم '' میں چار جماعتاں کی پڑھیاں،میں فتوے لاواں ہر اک تے''وارث شاہ صاحب اور بابا بلھے شاہ صاحب کے نام سے مشہور و وائرل ہو چکی، جو اکثر، چینلز، ریڈیو ایف ایم، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر دیکھنے سننے کو ملتی ہے۔کاشف حباب لفظوں کے جادوگر ہیں،ان کی تحریر میں معاشرتی نوحے سسکتے ہیں۔وہ ہجر ،فراق،وصال ملن سے زیادہ روایات کے پابند شاعر ہیں۔ایسا شاعر جو دو وقت کی روٹی،بیٹی کے داج اور ماں کی عصمت کو حسن و عشق پہ ترجیح دیتا ہے،جو مزدور کے ہاتھوں پہ محبوبہ کی مہندی قربان کر دینے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
لکھ انج دی دوائی طبیبا!
کہ ساہنوں کدی بھکھ نہ لگے

ان کے کلام میں صوفی ازم جھلکتا ہے۔ان کے کالمز میں احساس زمہ داری بتدریج موجود ہے جب کہ سوچوں میں مٹی اور جڑ سے عشق ٹوٹ کر برستا ہے۔روایتی شاعری میں بھی وہ وضع داری کے قائل ہیں ۔

کاشف کے خیال میں شاعری ذات کا کتھارسز ہے۔ انہوں نے لکھنے کا آغاز آٹھویں جماعت سے کیا ۔ کاشف بتاتے ہیں کہ اس دور میں لکھی گئی کہانیاں خوب تھیں مگر شاعری نہایت نا پختگی کا شکار تھی۔ یوں کہہ لیں کہ اس وقت شاعری صرف کتھارسز ہی تھی۔بامقصد شاعری زیادہ اپنی طرف منعطف کرتی ہے۔ جس میں اصلاح و انقلاب کا پہلو ہو، معاشرے کے فرسودہ رسم و رواج کی نشان دہی کر کے ان کا حل بتایا گیا ہو یا کم از کم ان برائیوں سے بے زاری کا اظہار کیا گیا ہو۔ ایک شاعر کی سوچ اور شخصیت کے لاکھوں لوگ مقلد ہوتے ہیں تو اس بات کے پیشِ نظر شعرا کو وہ بات کہانی چاہیے جو لاکھوں مقلد لوگوں کی سوچ کا زاویہ مثبت انداز بدل سکے‘‘۔پسندیدہ شعرا کی فہرست میں اقبال، غالب، فیض، حبیب، اکبر، نظیر، راحت اندوری، پنجابی میں بابافرید، گرونانک،بھگت کبیر، بابا فرید، وارث شاہ، سلطان باہو، بابو رجب علی، شو کمار بٹالوی، استاد دامن، امرتا پریتم اور ستندر سرتاج شامل ہیں۔کاشف موجودہ اور قدیم دور کی شاعری کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلاشبہ قدیم شاعری میں ہمیں نظم و ضبط اور شاعری کے اصولوں کی من و عن پابندی نظر آتی ہے۔ قدیم شاعری میں کلاسیکیت کے ساتھ ساتھ حُسن بھی ہے جو آج بھی حوالوں کی صورت کہیں نہ کہیں موجود ہے۔ جدید شاعری میں بہت سی سہولیات اپنا لی گئی ہیں۔ نت نئے تجربات کی بدولت اپنے خیالات کی ترجمانی قدرے آسان ہو چکی۔ جدید شاعری میں موضوعات کی جدت وافر مقدار میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ حسن و عشق کے فریم سے نکل کر طبع آزمائی کرنا دل چسپی کا باعث ہے۔منفرد ہونا یا نظر آنا کوئی عیب نہیں۔ منفرد ہو کر ہی الگ پہچان بنائی جا سکتی ہے۔ ایک مشاہدے کے مطابق ہر شاعر ایک اچھا شعر سن کر رشک یا حسد ضرور کرتا ہے کہ کاش یہ میں نے لکھا ہوتا۔ یہ معاملہ تو تخلیق کے ساتھ ہے۔ یہ حسد یا رشک اچھی تخلیق کا محرک بھی ہے۔ لیکن یہ تعصب اگر تخلیق کار کے ساتھ ہو(جو کہ ہوتا بھی ہے) تو یہ تشویش ناک بات ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے معاشرے میں مجموعی طور پر عدم قبولیت کا عنصر ہے۔ کوئی بھی فن ہو ہم بہت مشکل سے قبول کر پاتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کو ختم کرنے کے لیے خود میں طالب علمانہ ذوق بیدار رکھنا ہوگا۔ محض تنقیدی نظر سے ہٹ کر حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔

کیا اچھی شاعری کے لیے ضروری ہے کہ انسان کسی دکھ یا حادثے کی بنا پہ تخلیق کرے؟اس سوال کے جواب میں کاشف حباب کے اندر کا شاعر اداسی سے مسکرایا’’ اچھی تخلیق اور کوئی رنج یا حادثہ لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ لیکن اس ضمن میں اتنا ضرور مشاہدہ کیا ہے کہ کوئی ایسا واقعہ، تجربہ یا مشاہدہ جو آپ کی روح تک سرائیت کر گیا ہو، اس کو اگر لفظوں کی صورت کاغذ پر اتارا جائے تو یقیناً دل گداز ہوگا، سروں کی صورت گلے سے نکالا جائے تو یقیناً سماعتوں کو منعطف کرے گا اور مصوری کی صورت کینوس پر اتارا جائے تو بصارتوں کو ضرور متوجہ کرے گا۔ متاثر کن شاعری بھرے پیٹ سے نہیں، خالی پیٹ سے ہی نکلتی ہے۔ یوں کبھی نہیں دیکھا کہ صاحبِ ثروت شخص یا اس کی اولاد کی تخلیق نے عالم کو حیران کر دیا ہو۔ ہمیشہ نچلے طبقے کے لوگ ہی کچھ ایسا تخلیق کرتے ہیں جو متاثر کن ہو۔ میں سمجھتا ہوں آسائشیں تخلیق کی سوتن ہیں‘‘۔ادب کی ترویج پہ جب بات آئی تو کاشف حباب کے اندر کا استاد فوراً جاگا جسے اپنی جماعت،بچوں اور قلم دوات تک سے محبت ہوتی ہے’’ ادبِ اطفال کی ترویج کے ذریعے ادب کا فروغ موثر رہے گا۔ کیوں کہ ادب جب بچوں میں اجاگر ہوگا تو وہ ان کی تربیت کا حصہ بن جائے گا۔ لکھنا ان کا معمول ہوگا۔ اصلاح و نکھار کا سلسلہ پھر عمر بھر چلتا رہتا ہے۔ بڑوں میں ادب کے فروغ کے لیے نئی جہات پر کانفرنسز کروائی جائیں جو مفید ہوں گی۔

کاشف حباب احساسات، جذبات اور مشاہدات کو نکھار سنوار کر لکھنے یا بولنے کو ادب کہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ یہ بات تو طے ہے کہ بنا مطالعے کے آپ اچھا ادب تخلیق نہیں کر سکتے۔ سو اچھا ادب وہی ہے جس میں خیالات کی پختگی، احساسات کی واضح ترجمانی اور جو قاری کے دل پر دیر پا تاثر چھوڑ دے۔
ہمارا سوال تھا کہ کیا انقلاب آنا چاہیے؟
کاشف حباب کی مسکان میں اک استاد کی ٹھنڈک تھی’’ اقبال فرماتے ہیں’’اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز‘‘!انقلاب، تغیر، ریولیوشن جو بھی نام دیں قوموں کے لیے بہت ضروری ہے۔ انفرادی یا اجتماعی طور پر خود کو وقت ساتھ ساتھ متغیر کرنا چاہیے۔ میں انقلاب اسے ہے کہوں گا جو قوموں کو سنوارے، بگاڑ پیدا کرنا تو سراسر انتشار ہوگا۔ سو ادبی حلقوں میں بھی مثبت جہات میں انقلاب مطلوب ہے۔
ہم نے پوچھا’’زوال پزیر اور ترقی یافتہ معاشرے میں آپ کے خیال میں کیا فرق ہوتا ہے؟

کاشف حباب کہتے ہیں ’’بنیادی فرق اخلاقیات کا ہوتا ہے۔ احترامِ آدمیت کا ہوتا ہے۔ مادی ترقی میرے خیال میں کوئی ترقی نہیں ہوتی۔ ہاں البتہ اخلاقی اقدار کو اوج تک لے جایا جائے تو مادی ترقی بھی قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔ کیسے بن جاتی ہے؟ یہ طویل بحث ہے۔

کاشف حباب بہت اچھے مصور اور خطاط ہیں اس کا اندازہ قومی کانفرنس ادب اطفال میں انہیں خوبصورت کارڈز لکھتے دیکھ کر ہوا۔ان کی خطاطی میں مصری خطاطوں کی سی اثر انگیزی ہے۔اس بارے کاشف کہتے ہیں کہ بچپن ے خطاطی کا شوق تھا، اس کو خود ہی اپنی شناخت نہیں بنایا۔ ورنہ کسی مقام پر ضرور ہوتا۔ اب وہ جستجو وہ لگن نہیں رہی مصوری میں،پڑھا تھا اسلام میں تصویر کشی حرام ہے تو چھوڑ دی۔
کاشف حباب اد ب میں بے تحاشا کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں۔بیسٹ رائٹر ایوارڈ برائے ادب اطفال،مجید امجد ادبی ایوارڈ،باب دعا کی جانب سے وائس اوور کمپیٹیشن میں اول انعام یافتہ ،آل پاکستان پنجابی غزل کمیپیٹیشن میں تیسری پوزیشن ،اس کے علاوہ لاتعداد ایپری سیشن سرٹیفیکیٹس،ایوارڈز مل چکے جب کہ رائٹنگ کمپیٹیشنز کے جج کی حثیت سے بھی کئی بار خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ ڈرامہ رائٹر کا بہترین ایوارڈ بھی لے چکے ہیں۔ان کے کلام میں صوفی ازم بہت جھلکتا ہے، کئی بار ان کا کلام معروف بزرگ شعراء کے نام سے بھی منسوب ہوا۔صوفیانہ طرز فکر کے بارے ان کا اپنا اک نظریہ ہے ’’میں اکثر کہتا ہوں آپ تاریخ کے اوراق پلٹ کے دیکھ لیں اسلام بحثوں، مناظروں یا تقریروں سے نہیں پھیلا، اسلام محبت و اخلاق سے پھیلا ہے۔ اور پر فتن عناصر کے لیے جہاد کا حکم ہے۔سو جہاں تک اسلام پھیلانے کی بات ہے تو صوفیا نے محبت و اخلاق سے لوگوں کو قریب کیا پھر بتدریج اﷲ اور رسول ﷺکی بات سنائی۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ صوفیانہ طرزِ فکر معاشرے یا قوم کی اصلاح کے لیے موثر ہے‘‘۔
جد پڑھیاں توحید دیاں آئیتاں
تے روحاں چہ نکھار آگیا!

کاشف پنجابی زبان سے بہت محبت کرتے ہیں۔پنجابی بہت دلگداز زبان ہے، اس میں بہت گہرائی ہے ۔پنجابی ماں بولی ہونے کی حیثیت سے انہی جذبات کی مستحق ہے جو ماں کو حق حاصل ہے۔

کاشف کی پنجابی زبان میں رغبت کی ایک وجہ تو اس کا احیا کرنا ہے۔ بقول ان کے بہت سے الفاظ متروک و معدوم ہوتے جارہے ہیں۔ نئی نسل اس ذریعے سے وابستہ رہے تو لکھنے کا مقصد بھی پورا ہوتا رہے۔ غزل، نظم، ماہیا، بولی اور گیت میں طبع آزمائی کر چکے ہیں۔پنجابی ادب و زبان کی صحیح معنوں میں خدمت، مذہبی و اصلاحی افکار کی ترویج، فکرِ اقبال و رومی کو پنجابی شاعری میں لاناان کے ارادوں میں شامل ہے۔ میدان مارنے کا ہنر نہیں، بس لفظوں سے کوئی مقصد کشید کر لے تو یہی غنیمت سمجھتے ہیں کاشف حباب اردو’’ماہیانگاری‘‘پہ اک تحقیق کی کتاب پہ کام کر رہے ہیں اس کے بعد ان کی پنجابی کتاب لانے کی تیاری ہے انشاء اﷲ۔۔

کاشف حباب کی شاعری میں ترنم بھی ہے اور لے بھی،اکثر شعراء اس سے نابلد ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ
شعراء کا مستقبل تابناک ہر گز نہیں ہے۔’’جس طرح اصل موسیقار گھر بیٹھے اپنی ریاضتوں میں محو ہیں اور الٹا سیدھا گانے والے جدت اور سوشل میڈیا کا سہارا لے کر دنوں میں شہرت کما لیتے ہیں بالکل اسی طرح اچھے اور بلند پایہ شعراء گھروں میں بیٹھے اوزان کی مشقیں کرتے ہیں اور میرے جیسے سوشل میڈیا پہ نام کما رہے ہیں،یہاں قصور نہ سوشل میڈیا کا ہے اور نہ ہی قدامت پسند سوچ کا،استاد شعراء کو چاہیے کہ جدت کے استعمال سے خود کو بھی نمایاں کریں اور نئی نسل کی تربیت کا بیڑا بھی اٹھائیں‘‘
کاشف کہتے ہیں کہ میرے افکار اگر لفظوں کی صورت زندہ رہ جائیں تو یہی میری وراثت اورسرمایہ ہیں۔ آنے والی نسل فرسودہ رسم و رواج سے بچ جائے، سادگی و عاجزی ان کا پہناوا ہو۔ عشقِ رسول صل اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان کا سرمایہ اور درود پاک ان کی جمع پونجی ہوتا کہ آپ سب سلامتی کے حصار میں رہیں۔
نئی نسل کے لیے پیغام دیتے ہوئے اے پی ایس کے شاہین کاشف حباب نے کہا کہ نئی نسل کو اپنے بچوں کی اخلاقی ،دینی اور مذہبی تعلیم پہ توجہ دینے کا پیغام دوں گا۔آج کے بچے ہمارا مستقبل ہیں ،اس لیے انہیں اسی طرح سنوارئیے جس طرح کہ آپ اپنے مستقبل کے لیے محنت کرتے ہیں۔
ہن ڈر دا میں گھر نئیوں جاندا
کہ لوڑاں میرے در مل لے
 

Nimrah Malik
About the Author: Nimrah Malik Read More Articles by Nimrah Malik: 2 Articles with 3976 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.